Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. 30 Lashon Ka Intizar

30 Lashon Ka Intizar

یہ عمران خان کے دھرنے کے دنوں کی بات تھی، میں ملک کے ایک بڑے لیڈر سے ملاقات کے لیے گیا، میں نے ملاقات کے دوران پوچھا "کیا عمران خان کامیاب ہو جائیں گے، وہ قہقہہ لگا کر بولے " اگر میاں نواز شریف نے عمران خان کو دس بیس لاشیں دے دیں تو یہ دھرنا کامیاب ہو جائے گا، حکومت فارغ ہو جائے گی، میاں نواز شریف گرفتار ہو جائیں گے اور ملک میں مارشل لاء لگ جائے گا "میں نے پوچھا " اور اگر شاہراہ دستور پر لوگ نہیں مرتے تو؟" انھوں نے فوراً جواب دیا "میاں نواز شریف بچ جائیں گے" وہ تھوڑی دیر رکے اور پھر بولے "علامہ طاہر القادری اور عمران خان کو میاں شہباز شریف کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

ان دونوں کو لاہور سے نکلنے کے لیے لاشیں چاہئیں تھیں اور میاں شہباز شریف نے 17 جون کو ماڈل ٹاؤن میں انھیں یہ 14 لاشیں دے دیں، یہ لاشیں انقلاب کا روٹ پرمٹ ہیں، عمران خان اور علامہ صاحب اس روٹ پرمٹ پر چلتے ہوئے اسلام آباد پہنچے ہیں، یہ لاشیں نہ ہوتیں تو یہ دونوں راوی کا پل پار نہیں کر سکتے تھے، یہ وزیراعلیٰ پنجاب کی غلطی تھی اور یہ غلطی اگر میاں نواز شریف نے بھی دہرا دی تو بات ختم ہو جائے گی" مجھے انھی دنوں کسی صاحب نے بتایا "عمران خان اور علامہ طاہر القادری 30 اگست 2014ء کی رات جب وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھ رہے تھے تو میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بیٹھا تھا، ٹیلی ویژن پر یلغار کی لائیو کوریج جاری تھی، وہ مناظر دیکھتے ہوئے جنرل مشرف نے کہا" اگر آج تیس چالیس لوگ مر گئے تو یہ حکومت فارغ ہو جائے گی"۔

یہ تجزیہ غلط نہیں تھا، تحریک ہو، احتجاج ہو یا پھر انقلاب ہو، یہ ہمیشہ لاشوں سے جنم لیتا ہے، آپ دنیا کی تاریخ دیکھیں یا پھر پاکستان کے ماضی اور حال کا مطالعہ کریں، آپ کو ملک کے اندر اور باہر ہر تحریک، ہر انقلاب لاشوں سے پھوٹتا نظر آئے گا، لاشیں تحریکوں کا سرخ جھنڈا ہوتی ہیں، یہ جھنڈا جب تک تحریکوں کے ہاتھ میں نہ آئے تحریکیں اس وقت تک کامیابی کی شاہراہ پر قدم نہیں رکھتیں، آپ پاکستان کے تمام لیڈروں کا پروفائل دیکھ لیجیے، آپ کو ان کے پاؤں پر لہو نظر آئے گا۔

یہ لہو ان معصوم اور گم نام لوگوں کا تھا جو اپنی سادگی اور معصومیت کے ہاتھوں مارے گئے اور پھر ان کا لیڈر ان کی لاشوں پر قدم رکھتا ہوا اقتدار کی مسند تک پہنچ گیا، آپ جنرل ایوب خان کا ظہور دیکھ لیجیے، یہ ظہور قادیانیوں کی لاشوں اور لاہور کے مارشل لاء سے ہوا تھا، جنرل یحییٰ خان نے عشرہ ترقی کے شہداء سے جنم لیا، ذوالفقار علی بھٹو نے مشرقی پاکستان کی لاش پر مسند اقتدار بچھائی، جنرل ضیاء الحق اپوزیشن کی نو جماعتوں کی عنایت کردہ لاشوں پر چل کر ایوان اقتدار تک پہنچے، گڑھی خدا بخش کی لاشیں بے نظیر بھٹو کا سرمایہ بنیں، جنرل مشرف کارگل کے شہداء کے ذریعے اقتدار میں آئے، تحریک طالبان پاکستان لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی معصوم بچیوں کی لاشوں سے پیدا ہوئی۔

