بلوچستان کے ساتوں شمالی اضلاع میں زندگی 24 ستمبر 2013ء کی سہ پہر چار بج کر 28 منٹ تک معمول کے مطابق چل رہی تھی، وقت آواران سے خضدار، نوشکی، گوادر اور کیچ تک صدیوں سے ٹھہرا ہوا ہے، لوگ آج بھی سورج دیکھ کر وقت کا تعین کرتے ہیں، آج بھی بھیڑ بکریاں اور اونٹ ان کے رزق کا واحد ذریعہ ہیں، یہ آج بھی ریڈیو کوکیمونیکیشن کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں، یہ آج بھی اس وقت تک ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے جب تک انھیں ملک الموت کھلی آنکھوں سے نظر نہ آئے، یہ آج بھی اجنبیوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں اور یہ آج بھی کھلے پائنچوں کی شلواریں پہنتے ہیں اور اونٹنی کے دودھ میں خشک روٹی بھگو کر کھاتے ہیں، آپ ان اضلاع میں جائیں تو آپ کو محسوس ہوگا سورج آفرینش کے ابتدائی لمحوں میں طلوع ہوااور اس کے بعد کبھی غروب نہیں ہوا اور یہ لوگ طوفان نوح سے پہلے کے زمانوں میں ٹھہر سے گئے، دنیا، زمانہ اور تاریخ کروٹیں لیتی رہی مگر یہ پہیے، گلہ بانی اور ہل کے زمانے سے آگے نہ جا سکے۔
بلوچستان میں زندگی آج بھی ہزاروں سال پرانی رفتار سے چلتی رہتی مگر پھر زمین کی تہوں میں دورنیچے دس کلو میٹر گہرائی میں ایک بھونچال نے انگڑائی لی، زمین کی تہیں ٹوٹیں، چٹانوں کے سینے شق ہوئے، مایع دھاتیں دائیں سے بائیں ہوئیں اور بلوچستان کے سات اضلاع زلزلے سے لرز اٹھے، چار بج کر 29 منٹ پر زلزلہ آیا، ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت سات اعشاریہ آٹھ تھی، زمین چند لمحوں کے لیے اڑن کھٹولہ بنی، تین لاکھ لوگوں نے کھلی آنکھوں سے قضا کو آسمان سے نیچے اترتے دیکھا، یہ کیفیت صرف آٹھ سیکنڈ رہی، جی ہاں صرف آٹھ سیکنڈ، آٹھ سکینڈ بعد زمین کے دل مضطرب کو قرار آ گیا مگر آواران سے کیچ تک اور خضدار سے گوادر تک دنیا بدل چکی تھی، شاہ اور گدا ایک ہو چکے تھے، سردار اور غلام دونوں کے گھر زمین کا پیوند بن چکے تھے اور امیر اور غریب دونوں کے اہل خانہ پناہ کی تلاش میں گلیوں اور بازاروں میں دیوانہ وار دوڑ رہے تھے، حویلی اور کچا کوٹھا دونوں زمین بوس ہوچکے تھے، میر اور میراثی دونوں دوسروں کی مدد کے محتاج تھے، وہ بھی جو دوسرے صوبوں کے لوگوں سے نفرت کرتے تھے اور وہ بھی جنھیں پاکستان کا محب سمجھ کر نفرت کا نشانہ بنایا جاتا تھا، وہ دونوں لاچار ہو چکے تھے، وہ دونوں بے بس تھے۔
یہ زلزلہ، آٹھ سیکنڈ کا یہ زلزلہ صرف زلزلہ نہیں تھا، یہ قدرت کا لائوڈ اور کلیئر پیغام تھا، یہ پیغام بتا رہا تھا، انسان کتنا ہی مضبوط، کتنا ہی لاتعلق اور کتنا ہی انا پرست کیوں نہ ہو جائے یہ قدرت کے آٹھ سیکنڈ کے فیصلے کی مار ہے، آٹھ سیکنڈ پورے خطے کا جغرافیہ بدل سکتے ہیں، امیروں کو غریب اور غریبوں کو غریب تر بنا سکتے ہیں، سرداروں کو لاچار اور لاچاروں کو بے بس بنا سکتے ہیں، یہ پیغام بتا رہا تھا، انسان انسان کا محتاج ہے اور انسان کی انا، انسان کی ضد کو کبھی اتنا بلند نہیں ہونا چاہیے کہ اسے دوسرے انسان دکھائی نہ دیں یا یہ ان کے وجود کا بیری ہو جائے یا یہ اپنی انا کو دوسروں کی عزت کا لہو پلانے لگے، انسان کو دکھ اور تکلیف کے وقت دوسرے انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم اگر دوسرے انسانوں کی طرف کھلنے والے دروازے بند کر دیں گے تو ہم پھر تنہا رہ جائیں گے اور تنہا انسانوں کے دکھ روگ بن جاتے ہیں، یہ پیغام بتا رہا تھا قومیں قدرتی آفتوں کو نہیں روک سکتیں، ہم بارشیں نہیں روک سکتے، ہم سونامی اور بحری طوفانوں کو باز نہیں رکھ سکتے، ہم زلزلے بھی نہیں روک سکتے اور ہم آسمان سے اترنے والی بلائوں کو بھی نہیں ٹال سکتے مگر قدرتی آفتوں کے بعد قوموں کا ریسپانس کیا ہوتا ہے۔
