سوشل میڈیا کی گلیوں میں دل پشوری کرنے کے عادی ہوئے مجھ ریٹائرڈ رپورٹر کو علم ہی نہ ہوا کہ اسلام آباد میں ایک اہم عالمی اجتماع ہورہا ہے۔ 11 اور 12جنوری کو منعقد ہوئے اجتماع میں بنیادی طورپر تین موضوعات پر مختلف سیشن ہوئے۔ ان کے ذریعے مسلم ممالک اور آبادیوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف رویوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش ہوئی۔ معاشرتی بھلائی اور قومی ترقی میں خواتین کی تعلیم کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے علاقائی اور عالمی سطح پر درکار حکمت عملی تشکیل دینے پر بھی توجہ مرکوز ہوئی۔
مذکورہ کانفرنس کے حوالے سے اہم ترین خبر، میری دانست میں وہاں ملالہ یوسف زئی کی شرکت تھی۔ آج سے پندرہ سال قبل جب حسین وادیِ سوات انتہا پسندوں کی گرفت میں تھی تو ملالہ نے سوشل میڈیا پر جرأت مندانہ بلاگ لکھتے ہوئے عورتوں کی تعلیم کے دشمنوں کو للکارا تھا۔ دہشت گردوں نے مشتعل ہوکر اس کی جان لینے کی کوشش کی۔ ربّ کا صد شکر کہ وہ بچ گئی۔ پاکستان میں رہنا مگر اس کے لیے ناممکن ہوگیا۔ بیرون ملک منتقل ہوکر فروغ تعلیم کی اساطیری علامت بن گئی۔ اسے نوبل پرائز بھی ملا۔
نہایت دُکھ کے ساتھ میں آج بھی یہ حقیقت یاد کرنے کو اکثر مجبور ہوجاتا ہوں کہ جن دنوں ملالہ پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تو اسلام آباد میں مقیم کئی روشن خیال، تصور ہوتی خواتین بھی اکثر میرے ساتھ سماجی محفلوں میں تکرار کرتیں کہ ملالہ کے ساتھ ہوا واقعہ درحقیقت سی آئی اے وغیرہ کا فالس فلیگ آپریشن، تھا۔ مقصد اس کا سوات میں فوجی کارروائی کا جواز فراہم کرنا تھا۔ زیادہ دُکھ مجھے اس وجہ سے بھی ہے کہ میرے ساتھ بحث میں الجھنے والی روشن خیال، خواتین کے ساتھ سوات سے آبائی تعلق رکھے والی کچھ خواتین بھی مل جاتیں۔ وہ مصررہتیں کہ ملالہ اپنے تئیں اس قابل نہیں تھی کہ فروغِ تعلیم کے نام پر طالبان کو اشتعال دلانے والے بلاگ لکھے۔ شہرت کی تلاش، میں ایسے خیالات ملالہ کے والد کی جانب سے لکھے جانے کی داستان سنائی جاتی۔ میری یہ التجا کوئی سننے کو آمادہ ہی نہ ہوتا کہ بہرحال ملالہ پر حملہ کرنے والے جانے پہچانے دہشت گرد تھے اور حملے کے بعد وہ کئی دنوں تک جان بلب رہی ہے۔
بہرحال مسلم ورلڈ لیگ کے تعاون سے ہماری وزارت تعلیم نے مذکورہ کانفرنس کا اہتمام کیا۔ ہفتے کے دن اس کے اجلاس میں شرکت کے بعد ایک مہربان خاتون ہمارے ایک دوست کے ہاں کھانے پر آئیں۔ وہ غیر ملکی ہیں اور ایک پاکستانی دوست سے بیاہ کے بعد گزشتہ کئی برسوں سے اسلام آباد ہی میں رہتی ہیں۔ یہاں کے غریبوں کی فلاح وبہبود کے لیے قائم اداروں کی دل کھول کر مدد کرتی ہیں۔ وہ مذکورہ کانفرنس کے انعقاد سے بہت خوش تھیں۔ ان کی دانست میں وہاں کے ایک سیشن سے ایک معروف عالم کا خطاب ا نتہائی مؤثر تھا۔ غالباً اس عالم کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ انھوں نے کلامِ پاک کے بے شمار حوالے دیتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اسلام خواتین کو تعلیم کے حصول سے ہرگز نہیں روکتا۔ ہر مسلمان کو صنفی تمیز کے بغیر بلکہ ز یادہ سے زیادہ علم کے حصول کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ خاتون حیران تھیں کہ پاکستان میں تین دہائیوں سے قیام کے باوجود وہ عورتوں کی تعلیم کے حق میں ایسے جاندار دلائل سننے سے محروم رہیں۔
