دہلی کا ابتدائی تعارف اچھا نہیں تھا، میں اور ترن جیت سنگھ بذریعہ بس چندی گڑھ سے دہلی پہنچے تھے، پنجاب سے والوو بسیں چلتی ہیں، یہ ڈائیوو جیسی سروس ہے لیکن ہماری بسیں بھارتی بسوں سے بہتر ہیں، یہ صاف ستھری بھی ہیں، سبک رفتار اور آرام دہ بھی۔ بھارتی بسیں ہمارے مقابلے میں گندی، بے آرام اور پر شور ہیں تاہم کرائے کم ہیں اور یہ سرکاری سرپرستی میں چلتی ہیں۔ بس نے ہمیں جہاں اتارا وہ جگہ صاف نہیں تھی، فضا میں غبار چھایا ہوا تھا، ٹریفک کا رش تھا، پل کے نیچے سے پیشاب کی بو آرہی تھی، مکھیاں اور مچھر بھی تھے اور رکشہ ڈرائیوروں کی حریص نگاہیں بھی۔
سردار بھاٹیہ نے ہمیں اس مقام سے"پک" کرنا تھا، بھاٹیہ صاحب پشاوری سردار ہیں، یہ خاندان1947ء میں پشاور سے دہلی شفٹ ہوا، یہ ترن جیت سنگھ کے جاننے والے تھے، یہ ہمارے استقبال کے لیے بس اڈے پر پہنچ گئے، ان کا انتظار مختصر تھا لیکن اس مختصر انتظار کے دوران دہلی کے بارے میں ہماری رائے خراب ہو چکی تھی، مجھے سڑک کے کنارے کھڑے کھڑے اندازہ ہوا شہر اچھے یا برے نہیں ہوتے، ہمارے حالات انھیں اچھا یا برا بناتے ہیں، آپ اگر صاف ستھری سواری پر، صاف ستھرے لوگوں کے ساتھ، صاف ستھری جگہ پر اتریں تو آپ کو روانڈا اور برونڈی بھی اچھے لگتے ہیں لیکن آپ اگر شہر کے کسی گندے علاقے میں آجائیں تو دنیا کا خوبصورت ترین شہر بھی برا لگے گا، ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا مگر بھاٹیہ صاحب کے آتے ہی صورتحال تبدیل ہوگئی۔
ہم لوگ رکاب گنج کے گردوارہ کے ریسٹ ہائوس میں ٹھہرے ہوئے تھے، یہ سکھ مت کے اہم ترین گردواروں میں شمار ہوتا ہے، سکھوں کے نویں گروتیج سنگھ بہادر کو اورنگزیب عالمگیر نے11نومبر1675ء کوچاندنی چوک میں قتل کرایا تھا، سکھ ان کی میت لینا چاہتے تھے لیکن شاہی فوج لاش دینے کے لیے تیار نہیں تھی، سکھ تاریخ کے مطابق دہلی میں خوفناک آندھی چلی، آندھی نے ہر چیز کو دھندلا دیا، سکھوں نے اس دھند کا فائدہ اٹھایا، گرو کا دھڑ ایک گڈے پر ڈالا اور یہ لوگ اسے رکاب گنج لے آئے، رکاب گنج میں گرو کے سیوک کا گائوں تھا، اس نے گرو کا دھڑ اپنے مکان میں رکھا اور پورے مکان کو آگ لگا دی۔
گرو کا سر چاندنی چوک سے آنندپور صاحب لے جایا گیا اور وہاں اس سر کی آخری رسومات ادا کی گئیں، رکاب گنج اور آنند پوردونوں جگہوں پر بعد ازاں گردوارے بنے اور سکھ یاتری گولڈن ٹمپل کے بعد ان دونوں گردواروں کی یاترا کو فرض سمجھتے ہیں، گردوارے کی انتظامیہ نے رکاب گنج میں خوبصورت ریسٹ ہائوس بنا رکھا ہے، ہم لوگ یہاں رہائش پذیر تھے، دہلی ہندوستان کی تاریخ ہے، آپ جب تک دہلی کا مطالعہ نہیں کرتے، اس وقت تک ہندوستان کی تاریخ سے واقف نہیں ہوتے۔