افتخار محمد چوہدری کو بارہ مئی 2007 کو کراچی کی 48 لاشوں نے قائد انقلاب بنایا اور آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے تابوت کے ذریعے پانچ سال پورے کیے، آپ اگر غور کریں گے تو آپ کو ملک کی ہر تبدیلی، ہر انقلاب اور ہر لیڈر کے پیچھے لاشیں نظر آئیں گی اور یہ وہ حقیقت ہے جسے ہم عموماً تجزیہ کرتے وقت فراموش کر بیٹھتے ہیں، ہمارے ملک میں آج بھی ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں میاں نواز شریف صرف ایک فیصلے کی وجہ سے وزیراعظم ہیں، عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے 30 اگست کی رات جس وقت ریڈ زون میں قدم رکھا تھا میاں نواز شریف نے اس وقت پولیس کو ایکشن سے روک دیا تھا۔

چوہدری نثار ہر صورت پولیس ایکشن چاہتے تھے اور یہ وزیراعظم کے احکامات کے بعد ان سے ناراض بھی ہو گئے تھے، میاں نواز شریف اگر اس رات پولیس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں نہ لیتے، یہ اگر پولیس کو ایکشن سے نہ روکتے تو دس بیس لوگ مر جاتے یوں انقلاب کو لاشیں مل جاتیں اور میاں نواز شریف کی حکومت ان لاشوں کے ساتھ ہی دفن ہو جاتی، میاں نواز شریف نے 30 اگست کی رات میاں شہباز شریف کی غلطی نہیں دہرائی اور یوں ان کی حکومت بچ گئی۔

یہ لاشیں حکومتیں گرانے اور حکومتیں بنانے کے لیے اتنی اہم ہوتی ہیں لیکن سوال یہ ہے وقت گزرنے کے بعد ان لاشوں اور ان لاشوں کے لواحقین کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ ان لاشوں کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو، نواب اکبر بگٹی، ماڈل ٹاؤن کے 14 شہیدوں اور دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مرنے والے تین لوگوں کے ساتھ ہوا تھا، لیڈر ملتان میں 10 اکتوبر 2014ء کے دن دم گھٹنے والے سات لوگوں کی لاشیں اٹھاتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، دہائی دیتے ہیں اور اگلے ہی دن انھیں بھول جاتے ہیں، ملتان میں عمران خان کے لیے جان دینے والے لوگ کون تھے۔

ان کے لواحقین آج کس حالت میں ہیں، فیصل آباد میں مرنے والے حق نواز کے اہل خانہ زندگی کی چکی کیسے پیس رہے ہیں اور شاہراہ دستور پر مارے جانے والے لوگوں کے بچوں کی فیسیں کون ادا کر رہا ہے، ان کے پانی، بجلی اور گیس کے بل کون دے رہا ہے اور ان کے بوڑھے والدین کے علاج معالجے کی ذمے داری کون نبھا رہا ہے؟ کسی نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ یہ لاشیں ڈسپوزیبل سرنجیں ہوتی ہیں، ان کے ذریعے تحریکوں کو نئے خون، نئی طاقت کی سپلائی ملتی ہے اور اس کے بعد انھیں توڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔

