انسانوں کی طرح جانوروں میں بھی وقت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔
میری پاس عنایہ کی پالتو بلی فئیری اب مستقبل ہمارے گھر رہتی ہے۔ اس کے بابا کو الرجی ہورہی تھی۔ وہ فیری کو فارغ کرنا چاہ رہے تھے۔ عنایہ بہت ڈسٹرب تھی۔ میں فئری کو اپنے گھر لے آیا۔ اب عنایہ ہمارے گھر آتی ہے اور فئری سے بہت سارا کھیلتی ہے۔ اس کے بالوں میں کنگھی کرتی ہے، اس کا کھانا پینا سب کچھ مانٹیر کرتی ہے اور بعض دفعہ مجھے اور مجاہد صاحب کو ڈانٹ کر بھی جاتی ہے۔ میں بھی فیری کو بیٹی سمجھ کر پال رہا ہوں۔ جب وہ ہمارے گھر آئی تو باقی بلیاں جو روز میرے ساتھ بیٹھ کر وقت گزارتی تھیں انہیں برا لگا کہ یہ نوابزادی کہاں سے آگئی۔ فئیری گھر کے اندر رہتی تھی اور باقی بلیاں باہر لہذا فئیری کو اپنے اسٹیٹس کا غرور تھا اوپر سے اسے علم تھا وہ اس گھر کے مکین کے باس کے لاڈلی بلی ہے لہذا اس کے نخرے اور انداز کچھ اور۔
یوں پہلے دن سے ہی بیرونی بلیوں ساتھ فئیری نے سینگ اڑا لیے۔ وہ ان بلیوں کو دیکھ کر لڑنے کے لیے بھاگتی اور وہ بے چاریاں دوڑ جاتیں۔ دو تین نے مجھے رحم بھری نظروں سے کہا سرکار یہ کیا سخت جیلر اٹھا کر گھر لے آئے ہیں۔ ہمیں کچھ کھانے پینے نہیں دیتی۔ ہمیں گھورتی ہے۔ ہمارے پیچھ دوڑتی ہے۔ ہم آپ کا شرم حیا کیے بیٹھے ہیں ورنہ آپ کو علم ہے ہم نے بھی گھاٹ گھاٹ کا دودھ پیا ہوا ہے۔ سات محلے پھرتی ہیں۔ یہ کس کھیت کی مولی ہے۔ میں نے فئری کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ مجھ پر غرائی کہ آپ گھر والوں سے زیادہ باہر والوں کی حمایت کررہے ہیں۔ مجھے گاڈ فادر ناول کا ایک باب یاد دلایا جس میں ڈان مائیکل اپنے بھائی فریڈی کو کہتا ہے جب بات فیملی کی ہورہی ہو تو پھر کسی باہر کے بندے کے موقف کی مزاکرات میں حمایت نہیں کی جاتی اور اسے آخری وارننگ سمجھنا۔
میں چپ رہا اور اس کا حل یہ نکالا کہ جب ان بلیوں کو خوراک دی جاتی خصوصا دودھ تو فیری کو اندر لے جاتا تاکہ وہ حسد کا شکار نہ ہو اور انہیں دودھ پینے دے۔ مجھے یہ بھی اندازہ ہوا ہم صرف انسان ایک دوسرے سے حسد نہیں کرتے جانور بھی کرتے ہیں اور بہت شدید کرتے ہیں۔ انہیں ابھی اچھا نہیں لگتا کہ کوئی جو ان سے پیار کرتا ہو وہ کسی اور کو مسکرا کر بھی دیکھے۔ میں
نے ان بلیوں سے کھیلنا ہوتا تو فئیری کے اندر جانے کا انتظار کرتا۔ فئیری کی موجودگی میں انہیں نظر انداز کرتا جسے وہ بے چاریاں نوٹ کررہی تھیں اور آنکھوں آنکھوں میں گلہ کرتیں کہ اس فئیری کو کون سے گلاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔ میری طرح وہ بھی بے بس تھیں کہ ہم دونوں فئیری کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ آخرکار ان بلیوں اور فئیری نے بھی آخر ایڈجسٹ کرنا سیکھ ہی لیا ہے۔ بڑا عرصہ ایک دوسرے پر غرا اور لڑ کر دیکھ لیا اور انہیں لگا اب اس گھر رہنا ہے تو سکون سے رہنا ہے۔ کون سا ان کی دن بھر کی مزدوری یا تنخواہ سے ان کے دودھ کا خرچہ پورا ہورہا ہے۔ اب دونوں خاصی دیر سے بس ایک دوسرے کو دیکھ ہی رہی ہیں۔
میں بہت گھبرایا لیکن دونوں کی آنکھوں میں سرخی یا لالی نظر نہ آئی تو مطمن ہوا کہ بات ڈانگ سوٹے تک نہیں پہنچے گی۔
ان دونوں کے ایک دوسرے سے ایڈجسٹ کرنے سے ہمارے دوست میجر عامر کا سنایا ایک واقعہ یاد آیا کہ ایک ان کے علاقے کا بندہ لڑ جھگڑ کر ہر ماہ جیل پہنچ جاتا۔ اب کی دفعہ ضمانت ہوئی تو ساتھی قیدی سے کہہ آیا میرا بیرک میں بستر اپنے ساتھ رکھنا اور میری جگہ کسی اور قیدی کو نہ دینا۔ تمہیں علم ہے باہر جا کر پھر پھڈا کرنا ہے اور چند دن بعد پھر یہیں بیرک ہوگی اور ہم۔
چند ماہ گزرے تو وہ جھگڑالو بندہ جیل واپس نہ گیا۔ قیدی نے جیل سے پیغام بھجوایا کمبخت میں ادھر سو قیدیوں سے لڑ چکا ہوں تاکہ تمہاری جگہ محفوظ رہے۔ تم اب تک نہیں آئے۔
اس پھڈے باز نے جیل پیغام بھجوا بھیجا کہ میری بیرک میں جگہ اور بستر کسی کو دے دو، میں نے اب یہاں گائوں میں ایڈجسٹ ہو کر رہنا سیکھ لیا ہے۔