چندی گڑھ اسلام آباد کی طرح ایک منظم اور خوبصورت شہر ہے، یہ شہر ہریانہ اور پنجاب دو صوبوں کا مشترکہ دارالحکومت ہے چنانچہ اس شہر میں بیک وقت دو وزیراعلیٰ اور دو گورنرز ہوتے ہیں، شہر اسلام آباد کی طرح سیکٹرز میں تقسیم ہے، اسلام آباد کے سیکٹرز اے سے زیڈ کی طرف بڑھ رہے جب کہ چندی گڑھ کے سیکٹرز ایک سے سو کی طرف جا رہے ہیں، ہمارے دارالحکومت کے سب سیکٹرز ایک، دو، تین اور چار ہوتے ہیں جب کہ اس کے تمام سیکٹرز اے، بی، سی اور ڈی میں تقسیم ہیں، یہ شہر ابھی تک 53 سیکٹرز تک پہنچا ہے، اس کے ہر سب سیکٹر میں ہزار مکان ہوتے ہیں، اس کا سب سیکٹر جوں ہی ہزار کی تعداد کو عبور کرتا ہے، یہ اے سے بی ہو جاتا ہے، ہر سیکٹر کا اپنا کمرشل ایریا ہے، یہ کمرشل ایریا مارکیٹ کہلاتا ہے، اسلام آباد کی طرح چندی گڑھ میں بھی ستارہ مارکیٹ ہے لیکن یہ ستارہ ستارے والا ستارہ نہیں، یہ سیکٹر سترہ کی مارکیٹ ہے، سترہ کو پنجابی میں "ستاراں " کہتے ہیں لہٰذا یہ مارکیٹ "ستاراں مارکیٹ" ہو گئی، اسلام آباد جس طرح مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں آباد ہے، یہ شہر اسی طرح ہماچل پردیش کی پہاڑیوں کے ہمسائے میں آباد ہے، تاہم یہ پہاڑیوں سے ذرا فاصلے پر ہے، آپ کو پہاڑیوں تک پہنچنے میں گھنٹہ لگ جاتا ہے لیکن آپ شہر میں کھڑے ہو کر پہاڑیوں کا سایہ ضرور دیکھ سکتے ہیں۔
شہر میں چنار کے ہزاروں درخت ہیں، ان درختوں کے پتے خزاں میں سرخ ہو جاتے ہیں، آپ خزاں میں چندی گڑھ کو دیکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پورے شہر میں آگ لگی ہے، خزاں کے علاوہ یہ شہر پورا سال سبز دکھائی دیتا ہے، آپ شہر کے کسی فٹ پاتھ سے گزریں، آپ کو وہاں دھوپ نہیں ملے گی، آپ کے سر پر درخت سایہ کناں رہیں گے اور آپ سائے میں چلتے چلتے پورا شہر عبور کر جائیں گے، شہر میں سلیقہ بھی ہے، صفائی بھی، خوش حالی بھی اور نظم و ضبط بھی۔
گاڑیاں اوور اسپیڈ نہیں ہوتیں، سیٹ بیلٹ باندھنا ضروری ہے، اشارہ توڑنے والے کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، آپ کو پورے شہر میں کسی جگہ پولیس نظر نہیں آتی مگر کسی بھی ہنگامی صورتحال میں پولیس آپ سے پانچ منٹ کے فاصلے پر ہوتی ہے، شہر میں داخلے اور خروج کے راستے متعین ہیں، انتظامیہ پانچ منٹ میں پورے شہر کو سیل کر سکتی ہے، ٹرانسپورٹ سسٹم اچھا ہے، بسیں پرانی ہیں، انتظامیہ انھیں نئی بسوں میں تبدیل کر رہی ہے، لوگ خوشحال ہیں، پراپرٹی اسلام آباد سے زیادہ مہنگی ہے، لوگ اس شہر کو ریٹائرڈ اور فارغ البال لوگوں کا ٹاؤن کہتے ہیں، پنجاب کے خوشحال لوگ کاروبار دوسرے شہروں میں کرتے ہیں لیکن رہتے چندی گڑھ میں ہیں، شہر میں انڈسٹری نہیں، جالندھر اور ہریانہ انڈسٹریل ااسٹیٹس ہیں، شہر میں شاپنگ سنٹروں کی بہتات ہے، مالز