کوئی موضوع چھڑجائے تو ہم پاکستانی اس کے بارے میں کج بحثی میں الجھنے سے باز نہیں رہتے۔ ہمارے ایک گروہ میں بحث یہ چھڑگئی کہ یہ ثابت کرنا لاحاصل ہے کہ اسلام عورتوں کی تعلیم کا حامی نہیں۔ اصل مسئلہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی سوچ ہے۔ وہ اگر بچیوں کی تعلیم کے حامی ہوں تو خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی۔ اس ضمن میں ایران کا خصوصاً ذکر ہوا۔ وہاں قدامت پرست ملا، اصل حاکم تصور ہوتے ہیں۔ خواتین میں اعلیٰ سطحی تعلیم کا تناسب مگر اس ملک میں شاندار حد تک مثالی ہے۔ بنگلہ دیش بھی ہم جیسا ملک ہونے کے باوجود خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ہم سے کہیں آگے ہے۔
کھانے کی محفل میں شریک اپنے دو صحافی دوستوں کے ساتھ مل کر لیکن میں یہ سوچنا شروع ہوگیا کہ مسلمانوں کی ایک عالمی تنظیم کی جانب سے پاکستان سمیت کئی دیگر ملکوں کی معاونت سے اسلام آباد میں خواتین کی تعلیم کی حمایت میں کانفرنس کا انعقاد ان دنوں، کیوں ہورہا ہے۔ اس کا مقصد کہیں افغانستان کو یہ پیغام دینا تو مقصود نہیں کہ اسے عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے اپنے رویے کو بدلنا ہوگا۔ قابل اعتماد ذرائع بتارہے ہیں کہ افغانستان کو بھی مذکورہ کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ وہاں کا وزیر تعلیم مگر ہفتے کے روز شروع ہوئی کانفرنس میں شامل نہیں ہوا۔ اس کانفرنس میں ملالہ یوسف زئی کی موجودگی بھی انتہا پسند طالبان کی نگاہ میں کھٹکے گی۔
پاک-افغان تعلقات ان دنوں مخاصمانہ ہورہے ہیں۔ چند روز قبل پاکستان کو افغانستان میں موجود ان دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں، پر فضائی حملے کرنا پڑے جو پاکستان درآنے کے بعد مختلف دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ طالبان نے ان حملوں کو اپنی خودمختاری للکارنے کے برابر ٹھہرایا۔ یہ الزام بھی لگایا کہ ہمارے فضائی حملوں کی بدولت دہشت گرد، نہیں بلکہ خواتین اور بچے، ہلاک ہوئے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ طالبان کی جانب سے پاکستان کے فضائی حملوں کے خلاف بیان آگیا تو بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان سے بھی ان کے بارے میں استفسار ہوا۔ اپنی صحافتی زندگی کے 30برس خارجہ امور پر رپورٹنگ کی نذر کرنے کے بعد میں جبلی طورپر پلانٹ، ہوئے سوالات کی حقیقت جان لیتا ہوں۔ بہرحال سوال ہوا تو بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے طالبان کی جانب سے پاکستان کے فضائی حملوں کے خلاف استعمال ہوئے الفاظ من وعن دہرادیے۔ بات یہاں تک محدود نہیں رہی۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے آئے بیان کے دو یا تین دن بعد دبئی میں بھارتی وزارت خارجہ کے سیکرٹری کی طالبان کے وزیر خارجہ سے ملاقات ہوگئی۔ بھارت اور طالبان اب غالباً ایک دوسرے کے بھائی-بھائی، ہونے کے چکر میں ہیں۔
1980ء کی دہائی سے ہمیں تواتر سے بتایا جارہا تھا کہ پاکستان کی افغان جہاد، میں شرکت کا حتمی ہدف Strategic Depthکا حصول ہے۔ اردو میں اسے تزویراتی گہرائی کہتے ہیں اور میں جاہل ابھی تک تزویراتی کا مطلب ومفہوم ہی سمجھ نہیں پایا ہوں۔ بہرحال پاکستان کے دفاع کو مضبوط تر بنانے کے لیے افغانستان میں جو گہرائی تلاش کی جارہی تھی اس کے دن تمام ہوئے۔ اسلام آباد میں خواتین کی تعلیم پر اصرار کرتی کانفرنس اور وہاں ملالہ کی موجودگی کابل پر حکمران ہوئے ہمارے دوستوں کو ہرگز پسند نہیں آئے گی۔