ملک میں ہمیشہ ریاست کا بیانیہ چلتا ہے اور اسی کی بنیاد پر پالیسیاں بنتی ہیں اور قوم اس کی تقلید کرتی ہے، بدقسمتی سے ہماری ریاست کی باگ ڈور زیادہ تر آمریت کے ہاتھ میں ہے، بیانیہ بھی ان کا چلتا ہے جو پچھلے ستر سال سے چل رہا ہے، اس بیانیہ کی ترجیحات ایسی ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے لاکھ کوشش کی جائے، ملک اس گرداب سے نہیں نکل سکتا، جس میں وہ پھنسا ہوا ہے۔
دائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کو سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ پوری دنیا ہمارے خلاف سازشیں کر رہی ہے، دنیا کو اور کوئی کام ہی نہیں سوائے پاکستان کو نیست و نابود کرنے کے منصوبے بنانے کے، دراصل پاکستان کو خطرہ باہر سے نہیں بلکہ اندرونی ترجیحات سے ہے، سرحدیں ہماری بند ہیں، مشرقی سرحد پر ہندوستان کے ساتھ دشمنی۔ نہ آمد و رفت اور نہ تعلقات اور یہی حال مغربی سرحد پر افغانستان کے ساتھ ہے۔ ان حالات میں یہاں نہ سرمایہ کاری ہو سکتی ہے اور نہ کوئی ترقی، ہمسایوں کے ساتھ مستقل دشمنی میں امن اور ترقی کیسے ہو سکتی ہے؟
لیکن اس بحث کا ایک دوسرا رخ بھی ہے، کیا یہ ایک مطلق سچائی (Absolute truth) ہے کہ صرف سیاستدان ہی کرپشن کرتے ہیں، آخر ایک مخصوص وقت کے بعد صرف سیاستدانوں کی کرپشن کے قصے ہی کیوں مشہور ہوتے ہیں، جنرل مشرف کے دور اقتدار میں کیا کیا عیاشیاں اور کرپشن نہیں ہوئے، کسی بھی قسم کا اسکینڈل اس دور کا نہیں بنا، کسی بھی صحافی کو اس زمانے میں کوئی ٹھوس کرپشن کا قصہ شایع کرنے کا حوصلہ نہیں ملا، جب بھی جمہوری حکومت آتی ہے ایک خاص عرصے کے بعد آہستہ آہستہ کانا پھوسی شروع ہو جاتی ہے، جب بھی ایسی کہانیاں شروع ہوتی ہیں لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ ہوا کا رخ تبدیل ہونے والا ہے۔ پہلے اسلام آباد کے حلقوں میں کھسر پھسر اور پھر پورے ملک میں، ان افواہوں سے سرکاری ملازمین خاص طور پر متاثر ہو جاتے ہیں، حکومت کی رٹ کمزور ہونے لگتی ہے، کوئی بھی افسر وزراء کی بات کو سنجیدہ نہیں لیتا، اس طرح حکومت کے خاتمے کی ابتداء ہو جاتی ہے۔
کیا پاکستان کے دیگر طبقے کرپشن میں ملوث نہیں ہیں کیا پٹواری سے لے کر SMBRتک پورا محکمہ مال کرپشن میں ملوث نہیں ہے، کیا ایک سب انجینئر سے لے کر چیف انجینئر تک سب مال کمانے میں نہیں لگے ہوئے، کیا ڈاکٹر حضرات کا کام ہر طریقے سے مال کمانا نہیں ہے، کیا صحافی حضرات کا دامن سو فیصد پاک ہے، کیا سول اور غیر سول نوکر شاہی سرکاری خزانے کو چونا نہیں لگا رہے، آخر کون سا وہ طبقہ ہے جو پاکستان کی جڑوں کو نہیں کاٹ رہا، بیس ہزار روپے کی تنخواہ لینے والاکانسٹیبل ایک دو کروڑکے گھر کا مالک کیسے بنا۔