بھی بن رہے ہیں، موہالی چندی گڑھ سے آدھ گھنٹے کی مسافت پر ہے، یہ شہر چندی گڑھ کا بزنس حب بن چکا ہے، موہالی میں ہائی رائز بلڈنگز ہیں، مالز ہیں، سینما ہیں اور اسٹیڈیم ہے، موہالی اسٹیڈیم پوری دنیا میں مشہور ہے، شملہ اس سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے، پٹیالہ ایک گھنٹے دور جب کہ امبالہ، کرنال اور پانی پت دو اڑھائی گھنٹے کے فاصلے پر ہیں۔
بھارت میں پچھلے بیس برسوں میں ایک دلچسپ روایت نے جڑ پکڑ لی ہے، بھارت کی تمام ریاستیں کسی ایک علاقے، کسی ایک شہر کو جدید بنانے کی کوشش میں جت جاتی ہیں، یہ اس شہر کو ٹیکس فری اسٹیٹس دے دیتی ہیں، اس شہر میں انتہائی جدید انفراسٹرکچر بنایا جاتا ہے، موٹر ویز بنائے جاتے ہیں، فلیٹس کی جدید ترین عمارتیں بنائی جاتی ہیں، انڈسٹریل زون بنائے جاتے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ کا جدید نظام وضع کیا جاتا ہے، دفاتر کی جدید بلڈنگز بنائی جاتی ہیں اور مالز، سینما اور کلب بنائے جاتے ہیں، یہ جدید ترین شہر بڑے شہروں کی بغل میں بنائے جاتے ہیں، اس کے دو فائدے ہوتے ہیں، ایک، ریاست میں سرمایہ آتا ہے، دو، بڑے شہر سے دباؤ کم ہو جاتا ہے، موہالی کو چندی گڑھ میں یہی حیثیت حاصل ہے، یہ چندی گڑھ کا ہمسایہ بھی ہے اور اس نے اس کا بوجھ بھی اٹھا رکھا ہے، اس کی وجہ سے چندی گڑھ میں امن ہے۔
مجھے موہالی میں گھومتے ہوئے علامہ اقبال کی اٹلی کے آمر اور حکمران مسولینی سے تاریخی ملاقات یاد آ گئی، علامہ اقبال نومبر1931ء میں مسولینی سے ملے، ملاقات کے دوران مسولینی نے علامہ اقبال سے عجیب سوال پوچھا، اس نے کہا " آپ اپنے رسولؐ کی کوئی ایسی بات بتائیں جو مجھے حیران کر دے" علامہ اقبال مسکرائے اور جواب دیا "ہمارے رسولؐ نے فرمایا تھا، آپ اگر شہروں میں امن قائم رکھنا چاہتے ہیں تو آپ ان کی آبادی ایک خاص حد سے نہ بڑھنے دیں، شہر جوں ہی اس حد کو چھونے لگیں آپ اس شہر کے ہمسائے میں نیا شہر آباد کر دیں، یہ نیا شہر پرانے شہر کا دباؤ کم کر دے گا اور یوں اس شہر میں امن رہے گا" یہ بات سن کر مسولینی حیران رہ گیا، وہ دیر تک سرمستی کے عالم میں سردھنتا رہا اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، اٹلی میں کسی شہر کی آبادی ایک خاص حد سے زیادہ نہیں بڑھی، وہاں آبادی بڑھنے سے قبل نیا شہر آباد کر دیا جاتا ہے، بھارت بھی اسی نقش قدم پر چل رہا ہے، یہاں بھی بڑے شہروں کے گرد نئے اور جدید شہر آباد ہو رہے ہیں، دہلی کے گرد چار انتہائی جدید اور خوبصورت شہر آباد ہیں، گڑ گاؤں، نائیڈا، گرینڈ نائیڈا اورفرید آباد۔
