Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Lenon, Yome May Aur Afghan Inqilab

Lenon, Yome May Aur Afghan Inqilab

اپریل کے آخری عشرے میں تین ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے تاریخ کا رخ تبدیل کردیا، ان تینوں واقعات کا تعلق محنت کش اور غریب طبقوں کی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف اپنے حقوق کی جنگ سے ہے، طبقاتی جنگ کی یہ کہانی ابتدائے آفرینش سے انسانی معاشرے کا بنیادی جز ہے۔

عظیم انقلابی رہنما اور سوویت انقلاب کے بانی اور قائد ولادی میر ایلچ لینن کا یوم پیدائش 22اپریل (1870)، افغانستان کا ثور انقلاب 27اپریل (1978) اور محنت کشوں کا عالمی دن یوم مئی(1886) تینوں انقلابی واقعات ایک ہی نظریے اور جنگ کا حصہ ہیں، اس لیے ان تینوں واقعات کا ذکر میں نے ایک ہی کالم میں کرنا مناسب سمجھا۔

یکم مئی 1886کو شکاگو کے "Hay market" چوک سے شروع ہونی والی تحریک دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، محنت کشوں اور غریبوں کا تبدیلی کا جذبہ اور سرمایہ دار، جاگیردار اور سامراجی قوتوں کا ان کو محکوم رکھنے اور ان کی محنت کا استحصال کرنے کا عمل آ ج تک جاری ہے، آج اسی یکم مئی کے جذبے سے حاصل کردہ شعور کی بنا پر آنے والے افغان ثور انقلاب کو بھی یاد کرتے ہیں جو 27 اپریل 1978کو برپا ہوا۔

یکم مئی 1979کو ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقعے پر کابل میں تقریر کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے رہنماء اور افغان انقلاب کے سربراہ نور محمد ترکئی نے کہا تھا کہ "ثور انقلاب صرف افغانستان کے محنت کشوں اور مسلح انقلابی سپاہیوں کا انقلاب نہیں، یہ پوری دنیا کے محنت کشوں اور محکوموں کا انقلاب ہے، (PDPA) کی قیادت میں انقلابی فوج کی مدد سے برپا ہونے والا یہ انقلاب پوری دنیا کے محنت کشوں کی عظیم کامیابی ہے، اس نے1917کے اکتوبر انقلاب سے رہنمائی اور شکتی حاصل کی ہے اور ایک بار پھر پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دے گا "۔ 20 سال کے بعد اب امریکا افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے جارہاہے، 29 فروری 2020کو قطر میں ہونے والا معاہدہ امن اہم پیش رفت ہے۔

ادھر افغانستان کی موجودہ قیادت اپنے مقابل کے خطرے سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے آپس میں اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں، یہ اس امر کا اشارہ ہے کہ افغانستان ایک دفعہ پھر تباہی کے دہانے میں گرنے والا ہے، عجیب صورت حال ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ طالبان سے سیز فائر کی اپیلیں کر رہے ہیں لیکن آپس میں سیزفائر کرنے سے انکاری ہیں، بدقسمتی سے افغانستان کو ایک روشن فکر ریاست کے داعی آج بھی متحد نہیں ہیں۔

افغان انقلاب نے واقعی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، سامراج نے اپنے استحصالی نظام کو بچانے کے لیے جو لشکر اس انقلاب کو ختم کرنے لیے تیار کیا تھا، وہ آج تک اس کے گلے میں ایسا پھنسا ہے جیسے "سانپ کے منہ میں چھچھوندر" جس کو نہ نگلتے بنتی ہے اور نہ اگلتے۔ افغان انقلاب کو حکمران طبقوں نے تاریخ کے اوراق سے کھرچ دینے کی پوری کو شش کی ہے، افغانستان کا کوئی بھی چینل لگائیں، میروس نیکہ اور احمد شاہ ابدالی سے لے کر حامد کرزئی اور اشرف غنی تک تمام حکمرانوں کا ذکر ہوگا لیکن نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب کا نام موجود نہیں ہے۔

سامراجی حکمران طبقے 27اپریل 1978سے لے کر 12اپریل 1992کو ڈاکٹر نجیب کے استعفا دینے تک کے 14سالوں کو تاریخ کے صفحات سے کیسے کھرچ سکتے ہیں؟ ثور انقلاب ایک تاریخی واقعہ ہے اور تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا، سامراجی میڈیا، حکمران طبقے کے دانشور اور سرکاری تاریخ دان اس انقلاب سے پہلے اور بعد میں جنم لینے والے واقعات کو مسخ کرکے عوامی شعور سے مٹا دینے کی سعی میں جھوٹ اور منافقت کی ہر حد تک گئے ہیں۔

اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں سب سے ریڈیکل سماجی، معاشی اور ثقافتی اصلاحات کا آغاز "ثور انقلاب "کے بعد افغانستان میں ہوا تھا، ان جرات مندانہ اقدامات کا مقصد صدیوں سے مقامی اشرافیہ کے استحصال، پسماندگی، غربت اور مختلف سامراجی قوتوں کی اقتصادی زنجیروں میں جکڑے افغان عوام کو آزاد کروا کے ایک جدید اور حقیقی معنوں میں انسانی سماج کی تعمیر کا آغاز کرنا تھا، ثور انقلاب کی میراث آج بھی انتہاپسندی، سامراجیت اور جرائم پر مبنی سرمایہ داری کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید اور روشنی کے مینار کا درجہ رکھتی ہے۔

