یہ دوسرا واقعہ ہے، اکبر علی بھٹی میری پروفیشنل زندگی کے پہلے انسان تھے جنھیں میری نسل کے صحافیوں نے ایک خبر کی وجہ سے عرش سے فرش پر گرتے دیکھا، آج کے صحافی اکبر علی بھٹی کا نام نہیں جانتے لیکن 1990ء سے 1997ء تک میڈیا میں اکبر علی بھٹی کا طوطی بولتا تھا، وہ ملک کے بڑے میڈیا ٹائیکون تھے، وہ وہاڑی کے رہنے والے تھے، میٹرک پاس تھے، ادویات کا کاروبار کرتے تھے۔
سیاست میں آئے، 1988ء اور1990ء میں وہاڑی سے دو بار ایم این اے منتخب ہوئے، وہ میاں برادران کے قریب تھے، وہ سیاسی جوڑ توڑ کا زمانہ تھا، اکبر علی بھٹی نے اس زمانے کا بھرپور فائدہ اٹھایا، ملک میں اس زمانے میں سرکاری اسپتالوں میں مفت ادویات بھی ملتی تھیں اور ٹیسٹ بھی فری ہوتے تھے، اکبر علی بھٹی نے اسپتالوں میں ای سی جی، ایکسرے مشینیں، لیبارٹری کے آلات اور ادویات سپلائی کرنا شروع کر دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے خوشحال ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے، آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے، دولت، طاقت اور شہرت تینوں بہنیں ہیں۔
آپ اگر دولت مند ہیں تو آپ مشہور اور طاقتور بھی ہونا چاہیں گے، آپ اگر مشہور ہیں تو آپ دولت اور طاقت بھی حاصل کرنا چاہیں گے اور آپ اگر طاقتور ہیں تو آپ دولت اور شہرت کے پیچھے بھی بھاگیں گے اور انسان جب ان تین بہنوں کو بیک وقت منکوحہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی بربادی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ تینوں بہنیں، بہنیں ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی خوفناک دشمن بھی ہیں، یہ ایک گھر میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں، شہرت دولت سے الجھتی رہتی ہے۔
طاقت شہرت کی ناک توڑ دیتی ہے اور دولت اکثر اوقات شہرت کے زوال کی وجہ بن جاتی ہے اور اس کشمکش کے آخر میں عموماً وہ شخص ذلیل و خوار ہو جاتا ہے جو تینوں کو ایک گھر میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اکبر علی بھٹی کے ساتھ بھی یہی ہوا، وہ بھی دولت کے بعد طاقت اور شہرت کے پیچھے دوڑ پڑے۔
ملک میں اس وقت صرف دو بڑے اخبار ہوتے تھے، اکبر علی بھٹی بھاری سرمائے کے ساتھ صحافت میں آئے، لاہور میں مرکزی جگہ پر عمارت خریدی، جدید پرنٹنگ پریس لگایا اور ملک بھر کے نامور صحافیوں کو تین تین، چار چار گنا معاوضہ دیا، ملک میں اس اخبار نے تین نئے ٹرینڈ متعارف کرائے، ملک کے دونوں بڑے اور پرانے اخبارات کی مناپلی ٹوٹ گئی، یہ کارکنوں کی تنخواہ میں اضافے اور انھیں ریگولر کرنے پر مجبور ہو گئے، دو، ملک کے تمام بڑے صحافی اس اخبار سے وابستہ تھے۔
یہ پوری آزادی سے لکھتے تھے چنانچہ ملک میں آزاد صحافت کا آغاز ہوا اور تین، روزنامہ پاکستان نے نوجوان صحافیوں کی ایک نئی کھیپ تیار کی، اس سے قبل ملک میں اچھا صحافی بننے کے لیے آپ کا گنجا ہونا، آپ کے سرکا سفید ہونا یا پھر فاقہ مستی کا تیس سالہ تجربہ ہونا ضروری تھا، پاکستان اخبار نے ملک میں پہلی بار سیاہ بالوں والے خوش حال صحافیوں کی کلاس تیار کی لیکن پھر یہ اخبار اپنے خالق اکبر علی بھٹی اور اپنے زوال کی خوفناک مثال بن گیا۔
