Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Shaheed e Watan Ka Mission, New Nationalism

Shaheed e Watan Ka Mission, New Nationalism

جوانی میں عظمت کی بلندیوں کو چھونے والے سیاسی رہنماء " شہید وطن حیات محمد خان شیرپاؤ" کو ہم سے جدا ہوئے 46 برس ہوگئے لیکن وہ اور ان کی یادیں آج بھی پختون قوم کے دلوں میں زندہ ہیں، انھوں نے صرف سیاست نہیں کی بلکہ پختون قوم کو ایک نیا فلسفہ اور نظریہ بھی دیا، ان کی برسی ہر سال کی طرح اس سال بھی تزک و احتشام کے ساتھ 11فروری 2021کو منائی گئی ہے۔

1970 تک سابقہ صوبہ سرحد میں روایتی پارٹیاں مسلم لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی تھیں، مسلم لیگ کا نعرہ تھا کہ پاکستان کی سالمیت اور مضبوطی کے لیے لازمی ہے کہ مرکزمضبوط ہو، دوسری طرف نیشنل عوامی پار ٹی تھی جس کا نعرہ تھا کہ پاکستان کو ایک وفاقی ریاست ہونا چاہیے جہاں صوبائی خود مختاری ہو، ان دونوں انتہاؤں کے درمیان سابقہ صوبہ سرحد کے عوام تقسیم تھے، دونوں پارٹیوں کے پروگرام میں صوبے کے غریب، محنت کش، مزدور اور کسان طبقے کے مسائل کا ذکر نہیں تھا۔

ایسے دور میں پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا اور صوبہ سرحد میں شہید حیات محمد خان شیرپاؤ کو اس کی قیادت سونپی گئی، پیپلز پارٹی کا منشور پسے ہوئے طبقات کے لیے ایک خوشخبری تھی، اس منشور میں صوبائی حقوق کے ساتھ ساتھ زیادہ زور عوامی مسائل اور خاص کر غریب محنت کش، کسان اور مزدور طبقوں کے مسائل پر دیا گیا تھا، اس نئے نعرے کو صوبے میں متعارف کرانے کے لیے حیات شہید نے دن رات ایک کر دیے، صوبے کے کونے کونے تک یہ پروگرام پہنچایا اور دونوں روایتی پارٹیوں کے بیچ میں راستہ بناتے ہوئے، مشکل حالات میں عوام میں اپنا ایک اعلیٰ مقام پیدا کیا۔

یہاں تک کہ 1970 کے انتخابات میں خان قیوم کو صوبائی سیاست سے دور رکھنے کے لیے ولی خان کو حیات شہید کا سہارا لینا پڑا، ان کی اسی سیاست اور مقبولیت کو مفاد پرست طبقے ہضم نہ کرسکے اور8فروری 1975کو ان کو پشاور یونیورسٹی کے کی ایک تقریب کے دوران شہید کردیا گیا، اس طرح ان کو خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کا شکار پہلے شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کو بجا طور پر" شہید وطن "کا لقب دیا گیا۔

حیات شہید نے پارٹی کی ترویج کے ساتھ ساتھ روایتی قوم پرستوں کی عدم توجہ کی وجہ سے سابقہ صوبہ سرحد کے عوام کی محرومی اور مایوسی کے خاتمے اور شناخت دلانے اور ان کی آواز مرکز تک پہنچانے میں جو اہم کردار ادا کیا۔

اس کی بدولت روایتی قوم پرست سیاستدانوں کی پا لیسیوں کے برعکس پسے ہوئے اور محنت کش طبقے کو سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ شہید وطن حیات محمد خان شیرپاؤ کوعوامی مقبولیت اور ہر دلعزیزرہنماء کی حیثیت سے کم عرصہ میں جو پذیرائی ملی اس کی مثال صوبے کی تاریخ میں نہیں ملتی، ان کی شہادت کے بعد ان کی سوچ نے ایک مشن کی شکل اختیار کی اور ان کے چھوٹے بھائی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے نہایت ہی نا مساعد حالات کے باوجود بڑی ثابت قدمی سے جمہوری جدوجہد میں حصہ لیا اور اس جدوجہد میں سختیوں کے باوجود ایک مرد آہن کی شکل میں حیات شہید کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا نے کے لیے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں، ان کا مشن پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوری ریاست بنانااور محروم طبقوں اور قومیتوں کی محرومیاں دور کرنا تھا جو ملک کی ترقی کا راستہ ہے، آج اسی راستے پر قومی وطن پارٹی، آفتاب شیرپاؤ کی قیادت میں رواں دواں ہے۔

چھوٹی قومیتوں کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی حقوق دینے کے نیم دلانہ اقدامات کیے گئے، اس ترمیم یا قومی مسئلے کے حل کے لیے دیگر نیم دلانہ اعلانات اصل میں بالادست طبقوں کا ایجنڈا ہے، چھوٹی قومیتیں ایک نئے معاہدہ عمرانی (New Social Contract) کا مطالبہ کر رہی تھیں، اس لیے ان کو ا ٹھارویں ترمیم کے " لالی پاپ" سے بہلانے کی کو شش کی گئی۔ مسائل بہت گھمبیر ہیں اس لیے قومی اور طبقاتی مسائل کے حل کے لیے معاشرے کے مختلف قوتوں کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی۔

یہ سب قوتیں مل کر اس خطے کو مصیبت سے نکالنے کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہیں، شہید وطن حیات خان شہید کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے یہ ایک بہترین طریقہ ہو سکتا ہے، دہشت گردی اور پسماندگی کے ساتھ ساتھ قومی استحصال پوری قوم کا مسئلہ ہے اور ان کو حل کرنے کی ذمے داری بھی پوری قوم کی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہمسایوں کے ساتھ امن اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کریں اورترقی، امن اور خوشحالی کا ایجنڈا اپنائیں۔

