Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aap Mazloom Hain To Zulm Kyun Karte Hain?

Aap Mazloom Hain To Zulm Kyun Karte Hain?

میں نے آخر میں سلیا اور اینڈی سے ایک سوال کیا اور وہ خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں اور مجھے وارسا کے یہودی میوزیم کے سامنے محسوس ہوا دونوں بزرگ خواتین لاجواب ہو چکی ہیں۔

سلیا مس مین اور اینڈی کی عمریں 74 اور 75 سال تھیں، یہ اور ان کے آبائواجداد یہودی تھے، یہ لوگ روس میں رہتے تھے، یہ پچھلی صدی کے شروع میں ماسکو سے امریکا شفٹ ہو گئے، سلیا کے والدین امریکا کی مختلف ریاستوں میں رہائش پذیر رہے، اس کے خاندان کے لوگ آج بھی امریکا کی تین ریاستوں میں بکھرے ہوئے ہیں تاہم یہ اور اس کی دوست اینڈی فلوریڈا کے شہر میامی میں رہتی ہیں، دنیا بھر کے یہودی زندگی میں کم از کم ایک بار پولینڈ ضرور آتے ہیں، وارسا اور کراکووف یروشلم کے بعد یہودی کمیونٹی کی دوسری بڑی منزل ہیں۔

یہ ان دو شہروں کی سیاحت ضرور کرتے ہیں، اس کی وجہ یہودیوں کی تاریخ، یہودیوں کا ماضی ہے، 1939ء تک دنیا میں سب سے زیادہ یہودی پولینڈ میں رہتے تھے، پولینڈ میں ان کی تعداد 35 لاکھ تھی، ہٹلر نے ستمبر 1939ء میں پولینڈ پر قبضہ کیا اور پولینڈ میں موجود یہودیوں کی نسل کُشی شروع کر دی، وارسا اور کراکووف ہٹلر کی توجہ کے خصوصی مراکز تھے، وارسا شہر کی آبادی اس وقت گیارہ لاکھ تھی، ان میں ساڑھے تین لاکھ یہودی تھے، جرمنوں نے پولینڈ پر قابض ہونے کے بعد یہودیوں کے لیے لازم قرار دے دیا یہ اپنے گھروں، دکانوں اور ٹھیلوں پر نیلے رنگ میں "سائن آف ڈیوڈ" بنائیں گے، سائن آف ڈیوڈ یہودیوں کی خصوصی نشانی ہے۔

یہ وہ ستارہ ہے جو آپ اکثر یہودی کمپنیوں کے لیٹر ہیڈ یا اسرائیل کے پرچم پر دیکھتے ہیں، جرمنوں کے اس حکم کے بعد وارسا اور کراکووف کے یہودی اپنی جائیدادوں پر "سائن آف ڈیوڈ" لگانے پر مجبور ہو گئے، انھیں اپنے بازوئوں اور کپڑوں پر بھی یہ نشان لگانے کا حکم دے دیا گیا، یوں پولینڈ کے تمام یہودی جرمنوں کی نظروں میں آ گئے، ہٹلر نے اس کے بعد ان یہودیوں کی مدد سے وارسا شہر میں نو فٹ اونچی، دو فٹ چوڑی اور پندرہ کلومیٹر لمبی دیوار بنوائی، اس دیوار پر شیشے کے ٹکڑے لگا کر اسے ناقابل عبور بنا دیا گیا اور اس کے بعد وارسا کے ساڑھے تین لاکھ یہودیوں کو اس دیوار کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔

یہ لوگ اپنے ہی شہر میں قیدی بن گئے، یہ اس وقت وارسا کی ایک تہائی آبادی تھے لیکن یہ ایک تہائی لوگ تیزی سے مرنے لگے، انسان کو زندہ رہنے کے لیے روزانہ خوراک کی دو ہزار کیلوریز درکار ہوتی ہیں، جرمنوں نے یہودیوں کی خوراک کی راشننگ کی اور انھیں صرف دو سو کیلوریزکی خوراک دی جانے لگی یوں دیوار کے پیچھے محبوس ساڑھے تین لاکھ یہودیوں میں سے ایک لاکھ لوگ خوراک کی کمی کے باعث ہلاک ہوگئے، باقی متعدی امراض کا شکار ہونے لگے ہٹلر نے پولینڈ، آسٹریا اور جرمنی میں یہودیوں کے خصوصی کیمپ بھی بنا دیے، یہ لوگ ان کیمپوں میں شفٹ کر دیے گئے، وہاں گیس چیمبر اور بجلی کی بھٹیاں تھیں، یہودیوں کو دو، دو ہزار کی تعداد میں ان گیس چیمبرز میں کھڑا کیا جاتا تھا، گیس کے سیلنڈرز اور کنٹینرز کھولے جاتے تھے۔