سامراجی طبقے کے تاریخ دان اور دانشور دانستہ طور پر ثور انقلاب کو سوویت یونین کی فوج کشی کے ساتھ گڈ مڈ کردیتے ہیں، اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے کہ ثور انقلاب 27اپریل 1978کو برپا ہوا اورسوویت فوجیں ثور انقلاب کے 18ماہ بعد29دسمبر1979کو افغانستان میں داخل ہوئی تھیں، انقلابی حکومت کے پہلے دو سربراہان نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کے دور میں سوویت یونین سے دوستانہ تعلقات قائم رہے لیکن مداخلت کا واقعہ نہیں ہوا، اس دوران افغان انقلاب کے خلاف بیرونی سازشیں شروع ہوگئی تھیں جن میں عالمی سامراج، اس کے حواری شامل تھے۔

افغان انقلاب افغانستان کی فوج میں قائم پارٹی کے ساتھیوں نے برپا کیا تھا اور اس کی فوری وجہ استاد امیر اکبر خیبر کی داؤد حکومت کے ہاتھوں موت اور دوسرے رہنماؤں کی گرفتاری بنی، انقلابی پارٹی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستانPDPA) (کئی طرح کی نظریاتی، تنظیمی اور سیاسی کمزوریوں کا شکار تھی لیکن سرمایہ دار دنیا کے لیے اصل خطرے کی بات وہ اقدامات تھے، جو افغانستان کی انقلابی حکومت نے عوام کی بہتری کے لیے کیے۔ ملٹری انقلابی کونسل کی جانب سے نافذ کیے گئے انقلابی قوانین ثور انقلاب کی حقیقی روح اوراساس کو واضح کرتے ہیں، انقلابی حکم نامے میں غریب کسانوں کے ذمے سود خور وں اور جاگیرداروں کا تمام واجب الاداقرضہ سود سمیت منسوخ کردیا گیا۔

قانون کی نظر میں خواتین اور مردوں کی برابری کو یقینی بنانے کی بات کی گئی تھی، پیسے کے بدلے لڑکیوں کی شادی، زبردستی کی شادی اور بیوہ کی دوبارہ شادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی قبائلی رسم و رواج کو جرم قرار دیا گیا، بچپن کی شادیوں پر پابندی لگادی گئی۔ جاگیرداروں، گدی نشین خاندانوں اور شاہی خاندان کی وہ تمام زمین جو انھوں نے ہڑپ کررکھی تھی کو بغیر کسی معاوضے کے ریاستی ملکیت قرار دے کر غریب اور بے زمین کسانوں میں تقسیم کردیا گیا۔ انقلابی حکومت کے دوسرے ریڈیکل اقدامات میں پانی کی منصفانہ تقسیم اور کسانوں کی اشتراکی انجمنوں کا قیام شامل تھا۔

ناخواندگی کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے کی مہم شروع کی گئی جس کے تحت 1979سے 1984تک 15لاکھ ان پڑھ لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا گیا۔ افغان انقلابی حکومت نے ان تمام اقدامات کا آغاز سوویت فوجوں کی آمدسے قبل کیا تھا، ثور انقلاب نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ سابق نوآبادیاتی ممالک کا ناتواں اور پیداواری صلاحیت سے عاری سرمایہ دارطبقہ معاشی اور ثقافتی طور پر اس قابل نہیں ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کے انتہائی بنیاد ی فرائض بھی ادا کرسکے۔

ثور انقلاب کے انقلابی اقدامات پورے خطے میں جاگیرداری، قبائلی نظام، مقتدرگدی نشینوں اور سرمایہ داری اور سامراجی مفادات کے لیے خطرہ تھے۔ واضح امکانات موجود تھے کہ افغانستان میں انقلاب کے حاصلات سے متاثر ہوکر پورے خطے کے عوام استحصالی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، چنانچہ نو مولود انقلاب کو کچل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

امریکا نے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے خفیہ "آپریشن سائیکلون"کا روسی فوجوں کی آمد سے چھ ماہ قبل آغاز کردیا تھا، پٹرو ڈالر (PetroDollar)کے ایندھن سے بنیاد پرستی، فرقہ واریت، جرائم، اور دہشت گردی کی وہ آگ بھڑکائی گئی جس میں پورا خطہ آج بھی جل رہا ہے، افغانستان میں لڑنے والے گروہوں کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کا وسیع نیٹ ورک تشکیل دیا گیا، یہاں منشیات اور جرائم کے کالے دھن کا دودھ پی کر وہ گینگز جوان اور توانا ہوئے جو آج پاکستان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

انقلاب کی ناکامی سماج کو پسماندگی کی گہری کھائیوں میں دھکیل دیتی ہے، افغانستان میں یہی ہوا۔ رد انقلاب جنگ نے ان 42برسوں میں افغانستان برباد ہوگیا لیکن پاکستان کے عوام بھی اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ یہ سمجھنا غلطی ہوگا کہ انقلاب کا خاتمہ ہوگیا، جب تک دنیا میں طبقات موجود ہیں، لینن کی تعلیمات، یوم مئی اور ثور انقلاب کا جذبہ زندہ رہے گا۔ ،