کیا ہوگا؟ ہم بات اس آخری مقام سے شروع کرتے ہیں۔
علامہ طاہر القادری اپنی زندگی کی آخری بازی کھیل رہے ہیں، یہ انقلاب کے لیے ضرور باہر نکلیں گے، علامہ صاحب کے کارکن کمیٹڈ ہیں، پاکستان عوامی تحریک ایم کیو ایم کے بعد ملک کی دوسری جماعت ہے جس کے کارکن اپنے قائد کے حکم کو حرف آخر سمجھتے ہیں، ہم علامہ طاہر القادری کے بے شمار خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں، ان کے ماضی پر بھی اعتراضات کیے جا سکتے ہیں اور ان کے حالیہ بیانات پر بھی تنقید کی جا سکتی ہے لیکن جہاں تک ان کی پوزیشن کی بات ہے، یہ بہت واضح ہے، یہ "انقلاب" سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، علامہ صاحب کے کارکن جان نثار ہیں۔ علامہ صاحب جو کہہ دیں گے کارکن وہ کر گزریں گے اور علامہ صاحب وہاں تک جائیں گے جہاں معاملات خطرناک ہو جاتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ علامہ صاحب جانتے ہیں، یہ ان کا آخری معرکا ہے، یہ اگر ناکام ہوگئے تو یہ ملک میں رہ سکیں گے اور نہ ہی عوام کو تیسری بار "موبلائز" کر سکیں گے چنانچہ یہ ہر صورت لاہور سے نکلنے اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کریں گے جب کہ پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت انھیں پوری طاقت سے روکے گی خواہ اسے ماڈل ٹائون کو رینجرز کے حوالے ہی کیوں نہ کرنا پڑے، یہ خونی مرحلہ ہوگا۔
حکومت کے پاس علامہ طاہر القادری کو روکنے کے سوا کوئی آپشن بھی نہیں، حکومت جانتی ہے اس کے لیے اگر کوئی طاقت، اگر کوئی پارٹی مسئلہ بن سکتی ہے تو وہ علامہ طاہر القادری ہیں، حکومت جانتی ہے علامہ صاحب کے کارکن سردی، گرمی اور بارش میں دس بیس دن تک بیٹھ سکتے ہیں جب کہ باقی جماعتوں کے کارکن موبائل کی بیٹریاں ختم ہونے کے بعد دائیں بائیں ہوجائیں گے، حکومت یہ بھی جانتی ہے علامہ صاحب اگر لاہور سے نکل آئے تو عمران خان کی طاقت میں تین گنا اضافہ ہوجائے گا اور یہ حکومت کو "سوٹ" نہیں کرتا چنانچہ حکومت انھیں ہر صورت روکے گی، عمران خان بھی سیاست کا فائنل میچ کھیل رہے ہیں۔
عمران خان نے 2013 کے الیکشن کے بعد کھلے دل سے نتائج تسلیم کر لیے تھے، یہ اچھی روایت تھی، حکومت کو عمران خان کی فراخ دلی کی قدر کرنی چاہیے تھی، یہ حکومت کی پہلی غلطی تھی، عمران خان نے بعد ازاں چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا، میاں صاحب کو یہ مطالبہ مان لینا چاہیے تھا، چار حلقے کھل جاتے تو کیا قیامت آجاتی، زیادہ سے زیادہ میاں صاحب کے ہاتھ سے دو سیٹیں نکل جاتیں، کیا فرق پڑتا؟ لیکن حکومت اکڑ گئی، اس نے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا یوں معاملات " پوائنٹ آف نو ریٹرن" تک چلے گئے، عمران خان کی بات نہ مان کر حکومت نے دوسری غلطی کی، میں نے تین جولائی کو عمران خان کا انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویواس وقت میڈیا کا موضوع بحث ہے، عمران خان نے اس انٹرویو میں حکومت کو پیشکش کی "وزیراعظم چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن بنا دیں، یہ کمیشن چار حلقوں میں دھاندلی کی تحقیقات کرے، یہ کمیشن جو فیصلہ کرے گا مجھے قبول ہو گا" عمران خان نے حکومت کو اس کمیشن کی تشکیل کے لیے دو ہفتوں کا وقت دیا، میرا خیال تھا وزیراعظم یہ پیشکش قبول کر لیں گے کیونکہ یہ معاملات کو ٹھیک کرنے کا بہترین اور مناسب حل تھا، وزیراعظم نے اس آفر پر اپنے رفقاء سے مشورے بھی کیے لیکن یہ مشورے بالغ نہ ہو سکے اور یہ حکومت کی تیسری غلطی تھی۔
وزیراعظم نے اس پیشکش کا خیر مقدم کیوں نہیں کیا، اس کی تین وجوہات تھیں، پہلی وجہ فوج تھی، جون کے آخر میں فوج کے ساتھ حکومت کے تعلقات ٹھیک ہوگئے جس کے نتیجے میں حکومت کے بعض ارکان نے سوچا طاہر القادری اور خان صاحب اکیلے رہ گئے ہیں، یہ اب لانگ مارچ نہیں کر سکیں گے، حکومت کا یہ خیال غلط ثابت ہوا، دوسری وجہ سیاسی جماعتیں تھیں، ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں حکومت کے ساتھ کھڑی تھیں، حکومت کا خیال تھا عمران خان سیاسی تعاون کے بغیر بڑی تحریک نہیں چلا سکیں گے اور تیسری اور آخری وجہ حکومت کا خیال تھا اگست میں موسم برسات شروع ہو جائے گا، ملک میں حبس اور گرمی کا موسم ہو گا، عمران خان کے کارکن "ممی ڈیڈی" ٹائپ ہیں، یہ موسم کی شدت برداشت نہیں کر سکیں گے، سیلاب کا خطرہ بھی تھا، سیلاب کی وجہ سے بھی لانگ مارچ ممکن نہیں تھا لہٰذا حکومت کا خیال تھا عمران خان خود ہی لانگ مارچ کی کال واپس لے لیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا اور عمران خان حقیقی خطرہ بن کر نظام کے دروازے پر کھڑے ہوگئے۔
میاں نواز شریف نے منگل کی رات نو بجے سپریم کورٹ کا تین رکنی کمیشن بنانے کا اعلان کردیا مگراس وقت تک پلوں کے نیچے سے لاکھوں مکعب فٹ پانی گزر چکا تھا، عمران خان نے میاں صاحب کی پیشکش مسترد کر دی، میاں صاحب کی طرف سے یہ پیش کش اور عمران خان کی طرف سے انکار کے بعد حالات زیادہ خراب ہوگئے، لوگ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور علامہ طاہر القادری کو مبارک بادیں پیش کرنے لگے، رہی سہی کسر کل لاہور ہائی کورٹ نے کنٹینر ہٹانے کا حکم دے کر پوری کر دی اور یوں عمران خان کا لانگ مارچ سیاسی حقیقت بن گیا، حکومت اب اس خوش فہمی کا شکار ہے عمران خان اسلام آباد آئیں گے، یہ آ کر بیٹھ جائیں گے لیکن یہ کتنے دن بیٹھ سکیں گے، یہ تھک جائیں گے اور یوں یہ تھک کر سپریم کورٹ کے کمیشن کا آپشن قبول کر لیں گے مگر یہ حکومت کی خام خیالی ہے کیونکہ اگر عمران خان اسلام آباد پہنچ گئے تو یہ حکومت کا سر لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔
ہم اب آتے ہیں "ہوگا کیا" کی طرف۔ ہمارے نظام کو اس وقت دو بڑے خطرات ہیں، پہلا خطرہ انارکی ہے، آپ فرض کیجیے، عمران خان علامہ طاہر القادری کے ساتھ اسلام آباد پہنچ جاتے ہیں، یہ دارالحکومت میں بیٹھ جاتے ہیں، میاں نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں اور میاں صاحب انکار کر دیتے ہیں تو کیا ہو گا؟ اسلام آباد میں جمع ہجوم کسی بھی وقت بے قابو ہو جائے گا، حکومت ہجوم کو قابو کرنے کے لیے پولیس اور ایف سی کا آپشن استعمال کرے گی، اگریہ آپشن فیل ہو گیا تو حکومت کو فوج طلب کرنا پڑجائے گی، سوال یہ ہے، کیا فوج اپنے لوگوں پر گولی چلائے گی؟ اس کا جواب ناں ہے چنانچہ جب فوج انکار کرے گی تو پھر کیا ہوگا؟