"گیٹ آف انڈیا" دہلی کا ماڈرن نشان ہے، یہ پیرس کی آرک دی ٹرمیپ جیسی عمارت ہے، گیٹ آف انڈیا 1931ء میں بنا جس کی بنیاد پرنس آرتھرولیم نے رکھی تھی اور یہ آج تک دہلی کی نشانی چلا آرہا ہے، گیٹ کے چاروں اطراف گارڈن ہے، یہ مقام انڈیا اور بیرون انڈیا سے آنے والے لوگوں کے لیے پکنک اسپاٹ کی حیثیت رکھتا ہے، ہم رات کے وقت وہاں گئے، وہاں سیکڑوں لوگ جمع تھے، یہ وہاں تصویریں بنوا رہے تھے، میری وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے درخواست ہے آپ بھی اگر تھوڑی سی توجہ دیں تو مزار قائد اور یادگار پاکستان دونوں جگہوں کو گیٹ آف انڈیا جیسی حیثیت مل سکتی ہے۔
کناٹ پیلس ہماری دوسری منزل تھی، یہ دہلی کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، یہ 1933ء میں تعمیر کی گئی جسے ایک انگریز آرکیٹیکٹ رابرٹ ٹوررسل نے ڈیزائن کیا تھا، یہ دائرے میں بنی ہوئی ہے، کناٹ پلیس میں دنیا کے تمام بڑے برانڈز کے آئوٹ لیٹس ہیں، یہاں حقیقتاً کھوے سے کھوا چلتا ہے اور آپ کو یہاں دنیا کی تقریباً تمام نسلوں کے لوگ نظر آتے ہیں، چاندنی چوک پرانی دلی کی پہچان ہے، اسے شاہ جہاں نے تعمیر کرایا تھا، یہ شاہی بازار تھا جس میں شاہی خاندان کی خواتین خریداری کے لیے آتی تھیں، یہ چوک کسی زمانے میں صاف ستھرا ہوتا ہو گا لیکن یہ آج کل رش، گند اور گردوغبار کی عبرت گاہ ہے، اس کے چاروں اطراف تنگ و تاریک مارکیٹیں ہیں اور یہاں سر ہی سر دکھائی دیتے ہیں، اورنگ زیب نے سکھوں کے نویں گرو تیج بہادرسنگھ کو اسی چوک میں قتل کرایا تھا۔
غالب کا محلہ بلی ماراں چاندنی چوک سے زیادہ دور نہیں، بھاٹیہ صاحب مجھے وہاں لے گئے، یہ جوتوں کی ہول سیل مارکیٹ بن چکا ہے، آپ کو ہر طرف چپلیں لٹکی نظر آتی ہیں، ہم محلہ بلی ماراں کی گلی قاسم جان میں داخل ہوئے اور چند قدم بعد غالب کی حویلی ہمارے سامنے تھی، یہ بھی وقت کی دست برد کی وجہ سے اپنی آن بان اور شان کھو بیٹھی ہے مگر بھارتی حکومت کی مہربانی سے اس حویلی کے دو کمرے یاد گار غالب ہو چکے ہیں، یادگار غالب اتوار کے دن بند ہوتی ہے لیکن بھاٹیہ صاحب نے چوکیدار کو پچاس روپے دے کر میرے لیے دروازہ کھلوا دیا، پہلا کمرہ غالب کی خواب گاہ تھا، دیوار پر ان کے اشعار لکھے تھے، غالب کی قمیض بھی شو کیس میں لٹکی ہوئی تھی جب کہ وہاں ہاتھ سے تحریر شدہ دو دیوان بھی موجود تھے۔
دوسرا کمرہ غالباً لیونگ روم تھا، اس میں غالب کے استعمال کی چند اشیاء دھری تھیں، دیواروں پر شعر بھی درج تھے، حویلی کے دونوں کمروں میں غالب کی خوشبو آج بھی موجود تھی، غالب اردو شاعری کا امام تھا اور یہ اس کی ذات کا اعجاز تھا، بلی ماراں کے ہمسائے میں موجود تمام محلے گم نامی کی گرد میں گم ہو گئے لیکن صرف غالب کی وجہ سے 145سال گزرنے کے باوجود بلی ماراں کا محلہ بھی زندہ ہے، گلی قاسم جان بھی اور غالب کی حویلی بھی۔ غالب کے 344 صفحوں کے دیوان نے ثابت کر دیا، لکھا ہوا لفظ آب حیات ہوتا ہے، یہ لکھنے والے کو مرنے کے بعد بھی مرنے نہیں دیتا، دہلی کی جامع مسجد اور لال قلعہ مسلمان فرمانروائوں کی نشانیاں ہیں، یہ دونوں عمارتیں جب تک دہلی میں رہیں گی ہندوستان میں اس وقت تک مغلوں کا نام باقی رہے گا، جامع مسجد مغل بادشاہوں کی عقیدت اور محبت کا خوبصورت ثبوت ہے۔
