انسانی زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے؟ کوئی حقیقت ہے بھی یا نہیں؟ کیا انسان کو قدرت کی طرف سے دی گئی عقل، کائنات کی ہر رمز کو سمجھ سکتی ہے، اس کے متعلق وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ کائنات بلکہ ان گنت کائناتوں کاتسلسل، بندے کی فہم سے بالاتر ہے۔ قطعاً یہ عرض نہیں کر رہا کہ دلیل اور زمینی علوم سے مشکل ترین گتھیاں نہیں کھل پاتیں۔
بات صرف اتنی ہے کہ تمام گتھیاں سلجھ نہیں پاتیں۔ دراصل شعور کی جس سطح پر آج کے دور میں ہم موجود ہیں، سائنس کی مدد سے متعدد مشکل چیزوں پرعبور حاصل کیا جا چکاہے۔ مگر ہر چیز سائنس کے بس میں نہیں ہے۔ بلکہ درست الفاظ تو یوں ہیں کہ انسانی عقل ہر سطح پر کام کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ بذات خود سائنس کا طالب علم ہوں۔ ایم بی بی ایس بھی کر رکھا ہے۔ بچپن میں بھی سائنسی علوم پڑھتا رہا ہوں۔
مطلب یہ کہ دلیل اور منطق سے اردگرد کے ماحول کو دیکھتا ہوں۔ انسانی رویوں کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مشکل رموز، سمجھنے کی جدوجہد میں بھی مصروف رہتا ہوں۔ مگر اب ایسے معلوم ہوتا ہے کہ نہ میرے پاس کوئی علم ہے اور نہ ہی کوئی فہم۔ ایسے لگتا ہے کہ کسی معاملے کا کچھ بھی پتہ نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
چند دن پہلے، یوٹیوب دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک عالم کو تمام بزرگوں کے متعلق ہرزہ سرائی کرتے ہوئے پایا۔ نام نہیں لکھنا چاہتا۔ پھر کئی دن اس عالم کو غور سے سنتا رہا۔ تو یہ محسوس ہوا، کہ وہ کافی حد تک درست باتیں کر رہے ہیں۔ مگر اس کے بیانیے میں تضحیک ہی تضحیک تھی۔ انھیں حق حاصل ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق جو درست سمجھتے ہیں وہ ضرور فرمائیں۔ لوگوں کو جعلی پیروں، فقیروں اور پاکھنڈیوں سے دور رکھیں۔ مگر سوال حد درجہ دقیق اور سنجیدہ ہے۔
کیا ہر امر کو انسان اپنے علم اور عقل کے حساب سے دیکھ سکتا ہے، پرکھ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے اور پھر اس پر مکمل گرفت حاصل کر سکتاہے؟ جواب ہر شخص کا اپنا اپنا ہوگا۔ جس میں اس کی تربیت، تعلیم اور ایمان کے اجزاء، سب کچھ شامل ہے۔ مگر طالب علم کا ایک سائنسی سوال ہے۔ مگر اس کا کوئی سائنسی جواب نہیں ہے۔ انسانی آنکھ روشنی میں "سب کچھ" دیکھ لیتی ہے۔ میز کہاں پڑی ہے۔ کتابیں کہاں موجود ہیں۔ کمروں کے دروازے وغیرہ کدھر ہیں۔ گاڑی کہاں موجود ہے۔ سطحی چیزیں تو ساری نظر آ جاتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیاانسان، روشنی کی بدولت "سب کچھ" دیکھنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ فزکس کے حساب سے اس کاجواب مکمل نفی میں ہے۔ روشنی، سات مختلف رنگوں کی آمیزش ہے۔