یہ لوگ چند لمحوں میں زندگی کی حدود عبور کر جاتے تھے اور بعد ازاں ان لوگوں کی نعشیں بھٹیوں میں جلا دی جاتی تھیں، یہ لوگ جس دن گیس چیمبرز میں قتل کیے جاتے اور ان کی نعشیں جلائی جاتی تھیں اس دن پورے کیمپ میں گیس اور جلائے جانے کی بو پھیل جاتی تھی اور دور دور تک دھواں دکھائی دیتا تھا، کیمپوں میں ان لوگوں کو خصوصی پائجامے اور شرٹس پہنائی جاتی تھیں، آج اس سانحے کو70 سال ہو چکے ہیں لیکن یہ لوگ آج بھی پائجاموں کے اس رنگ اور ڈیزائن سے نفرت کرتے ہیں، یہ اس ڈیزائن کو چھونا تک پسند نہیں کرتے، پولینڈ، آسٹریا اور جرمنی میں آج بھی یہ کنسنٹریشن کیمپ موجود ہیں، یہودیوں نے انھیں عجائب گھر بنا دیا ہے۔

ان عجائب گھروں میں یہودیوں کی بیرکیں جوں کی توں موجود ہیں، گیس چیمبرز بھی ہیں، برقی بھٹیاں بھی ہیں، اور ان کی چیخیں اور سسکیاں بھی ہیں، آپ اگر ان کیمپوں کا دورہ کریں تو آپ کو یہاں سیکڑوں ہزاروں دل دہلا دینے والی تصویریں، فلمیں اور خطوط ملیں گے اور آپ کا دل خواہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو آپ کے لیے دامن دل سنبھالنا مشکل ہو جائے گا اور آپ یہودیوں کی مظلومیت میں بہہ جائیں گے، ہٹلر کے دور میں پولینڈ کے 35 لاکھ یہودیوں میں سے 20 لاکھ مار دیے گئے، وارسا شہر میں تین لاکھ یہودی قتل کر دیے گئے۔

صرف وہ لوگ بچے جو بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے یا یورپ کے دور دراز علاقوں میں پناہ گزین ہو گئے یا پھر انھیں کسی نہ کسی عیسائی یا مسلمان نے پناہ دے دی اور وہ ان کے تہہ خانے میں چھپ کر بیٹھ گئے، بچ جانے والوں نے زندگی کی ڈور قائم رکھنے کے لیے چوہے بھی کھائے، بلیاں بھی اور کتے بھی اور اپنے مردہ بہن بھائیوں کا گوشت بھی۔ یہ لوگ چار چار سال تک تہہ خانوں میں رہے، یہ گٹروں اور سیوریج کے زیر زمین پائپوں میں چھپے رہے یہاں تک کہ1944ء آ گیا، ہٹلر کی فوجیں پسپا ہونے لگیں، پولینڈ میں جرمنوں کے خلاف بغاوت ہو گئی، روسی افواج نے اس بغاوت کو ہوا دی، روسیوں نے پولینڈ کے لوگوں کو یقین دلا دیا آپ لوگ جرمنوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں، ہم آپ کا ساتھ دیں گے اور یوں ہم مل کر پولینڈ کو جرمنوں سے آزاد کرالیں گے۔