یہ ان قوموں کے مزاج، ان کی روایات، ان کی اخلاقیات اور ان کے ڈسپلن کا فیصلہ کرتا ہے، زلزلے کہاں نہیں آتے، جاپان میں ہرسال چار سے ساڑھے چھ ریکٹر اسکیل کے ہزار سے پندرہ سو زلزلے آتے ہیں، ہم اگر انھیں روزانہ پر تقسیم کریں تو تین سے چار زلزے روزانہ بنتے ہیں جب کہ جاپان میں چار ریکٹر اسکیل سے کم شدت کے زلزلے درجنوں کے حساب سے روزانہ آتے ہیں، گیارہ مارچ 2011ء کو جاپان میں انتہائی خوفناک سونامی آیا تھا، ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت نو درجے تھی، اس سونامی نے 10 میٹر اونچی لہریں پیدا کیں اور ان لہروں نے پورے جاپان کا انفراسٹرکچر برباد کر دیا، جاپان کی تمام بڑی پورٹس، تمام بڑی شاہراہیں، پل، ریل کا نظام اور ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن سسٹم ختم ہو گیا، ڈیڑھ لاکھ عمارتیں زمین بوس ہو گئیں، سات لاکھ عمارتیں تباہ ہو گئیں، 44 لاکھ گھر گر گئے، بجلی اور پانی کا نظام درہم برہم ہو گیا اور جاپان کے دو ایٹمی بجلی گھر بھی تباہ ہو ئے، اس سونامی میں جاپان کے پندرہ ہزار 8 سو نوے لوگ ہلاک ہو گئے، چھ ہزار زخمی ہوئے جب کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو کئی دن فٹ پاتھوں، سڑکوں اور شاپنگ سینٹروں کے برآمدوں میں گزارنا پڑے، عالمی بینک کے مطابق جاپان کا اس سونامی میں 235 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور یہ آج تک کی تاریخ میں آسمانی آفت کے ہاتھوں دنیا کا سب سے بڑا نقصان تھا مگر آپ جاپانی حکومت اور معاشرے کا ریسپانس ملاحظہ کیجیے۔
جاپانی حکومت نے سونامی کے بعد ہر قسم کی عالمی امداد لینے سے انکار کر دیا، جاپانی وزیراعظم ناٹوکان نے قوم اور عالمی برادری کو پیغام دیا ہم اپنے ملک کو خود بحال کریں گے، جاپانی قوم چار دن سڑکوں پر بیٹھی رہی مگر کسی نے کوئی دکان لوٹی اور نہ ہی خوراک اور پانی کے لیے چھینا جھپٹی کی، حکومت چند گھنٹوں میں تمام متاثرہ علاقوں تک پہنچی اور اس نے متاثرین کے لیے امدادی کارروائیاں شروع کر دیں اور ایک مہینے بعد، جی ہاں صرف ایک ماہ بعد جاپان میں حالات معمول پر آ چکے تھے جب کہ چار ماہ بعد جاپان کے تمام سسٹم دوبارہ ٹریک پر تھے، جاپان نے اس سونامی کے دوران محسوس کیا ایٹمی بجلی گھر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں چنانچہ حکومت نے ایٹمی بجلی گھر بند کرنا شروع کر دیے، حکومت نے آخری ایٹمی بجلی گھر 14 ستمبر 2013ء کو بند کر دیا اور بجلی کا سارا نظام اس دوران تھرمل اور ہائیڈرو سسٹم پر منتقل کر دیا لیکن ملک میں کسی جگہ لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی، جاپان نے سونامی کے باوجود نہ صرف چند ماہ میں اپنی تباہ حال ٹرانسمیشن لائنیں بحال کر لیں بلکہ پورا سسٹم متبادل نظام پر شفٹ کر لیا اور کسی شہری کو کسی قسم کی کوفت نہیں ہوئی جب کہ آواران کے زلزلے کے بعد ہماری حکومت 25 گھنٹے تک متاثرہ علاقوں تک نہیں پہنچ سکی، ہم آج تک متاثرہ علاقوں کا مواصلاتی رابطہ بحال نہیں کر سکے۔