یعنی محدود سے رنگ جب ملتے ہیں تو روشنی کا وجود ہوتا ہے۔ مگر کیا یہ جائز سوال نہیں، کہ کیا صرف کائنات میں صرف اور صرف سات رنگ ہیں۔ دلیل کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ کائنات میں ان گنت رنگ ہیں۔ بلکہ لا محدود رنگوں کی آمیزش ہے۔ سات رنگ تو حد درجہ محدود روشنی کو جنم دیتے ہیں۔ اگر ہم اپنے شعور کو صرف اس ناپائیدار روشنی تک محدود کر لیں۔ تو یہ شعور کی بھی توہین ہوگی۔ مگر کیا رب کائنات جس نے ہر چیز پیدا کی ہے۔
اس نے پوری بنی نوع انسان کو محض محدود Spectrumدیکھنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کا منطقی جواب یہ ہے کہ یہ سب کچھ، اللہ رب العزت کی طرف سے ودیعت ہے کہ وہ کس کو، کونسی روشنی دیکھنے کی قوت دیتا ہے اور یہ اختیار بھی اسی کا ہے کہ وہ جسے چاہے، کوئی بھی طاقت عطا کر دے۔ یعنی بصیرت کی حد کو کھول کر رکھ دے۔ آپ روشنی کے معاملے سے آگے بڑھیے تو معاملہ اور بھی کمزور معلوم پڑتا ہے۔ انسانی آنکھ حد درجہ پیچیدہ چیز ہے۔ ہماری بصارت، دو قدرتی اجزاء پر بنی ہے۔ جسے روڈز اور کونز کہا جاتا ہے۔ یعنی آنکھ میں روڈز اور کونز کی بدولت، ہم دیکھ پاتے ہیں۔ درست بات تو یہ ہے کہ ان دونوں اجزاء کی دیکھنے اور دکھانے کی قوت بھی حد درجہ کم ہے۔
یہ ہر وجود کو دیکھ ہی نہیں سکتی۔ یعنی موجودہ روشنی کے سات سے زیادہ اجزاء نہیں ہیں اور روڈز اینڈ کونز جو دکھا سکتے ہیں ان سے زیادہ ان کے مطابق مزید اشیاء وجود نہیں رکھتیں۔ اگر ہم اسی زاویے سے سوال کریں۔ تو اس کا جواب میری نظر میں سادہ سا ہے۔ روشنی کے اجزاء بھی ان گنت ہو سکتے ہیں اور روڈ اینڈ کونز کی طاقت بھی محدود سے لا محدود ہو سکتی ہے۔ یہ اختیار صرف اور صرف خدا اور قدرت کے پاس ہے۔ اس طاقت کو عقل اور دلیل کی بنیاد سے بڑھ کر بھی پرکھا جا سکتا ہے۔ خدا نے ان گنت مخلوقات ایسی پیدا کی ہیں۔ جو گھپ اندھیرے میں بالکل اسی طرح دیکھ سکتی ہیں جس طرح روشنی میں۔ صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ جو بات ہمیں سمجھ نہ آئے۔
ضروری نہیں کہ وہ غلط ہو، فراڈ ہو۔ من گھڑت حکایتوں کی بابت بھی بات کر رہا ہوں۔ مگر، حد درجہ محدود انسانوں کو خدا اگر اپنے حکم سے، نواز دیتا ہے اور وہ دنیا میں دین کی سربلندی کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ انسانی وجدان بھی ایک ذریعہ ابلاغ ہے۔ Metaphysicsپر غور کیجیے۔ یہ مضمون اب اعلیٰ ترین درسگاہوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس کی ساری جہتیں سمجھے بغیر، اس کو تسلیم کیا جا چکا ہے۔ دنیا کے متعدد سائنسدانوں نے Metaphysics کو تسلیم کیا ہے اور آج تک اس کی نفی نہیں ہو پائی۔ دراصل انسان، ہر بات سمجھنے کی اہلیت سے محروم رکھا گیا ہے۔ مگر بہت کم لوگ، چنے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ ان کاکوئی ذاتی کمال نہیں ہوتا، بلکہ قدرت ان کے لیے خاص اہتمام کرتی ہے۔ اس کیٹیگری میں بزرگان دین، ولی، صوفی اور دیگر برگزیدہ ہستیاں آتے ہیں۔
ضعیف العتقادی نہیں پھیلا رہا۔ مگر داتا گنج بخش، نظام الدین اولیا، بابا فرید، خواجہ اجمیری ہرگز ہرگز عام آدمی نہیں تھے۔ یہ خدا کے وہ نیک بندے تھے امریکانے اپنی محدود زندگی میں، اتنے بلند پایا کام کیے کہ صدیوں بعد بھی وہ زندہ و جاوید ہیں۔ اگر روحانی اعتبار سے ہم ان کو سمجھ نہیں سکتے تو ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ ان کے متعلق منفی رویہ رکھیں۔ عقل اور دلیل کی حد درجہ محدود سی قوت میں نے تھوڑی دیر پہلے عرض کر دی ہے۔
