Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Tehreek Insaf Ki Dagmagati Kashti

Tehreek Insaf Ki Dagmagati Kashti

تحریک انصاف کی حکومت کو 15ماہ ہوگئے، عمران خان کے وعدے اور اعلانات سن کر کچھ لوگ ایک نئے پاکستان کی امید لگائے بیٹھے تھے، حکومت میں آنے کے بعد ان کو بہت اچھا اور سازگار ماحول ملا، جو تاحال ان کو حاصل ہے، حکومت میں آنے سے قبل عمران خان بڑے اچھے وعدے کر رہے تھے، وعدوں کے علاوہ ان کی عملی سیاست بھی عجیب تھی، اس پارٹی کے کارنامے آیندہ صدیوں تک یاد رکھیں جائیں گے۔ بعض کارنامے اور وعدے زیادہ مشہور ہوئے۔

2014 کا دھرنا اور ریڈزون میں عمران کے ہنگامے پی ٹی وی پر حملے، سول نافرمانی کا اعلان اور بجلی و گیس کے بل جلانا اور ادا نہ کرنے کا اعلان، پولیس آفیسر پر تشدد اور لوگوں کو پولیس سے زبردستی چھڑانا، پارٹی کے جلسوں میں ایسے اعلانات جو ناممکن تھے، ایک کروڑ نوکریاں یا پچاس لاکھ مکانات، کرپشن کا خاتمہ، باہر بینکوں میں پڑے ہوئے دو سو ارب ڈالر واپس لانا، غیر ملکی قرضوں کا حساب لینا، غربت کا خاتمہ، بیرونی ملکوں سے ڈالروں کی بارش ہوگی۔

صحت اور تعلیم کا بجٹ بڑھانا، بلدیاتی اداروں کی خود مختاری، دس ارب درخت لگانا، نیب کی خود مختاری، جنوبی پنجاب صوبے کا قیام، پاکستان کو بزنس فرینڈلی ملک بنانا، کراچی کے ساحل سے تیل نکالنا، سونے کے پہاڑوں سے سونا نکلے گا نہیں بلکہ بہے گا، عالمی کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے پاکستان پر یلغار کریں گی، حکومت آٹھ ہزار ارب روپے کے ٹیکس جمع کرے گی، یورپ اور امریکا میں رہنے والے پاکستانیوں سے ڈالروں کی بارش ہوگی، وہاں سے لوگ نوکری کے لیے واپس آئیں گے، اگر مجھے IMFکے پاس قرض کے لیے جانا پڑا تو میں اس سے قبل خودکشی کرلوں گا۔

حالانکہ جب IMF کے پاس گئے تو اتنی سخت شرائط پر قرض لے آئے کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں۔ آصف زرداری کے پانچ سال میں 8 ہزار روپے قرضہ اور نواز شریف پانچ سال کے 16 ہزار ارب کے مقابلے میں صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے قرض لے لیا ہے، نتیجہ روپے کی قدر میں شدید کمی، بدترین مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ، اتنے قرضے کے باوجودکوئی بڑا پراجیکٹ تو چھوڑ، پشاور کا BRTبھی نہ بن سکا۔

کرکٹ کو نجم سیٹھی بہتر طریقے سے چلارہے تھے، کافی عرصے کے بعد غیرملکی کھلاڑی بھی پاکستان آنے لگے تھے، عمران خان نے وزیر اعظم کی طرف سے کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کرنے کو غیر آئینی اقدام قرار دے کر اس کی مذمت کی، جب ان کی حکومت آئی تو نجم سیٹھی نے استعفا دے دیا اور عمران خان نے فوراً احسان مانی کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین نامزد کردیا، شاید ان کو اپنی بات یاد نہیں تھی، معلوم نہیں کیا وجہ ہے کہ جب سے عمران خان حکومت میں اور احسان مانی صاحب کرکٹ میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہیں، اس دن سے ٹیم مسلسل ہر میچ میں شکست کھا رہی ہے، حالانکہ اس وقت، ٹیم کی کارکردگی بہترین ہونی چاہیے تھی، کرکٹ کا پورا نظام ہی تبدیل کردیا۔

