Saturday, 11 January 2025
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Shopper

Shopper

سریجا، نویں کلاس کی طالبعلم تھی۔ اس کے اسکول کا نام پریشد ہائی اسکول تھا۔ جو گڈوال ضلع میں واقع ہے۔ مضافاتی اور دیہی علاقے کا اسکول کس سطح کا ہوگا، اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ مگر قدرت کا قانون ہے کہ عقل و دانش اس نے طبقاتی لحاظ سے تقسیم نہیں کی۔ سریجا سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ ہر سال پریشد ہائی اسکول کے بچے پودے لگاتے تھے۔ اس چیز کا بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ ہر طالب علم اور طالبہ اپنی سالگرہ والے دن بھی ایک پودا لگائے۔ پودے پلاسٹک کے تھیلوں کے ذریعے لگائے جاتے تھے۔ مارچ 2020 میں سریجا، ایک پودا لگانے کے لیے زمین کھود رہی تھی۔ تو دیکھا کہ ایک پلاسٹک کا تھیلا جوں کا توں زیر زمین موجود ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ چند سال پہلے شجرکاری کی مہم میں استعمال ہوا تھا۔

مگر نا وہاں کوئی پودا اگ سکا اور نہ ہی پلاسٹک بیگ کا کچھ بگڑ پایا۔ سریجا نے یہ بھی محسوس کیا کہ زیر زمین پلاسٹک بیگ اتنا زہریلا تھا کہ اس کے اردگرد کئی فٹ تک کوئی پودا پنپ نہیں پایا۔ دس گیارہ سال کی بچی کو محسوس ہوا کہ پلاسٹک کے تھیلے زمین اور درختوں کے لیے زہر قاتل ہیں۔ پر اس کے ننھے منے دماغ میں اس مشکل کا کوئی حل نہیں تھا۔ کئی مہینے تحقیق کرتی رہی مگر اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کرے۔ اس علاقے میں مونگ پھلی کثرت سے ہوتی تھی۔ سریجا کے ذہن میں ایک عجیب سا خیال آیا۔

اس نے مونگ پھلی کے چھلکے اکٹھے کرنے شروع کر دیے، چھلکوں کو پیسا اور پانی ڈال کر ایک ملغوبا سا بنا لیا۔ اس کے بعد ایک کپ بنانے کی کوشش کی۔ خیال تھا کہ مونگ پھلی کے چھلکوں پر مبنی اس کپ کے اندر پودا لگائے گی۔ اسے یقین تھا کہ یہ چھوٹا سا گملہ زمین کے لیے صحت مند ہوگا۔ مگر اس بچی کا یہ منصوبہ اور تجربہ مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔ اسکول ہی کے اندر کیمسٹری کے استاد اگسٹن موجود تھے۔ ننھی طالبعلم نے اپنے استاد سے ذکر کیا کہ اس نے مونگ پھلی کے خالی چھلکوں سے گملے بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔

اگسٹن نے بچی کو ہمت دلائی اور اس ملغوبے میں کچھ ایسے اجزاء ڈالے جس سے بڑی آسانی سے ایک چھوٹا سا گملا معرض وجود میں آ گیا۔ اب معاملہ یہ تھا کہ تجربہ کیا جائے کہ اس گملے میں شجر کاری ممکن ہے کہ نہیں۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا تھا کہ قدرتی اجزاء سے بنا ہوا یہ گملا کتنے عرصے میں مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتا ہے یعنی اس کا وجود کتنے دنوں بعد ختم ہو جاتا ہے۔ سریجا نے اپنے استاد کے ساتھ مل کر چھوٹے سے گملے میں ایک پودا لگایا۔ روز صبح آتی تھی اور ننھے منے پودے پر پانی ڈالتی تھی۔ پہلا پودا نیم کا تھا۔ بیس دن بعد سریجا اور اس کے استاد حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ قدرتی اجزا سے بنا ہوا گملا مکمل طور پر مٹی کے ساتھ مل چکا تھا اور اس کا وجود ہی ختم ہو چکا تھا۔ اب سریجا کی ہمت بڑھ گئی اس نے ہوم ورک کرنے کے بعد چھوٹے چھوٹے چھ گملے روزانہ بنانے شروع کیے۔ اسکول کی انتظامیہ کی مدد سے ان میں پودے لگا کر لوگوں کو دینا شروع کر دیے۔

