Thursday, 28 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Ahtiat Zaroori Hai

    Ahtiat Zaroori Hai

    ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین شدید علیل ہیں لیکن علالت کے باوجود انھیں منگل تین جون کی صبح ساڑھے پانچ بجے ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا گیا، الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا، کیا یہ الزام درست ہے یا پھر ایم کیو ایم کے موقف کے مطابق قائد تحریک کو "عالمی اسٹیبلشمنٹ" جان بوجھ کر پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے، ہمیں یہ جاننے کے لیے تھوڑا سا ماضی میں جانا پڑے گا۔

    یہ کہانی 2010ء میں شروع ہوتی ہے، کراچی کے شہری محسن علی سید نے لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز میں داخلہ لیا، کراچی کے ایک بزنس مین معظم علی خان نے محسن کو ویزے کے لیے سپانسر کیا تھا، محسن علی سید 2010ء کے شروع میں لندن چلا گیا، کالج کی انتظامیہ اور اساتذہ محسن علی سید کی پراگریس سے مطمئن تھے، یہ ستمبر کی 16 تاریخ تک لندن میں رہا پھر یہ اچانک غائب ہو گیا، یہ کہاں چلا گیا، یہ معمہ بعد ازاں اسکاٹ لینڈ یارڈ نے حل کیا، 16 ستمبر 2010ء کو ایم کیو ایم کے بانی کارکن اور لیڈر ڈاکٹر عمران فاروق کو ان کے گھر کے سامنے قتل کر دیا گیا۔

    ڈاکٹر عمران فاروق ساڑھے پانچ بجے شام گھر واپس آ رہے تھے، یہ لندن کے مل ہل کے علاقے میں رہتے تھے، کونسل نے اس علاقے میں سیاسی پناہ گزینوں کے لیے بھی ایک کمپائونڈ بنا رکھا ہے، اس کمپائونڈ میں چار پانچ بلاک ہیں، ہر بلاک میں دو تین فلیٹس ہیں، ڈاکٹر عمران فاروق اس کمپائونڈ کے پہلے بلاک میں رہتے تھے، ان کا گھر بالائی منزل پر تھا، یہ مین سڑک سے کمپائونڈ میں آتے تھے، بلاک کے پیچھے جاتے تھے اور سیڑھیاں چڑھ کر گھر میں داخل ہو جاتے تھے، 16 ستمبر کو قاتل سیڑھیوں کے نیچے چھپے بیٹھے تھے، یہ جوں ہی سیڑھیوں کے قریب پہنچے، قاتلوں نے چھریوں اور اینٹوں سے ان پر حملہ کر دیا، قاتل ڈاکٹر صاحب کو قتل کرنے کے بعد وہاں سے بھاگ گئے، یہ لوگ وہاں سے کسی خفیہ مقام تک پہنچے، اپنے خون آلود کپڑے تبدیل کیے، ہیتھرو ائیر پورٹ آئے اور لندن سے سری لنکا چلے گئے۔

    ڈاکٹر عمران فاروق کے کمپائونڈ میں موجود ایک گھر کی کھڑکی سے ایک خاتون قتل کا منظر دیکھ رہی تھی، اس نے میٹرو پولیٹن پولیس کو فون کر دیا، خاتون نے پولیس کو بتایا قاتل دو تھے، خاتون نے قاتلوں کے حلیے بھی بتائے، پولیس نے ڈاکٹر عمران فاروق کی آمد و رفت کی چھ ماہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوائی، فوٹیج کا تجزیہ کیا تو پتہ چلا چھ ماہ میں کئی بار ایک پاکستانی نوجوان ڈاکٹر صاحب کا پیچھا کرتا ہوا نظر آیا، یہ ڈاکٹر صاحب کے پیچھے ان کے گھر تک آتا تھا، اس نوجوان کا حلیہ قاتل کے حلیے سے میچ کر گیا، پولیس نے نوجوان کی تصویر ریکارڈ میں موجود تصویروں سے ملائی تو پتہ چلا نوجوان کا نام محسن علی سید ہے، یہ اسٹوڈنٹ ویزے پر لندن آیا اور یہ لندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز کا طالب علم ہے، پولیس کالج پہنچ گئی۔