بات ختم۔ آپ اب اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں اور اس کے بعد دو فروری کے دن کراچی میں پی آئی اے کے تین ملازمین سلیم اکبر، عنایت رضا اور محمد زبیرکی ہلاکت کا تجزیہ کیجیے، یہ لوگ اپنا روزگار بچانے کے لیے گھر سے نکلے تھے، ان کا خیال تھا، حکومت اگر پی آئی اے کی نج کاری کر دیتی ہے تو یہ بے روزگار ہو جائیں گے اور یوں ان کے بچے بھوکے مر جائیں گے، یہ اپنے بچوں کی معاشی زندگی بچانے کے لیے گھر سے نکلے لیکن یہ سڑک پر مارے گئے، ان کی ہلاکت سے پی آئی اے کے احتجاجی ملازمین کو تین لاشیں مل گئیں لیکن تین گھرانے اپنے کفیلوں سے محروم ہو گئے۔

یہ تین لاشیں اب اگر پی آئی اے کو نج کاری سے بچا بھی لیں تو بھی سلیم اکبر، عنایت رضا اور محمد زبیر کے گھرانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیوں؟ کیونکہ ان کے گھرانوں کی پی آئی اے تو انھیں گولی لگنے کے ساتھ ہی پرائیویٹائز ہوگئی تھی، ان کے گھر تو دوفروری کی شام ہی بے روزگار ہو گئے تھے چنانچہ ان بے چاروں کو کیا ملا؟ ان بے چاروں کو وہی ملا جو فیصل آباد کے حق نواز، ماڈل ٹاؤن کے 14 شہداء، ملتان کے سات نوجوانوں اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مرنے والے تین لوگوں کو ملا تھا، یہ بھی تحریک کا وہ ایندھن بن گئے جس سے تحریک کی گاڑی تو چل پڑے گی لیکن اس ایندھن کے بچے بھوکے مر جائیں گے، یہ بچے اب پوری زندگی اپنے مقتول باپ کی تصویر اٹھا اٹھا کر پھریں گے اور کوئی ان تصویروں کی شناخت تک کے لیے تیار نہیں ہوگا۔

میں پی آئی اے کے معاملے میں ملازمین اور حکومت دونوں کو مجرم سمجھتا ہوں، پی آئی اے 320 ارب روپے کی مقروض ہے، ہر ماہ ساڑھے تین ارب روپے کی قسط ادا کی جاتی ہے، پی آئی اے روزانہ دس کروڑ روپے نقصان اٹھا رہی ہے، یہ تصویر کی ایک سائیڈ ہے، آپ دوسری سائیڈ دیکھیں گے تو جہازوں میں سانس لینا مشکل ہوتا ہے، تاخیر معمول بن چکا ہے، جہاز رسکی ہیں، یورپ کے درجن بھر ملک انھیں اپنی فضا سے نہیں گزرنے دیتے، عملے کا رویہ بھی اچھا نہیں ہوتا، کرایہ بھی زیادہ ہے اور یونینز بھی تگڑی ہیں، یہ جب چاہیں فلائیٹ آپریشنز بند کرا دیتی ہیں چنانچہ پھر ریاست پی آئی اے کے لیے رقم کہاں سے لائے گی۔

یہ 14446 ملازمین کو کب تک گھر میں بٹھا کر کھلائے گی، آپ ملازمین کی اخلاقی حالت بھی ملاحظہ کیجیے، یہ ناراض حکومت سے ہیں لیکن انھوں نے 120 فلائیٹس منسوخ کرا دی ہیں، ان فلائیٹس میں کن لوگوں نے سفر کرنا تھا؟ ان میں ان لوگوں نے سفر کرنا تھا جو نامساعد حالات، تاخیر، منسوخی اور عملے کی بدتمیزیوں کے باوجود آج بھی پی آئی اے پر سفر کرتے ہیں، ان ظالموں نے ان دریا دل مسافروں کا سفر بھی مشکل بنا دیا، کیوں؟ ان کا کیا قصور تھا اور کل جب پروازیں شروع ہوں گی تو کیا یہ لوگ پی آئی اے پر اعتماد کریں گے؟ ملازمین نے آج یہ فیصلہ بھی کرنا ہے۔