جب اس کارنامے کی خبر سائنسی تحقیقاتی ادارے کو پڑی تو انھوں نے اس پورے معاملے کی سائنسی جانچ پڑتال کی۔ ہندوستان کی اس کونسل نے لکھ کر دیا کہ اس بچی نے ایک شاندار کارنامہ انجام دیا ہے اور اس کی ہر طریقے سے حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ مونگ پھلی کے خالی چھلکوں سے بنا ہوا گملا زمین اور پودے دونوں کے لیے حد درجہ صحت مند ہے۔ سریجا کا کام پوری دنیا میں مشہور ہوگیا۔ اسے حکومت نے مشینری مہیا کی اور وہ اب ایک سال میں دس ہزار سے زیادہ گملے بنا کر لوگوں میں تقسیم کرتی ہے۔

ہمارا ملک ایک سال میں پچپن ارب پلاسٹک بیگ استعمال کرتا ہے۔ اس میں ہر برس پندرہ فیصد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ تعداد ہماری زمین اور اس کے ساتھ منسلک پودوں اور درختوں کو برباد کر رہی ہے۔ مختلف حکومتوں نے پاکستان میں پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے جو قابل ستائش ہے۔ مگر اس پر عمل درآمد مشکل ہی سے ہوتا ہے۔ ایک اور بہت بڑا عذاب جو اس وقت ہمارے ملک میں برپا ہے۔ وہ پانی کی خالی پلاسٹک کی بوتلیں ہیں۔

آپ حیران ہوں گے کہ پانی کی خالی بوتلیں بڑے آرام سے اکٹھی کی جاتی ہیں اور ایک صنعت وجود میں آ چکی ہے جو یہ اکٹھے کروا کر انھیں دوبارہ ری سائیکل کرتی ہے۔ مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ پلاسٹک کے تھیلے اور پلاسٹک کی بوتلیں موسمیاتی تبدیلی میں کتنا منفی کردار ادا کرتی ہیں۔

آپ حیران رہ جائیں گے کہ جن ملکوں میں پلاسٹک بذات خود ایجاد ہوئی تھی وہاں بھی اس کے زمینی منفی معاملات کی بدولت اس پر کئی لحاظ سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اٹھارہ سو باسٹھ میں الیگزینڈر پارکس نے برمنگھم میں پلاسٹک بنائی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ سستی اور پائیدار شے ہے۔

اس دریافت کے بعد جان ویسلے نے پلاسٹک بنانے کی پہلی فیکٹری لگائی جو امریکا میں واقع تھی۔ مختلف ادوار سے ہوتی ہوئی پلاسٹک ہر طرح کی چیزوں میں استعمال ہونے لگی اور یہ کئی لحاظ سے درست قدم بھی تھا۔ لٰہذا پلاسٹک مختلف اشیاء میں کامیابی سے استعمال ہوتی رہی۔ جن میں ٹیلی فون، طبی آلات اور مختلف استعمال کی چیزیں موجود تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، پلاسٹک شاپنگ بیگ مارکیٹ میں روشناس کروائے گئے۔

اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ آنے والے وقت میں کتنا خطرناک معاملہ بن جائے گا۔ 1973ء میں ایک امریکی تاجر نتھینیل وائٹ نے پلاسٹک کی بوتل بنا ڈالی جو آج تک موجود ہے۔ پوری دنیا میں پانچ سو ارب پلاسٹک کی بوتلیں سالانہ فروخت ہوتی ہیں۔ یہ کامیابی تو حاصل ہوگئی لیکن سائنس دانوں نے محسوس کیا کہ پلاسٹک کے تھیلے اور بوتلیں، زمینی ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ کئی سال تو یہ بحث چلتی رہی کہ ان پر پابندی لگائی جائے یا نہیں۔ وجہ یہ تھی کہ پلاسٹک ایک مکمل صنعت کا وجود اختیار کر چکی تھی اور اس سے چھٹکارا پانا آسان نہیں تھا۔