آج تک کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ شہروں میں چلنے والی مسافر گاڑیوں کی اکثریت کی مالک ٹریفک پولیس کے افسر کیوں ہوتے ہیں، آخر اس میں کیا تک ہے کہ کسی سرکاری ملازم کو وقت پر تھوڑی بہت پنشن نہیں ملتی اور ایک سرکاری محکمے کے افسروں کو پنشن کے ساتھ کچھ مربعے زمین اور اچھے علاقوں میں قیمتی پلاٹ اور بنگلے بھی ملتے ہیں، جب حکومت کے اکابرین، وزراء اور اعلی افسر رشوت کو قانون بنا دیں تو پھر نچلے طبقے کے ملازمین سے رشوت نہ لینے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ اگر ایمانداری سے سروے کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام آباد میں کتنے پلاٹ اور بنگلے سیاستدانوں کے ہیں اور کتنے نوکر شاہی کے دیگر لوگوں کے۔ NRO سے فائدہ اٹھانے والوں میں بھی سیاستدان کم اور سرکاری اہلکار زیادہ تھے، اگر حکومت اس کی فہرست اسمبلی یا پریس کو جاری کرے تو حیران کن حقائق سامنے آئیں گے۔
ہمارے کچھ سیاستدان کرپٹ ضرور ہوں گے اور اتنے ہی کرپٹ ہوں گے جتنے زندگی کے ہر شعبے والے لیکن ان سیاستدانوں کے کارنامے بھی بے شمار ہیں۔ 1947ء میں سیاستدانوں کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا، اس وقت تو نہ فوج اتنی وسائل والی تھی اور نہ عدلیہ اتنی مضبوط، اس وقت اس تباہ حال ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے والے سیاستدان ہی تھے، کروڑوں مہاجرین کو سنبھالنا اور خونریز خانہ جنگی اور قتل عام کے بعد حالات کو سنبھالنا صرف سیاستدانوں کا کارنامہ ہے، انھوں نے ترقیاتی منصوبے بنائے اور ان کو مکمل کیا، پاکستان کے دو لخت ہونے پر بھارت سے جنگی قیدیوں کو واپس پاکستان لائے، پاکستان کو آئین دیا، موٹروے بنائی۔
ان کے دور میں پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنا، گوادر کا علاقہ سلطنت اومان سے خرید کر پاکستان میں شامل کیا اور اس پر ایک اہم بندگاہ اور CPECکی بنیاد رکھی۔ اس کے برعکس آمروں کے دور میں سیاچن کا علاقہ ہمارے ہاتھ سے گیا، آدھا پاکستان ہم سے الگ ہو گیا، کارگل کے محاذ پر جب صورتحال بگڑی تو جنرل مشرف نے نواز شریف کے ذریعے امریکی صدر کلنٹن سے کہہ کر یہ جنگ بندی کرا ئی۔ غیر جمہوری ادوار میں دہشتگردی، منشیات اور امریکی غلامی ہمارا مقدر بنی، سیاسی عدم تسلسل کی وجہ سے ہمارے ہاں بہتر سیاست دان پیدا نہ ہو سکے، ملک آج جن بحرانوں سے دوچار ہے وہ سب کے سب غیر جمہوری ادوار کی پیداوار ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب سول یا جمہوری حکومت آتی ہے تو اس کے ساتھ ہی کرپشن کے قصے عام ہونے لگتے ہیں، اس کی بڑی وجہ تو میرٹ کا نہ ہونا ہے، ہر سیاسی ورکر، ایم پی اے اور ایم این اے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھرتی کریں، اس طریقہ کار سے کرپشن کی ابتداء ہوتی ہے۔ وزیروں کے چہیتے اکثر ضرورت مندوں سے بڑی رقوم لے کر ان کو ملازمت دلواتے ہیں، ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے بیچے جاتے ہیں، سرکاری ملازمین اور ارکان اسمبلی سب مل کر ترقیاتی اسکیموں کے لیے الاٹ شدہ رقوم کا بڑا حصہ کمیشن کی شکل میں کھا جاتے ہیں، نتیجہ جو سڑک، اسکول یا عمارت بنتی ہے، دو تین سال کے اندر زمین بوس ہو جاتی ہے، یہ لالچی اور رشوت کے اصولوں سے نابلد لوگ ایسے بھونڈے طریقے سے کرپشن کرتے ہیں کہ اس کی خبریں فوراََ پھیل جاتی ہیں، آخر چوری اور جوئے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں، ترقیاتی فنڈ کے نام پر سیاسی رشوت بھی جنرل ضیاء الحق کا تحفہ ہے۔
