Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pop Aur Sarmaya Dari

Pop Aur Sarmaya Dari

رائٹر نیوز ایجنسی 5 اکتوبر 2020 نے کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس کی ایک دلچسپ اور انقلابی تقریر کی خبر نشر کی ہے، جو کسی مذہبی شخصیت کی طرف سے پہلی بار بہت بڑی تبدیلی ہے، قارئین کی دلچسپی کے لیے اس تقریر کے اقتباسات حاضر ہیں۔

پوپ فرانسس نے اتوار کی تقریر میں کہا ہے۔"سرمایہ داری نظام کے حامیوں کے دعوؤں کے برخلاف، کورونا وائرس کی وباء ایک اور ثبوت ہے کہ اکیلے مارکیٹ کی معاشی طاقت، اور ٹریکل ڈاؤن کی معاشی پالیسیاں عوام کو فائدہ پہنچانے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں "۔

پوپ کے اس ہدایت نامے کو "Encyclical"کہتے ہیں اور پیروکار اسے بہت احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، انھوں نے مزید کہا ہے کہ "جب بعض لوگ دولت کے سبب عیاشی کی زندگی گزاریں اور اکثریت کے پاس کچھ نہ ہو تو ذرایع پیداوار کی نجی ملکیت ہر حالت میں کوئی مقدس حق نہیں ہوتا"۔ اس ہدایت نامے میں انھوں نے انسانی بھائی چارے، نقل مکانی، غریب اور امیر کے درمیان فرق معاشی اور سماجی ناانصافیوں، صحت کے مسائل، سماجی ناہمواریوں اور مختلف ملکوں میں بڑھتے ہوئے سیاسی تقسیم جیسے موضوعات پر ہدایات دی ہیں۔ علماء کرام کو بھی ان موضوعات کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔

پوپ نے سیدھا ٹریکل ڈاؤن اقتصادی فلسفے پر تنقید کی ہے، یہ نظریہ قدامت پرستوں کا ہے جس کے مطابق اگر بڑے سرمایہ داروں اور بڑے کاروباروں کو مراعات دی جائیں تو اس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور معاشرے کے غریب طبقات کو بھی فائدہ ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ مارکیٹ اکانومی کے لیے آزادی ہر قسم کے حالات میں تحفظ کے لیے کافی ہوگی، خاص کر کورونا وبا کے خاتمے کے بعد، لیکن پوپ فرانسس نے نیو لبرل معیشت کے اس نظریے کو رد کر دیاکہ معاشرے کے مسائل کا حل صرف یہ ہے کہ سرمایہ دار یا جاگیردار کو مراعات دی جائیں تاکہ وہ زیادہ مالدار ہو جائے اور ٹریکل ڈاؤن فلسفے کے نتیجے میں نچلے طبقوں کو بھی فائدہ پہنچے۔ ان کا کہنا ہے کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور معاشرے میں خوشحالی لانے کے لیے ایک بہتر معاشی پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ ٹریکل ڈاؤن اور فری مارکیٹ معاشی نظام کی۔

انھوں نے کہا کہ 2007-2008 کا معاشی بحران نظام میں تبدیلی کے لیے ایک اچھا موقعہ تھا، بجائے اس کے کہ طاقتوروں کے لیے مزید آزادیاں پیدا کی جائیں، معاشرے کو سرمایے کے تباہ کن اثرات سے بچنے کے متعلق سوچنا چاہیے۔

کسی ملک یا لوگوں کا نام لیے بغیر، پوپ نے ان سیاستدانوں پر تنقید کی جو اپنی شہرت کے لیے عوام کو ناجائز امیدیں دلاتے ہیں اور یا جو دوسری قوموں کے خلاف نفرت اور خوف پیدا کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ آج امریکا کا سب سے بڑا مسئلہ نسل پرستی ہے، خاص کر "Black Lives Matter" مہم کے بعد جو امریکی شہر منی پولس میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی سفید فام پولیس افسر ڈیرک شاوین کے ہاتھوں قتل کے بعد نسل پرستی کے خلاف ایک بڑی مہم میں تبدیل ہو گئی تھی۔ پوپ نے اس کے بارے میں کہا کہ "نسل پرستی ایک خطرناک وائرس ہے، جو بڑی جلدی شکل تبدیل کرتا ہے، مکمل طور پر ختم ہونے کے بجائے، نظروں سے اوجھل ہوکر انتظار کرتا ہے اور کسی خاص موقعہ پر ظاہر ہوکر امن وامان کو ختم کردیتا ہے"۔