پولینڈ کے عوام جرمنوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، جرمن پسپا ہو رہے تھے لیکن انھوں نے پسپا ہونے سے قبل وارسا شہر کو تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا، جرمنوں نے پورے شہر میں ڈائنامائیٹ لگائے، شہر کے باہر توپیں گاڑھیں، اپنے طیارے اڑائے اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، وارسا کا 80 فیصد حصہ زمین بوس ہو گیا، آٹھ لاکھ لوگ مارے گئے، گیارہ لاکھ لوگوں میں سے صرف دو لاکھ بچے اور وہ بھی مفرور اور زخمی تھے، آپ پولینڈ کی تباہی کا احوال دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں بنائی گئی فلموں میں دیکھ سکتے ہیں، اس بمباری کے نتیجے میں باقی ماندہ یہودی بھی مارے گئے۔

یہودیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ اسرائیل میں ہوں، فرانس میں ہوں یا پھر امریکا میں ہوں ان کا کسی نہ کسی ذریعے سے پولینڈ سے ضرور تعلق ہوتا ہے چنانچہ یہ یروشلم کے بعد پولینڈ ضرور آتے ہیں، پولینڈ دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین کے حصے میں آ گیا، اس کی سرحد مشرقی جرمنی سے ملتی تھی، برلن شہر وارسا سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے، یہ شہر دیوار برلن کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، دیوار کے اس طرف مشرقی جرمنی تھا اور دیوار کی دوسری طرف مغربی جرمنی۔ مغربی جرمنی یورپ کا حصہ تھا جب کہ مشرقی جرمنی پر سوویت یونین کا قبضہ تھا۔

روسی اسٹیبلشمنٹ مشرقی جرمنی کو وارسا سے کنٹرول کرتی تھی، سویت یونین 1991ء میں ٹوٹ گیا، پولینڈ 22 جولائی 1944ء میں آزاد ہو گیا، 3 اکتوبر 1990ء کو دیوار برلن بھی گر گئی، مشرقی جرمنی دوبارہ مغربی جرمنی میں شامل ہو گیا، تاریخ کا نیا دور شروع ہوا، پولینڈ آزاد ہو گیا، وارسا نئی طاقت کے ساتھ سامنے آیا، پولینڈ کے زندہ بچ جانے والے یہودی اس وقت تک اسرائیل، فرانس، جرمنی، بیلجئم، ہالینڈ اور امریکا میں خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔

یہ لوگ ایک ایک کر کے پولینڈ آتے گئے اور یہاں زمینیں، فیکٹریاں اور جائیدادیں خرید تے چلے گئے، پولینڈ میں اس وقت تین ہزار یہودی ہیں لیکن یہ تین ہزار یہودی پوری پولش آبادی پر بھاری ہیں کیونکہ یہ اب تک پولینڈ کی معیشت، میڈیا، سیاست، اسٹاک ایکسچینج، ٹرانسپورٹ اور سیاحت کو کنٹرول کر چکے ہیں، وارسا اور کراکووف میں جیوئش کمیونٹی سنیٹر بن چکے ہیں، یہودیوں کے بڑے بڑے عجائب گھر بھی ہیں، سینا گوگ بھی اور ریستوران بھی، یہ پولینڈ کو دوبارہ کنٹرول کر رہے ہیں۔

میں سوموار 14 جولائی کو وارسا پہنچا اور 16 جولائی کو کراکووف شہر گیا، کراکووف شہر میں یہودیوں کا بہت بڑا اور قدیم محلہ ہے، محلے میں درجنوں سرائے، ہوٹل اور موٹلز ہیں، ان کے پب، ڈسکوز، سینا گوگ اور ریستوران بھی ہیں، یہاں ان کا میوزیم بھی ہے، میں ایک ریستوران کے سامنے رکا تو مجھے وہاں سے اردو میں گانے کی آواز آئی۔ میں ریستوران کے ریسپشن پر چلا گیا، گانے کے بارے میں معلوم کیا تو پتہ چلا اس ریستوران میں ان تمام ممالک کی زبانوں کے گانے موجود ہیں جہاں جہاں یہودی آباد ہیں یا ماضی میں آباد رہے تھے۔