جامع مسجد بلندی پر بنائی گئی، اس کے چاروں اطراف جھروکے ہیں، یہ مسجد بھارتی حکومت کے لیے سیاحت کا خزانہ ہے لیکن اس کی دیکھ بھال نہیں کی جا رہی ہے، مسجد میں جوتے رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں، زائرین جوتے ہاتھ میں اٹھا کر اندر داخل ہوتے ہیں، فرش، دیواروں اور گنبدوں کی مرمت نہیں کی جا رہی، وضو کا تالاب گندا بھی ہے۔ مسجد کے چاروں اطراف پرانا بازار ہے، یہ بازار کسی بھی طرح مسجد کے شایان شان نہیں، بازاروں کی گلیوں میں کیچڑ اور کوڑے کے انبار لگے ہیں، دکانیں گری پڑی ہیں، پھٹی ہوئی چادریں، دریاں اور ترپالیں لٹک رہی ہیں، بازاروں کے تمام دکاندار مسلمان ہیں، آپ اگر ایک بار جامع مسجد کے ان بازاروں کا دورہ کر لیں اور ان بازاروں کے مسلمان تاجروں سے مل لیں تو آپ کو پاکستان کی قدر بھی آجائے گی اور آپ کو آزادی کی نعمت کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔
آپ کو اگر پاکستان اور نظریہ پاکستان سے اختلاف ہے تو میری آپ سے درخواست ہے، آپ ایک بار دہلی چلے جائیں اور وہاں مسلمان محلوں میں موجود مسلمانوں سے ملاقات کر لیں، مجھے یقین ہے، آپ اس کے بعد پوری زندگی پاکستان کا احترام کریں گے۔ میری مسلم امہ سے درخواست ہے، آپ دہلی کی جامع مسجد پر توجہ دیں، آپ فنڈ قائم کریں، مسجد کی بحالی کا کام بھی کریں اور مسجد کے گرد آباد بازاروں کی حالت بھی ٹھیک کرائیں، یہ بازار اسلام اور مسلمان دونوں کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، لال قلعہ اچھا ہے، سیاح بھی ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں لیکن یہ ہمارے شاہی قلعے کا مقابلہ نہیں کرتا، لاہور کا شاہی قلعہ اس سے کہیں بڑا اور تاریخی لحاظ سے زیادہ اہم ہے لیکن ہم اس قلعے میں اتنے سیاح نہیں لاسکے۔
جتنے بھارت لال قلعے میں لا رہا ہے، ہم نے سڑک تک طویل قطار میں کھڑے ہو کر ٹکٹ خریدے، یہ قطار بھارت کی سیاحتی پالیسی کی کامیابی کی دلیل تھی، لال قلعہ دہلی کی واحد جگہ تھی جہاں ہمیں فوج اور رائفلیں دکھائی دیں، قلعے کے اندر جگہ جگہ مورچے بھی کھدے تھے، میں نے اس فوجی اجتماع کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا پاکستان کے دو جوانوں نے لال قلعہ پر پاکستانی پرچم لہرا دیا تھا، حکومت نے ان نوجوانوں کو اس جرم پر پھانسی کی سزا دے دی، حکومت نے اس دن سے لال قلعے کو چھائونی بنا دیا اور یہاں اب ہر وقت فوج رہتی ہے، دہلی کے پرانے علاقے کی لسی، فالودہ اور ہلدی رام کی مٹھائی بہت مشہور ہیں۔