ہم وہاں ڈاکٹرز، ادویات، پانی، خوراک اور خیمے نہیں پہنچا پارہے اور سیکیورٹی کی صورتحال یہ ہے آواران کے راستے میں ڈاکٹروں کی ٹیم پر راکٹ فائر کر دیا گیا جب کہ کل این ڈی ایم اے کے چیئرمین میجر جنرل سعید علیم اورجی او سی33 ڈویژن میجر جنرل سمریز سالک کے ہیلی کاپٹر پر بھی راکٹ داغ دیا گیا، لوگ زلزلے کا شکار ہونے کے باوجود علیحدگی پسندوں سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ یہ امدادی سامان لینے کے لیے تیار نہیں ہیں، انھیں خطرہ ہے فوج جب علاقے سے جائے گی تو علیحدگی پسند فوج اور امدادی ٹیموں سے ادویات، خیمے، کمبل اور خوراک لینے والوں کو گولی مار دیں گے، ہمیں آٹھ سیکنڈ کے زلزلے نے یہ پیغام بھی دے دیا ہمارے نظام ٹھیک نہیں ہیں، ہم فالٹ لائین پر ہیں مگر ہماری تیاری فالٹ لائین جیسی نہیں، ہماری نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے پاس پورے ملک کے نقشے ہی موجود نہیں ہیں، ان کے پاس ہنگامی روٹس ہی نہیں ہیں، آپ ہماری تیاری کا عالم ملاحظہ کیجیے۔
چاروں صوبوں میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے صوبائی دفاتر ہیں، یہ دفاتر پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی یا پی ڈی ایم اے کہلاتے ہیں، ان کا انچارج ڈائریکٹر جنرل ہوتا ہے مگر بلوچستان حکومت نے بلوچستان کے لیے ڈی جی ہی تعینات نہیں کیا تھا، 24 ستمبر کو زلزلہ آیا اور حکومت نے 25 ستمبر کو ڈی جی تعینات کیا، یہ ہماری تیاری تھی، یہ آٹھ سیکنڈ ہمیں یہ پیغام بھی دے گئے، ہمارے پاس فوج کے سوا کوئی ادارہ نہیں چنانچہ ملک میں آگ لگ جائے تو ہم فوج کو آگ بجھانے کی ذمے داری سونپ دیتے ہیں، سیلاب آ جائے، دہشتگردی شروع ہو جائے، کراچی کے حالات خراب ہو جائیں، الیکشن کرانے ہوں، ووٹر لسٹیں تیار کرانی ہوں، بچوں کو پولیو ویکسین پلانی ہو، بجلی کے میٹر چیک کرنے ہوں، ایکسیڈنٹ کے بعد زخمیوں کو اسپتال پہنچانا ہو، سکندر جیسے شخص سے نمٹنا ہو یا پھر زلزلہ زدگان تک پہنچنا ہو تو قوم فوج کی طرف دیکھنے لگتی ہے، باقی ادارے کہاں ہیں، یہ کیا کر رہے ہیں، آپ انتہا دیکھئے، وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک چار مہینے تک کابینہ نہ بنا سکے۔
رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ کابینہ کے بغیر چل رہا ہو، وزیراعلیٰ مشکل ترین گھڑی میں لندن میں بیٹھے ہوں، میر حاصل بزنجو اور اختر مینگل بھی ملک سے باہر ہوں اور فوج ان علاقوں میں زلزلہ زدگان کی مدد کر رہی ہو جہاں ریسکیو ٹیموں پر میزائل داغے جا رہے ہوں، کیا یہ سیاسی بے حسی، معاشرتی نالائقی اور نظام کی خرابی نہیں، یہ آٹھ سیکنڈ صرف آٹھ سیکنڈ نہیں تھے، یہ قوم کے لیے آئینہ تھے، یہ ہمیں ہماری اوقات اور ریاست کے کمالات بتا گئے ہیں، یہ ثابت کر گئے ہیں، ہم بحیثیت انسان چیونٹی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اور ہمارا نظام ریت کی ایک ایسی دیوار ہے جو مشکلات کی آندھی کی ایک پھونک برداشت نہیں کر سکتی، ہم اپنے آپ کو بھی سہارا نہیں دے سکتے مگر ہم اس کمزوری کے باوجود پورے عالم اسلام کے ٹھیکیدار ہیں، ہم امریکا، یورپ اور اسرائیل کو حکم دیتے ہیں تم اپنا قبلہ درست کر لو ورنہ ہم آ رہے ہیں۔
واہ کیا بات ہے ہماری۔