انھوں وہ پی آئی اے چلانی ہے جو ان کے گھروں کے چولہے جلاتی ہے یا پھر انھوں نے وہ یونینز چلانی ہیں جن کی وجہ سے سلیم اکبر، عنایت رضا اور محمد زبیر جیسے لوگ مارے جا رہے ہیں اور مسافر ائیر پورٹوں پر ذلیل ہو رہے ہیں، آپ کو یہ فیصلہ بہرحال کرنا پڑے گا اور جلد کرنا پڑے گا، میں حکومت کو بھی اس صورتحال کا ذمے دار سمجھتا ہوں، یہ درست ہے، پی آئی اے خسارے میں جا رہی ہے اور یہ بھی درست ہے آئی ایم ایف نے اپنے قرضے 72 سرکاری اداروں کی نج کاری کے ساتھ منسلک کر دیے ہیں اور آپ نے یہ ادارے بہرحال پرائیویٹائز کرنے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا 72 اداروں کی فہرست میں پی آئی اے کے علاوہ کوئی ادارہ نہیں؟ کیا اس میں ریلوے اور اسٹیل مل شامل نہیں ہیں؟

اگر ہاں تو پھر آپ ریلوے اور اسٹیل مل کو بیل آؤٹ پیکیج کیوں دے رہے ہیں؟ آپ اگر ریلوے اور اسٹیل مل کو "ری وائیول" کا موقع دے رہے ہیں تو پھر آپ یہ موقع پی آئی اے کو کیوں نہیں دیتے؟ پی آئی اے کے وہ ملازمین جو اس وقت سڑکوں پر بیٹھے ہیں کیا انھوں نے حکومت سے ایک سال کا وقت نہیں مانگا تھا، اگر ہاں تو پھر اسحاق ڈار نے انھیں ایک سال کیوں نہیں دیا؟ تین لوگوں کے مرنے کا انتظار کیوں کیا گیا؟ فلائیٹس آپریشنز بند ہونے اور ملازمین کو سڑکوں پر نکلنے کا موقع کیوں دیا گیا؟ کیا کسی کے پاس ان سوالوں کا جواب ہے؟ وقت کی لگام ابھی ہاتھ سے نہیں نکلی، آپ یونین کو ساتھ بٹھائیں، ملازمین کو پی آئی اے کی "ری وائیول" کے لیے ایک سال دیں، بیل آؤٹ پیکیج اناؤنس کریں۔

پی آئی اے کے قرضے اپنے ذمے لیں اور قومی ائیر لائین کو اٹھنے، کھڑا ہونے اور دوڑنے کا موقع دیں، یہ چل جائے گی، کیوں؟ کیونکہ پیٹرول سستا ہو چکا ہے، جہاز 38 ہو چکے ہیں اور دو جہازوں کا اضافہ اس مہینے ہو جائے گا چنانچہ اگر حکومت موقع دے اور ملازمین ایمانداری سے کام کریں تو مجھے یقین ہے یہ ادارہ چل پڑے گا، آپ ان لوگوں کو موقع دیں، یہ کامیاب ہو گئے تو پوری دنیا میں پاکستان زندہ باد ہو جائے گی اور یہ اگر ناکام ہو جاتے ہیں تو آپ 26 فیصد کے بجائے پوری پی آئی اے نیلام کر دیجیے گا۔

کوئی آپ کا ہاتھ نہیں روکے گا، میں حیران ہوں حکومت میز پر کیوں نہیں بیٹھتی؟ حکومت اگر طالبان اور بھارت سے مذاکرات کر سکتی ہے تو پھر یہ سہیل بلوچ سے بات کیوں نہیں کرتی؟ یہ کہیں تین لاشوں کو 30 لاشوں میں تبدیل ہونے کا انتظار تو نہیں کر رہی؟ اگر ہاں تو پھر حکومت یہ بات پلے باندھ لے یہ 30 لاشیں حکومت کے لیے وہ لاشیں ثابت ہوں گی جن سے میاں نواز شریف 2014ء میں بچ گئے تھے، یہ لاشیں جس دن گریں گی حکومت اس دن ان کے ساتھ ہی دفن ہو جائے گی۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.