پوپ نے ٹریکل ڈاؤن نظریے کی مخالفت کی ہے، سرمایہ داری کے حامی اس نظام کی ایک خوبی (Trickle Down) ٹریکل ڈاؤن بتاتے ہیں، اس لفظ کے معنے ہیں کہ "نیچے کی طرف بہنا" اس کا مطلب ہے کہ اوپر سے نیچے کی سطح کو فائدہ پہنچانا، اس کے فائدے گنواتے وقت یہ کہا جاتا ہے کہ اگر سرمایہ داروں کے پاس زیادہ پیسہ ہو گا تو وہ دھیرے دھیرے نیچے غریبوں تک پہنچ جائے گا، اگر سرمایہ دار کے پاس زیادہ سرمایہ ہو گا تو وہ اس کے ذریعے زیادہ منصوبے شروع کریں گے، جس کی وجہ سے زیادہ غریبوں کو روزگار اور دیگر فوائد حاصل ہوں گے۔

کارخانے لگانے کی وجہ سے اشیاء کی پیداوار زیادہ ہو گی اور اس طرح ان کی قیمتیں کم ہوں گی اورنوکری پیشہ غریب ان کو خرید سکیں گے اور اس طرح سماج میں خوشحالی بڑھے گی، جس طرح پانی ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے، اسی طرح اگر ارب پتیوں اور کھرب پتیوں کے پاس زیادہ پیسہ ہو گا تو پانی کی طرح ان کے برتن سے چھلک کر نیچے غریبوں کی طرف بہے گا اور ان کی پیاس بجھائے گا۔ اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسیاں بنائیں جن کی وجہ سے مالدار اور زیادہ مالدار ہو جائیں تا کہ وہ کاروبار وغیرہ پر زیادہ خرچ کر سکیں۔

اب وہ کون سی پالیسیاں ہیں جو امیر کو اور امیر بناتی ہیں؟ ان میں وہ پالیسی شامل ہے جن میں امیروں پر کم سے کم ٹیکس لگائے جائیں تاکہ وہ اپنا سرمایہ دوسری جگہ لگا سکیں مثلاً کارپوریٹ ٹیکس کم کرنا، انکم ٹیکس میں کمی کرنا، انفرادی ٹیکس کو نیچے لانا اور کیپیٹل گین ٹیکسوں کو ہٹانا، اس طرح بہت سے دوسری ٹیکسوں میں رعایتیں دینا۔ پچھلے سو سال میں ٹریکل ڈاؤن تھیوری پر کافی بحث کی گئی ہے، پہلے اس کو سپلائی سائیڈ اکانومی کہا جاتا تھا، 1930 میں اس کو ٹریکل ڈاؤن تھیوری کہا جاتا تھا۔

اس سے قبل 19 ویں صدی کے دوران اس کو ہارس اینڈ سپیرو تھیوری کے نام سے پکارا جاتا تھا، اس نظریے کی بنیاد بھی وہی ہے کہ اگر آپ اپنے گھوڑے کو دانہ ڈالیں گے تو بہت سے دانے نیچے گریں گے اور وہ چڑیوں کے کھانے کے کام آئیں گے اور ان سے چڑیوں کا پیٹ بھرے گا۔ نظریاتی طور پر تو کہا جاتا ہے کہ اگر مالداروں کے پاس زیادہ دولت ہو گی تو وہ زیادہ کارخانے لگائیں گے اور روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کریں گے لیکن حقیقی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا نہیں ہے۔

وہ اپنی دولت کو بے کار عیاشیوں پر بھی خرچ کر سکتے ہیں، جس سے غریب طبقوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا، یہ اصول تو ثابت ہے کہ جب دولت مند مزید مالدار ہوتا ہے تو ملکی ترقی کی شرح کم رہتی ہے لیکن جب غریب اور متوسط طبقات کماتے ہیں تو ملکی ترقی کی شرح بڑھتی ہے۔ گاندھی جی نے سو سال قبل کہا تھا کہ شہروں کی ترقی سے دیہات کو فائدہ نہیں پہنچتا لیکن اگر دیہات ترقی کریں گے تو اس کی وجہ سے شہر اور ملک یقینی طور پر ترقی کریں گے۔

اب تک ہم نے پاکستان میں تو ٹریکل ڈاؤن تھیوری کے فوائد نہیں دیکھے البتہ اس کا الٹ نتیجہ ضرور سامنے آیا ہے۔ جب امیروں کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے، یہ اضافہ کرپشن کی شکل میں ہویا بینکوں سے قرض لے کر ہضم کرنے یا ٹیکس چوری اور اسمگلنگ سے ہو تو اس سے ملک میں بڑے منصوبے یا کارخانے لگانے کے بجائے اس کو سونے، ڈالروں اور دیگر قیمتی اشیاء میں تبدیل کرکے چھپا دیا جاتا ہے یا باہر ملکوں میں قیمتی پراپرٹی خریدنے یا بینکوں میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں، یہ بات ثابت شدہ ہے کہ دنیا بھر میں اور خاص کر پاکستان میں ٹریکل ڈاؤن تھیوری ناکام ہے۔