توازن سے سوچئے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسے واقعات ضرور ہوتے ہیں جو وہ سمجھ نہیں پاتا ان کی کوئی توجیہہ بھی نہیں ہوتی۔ طالب علم کی زندگی میں بھی ایسے پیہم تجربات وقوع پذیر ہوئے ہیں جن کا کوئی استدلال نہیں ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ہوائی جہاز کا حادثہ ہوتا ہے، سب مسافر مارے جاتے ہیں مگر ایک شخص، ہاں صرف ایک شخص اپنی کرسی سمیت، جہاز سے یوں باہر نکال لیا جاتا ہے کہ اسے کوئی خراش تک نہیں آتی۔ کوئی قصہ نہیں سنا رہا۔ یہ واقعہ چند برس پہلے، ہمارے ملک کے اندر ہی ہوا ہے۔
اس خوش نصیب شخص سے پوچھا گیا کہ سب کچھ کیسے ہوا تو جواب حد درجہ حیرت انگیز تھا۔ بتایا کہ میں بے ہوش ہو چکا تھا آخری آواز جو مجھے اندر سے گونجتی ہوئی سنائی دی وہ صرف ایک تھی کہ ابھی تمہارا وقت نہیں آیا۔ یہ شخص کوئی ان پڑھ انسان نہیں تھا بلکہ پنجاب کے ایک بینک میں اعلیٰ ترین عہدے دار تھا۔
اب اس واقعہ کو آپ دلیل کی روشنی میں کیسے سمجھائیں گے۔ اس طرح کے متعدد واقعات ہوتے ہیں جہاں قدرت اپنا وہ رنگ دکھاتی ہے جو انسانی عقل سوچ بھی نہیں سکتی۔ جو لوگ انسانوں پر خدا کی خصوصی مہربانیوں کا انکار کرتے ہیں، میرا ان سے سوال ہے کہ اس حادثہ میں صرف ایک انسان کے بچنے کی عقلی دلیل عطا فرمائیں۔ وہ مسافر آج بھی زندہ ہے اور آپ لاہور میں اس سے خود مل بھی سکتے ہیں۔
گزارش ہے کہ ہمارے بزرگوں اور ولیوں کا ٹھٹھہ مت اڑائیے۔ اس رویہ سے کروڑوں مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے اور پھر محدود زاویہ سے، لا محدود کو سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ برصغیر پاک و ہند بلکہ پوری دنیا میں خد ا کے برگزیدہ بندے موجود تھے، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ اگر ہم روحانیت اور سلوک کی جزئیات کو سمجھ نہیں پاتے یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ تو پھر ہمیں یہ اختیار قطعاً حاصل نہیں ہے کہ ہم ان بلند پایہ لوگوں کے متعلق ہتک آمیز رویہ رکھیں۔
ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ ان سے منسوب تمام واقعات، صرف اور صرف حکایتیں اور کہانیاں ہیں۔ ان میں سچ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ اگر آپ کسی بزرگ کے ایک معاملہ کو رد کرتے ہیں تو آپ اپنی حد تک تو ٹھیک ہیں۔ مگر ان کی عامیانہ تضحیک سے ان گنت لوگ دکھی ہوتے ہیں۔ جو اچھی بات نہیں ہے۔ ہمارے خطے میں اسلام پھیلانے والے بزرگوں نے حد درجہ مشقت کی ہے۔
خدا کے حکم سے انھوں نے دین کی روشنی ان گنت لوگوں کے دلوں میں منور کی ہے۔ ان بزرگوں کے بلند پایہ کام کو آپ صرف دلیل کی روشنی میں پرکھ نہیں سکتے۔ ایسا کرنا بھی نامناسب ہے۔ آخر میں صرف یہ عرض کروں گا کہ عقل اور دلیل، زندگی کی ہر گتھی کو سلجھا نہیں سکتی!