غیر سیاسی قوتیں جو اپنے آپ کو پاکستان کی بزعم خویش واحد محافظ سمجھتی ہیں، سیاستدانوں کی فائلیں تیار کرتی ہیں اور اچانک ایک دن ٹی وی پر گرجدار آواز سنائی دیتی ہے کہ "میرے عزیز ہم وطنو" سیاسی حکومت کی کرپشن اور غلطیوں کی لمبی فہرست پیش کی جاتی ہے، اس کے بعد لمبے عرصے کے لیے غیر جمہوری حکومت، لیکن اس وقت بھی کسی مسلم لیگ کے نام پر سیاست دانوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ غیر جمہوری حکومت میں اچانک رشوت کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں، ہر طرف افراتفری اور آئین و قانون کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔
جب ملک کی صورت حال قابو سے باہر ہو جاتی ہے تو کچھ عرصے کے لیے حکومت سویلین کے سپرد کر دی جاتی ہے، سویلین آتے ہی اپنا پہلا والا کام شروع کر دیتے ہیں اورپھر دوبارہ آمریت آتی ہے، پچھلے 72 سال سے یہ چکر چل رہا ہے۔ کولہو کے بیل کا خیال ہوتا ہے کہ وہ صبح سے شام تک چلتا رہا ہے تو اس نے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کیا ہو گا، حالانکہ وہ صبح سے شام تک ایک محدود دائرے کے اندر ہی چلتا رہتا ہے، یہی حال پاکستان کا ہے، جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں کے درمیان اس چکرکی وجہ سے ملک آگے بڑھنے کے بجائے ایک محدود دائرے میں چکر کھا رہا ہے۔
تمام خوبیوں کے باوجود سیاستدانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے ہیں، سقوط ڈھاکا کے بعد سیاستدانوں کو موقع ملا اور انھوں نے 1973ء کا متفقہ آئین بنا دیا لیکن بھٹو نے بلوچستان کی بزنجو اور مینگل کی حکومت برطرف کر دی، صوبہ سرحد کی ارباب سکندر اور مفتی محمود حکومت نے استعفا دے دیا، نیپ قیادت کو حیدر آباد جیل اور پارٹی پر پابندی کے غیر جمہوری اقدامات ہوئے، اس جنگ کے اثرات تاریخ کا حصہ ہیں۔
ضیاء الحق کی حکومت نے جونیجو حکومت کو ختم کیا تو نواز شریف نے جونیجو کے خلاف ضیاء الحق کا ساتھ دیا، نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے قائدین کے خلاف سیف الرحمان کو استعمال کیا اور زرداری کو جیلوں میں ڈالا، پیپلز پارٹی نے بھی نواز شریف کو تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، میثاق جمہوریت کی وجہ سے کچھ عرصہ آرام رہا لیکن دوبارہ ایک دوسرے خلاف سازشیں شروع ہوئیں، حالیہ دنوں میں بلوچستان میں مسلم لیگ حکومت کا خاتمہ اور سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کی سازش نظر آئی، اب ان سازشوں کا اگلا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔
نواز شریف کو سزا دینے کے لیے ایک اور سیاستدان عمران خان کو استعمال کیا جا رہا ہے حالانکہ نواز شریف نے بہت مشکلات کے بعد سیاستدانوں کے ساتھ گزارہ کرنا سیکھا تھا، عمران خان انتخابات میں زخمی ہوئے تو ان کی عیادت کی اور انتخابی مہم معطل کی، ان کی دعوت پر ان کے گھر بنی گالا گئے اور ان کے گھر کی سڑک کو پکا کرنے کی منظوری دی، اس سے قبل عمران خان کی درخواست پر شوکت خانم اسپتال کے لیے زمین الاٹ کرنا اور ایک بڑی رقم دینا لیکن آج عمران خان کا رویہ ان کے ساتھ بدترین دشمن کا ہے، شاید کسی کے کہنے پر۔ لیکن اس رویے سے نئی دشمنی کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