Wednesday, 08 January 2025
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Bangladesh Bhi Bharat Mukhalif Saf Mein

Bangladesh Bhi Bharat Mukhalif Saf Mein

تمام ہمسایہ ممالک سے بھارتی مراسم بگاڑ کا شکار ہیں مگر بنگلہ دیش کئی دہائیوں سے واحد ایسا ہمسایہ تھا جو بھارت کا قابلِ اعتماد اتحادی تھا۔ یہاں تک کہ سارک ممالک کے اجلاس کی میزبانی سے پاکستان کو روکنے کے لیے بھارتی ایما پر شرکت سے انکار بھی کرتا رہا ہے، لیکن گزرے برس کئی ایسی تبدیلیاں آئی ہیں جن سے بنگلہ دیش بھی بھارت مخالف صف میں شمار ہونے لگا ہے۔

بنگلہ دیش سے تعلقات ناہموار تو ہوئے ہی ہیں جزائر پر مشتمل مالدیپ کے نئے صدر نے بھارتی فوجیوں کو ملک سے نکالنے کے منشور پر انتخابی مُہم چلا کر کامرانی حاصل کی۔ نیپال جوکہ ایک ہندو ہمسایہ ہے میں بھی بھارت کے خلاف نفرت عروج پر ہے۔ بھوٹان سے پانی کا تنازع ہے جبکہ پاکستان اور چین کو سرحدی تنازعات کے تناظر میں دونوں کو حریف تصور کرنا ہی حقیقت ہے۔ مزکورہ حالات کی وجہ بھارتی بالادستی کا خواب ہے اگر بھارتی قیادت مستقبل میں رویہ تبدیل کرنے کی بجائے برقرار رکھتی اور ہمسایہ ممالک کے حوالے سے عدم مداخلت کے اصول پر عمل نہیں کرتی توخطے میں تنہائی نوشتہ دیوار ہے۔

بنگلہ دیش میں بھارتی مفاد کو غیر متوقع دھچکا لگا ہے جس کی وجہ صرف عوامی لیگ پر اعتماد کرنا ہے۔ حسینہ واجد نے احسانات کے عوض بھارتی مفاد کا تحفظ یقینی بنایا۔ سات مشرقی ریاستوں میں جو امن کا قیام اور حکومتی رِٹ بھارت کے لیے ایک پچیدہ مسلہ تھا کیونکہ تنگ و دشوار اور طویل واحد زمینی راستہ سلی گری تیز رفتار آمدورفت کی ضروریات پوری نہیں کرتا۔ بنگلہ دیش نے فراخ دلی سے بندرگاہیں، ریل اور سڑک استعمال کرنے کی اجازت دیکر یہ مسئلہ حل کردیا کیونکہ یہ سامان کی ترسیل کا کم خرچ کے ساتھ کم مسافت والا محفوظ راستہ ہے، مگر گزرے برس اگست میں حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت کے خلاف ایسی لہر چلی کہ نہ صرف وہ اقتدار سے بے دخل ہو ئیں بلکہ بھارت میں رہنے پر مجبور ہیں۔

نئی صورتحال میں بھارتی قیادت کے لیے تشویش کا پہلو یہ ہے کہ اگر عبوری حکومت سے تعلقات بہتر نہیں کرتی تو سفارتی کشیدگی بڑھ سکتی ہے اور اگر تعلقات بہتر بناتی ہے جیسا کہ بھارت کے سیکرٹری خارجہ وکرم مشری نے بنگلہ دیش کے دورے میں عبوری حکومت میں شامل کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی کہ اُس نے سیاسی تبدیلی کو قبول کر لیا ہے اور عبوری انتظامیہ کے ساتھ چلنے پر تیار ہے تو عوامی لیگ کی صورت میں حاصل عوامی حمایت کھونے کاخدشہ ہے۔

بنگلہ دیش کی عبوری انتظامیہ کے لیے حالات زیادہ سازگار نہیں کیونکہ مخالفانہ آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ اِس لیے ممکن ہے ملک میں رواں برس ہی عام انتخابات کا اعلان ہوجائے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ عوامی لیگ کی حریف جماعتوں کا خیال ہے کہ فوری طورپر انتخاب ہونے سے وہ حسینہ مخالف لہر سے فائدہ اُٹھا سکتی ہیں جبکہ عوامی لیگ بھی فوری انتخاب چاہتی ہے۔ جلد انتخاب سے عبوری انتظامیہ کی مخالفانہ کاروائیوں سے جان چھڑانے کے ساتھ بہتر پوزیشن پر آسکتی ہے کیونکہ طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کی بنا پر اُس کے ہر شعبے میں حمایتی موجود ہیں، مگر عبوری حکومت کی ساری توجہ معاشی و سیاسی اصلاحات پر ہے حالانکہ سیاسی استحکام کا تقاضا ہے کہ عام آدمی کی مشکلات دور کرنے پر بھی توجہ دی جائے کیونکہ بنگلہ عوام کا مزاج ایسا ہے کہ جلد سڑکوں پر آجاتے ہیں۔

اِن حالات میں نوٹوں سے شیخ مجیب کی تصاویر اور ملک میں لگے مجسمے ہٹانے، ملک کا نیا بانی ضیاالرحمٰن کو قرار دینے عوامی اطمنان کے لیے ناکافی ہے۔ اِس تناظر میں عبوری انتظامیہ کا مستقبل مخدوش دکھائی دیتا ہے۔ بنگلہ دیش کے حالات بھارتی ریاستوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اِس لیے ڈھاکہ کی ہر تبدیلی پر نظر رکھی جاتی ہے۔ ایک ہندو مذہبی رہنما کی گرفتاری پر چند بھارتی ہندو تنظیموں نے مظاہرے کیے اور اگرتلہ میں بنگلہ دیشی قونصلیٹ میں توڑ پھوڑ کی تو جواب میں ڈھاکہ مظاہروں کی لپیٹ میں آگیا۔