کسی نہ کسی طرح حکومت چل رہی تھی، اتحادی بھی خاموش تھے کہ اچانک دو واقعات ہوئے، مولانا صاحب کا آزادی مارچ اسلام آباد پہنچ گیا اور میاں نواز شریف سخت بیمار ہو گئے۔ اس دوران گجرات کے چوہدری برادران بھی مولانا کو راضی کرنے کے لیے اسلام آباد آگئے، چوہدری پرویز الہی نے ایک انٹرویو میں عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ سب کام چھوڑ کر معیشت اور گورننس کی طرف توجہ دیں۔

پنجاب اور مرکز میں حکومت سازی میں تعداد کے لحاظ سے مسلم لیگ (ق)کی بڑی اہمیت ہے۔ اس سے قبل چوہدری شجاعت حسین نے واضح کیا تھا کہ اگر حالات وہی رہے تو تین ماہ بعد کوئی بھی وزیراعظم بننے کے لیے تیار نہیں ہوگا، انھوں نے میاں نواز شریف کو بیرونی ملک جانے کی اجازت کا مطالبہ کیا اور کہا کہ کہیں ان کی روانگی میں تاخیر کسی ناقابل تلافی نقصان کا سبب نہ بن جائے اورعمران کے ماتھے پر کلنک کا ایسا ٹیکہ نہ لگ جائے جسے اتارا نہ جا سکے۔

ان مشوروں کے باوجود عمران خان نے سات ارب ڈالر کی ضمانتی بانڈ کی شرط نہ چھوڑی اور ہائیکورٹ میں رسوائی ان کا مقدر بنی۔ چوہدری برادران کے علاوہ دوسرے اتحادی بھی میدان میں آگئے، وفاقی وزیر ہاؤسنگ اور ق لیگ کے رہنما طارق بشیر نے کہا کہ اگر عمران خان، نواز شریف کو جانے دیتے، تو عدالت کو ملنے والا کریڈٹ ان کو مل سکتا تھا، ایم کیو ایم، بی این پی( مینگل) اور دوسرے اتحادیوں نے کھلم کھلا عمران کے فیصلے کی مخالفت کی اور میاں نواز شریف کو غیر مشروط طور پر جانے کی اجازت کا مطالبہ کیالیکن وہ عمران ہی کیا جو کسی کے مشورے کو تسلیم کرے، سوائے طاقتوروں کے۔

یہ حکومت اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد سے قومی معیشت کی ابتری کی ذمے داری پچھلی حکومت پر ڈالتی چلی آرہی ہے، یہ رویہ آج تک جاری ہے کہ ہر خرابی کی ذمے داری سابقہ حکومتوں پر ڈالی جائے، وفاقی حکومت کے مشیرتجارت عبدالرازق داؤد نے اسلامک چیمبر آف کامرس سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کے اس عمومی موقف کے بالکل برعکس اعتراف کیا کہ "عالمی بینک کی کاروباری اصلاحاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی بہتری پچھلی حکومت کی پالیسی کو جاری رکھنے کی وجہ سے ممکن ہوئی، انھوں نے اس موقع پر مزید کہا کہ پچھلی حکومت نے بجلی کے منصوبوں اور کاروباری اصلاحات جیسے جو اچھے کام کیے ہیں۔

انھیں سراہا جانا چاہیے"۔ مشیر تجارت نے سابقہ حکومت کے اچھے کاموں کا برملا اعتراف کر کے نہ صرف کشادہ دلی کا ثبوت دیا ہے بلکہ ان حقائق کو تسلیم کرنے کا تعمیری رویہ بھی اپنایا ہے۔ عمران خان کے بہت بڑے فین کالم نگار نے لکھا ہے کہ "سمجھ نہیں آتی کہ پی ٹی آئی والوں کا مسئلہ کیا ہے؟، ان کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے اور زبانیں تالو سے نہیں لگتیں "۔ عمران خان بار بار کہتے تھے کہ اربوں روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی ممالک کو گئے ہیں، FBRکے چیئرمین شبر زیدی نے کہا کہ کوئی رقم باہر نہیں گئی اور جو گئی ہے وہ قانونی طریقے سے گئی ہے۔