کیا ملک میں انارکی نہیں پھیل جائے گی اور یہ انارکی ملک کو عراق، شام اور لیبیا جیسی صورتحال کی طرف نہیں لے جائے گی اور اگرحالات اس نہج پر آ گئے تو کیا دنیا خاموشی سے جوہری پاکستان میں ایسی صورتحال پیدا ہونے دے گی؟ نہیں ہر گز نہیں! ہم یقینا نیٹو فورسز کا ہدف بن جائیں گے، یہ پاکستان کے جوہری اثاثوں پر قبضہ کر لیں گے اور ہمیں اس کے بعد عراق اور شام کی طرح لڑنے مارنے کے لیے چھوڑ دیں گے چنانچہ انارکی اس صورتحال کا پہلا نتیجہ نکل سکتا ہے۔
دوسرا نتیجہ فوجی مداخلت ہے، حالات اگر خراب ہوگئے تو فوج کو متحرک ہونا پڑے گا، یہ 245 کے اختیارات کے تحت ایوان صدر، وزیراعظم ہائوس اور پارلیمنٹ ہائوس کا چارج سنبھال لے گی، عمران خان اور میاں نواز شریف کو میز پر بٹھایا جائے گا، حکومت سے استعفیٰ لیا جائے گا، ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنائی جائے گی، یہ ٹیکنو کریٹس دو تین برسوں میں انتخابی اصلاحات کریں گے، بائیو میٹرک سسٹم لگائیں گے، مردم شماری ہو گی، نئی ووٹر لسٹیں بنیں گی اور الیکشن کرا دیے جائیں گے لیکن سوال یہ ہے، کیا فوج یہ کرے گی، کیا سیاسی جماعتیں یہ آپشن قبول کر لیں گی؟ اور کیا عمران خان اتنی بڑی تحریک کی کامیابی کے بعد اپنے تمام انڈے ٹیکنوکریٹس کی جھولی میں ڈال دیں گے۔ کیا یہ دو تین سال انتظار کر لیں گے؟ اگر نہیں تو پھر یہ فوری الیکشن چاہیں گے، عمران خان اگر یہ مطالبہ کرتے ہیں اور الیکشن موجودہ سسٹم اور موجودہ ووٹر لسٹوں کے تحت کرائے جاتے ہیں اور میاں نواز شریف 2013 کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لے کر اقتدار میں آجاتے ہیں تو کیا عمران خان کے لیے اس الیکشن کے نتائج قابل قبول ہوں گے؟ اس سوال کا جواب بھی ناں ہے چنانچہ پھر میاں نوازشریف اور عمران خان کے لیے آپشن کیا بچتا ہے؟
میرا خیال ہے میاں نواز شریف کو ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کا ایک پارلیمانی وفد بنانا چاہیے، یہ وفد عمران خان سے ملاقات کرے اور انھیں پیش کش کرے عمران خان انتخابی اصلاحات کمیشن کے سربراہ بن جائیں، یہ کمیشن اصلاحات کرے، الیکشن کمیشن کی ہیت تبدیل کرے، ملک میں بائیو میٹرک سسٹم لگائے اور جوں ہی یہ کام مکمل ہو جائے میاں نواز شریف حکومت توڑ کر نئے الیکشن کا اعلان کردیں۔
یہ فارمولہ میاں صاحب اور خان صاحب دونوں کے لیے بھی سوٹ ایبل ہوگا اور یہ ملک کے لیے بھی بہتر ہوگا ورنہ دوسری صورت میں میاں صاحب اور عمران خان کی ضد اور انا اس ملک میں داعش جیسی تحریک پیدا کر دے گی اور دنیا کی پہلی جوہری مسلم ریاست عبرت کا نشان بن کر رہ جائے گی اور لوگ قبروں کی حفاظت کے لیے بھی مسلح گارڈز رکھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