اکبر علی بھٹی اور روزنامہ پاکستان پر زوال کیسے آیا؟ اس کی وجہ ایک خبر اور اس کی تین لفظی سرخی بنی، 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تو اکبر علی بھٹی صدر کے کیمپ میں شامل ہو گئے، صدر نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی، یہ برطرفی روزنامہ پاکستان میں "بدمعاش حکومت برطرف" کی سرخی کے ساتھ لیڈ لگ گئی، یہ تین لفظ "بدمعاش حکومت برطرف" اکبر علی بھٹی اور روزنامہ پاکستان دونوں کے زوال کی وجہ بن گئے کیونکہ یہ تینوں لفظ میاں برادران کے دل سے ترازو ہو گئے، اکبر علی بھٹی کی بدقسمتی سے میاں نواز شریف کی حکومت بحال ہو گئی، حکومت کے پہلے ٹارگٹ اکبر علی بھٹی تھے۔
ٹھیکے منسوخ ہو گئے اور ادائیگیوں کی پڑتال کے لیے کمیشن بن گئے اور احتساب بھی شروع ہو گیا، بھٹی صاحب کی دولت ایک رات میں آدھی رہ گئی، اکبر علی بھٹی نے بھاگ کر پاکستان پیپلز پارٹی کے مورچے میں پناہ لے لی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی، اکبر علی بھٹی نے پہلے آصف علی زرداری کے صحافی دوست اظہر سہیل کو اخبار کا ایڈیٹر بنایا، وہ انھیں سیاسی بحران سے نہ نکال سکے تو حامد میر کو اخبار کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔
اکبر علی بھٹی کا خیال تھا محترمہ حامد میر کو بھائی کہتی ہیں چنانچہ یہ ایڈیٹر شپ، نئی گاڑی اور موبائل فون کے بدلے انھیں واپس اس مقام پر لے آئیں گے جہاں سے انھیں "بدمعاش حکومت برطرف" کی سرخی نے اتارا تھا لیکن حامد میر پروفیشنل صحافی ثابت ہوئے، انھوں نے کاروبار میں ان کی کوئی مدد نہ کی چنانچہ بھٹی صاحب کی کشتی ڈوبتی چلی گئی، میاں نواز شریف 1997ء میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آ گئے۔
میاں صاحب کی واپسی اکبر علی بھٹی کے تابوت کا آخری کیل ثابت ہوئی، یہ سڑک پر آ گئے، وہ پانچ سو مربع زمین کے مالک تھے، یہ ساری زمین بک گئی، ان کے پاس 165 ٹریکٹر تھے، یہ ٹریکٹر بھی بک گئے، وہ اربوں روپے کی پراپرٹی کے مالک تھے، یہ پراپرٹی بھی بک گئی اور ان کی ادویات کی کمپنیاں بھی بند ہو گئیں، ٹھیکے منسوخ ہو گئے اور سرکاری ادائیگیاں بھی پھنس گئیں اور پیچھے رہ گیا اخبار تو یہ بھی نیلام ہو گیا یہاں تک کہ وہ پیسے پیسے کو محتاج ہو گئے۔
اکبر علی بھٹی آخر میں کرائے کے مکان میں فوت ہوئے۔ آپ ملاحظہ کیجیے، ایک خبر اور تین لفظوں کی یہ سرخی "بد معاش حکومت برطرف" اور اکبر علی بھٹی کی پوری ایمپائر غائب۔ میں آج سمجھتا ہوں وہ اگر غرور نہ کرتے، وہ اگر وزیر بننے کا خبط نہ پالتے اور وہ اگر دولت، شہرت اور طاقت تینوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش نہ کرتے تو وہ شاید اس عبرت ناک انجام تک نہ پہنچتے لیکن انسان بھی قدرت کی عجیب تخلیق ہے، یہ تاریخ جیسی عظیم نعمت کے ہوتے ہوئے بھی سبق نہیں سیکھتا، یہ تاریخ کی موجودگی کے باوجود قارون سے ہارون تک غلطیاں دہراتا چلا جاتا ہے، شاید اسی لیے اللہ نے زمانے کی قسم کھا کر اعلان فرمایا" انسان خسارے میں ہے"۔
میری زندگی کا دوسرا واقعہ ایگزیکٹ اور بول کے چیئرمین شعیب احمد شیخ ہیں، یہ بھی ایک خبر، جی ہاں صرف ایک خبر کا نشانہ بن گئے، شعیب شیخ نے جعلی یونیورسٹیاں بنائیں، ویب سائیٹس پر جعلی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا، دنیا بھر کا سرمایہ سمیٹا اور یہ عین جوانی میں ارب پتی بن گئے، دولت آئی تو یہ بھی شہرت اور طاقت کے خبط میں مبتلا ہو گئے، انھوں نے شہرت کے حصول کے لیے ملک کا سب سے بڑا میڈیا گروپ بنانے کا اعلان کر دیا، بول کا فیس بک پیچ بنایا، ویب سائیٹس بنائیں اور میڈیا کے نامور لوگوں کی بولی لگانا شروع کر دی۔
یہ ملک کے طاقتور ترین لوگوں کو بھی اپنا دوست بنانے لگے، ان کے دوستوں کی فہرست میں ایک ایسے طاقتور شخص بھی شامل ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد دو خوفناک انکوائریاں بھگت رہے ہیں اور جن کی ریٹائرمنٹ نئے پاکستان کے دھرنے اور شعیب احمد شیخ کے زوال کی بڑی وجہ بنی، یہ اگر ریٹائر نہ ہوتے تو آج صورت حال یکسر مختلف ہوتی، بہر حال قصہ مختصر شعیب شیخ چینل لانچ کرنے سے قبل غرور کی اس حد کو چھونے لگے جس پر اکبر علی بھٹی چار سال کی کامیاب صحافت کے بعد پہنچے، یہ صحافتی اداروں، ان کی ٹیم کا حصہ نہ بننے والے اینکرز اور سرکاری اداروں کو للکارنے لگے، آپ انٹرنیٹ پر ان کی تقریریں سنیں، آپ کو ان کے لہجے میں غرور کی بو آئے گی۔
یہ غرور بالآخر ان کے زوال کی وجہ بن گیا، پاکستان سے ساڑھے گیارہ ہزار کلومیٹر دور نیویارک میں ایک صحافی نے ایک رپورٹ بنائی اور اس رپورٹ پر (Fake Diplomas، Real Cash: Pakistani Company Axact Reaps Millions)نو لفظوں کی سرخی لگائی اور شعیب شیخ کی پوری ایمپائر اپنے ہی قدموں پر گر گئی، یہ دو دن میں عرش سے فرش پر آگئے، میں نے کل رات جب انھیں گرفتار ہوتے دیکھا تو میرے منہ سے فوراً استغفار نکلا اور میں نے اللہ سے اپنے تمام کردہ اور نا کردہ گناہوں کی معافی مانگی۔
یہ شخص کل تک ملک کا مضبوط اور مشہور شخص تھا، اینکرز کی مضبوط فوج، ملک کے با اثر ترین لوگوں کی فرینڈ شپ، وکلاء کے طویل اسکواڈ اور ساٹھ ستر ارب روپے کا مالک تھا لیکن صرف ایک اخباری رپورٹ اسے فٹ پاتھ پر لے آئی، یہ گھر کا رہا اور نہ ہی گھاٹ کا، اسے کوئی زوال سے نہ بچا سکا، نہ اینکرز، نہ سرکاری تعلقات اور نہ ہی عقل، یہ اپنے ہی مزار کا بجھتا ہوا چراغ بن کر رہ گیا۔
میری ملک کے تمام، دولت مندوں، شہرت پسندوں اور طاقتوروں سے درخواست ہے آپ شعیب شیخ کی تصویر فریم کروائیں اور اپنے کمرے کی دیوار پر لگا لیں، آپ روز یہ تصویر دیکھیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں کیونکہ صرف وہی ہے جو ہمارے عیبوں پر پردے ڈالتا ہے، جو ہمیں عزت دیتا ہے، جو ہم پر رحم کرتا ہے اور جو ہم پر کرم فرماتا ہے، دنیا میں شعیب شیخ ایک خبر کی مار ثابت ہوا تو کیا کوئی معمولی خبر یا تین لفظوں کی کوئی سرخی آپ کو نہیں ڈس سکتی، کیا آپ چند لفظوں کا نشانہ نہیں بن سکتے، آئیے اپنے اللہ سے معافی مانگیں۔