میاں نواز شریف نے حکومت کا سارا مزہ کرکرا کر دیا، عدالت کے ذریعے ECLسے فراغت کے دھچکے نے حکومت کی مولانا کے دھرنے کے خاتمے کی ساری خوشی غارت کر دی، باتیں تو بہت ہوں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچاس روپے کے اشٹام پر ECLسے فراغت نے سرکار اور خاص کر عمران خان پر ٹھنڈا پانی انڈیل دیا، بجائے شرمندہ ہونے کے حسب عادت حکومت نے اس پسپائی اور رسوائی سے بھی فتح، کامیابی اور خوشی کی تلاش شروع کی، اب اس اشٹام کو میاں برادران کے گروی رکھنے کے مترادف قرار دے کر اپنی شرمندگی کو چھپانے کی جو کوشش کی ہے۔

اس پر ان کے حوصلے کی داد نہ دینا بہرحال زیادتی ہوگی، کہاں تو حکومت سات ارب کا بانڈ مانگ رہی تھی اور کہاں میاں شہباز شریف کے ضمانت نامے پر میاں صاحب کو دل کی مراد مل گئی۔ اس بدترین ہزیمت پر حکومت کی خوشی سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے لیکن وہ تحریک انصاف ہی کیا، جس کی کوئی بات سمجھ میں آ جائے۔ میاں نواز شریف کے لندن جانے کا غصہ، عمران خان نے عدلیہ پر نکالا اور ہزارہ موٹروے کے افتتاح کے موقع پر عدلیہ پر الزام لگایا کہ "پاکستان میں تاثر ہے کہ طاقتور کے لیے ایک قانون ہے اور کمزور کے لیے دوسرا"۔ اس پر چیف جسٹس صاحب نے بہت ہی مناسب جواب دے کر حکومت کا منہ ہی بند کردیا۔

انھوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "وزیر اعظم طاقتوروں کا طعنہ ہمیں نہ دیں، جس کو باہر بھیجا گیا ہے، ان کو آپ نے جانے کی اجازت دی تھی، ہائی کورٹ میں صرف طریقہ کار پر بحث ہوئی، ہمارے سامنے کوئی طاقتور نہیں ہے، ایک وزیر اعظم کو نا اہل اور دوسرے کو سزا ہم نے دی اور سابق آرمی چیف کے خلاف بھی آرٹیکل 6 کے کیس کا فیصلہ آنے والا ہے، وزیر اعظم چیف ایگزیکٹیو ہیں، وہ اپنے بیان پر غور کریں اور احتیاط کریں "۔ ایسا معلوم ہوتا ہے نواز شریف کے باہر جانے میں عمران خان کا کوئی کردار نہیں ہے۔

معلوم نہیں کہ اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے؟، مولانا کا دھر نا تو ختم ہو گیا لیکن حالات قابو میں نہیں آ رہے، اتحادیوں کی مخالفت کے بعد اب فارن فنڈنگ کیس جو پانچ سال سے الیکشن کمیشن میں لٹک رہا تھااچانک اہم ہو گیا اور اسکروٹنی کمیٹی کو کہا گیا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر اس کی سماعت کرے، چیئرمین نیب نے بھی ہواؤں کا رخ تبدیل ہونے کی نوید سنائی ہے۔ عمران خان کا نیا پاکستان بھی مکمل طور پر ناکام نظر آ رہا ہے، کرپٹ عناصر سے کوئی رقم وصول ہونے کے بجائے ان پر حکومت کے کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں، کہیں باربار کی دہرانے والی کہانی پھر تو نہیں دھرائی جا رہی؟ افواہیں گرم ہیں کہ کہیں کوئی کچھڑی پک رہی ہے۔ خدا خیر کرے، کیونکہ کمپنی چلنے والی نہیں۔