پاکستان کا کوئی شہری دہلی جائے اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہ پر سلام کے لیے حاضر نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے، میں بھی ترن جیت سنگھ کو ساتھ لے کر خواجہ صاحب کی درگاہ پر سلام کے لیے حاضر ہو گیا، درگاہ کے حالات بھی اچھے نہیں تھے، درگاہ پر پھول اور چادریں بیچنے والوں کا قبضہ ہے، آپ جوں ہی گلی میں قدم رکھتے ہیں، یہ دکاندار آپ کو گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ ان سے پلو بچا کر درگاہ کے احاطے میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو وہاں مختلف رجسٹر بردار لوگ نظر آتے ہیں، یہ لوگ خود کو خواجہ صاحب کا گدی نشین قرار دیتے ہیں، یہ رجسٹر آپ کے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے بعد آپ سے نذرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
آپ انکار کر دیں تو یہ آپ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں، میں اور ترن جیت سنگھ بڑی مشکل سے ان دکانداروں اور گدی نشینوں سے بچتے ہوئے امیر خسرو کے مزار تک پہنچے، حضرت امیر خسرو خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کے مرید خاص تھے، یہ خواجہ صاحب کے پائوں میں دفن ہیں، میں نے امیر خسرو کے مزار پر فاتحہ پڑھی اور اس کے بعد خواجہ صاحب کے دربار میں حاضر ہو گیا، وہاں بھی حریص لوگوں کا قبضہ تھا، میں نے خواجہ صاحب کے دربار میں سلام پیش کیا اور ان سے یہ درخواست کر کے واپس آ گیا " حضور آپ اپنے دربار سے ان چِیلوں کو تو اڑا دیں " مجھے یقین ہے خواجہ صاحب نے میری درخواست کو درخوراعتناء نہیں سمجھا ہو گا، اولیاء کا دل بہت بڑا ہوتا ہے۔
یہ معاشرے کے بدترین لوگوں کو بھی دستر خوان پر اپنی بغل میں بٹھاتے ہیں اور یہ لوگ خواجہ صاحب کی خواجگی اور مہربانی کا عملی ثبوت ہیں لیکن میں ترن جیت سنگھ سے بہت شرمندہ تھا کیونکہ میں اس کے ساتھ گولڈن ٹمپل اور گردوارہ رکاب گنج گیا تھا اور یہ دونوں گردوارے انتظام، صفائی اور نظم ضبط کے لحاظ سے ہماری جامع مسجد اور خواجہ صاحب کے دربار سے بہت بہتر تھے، ہم اگر دنیا کی بہترین قوم ہیں، اسلام دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے اور اگر صفائی نصف ایمان ہے تو پھر یہ ایمان، یہ سچائی اور یہ بہترین قوم ہماری مسجدوں اور درگاہوں میں نظر کیوں نہیں آتی؟ ہم اگر مسجدوں میں اپنی سچائی، اپنا ایمان اور اپنے عظیم ہونے کا ثبوت پیش نہیں کر سکتے تو پھر ہم دنیا میں اعلیٰ ہونے کی دلیل کیسے بن سکتے ہیں اور ترن جیت سنگھ کی نظریں اس وقت مجھ سے یہ پوچھ رہی تھیں اور میرے پاس ان نظروں کا کوئی جواب نہیں تھا۔