یہ یورپی اسٹینڈرڈ کے جدید ترین شہر ہیں، موہالی چندی گڑھ کا نائیڈا ہے، یہ بھی جدید اور خوبصورت شہر ہے، ہم نے بھی اگر اس اسپرٹ سے کام کیا ہوتا تو آج ہمارے بڑے شہروں میں لاء اینڈ آرڈر، انفراسٹرکچر اور پولوشن کے ایشوز نہ ہوتے، پاکستان میں آج امن ہوتا، قیام پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی دو لاکھ تھی، یہ دو لاکھ لوگ پانچ کلومیٹر کے علاقے میں رہائش پذیر تھے۔
آج کراچی کی آبادی دو کروڑ کا فیگر عبور کر چکی ہے، دنیا کے 96 ممالک آبادی میں کراچی شہر سے چھوٹے ہیں، آپ دلچسپ حقیقت ملاحظہ کیجیے، ان دو کروڑ لوگوں کا پچانوے فیصد اسی پانچ کلو میٹر کی حدود میں رہائش پذیر ہے جس میں آزادی کے وقت دو لاکھ لوگ رہتے تھے، لاہور کی آبادی 1947ء میں اڑھائی لاکھ تھی، یہ شہر اب 80 لاکھ عبور کر رہا ہے اور اسلام آباد اسی ہزار لوگوں کے لیے بنا تھا، اس کی آبادی پندرہ لاکھ تک پہنچ چکی ہے، ہم اگر ان شہروں کے گرد نئے شہر آباد کرتے، نئے اضلاع بناتے رہتے تو آج ان شہروں میں وسائل کی کمی بھی نہ ہوتی، انفرا سٹرکچر پر بھی دباؤ نہ ہوتا، نوکریوں کے مسائل بھی پیدا نہ ہوتے اور جرائم بھی کنٹرول میں رہتے لیکن ہم نے کیونکہ اس مسئلے پر توجہ نہیں دی چنانچہ آج ہمارے تمام شہر دباؤ میں ہیں، پچھلے بیس برسوں میں پرائیویٹ سیکٹر ہاؤسنگ اور ٹاؤن پلاننگ کی فیلڈ میں آیا، اس سے بہت فرق پڑ رہا ہے۔
ملک ریاض نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن کے نام سے ایک جدید شہر آباد کیا، اس شہر نے ان دونوں شہروں کا بوجھ اٹھا لیا، یہ مری کے راستے میں بھی شہر آباد کر رہے ہیں، یہ شہر بھی اسلام آباد اور مری کا دباؤ کم کر دے گا، لاہور میں بھی انھوں نے نیا شہر آباد کیا اور یہ اب کراچی اور پشاور بھی جا رہے ہیں، ہمارے سسٹم نے اگر انھیں کام کرنے دیا تو ان منصوبوں سے لیونگ اسٹینڈرڈ میں بھی فرق پڑے گا اور پرانے شہروں پر بھی دباؤ کم ہو جائے گا، کراچی میں ملک صاحب کو مسائل کا سامنا ہے، حکومت اور حکومتی اداروں نے اگر مسائل کا بروقت ادراک کر لیا، انھوں نے اگر ان کے ساتھ تعاون کیا تو یہ کراچی کے مضافات میں 25 ہزار ایکڑ پر نیا کراچی آباد کر دیں گے، اس سے کراچی کی کمرشل اور سوشل لائف میں بہت تبدیلی آ جائے گی اور یہ پاکستان کی بقا اور مستقبل دونوں کے لیے ضروری ہے۔
ہم چندی گڑھ کی طرف واپس آتے ہیں، چندی گڑھ میں بھی اسلام آباد کی راول لیک جیسی ایک جھیل ہے، یہ جھیل راول لیک جتنی صاف اور خوبصورت نہیں لیکن چندی گڑھ کی انتظامیہ نے اسے اپنی محنت اور سلیقے سے عوامی سرگرمیوں کا مرکز بنا دیا، چندی گڑھ لیک کی صبح اور شام انتہائی خوبصورت ہوتی ہے، جھیل کے گرد جاگنگ ٹریک بنا ہوا ہے، لوگ اس پر دوڑ لگاتے ہیں، ٹریک کے ساتھ ساتھ پھولوں کی کیاریاں اور بلندوبالا درخت ہیں، درختوں کے نیچے لکڑی اور پتھر کے خوبصورت بینچ پڑے ہیں، لوگ ان بینچوں پر بیٹھ جاتے ہیں، ہر کلومیٹر کے بعد چوڑی چوڑی سیڑھیاں ہیں، یہ سیڑھیاں آپ کو پانی تک لے جاتی ہیں، لوگ ان سیڑھیوں پر بھی بیٹھ جاتے ہیں، جھیل کے گرد پوشیدہ لائیٹس لگی ہیں، یہ لائیٹس رات کے وقت ماحول کو خواب ناک بنا دیتی ہیں، جھیل کے دو مقامات پر فوڈ کورٹ ہیں، لوگ یہاں کھاتے پیتے ہیں اور تین مقامات پر خوبصورت اور صاف ستھری پارکنگ لائٹس ہیں، یہ جھیل شام کے وقت پورے شہر کے لیے تفریح گاہ بن جاتی ہے، مختلف عمروں کے جوڑے یہاں پہنچ جاتے ہیں، بزرگ واک کرتے ہیں، نوجوان جاگنگ کرتے ہیں، خواتین چہل قدمی کرتی ہیں جب کہ بچے فن ایریا میں چلے جاتے ہیں، صفائی کا خاص انتظام ہے، سینٹری ورکرز ساتھ ساتھ صفائی کرتے رہتے ہیں۔
اسلام آباد کے محسن کامران لاشاری نے راول لیک کو بھی یہ درجہ دینے کی کوشش کی تھی، انھوں نے لیک کی بیک سائیڈ پر پارکس بھی بنوائے اور "فن ایریاز" بھی تخلیق کیے، ان پارکس اور فن ایریاز نے شہر کو نئی زندگی دی لیکن ابھی مزید کام کی ضرورت ہے، جھیل کے کنارے جاگنگ ٹریکس بننے چاہئیں، سٹنگ ایریا بھی اور وسیع پیمانے پر درخت اور پھولوں کی کیاریاں بھی بننی چاہئیں اور لائیٹس اور صفائی کا خصوصی انتظام بھی ہونا چاہیے تاکہ اسلام آبادکے باسی راول لیک سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں، میری چیئرمین سی ڈی اے سے درخواست ہے، آپ اپنی ٹیم کو چندی گڑھ بھیج کر وہاں سے آئیڈیاز لے سکتے ہیں، اسلام آباد کی راول لیک اور چندی گڑھ کی سُکھنا لیک تقریباً ایک جیسی ہیں لہٰذا ہم ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، سیکھنے کے معاملے میں کبھی کنجوسی یا بخل سے کام نہیں لینا چاہیے، علم، ہنر اور سلیقہ جس سے ملے اسے اپنا حق سمجھ کر فوراً اچک لیں اور چندی گڑھ ہمارا حق ہے، ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
میں نے 11 اپریل کی شام چندی گڑھ کی سُکھنا لیک کے ساتھ ساتھ جاگنگ کی، یہ میری زندگی کی شاندار ترین جاگنگز میں سے ایک جاگنگ تھی، بجھتا ہوا سورج پشت پر تھا اور چمکتا ہوا شہر میرے سامنے۔ میرے بائیں ہاتھ جھیل تھی اور جھیل پر ہما چل پردیش کی ٹھنڈی ہوائیں اور میرے دائیں اور بائیں پنجابی بولتے مرد اور عورتیں، میں نے ایک طویل عرصے بعد الٹرا ماڈرن خواتین کے منہ سے پنجابی سنی، میں بار بار پنجابی سنتا تھا اور پھر ان کے جدید کپڑے دیکھتا تھا اور یہ سوچ کر حیران ہوتا تھا "کیا کوئی ماڈرن عورت بھی پنجابی بول سکتی ہے؟
" کیونکہ ہمارے پنجاب میں جب بھی کوئی عورت جوان ہوتی ہے یا یہ زندگی میں ڈھنگ کا کپڑا پہنتی ہے تو اس کا پہلا کام اردو بولنا ہوتا ہے، یہ پنجابی لہجے میں اردو بول کر دنیا کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر چندی گڑھ کی عورتیں جینز اور اسکرٹ پہن کر بھی پنجابی بول رہی تھیں اور میں ان کی جرأت پر حیران تھا۔