بھارت ہندو اقلیت پر حملوں کا الزام لگا کر بھی بنگلہ دیش پر دباؤ ڈال رہا ہے جبکہ ایسے واقعات کی عبوری حکومت تردید کرتی ہے۔ بنگلہ دیش میں بہنے والے اکثر دریا بھارت سے ہو کر آتے ہیں دونوں ممالک میں پانی کا مسئلہ بھی دیرینہ ہے۔ علاوہ ازیں بھارتی سیکورٹی فورسزز کی طرف سے سرحدوں پر بنگلہ دیشیوں کو مارنے کے واقعات سلسلہ بھی تھم نہیں رہا اب جبکہ عوامی لیگ کا اقتدار ختم ہوچکا اور حکومت عبوری انتظامیہ کے پاس ہے یہ مسائل بنگلہ دیش کو بھارت مخالف صف میں لے جا سکتے ہیں۔

اندازوں اور توقعات کے عین مطابق بنگلہ دیش نے حکومتی سطح پر بھارت سے معزول وزیرِ اعظم حسینہ واجد کی حوالگی کا باضابطہ مطالبہ کر دیا ہے۔ ایسا خط موصول ہونے کی بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے تصدیق بھی کردی ہے۔ یہ ایسا مطالبہ ہے جس نے دونوں ہمسایہ ممالک کو نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ عام خیال ہے کہ حوالگی کے مطالبے میں سنجیدگی نہیں اور یہ حسینہ مخالف عوامی لہر کو مطمئن کرنے کی رسمی کاروائی ہے مگر دونوں ممالک میں مجرمان کی حوالگی کا باقاعدہ معاہدہ ہونے کی بناپر اِس مطالبے کا اِتناسادہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ قانونی پچیدگیوں کی آڑمیں کچھ تاخیر کی جاسکتی ہے عدم حوالگی کی صورت میں بنگلہ دیش سے تعلقات خراب ہونا یقینی ہیں اور اگر حوالگی ہوتی ہے تو بھارت کے حامی یہ سوچ کر متنفر ہوں گے کہ اُس کے پیشِ نظر صرف اپنا مفاد ہوتا ہے وگرنہ دیرینہ اور قابل اعتماد اتحادیوں کی قربانی میں عار نہیں سمجھتا۔

سیکورٹی کے لیے خطرہ کا باعث بننے والے مجرموں اور دہشت گردوں کو حوالے کرنے کا معاہدہ کرتے وقت بھارت کا خیال تھا کہ وہ علیحدگی پسندوں کو اِس طرح بنگلہ دیش میں چھپنے کے سلسلے کو روک لے گا جبکہ بنگلہ دیش نے بھارت میں رہ کر خطرہ بننے والے سیاسی عناصر کی سرکوبی کاخواب دیکھا۔ 2016 میں چند ایک ترامیم کے ساتھ معاہدے کو زیادہ سخت اور قابلِ گرفت بنا دیا گیا جس کی رو سے دونوں حکومتیں کسی ثبوت کے بغیر بھی عدالتی طلبی پرہی کاروائی کی پابند کی گئیں۔

معاہدے کا آرٹیکل چھ کسی حد تک سیاسی حوالگی کو رَد کرنے کا جواز پیش دیتا ہے لیکن معزول وزیرِا عظم حسینہ واجد پر بدعنوانی کے ساتھ لوگوں کو بلاجواز حراست میں لیکر قتل کرنے اور نسل کشی جیسے سنگین الزامات ہیں جن میں سے کئی ایک ثابت ہو چکے ہیں ظاہر ہے قتل اور نسل کشی جیسے جرائم کو سیاسی مقدمات نہیں کہا جاسکتا۔ حوالگی کا یہ معاہدہ ہی اب تعلقات میں رخنہ بن چکا ہے جو بنگلہ دیش کو بھارت مخالف صف کی طرف لیجانے کی بنیاد ثابت ہونے والا ہے۔

عیاں حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں بھارتی مفادات خطرے میں ہیں جنھیں دہلی سرکار بچانے کی ہر ممکن کوشش میں ہے۔ حوالگی سے انکار کسی کے لیے آسان نہیں یہ درست ہے کہ بنگلہ دیش کے تین اطراف میں بھارت ہے۔ اِس صورت میں بھارت سے ٹکرانے کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن اگر بھارت زیادہ دباؤ ڈالتا ہے تو بنگلہ دیش بھی چین کی طرف جا سکتا ہے جس کا بھارت کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا، اسی لیے توانائی کی مد میں واجب الادا رقم کی عدم دائیگی کے باوجود رویہ محتاط ہے تاکہ تبدیلیوں کے باوجود دہائیوں کی محنت کے نتیجے میں بنگلہ دیش سے ملنے والے سیاسی فوائد ختم نہ ہوں۔

بنگلہ دیش کی ہندو آبادی کی اکثریت عوامی لیگ کی حمایتی ہے جس کا سرپرست بھارت ہے۔ عام انتخابات کے نتیجے میں ملک میں ایسے راسخ العقیدہ مسلمان اقتدار میں آسکتے ہیں جو بھارت پر انحصار بتدریج ختم کرتے ہوئے متبادل تلاش کرنے کی کوشش کریں، اگر ایسا ہوتا ہے جس کا امکان موجود ہے تو بنگلہ دیش کو بھارت مخالف صف میں شمار کرنا ہی انصاف ہوگا۔