آپ قدرت کا کمال دیکھئے کہ جن ملکوں سے ان خطرناک اشیاء کی شروعات ہوئی تھی۔ انھیں ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اس صنعت کی بھرپور مخالفت شروع کر دی۔ عجیب معاملہ دیکھئے کہ رونڈا جو کہ ایک غیر ترقی یافتہ ملک ہے، اس کی انتظامیہ نے سب سے پہلے پلاسٹک کے تھیلوں اور دیگر اشیاء کو ممنوع قرار دیا۔ رونڈا 2009ء میں پلاسٹک کے تھیلوں کے بغیر دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ جن ممالک نے پلاسٹک کے تھیلوں اور دیگر اشیاء کو سمندر میں تلف کرنے کی کوشش کی تھی۔ انھیں تھوڑی ہی مدت میں اندازہ ہوگیا کہ یہ آبی جانوروں کے لیے زہر قاتل ہے۔ مغرب میں اب پلاسٹک کی متعدد خطرناک اشیاء سے نجات حاصل کر لی گئی ہے۔ لندن یا نیویارک میں کوئی چیز خریدیں وہ آپ کو ایک سادہ سے کپڑے کے تھیلے میں مہیا کرتے ہیں، جو ماحول کے لیے بالکل خطرناک نہیں ہیں۔

ہمارے ملک میں قانون کا نفاذ حد درجے کمزور ہے لہٰذا ابھی تک ہم پلاسٹک کے تھیلوں سے مکمل نجات حاصل نہیں کر سکے۔ کھانے پینے کی اشیاء، دودھ، دہی، سبزیاں اور دیگر چیزیں آج بھی دکاندار بڑے دھڑلے سے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈال کر دیتے ہیں۔ جسے عرف عام میں شاپر کہا جاتا ہے۔ اس کا ایک منفی پہلو اور بھی ہے۔ شاپر اپنے اندر موجود کھانے پینے کی اشیاء کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ یعنی جان بوجھ کرہم زہر خرید کر بڑی خوشی سے اپنے گھروں اور دفتروں میں واپس آتے ہیں۔ قطعاً اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم کتنا بڑا ظلم کر رہے ہیں۔

آج بھی بڑے شہروں میں یہ صورت حال ہے کہ شاپر کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اور اگر آپ یہ فرمائش کریں کہ آپ کو شاپر نہیں چاہیے تو مجبوراً دکاندار آپ کو ایک کاغذ یا کپڑے کے تھیلے میں چیزیں ڈال کر دیتا ہے جس کی قیمت پچاس ساٹھ روپے سے کم نہیں ہوتی۔ ساتھ ساتھ فرمائش پوری کرتے ہوئے قہر آلود نظروں سے آپ کو دیکھتا بھی ہے۔ اکثر افراد چند روپے بچانے کی بدولت زہر خریدنا بہتر سمجھتے ہیں۔

ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ شاپر اور اس طرح کی پلاسٹک کی مضر اشیاء کو ناصرف قانونی طور پر ممنوع کریں۔ بلکہ ساتھ ساتھ اس کے بنانے والے کارخانوں اور استعمال کرنے والے تاجروں پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ پنجاب حکومت نے اس معاملے میں پہل کی ہے جو حد درجہ بہتر بات ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ انتظامی طورپر مبہم نفاذ کی بدولت اس پر مکمل کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔ یعنی ممنوع ہونے کے باوجود شاپر بن بھی رہے ہیں، بک بھی رہے ہیں اور ان میں اشیاء خورونوش فروخت بھی ہو رہی ہیں۔ شاپر کے کاروبار کو انسانی زندگی سے نکالنے کی ازحد ضرورت ہے۔ ہمیں یہ زہر خریدنا بند کرنا چاہیے۔