میں نے یہ تحقیق کی تو پتہ چلا کراچی اور پشاور میں آج بھی یہودی موجود ہیں اور یہ سی ڈی کراچی کی ایک خاتون یہودی سنگر نے تیار کی، وہ آواز بھی اسی سنگر کی تھی، گلی میں اس وقت مختلف عمروں کے سیکڑوں یہودی گھوم رہے تھے، ان لوگوں نے یہودیوں کے مخصوص لباس پہن رکھے تھے، وہ گلی میں موجودقدیم سینا گوگا کی دیواروں کو چومتے تھے، اس پر ہاتھ پھیر پھیر کر چہرے پر پھیرتے تھے اور روتے تھے، انھیں شاید اپنے آبائواجداد پر ہونے والے مظالم یاد آ رہے تھے، میامی کی سلیا مس مین اور اینڈی بھی دو دن قبل وارسا میں اسی کیفیت سے گزر رہی تھیں، وہ اس ٹور میں شامل تھیں جس کا میں بھی حصہ تھا اور ہم لوگ وارسا کی تاریخ تلاش کر رہے تھے۔

وارسا ایک دلچسپ اور خوبصورت شہر تھا، اس کے در و دیوار پر تاریخ رقم ہے، شہر میں شوپان نام کا وہ موسیقار رہا تھا جس نے میوزک کی قدیم روایات کو جڑوں سے ہلا دیا تھا، شہر میں آج بھی اس کے درجنوں مجسمے ایستادہ ہیں، مادام کیوری نے بھی اسی شہر میں جنم لیا تھا، اس مادام کیوری نے جس نے 1898ء میں ریڈیم اور پولونیم دریافت کر کے سائنس کو نیا وجود دیا، پوپ جان پال دوم بھی پولینڈ سے تعلق رکھتے تھے، یہ کراکووف کے رہنے والے تھے، شہر میں آج بھی ان کا گھر اور وہ قدیم چرچ موجود ہے جہاں انھوں نے جنم لیا۔

تعلیم مکمل کی اور جہاں وہ لوگوں میں امن اور آشتی تقسیم کرتے تھے اور وارسا میں وہ عمارتیں بھی موجود ہیں جہاں دنیا میں پہلی بار درخت کاٹنے کو جرم قرار دیا گیا تھا، جہاں یورپ کا پہلا آئین تیار ہوا تھا اور جہاں دنیا کی پہلی وزارت تعلیم کا سنگ بنیادرکھا گیا تھا اور جہاں باقاعدہ الیکشن کے ذریعے بادشاہوں کا انتخاب ہوتا تھا لیکن اصل چیز یہودیوں کا میوزیم اور سینا گوگا تھا اور یہودی مظلوموں کی یاد گار تھی، اینڈی اور سلیا اس مقام پر پہنچ کر بے بس ہو گئیں، ان کی آنکھیں تر ہو گئیں، یہودیوں کی یادگار کے سامنے اسرائیل سے آئے نوجوان زائرین بیٹھے تھے، یادگار کے سامنے نوجوان یہودی سنگر عبرانی زبان میں گانا گا رہی تھی اور مختلف عمروں کے یہودی اس کے سامنے زمین پر بیٹھ کر وہ اداس گانا سن رہے تھے۔

خاتون یہودی سنگر کے ہاتھ میں گٹار تھا، وہ اداسی کا مجسمہ بن کر یاد گار کی سیڑھیوں پر بیٹھی تھی، یہودی نوجوان اس کی لے میں لے ملا رہے تھے، سلیا اور اینڈی مجمع کے قریب کھڑی تھیں اور وہ بھی منہ ہی منہ میں بول دہرا رہی تھیں، گانا ختم ہوا تو میں نے سلیا سے پوچھا "آپ لوگ اتنے اداس کیوں ہیں "دونوں بیک آواز بولیں "ہمیں جرمنوں کے ظلم یاد آ رہے ہیں " میں نے اس کے بعد ان سے وہ سوال پوچھا جس کے جواب میں دونوں خاموش ہو گئیں، میں نے ان سے پوچھا "آپ لوگوں کو اگر جرمنوں کے مظالم یاد ہیں تو پھر آپ آج فلسطینی مسلمانوں کے لیے ہٹلر کیوں بن گئے ہیں، آپ آج فلسطینیوں کے لیے جرمن کیوں ثابت ہو رہے ہیں؟ " سلیا اور اینڈی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموشی سے سر جھکا لیا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.