    کالج کے ریکارڈ کی پڑتال کے دوران پولیس دوسرے قاتل تک بھی پہنچ گئی، اس کا نام کاشف خان کامران یا کامران خان کاشف تھا، یہ یکم ستمبر 2010ء کو کالج پہنچا تھا، اس کا سپانسر بھی معظم علی خان تھا اور یہ بھی کراچی کا رہنے والا تھا اور اس کی عمر 34 سال تھی، یہ دو ہفتے بعد محسن علی سید کے ساتھ غائب ہو گیا، فلائیٹس اور امیگریشن کا ریکارڈ نکالا گیا، پتہ چلا یہ دونوں واردات کے بعد سری لنکا روانہ ہو گئے اور ان کی اگلی منزل کراچی ہے، برطانوی حکومت نے پاکستانی حکومت کو دونوں کی تصاویر اور کراچی آمد کی اطلاع کر دی۔

    یہ کیس اس دوران اسکاٹ لینڈ یارڈ تک پہنچ گیا، اسکاٹ لینڈ یارڈ نے دونوں قاتلوں کے موبائل فونز کا ڈیٹا نکالا، یہ دونوں ایک تیسرے پاکستانی شہری افتخار حسین سے رابطے میں پائے گئے، قتل سے پہلے اور قتل کے بعد تینوں کی لوکیشن بھی ایک آ رہی تھی، پولیس نے افتخار حسین کے خلاف تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا یہ الطاف حسین کے رشتے دار ہیں۔ پولیس نے تفتیش کے دوران افتخار حسین کے گھر کی تلاشی لی، گھر سے غیر قانونی رقم نکل آئی، افتخار حسین اس رقم کے بارے میں پولیس کو مطمئن نہیں کر سکے، ان کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا، رقم کی برآمدگی کے بعد اسکاٹ لینڈ یارڈ کا کائونٹر ٹیررازم اسکواڈ متحرک ہو گیا، اس نے6 دسمبر 2012ء کو ایم کیو ایم کے دفتر اور 18 جون 2013ء کو الطاف حسین کی رہائش گاہ کی تلاشی لی۔

    دفتر اور گھر دونوں جگہوں سے لاکھوں پائونڈ نکل آئے، ہم اگر الطاف حسین کے گھر، دفتر اور افتخار حسین کے گھر سے نکلنے والی دولت جمع کریں تو یہ پونے سات لاکھ پائونڈ بنتے ہیں، برطانوی قانون کے مطابق یہ رقم غیر قانونی تھی، پولیس نے الطاف حسین کے خلاف تفتیش شروع کر دی، لندن میں موجود ایم کیو ایم کے کارکنوں اور دفتر میں کام کرنے والے کارندوں کے انٹرویو شروع ہو گئے، اس سے قبل محسن علی سید اور کاشف خان کامران کراچی ائیر پورٹ سے گرفتار ہو گئے، پاکستان کے خفیہ اداروں نے کراچی ائیر پورٹ کے احاطے سے خالد شمیم نام کا ایک ٹارگٹ کلر بھی گرفتار کیا۔ اس شخص نے انکشاف کیا "میں نے محسن علی سید اور کاشف خان کامران کو ائیر پورٹ سے نکلنے کے بعد قتل کرنا تھا"۔

    یہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دور تھا، رحمن ملک وزیر داخلہ تھے، یہ تینوں لوگ وزارت داخلہ کے ماتحت اداروں کی حراست میں تھے، اسکاٹ لینڈ یارڈ اڑھائی برس تک دونوں ملزمان کی حوالگی کا مطالبہ کرتی رہی لیکن رحمن ملک انھیں ٹالتے رہے، مئی 2013ء میں نئی حکومت بنی تو یہ دونوں ممکناً قاتل نئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو "ہینڈ اوور" ہو گئے۔

    اسکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے ان کی حوالگی کی بار بار درخواست آ نے لگی، مارچ میں برطانیہ میں موجود ایک ذریعے نے میرے سامنے اعتراف کیا " چوہدری نثار نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو ان لوگوں تک رسائی دے دی ہے، برطانیہ سے چند اعلیٰ تفتیشی عہدیدار پاکستان آئے اور ان لوگوں کا انٹرویو لے کر واپس چلے گئے" میں نے ان سے پوچھا " حکومت ان دونوں کو برطانیہ کے حوالے کیوں نہیں کرتی" ان کا جواب تھا " حکومت کو ابھی تک یقین نہیں آیا یہ دونوں لوگ اصل مجرموں کی سزا کا ذریعہ بن جائیں گے۔

    حکومت کو خدشہ ہے ایسا نہ ہو یہ دونوں ہمارے ہاتھ سے بھی نکل جائیں اور عمران فاروق کے قاتل بھی بچ جائیں چنانچہ حکومت اس دن تک ان لوگوں کو اپنی دسترس میں رکھے گی جب تک اسے قاتلوں کی گرفتاری اور سزا کا یقین نہیں ہو جاتا" مجھے کل ایک صاحب نے بتایا " حکومت ان لوگوں کو برطانیہ کے حوالے کر چکی ہے اور اگر یہ لوگ تاحال برطانیہ نہیں پہنچے تو یہ کسی بھی وقت پہنچ جائیں گے"۔

    لندن میں اس دوران ایک تیسری کارروائی بھی شروع ہو گئی، الیکشن 2013ء کے اگلے دن پی ٹی آئی کے کارکنوں نے تین تلوار پر دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا، الطاف حسین نے اس دن اپنے کارکنوں سے خطاب کیا، پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اس تقریر کے خلاف اسکاٹ لینڈ یارڈ میں درخواست دائر کر دی، اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ہیڈ کوارٹر میں نفرت انگیز تقریروں کے خلاف پانچ ہزار شکایات درج ہوئیں اور ان پر بھی کارروائی شروع ہو گئی یوں اسکاٹ لینڈ یارڈ نے منگل تین جون کی صبح الطاف حسین کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا، یہ علیل ہیں، پولیس نے انھیں اسپتال میں داخل کرا دیا تاہم یہ پولیس کی حراست میں ہیں، الطاف حسین کی گرفتاری نے کراچی اور حیدر آباد کی سماجی اور سیاسی زندگی میں بھونچال پیدا کر دیا۔

    ہمارے پاس معاملات کے تجزیے کا ایک آسان ترین طریقہ موجود ہے، ہم تفتیش اور برطانوی عدالتوں کے فیصلوں سے قبل الطاف حسین کو "مجرم" قرار دے دیں، ہم میڈیا کے لوگوں نے ماضی میں ایسی بے شمار غلطیاں کیں لیکن میرا خیال ہے ہمیں اب یہ روش بھی تبدیل کرنی چاہیے، الطاف حسین گرفتار ہیں، ہمیں برطانوی قانون اور جسٹس سسٹم کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے، ہمیں فیصلے سے پہلے فیصلہ جاری نہیں کرنا چاہیے، ہماری طرف سے احتیاط لازم ہے کیونکہ ایم کیو ایم بہرحال ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور اس کے کارکن اپنے قائد سے والہانہ محبت کرتے ہیں، ہمیں اس محبت کا احترام کرنا چاہیے، یہ اخلاقیات کا تقاضا بھی ہے، قانون کا بھی، انصاف کا بھی اور سمجھ داری کا بھی لہٰذا آپ بھی انتظار کیجیے اور میں بھی انتظار کرتا ہوں۔

    About Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.