حیات شہید کے مشن کو پورا کرنے کے لیے قائد قومی وطن پارٹی آفتاب شیرپاؤ "نیو نیشلزم" کے نعرے کے تحت سرگرم عمل ہیں فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل ہونے کے بعد مکمل مراعات اور ٹکڑوں میں تقسیم پختون قوم کے باقی حصوں کا بھی ایک متحدہ صوبے کا حصول، جس سے پختونوں کی قومی جدوجہد اور قومی یک جہتی کو بھی تقویت ملے گی، دیگرچھوٹی قومیتوں کا اپنے وسائل پر اختیار، اس کے علاوہ CPEC میں صوبے کے جائز حق کا حصول، پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی جمہوری ریاست بنانے کے لیے نئے عمرانی معاہدے کا مطالبہ اور، پختون قوم کی بہتری اور ترقی حیات شہید کا و ہ راستہ ہے جو قومی وطن پارٹی اور ملی رہبر کے لیے نشان راہ ہے۔

روایتی پختون لیڈرشپ نے کبھی اپنی قوم کے مفادات کی خاطر درست فیصلے نہیں کیے، مختلف مواقع میسر ہونے کے باوجود ان روایتی قوم پرست لیڈروں نے شعوری یا کم علمی کی بنیاد پران مواقع کو ضایع کیا اور قوم کا مقدمہ غلط جگہ اور غلط انداز میں پیش کرکے پختون قوم کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ کیا، جس کی سزا پختون قوم گزشتہ کئی دہائیوں سے بھگت رہی ہے، روایتی قوم پرستوں نے ہمیشہ غیر ملکی ایجنڈے کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بنیاد بناکر پختون قوم پر مسلط کیا، ان کی غلط سیاست کی وجہ سے قومی حقوق کو غداری اور بیرونی ایجنٹ ہونے کا متبادل سمجھا گیا۔

شہید وطن حیات محمد خان شیرپاؤ نے محسوس کیا کہ پاکستان کی سیاست میں پختون قوم کی آواز نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں پختون قوم کی آواز کی شکل میں شامل ہو کر اپنے قوم کی نمایندگی کے لیے کمر بستہ ہوئے اور دن رات محنت کرکے پیپلز پارٹی کو پختونوں کے اس خطے میں کونے کونے تک پہنچایااور پارٹی کے ایک بانی ممبر کی حیثیت سے اپنی سیاست اور تدبر کا لوہا منوا یا۔ آج یہ شکایت کی جا رہی ہے کہ حکومت پشتو زبان کو نصاب سے نکال رہی ہے، حالانکہ یہ المیہ تو کب کا وقوع پذیر ہو چکا ہے۔

1970کے انتخابات کے بعد، صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلماء اسلام کو مخلوط حکومت بنانے کا موقع مل گیا، یہ ایک اچھا موقع تھا قوم پرستوں کو قیام پاکستان کے بعد پہلی دفعہ حکومت کا موقعہ ملا تھا، صوبے میں قائد حزب اختلاف حیات محمد خان شیرپاؤ نے صوبے میں پشتو کو سرکاری زبان قرار دینے اور صوبے کا نام تبدیل کرنے کی حمایت کا اعلان کیا، ان کے اس اعلان کے باوجود نیپ اور جمیعت کی حکومت نے نا معلوم وجوہات کی بنیاد پر ایسا نہیں کیا۔

یک قطبی (Uni Polar)دنیا کے ظہور اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے تمام دنیا کی سیاسی و معاشی خد و خال میں واضح تبدیلیاں رو نما ہورہی ہیں، جس کا اثر ملک گیر سیاسی پارٹیوں پر پڑناایک لازمی امر تھا، نئے سیاسی منظر نامہ میں پختون قوم کا یہ خطہ ایک نئی اہمیت کا حامل ہے اور بین الاقوامی قوتوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ پختون قوم آج تاریخ کے ایک ایسے نازک اور مشکل موڑ پر کھڑی ہے کہ جس کو موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق " نیو نیشلزم " سے لیس ایک ایسی پارٹی کی ضرورت تھی، جو حیات شہید کے مشن کو آگے بڑھائے اور جس کی قیادت مضبوط اور دور اندیش رہنما کے ہاتھ میں ہوجو پختون قوم کو ان مشکلات سے نکال کر ترقی، خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن کر سکے۔

جس طرح دنیا کے دوسرے اقوام نے حالات اور گلوبلائزیشن کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے روایتی لیڈر شپ کے اپنائے ہوئے فلسفوں سے نکل کر روایتی نیشلزم کے بجائے حقیقت پر مبنی "نیو نیشنلزم" کی راہ اختیارکی اور ترقی، خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن ہوئے، اسی طرح اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے روایتی نیشنلزم کے منفی اثرات سے پختون قوم کو آگاہ و خبردار کرنے کے لیے "نیو نیشنلزم" کی راہ اختیار کرتے ہوئے پختون قوم کی رہنمائی کرنے کے لیے قومی وطن پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اس پارٹی اور اس کی قیادت کی عوامی پذیرائی اس بات کا ثبوت ہے کہ " شہید وطن "حیات شہید کے ارمانوں کا جھنڈا، قومی وطن پارٹی کے ہزاروں باشعور کارکنوں کے ہاتھ میں ہے اور یہ قافلہ پورے جوش و خروش کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں ہے۔