سویٹ ہوم کا جاوید میرا ہم نام ہے، جاوید کی عمر سات سال ہے، یہ کون ہے، اس کا والد کون تھا، والدہ کون ہے اور یہ کہاں کا رہنے والا تھا؟ یہ نہیں جانتا، یہ بچہ پیر ودہائی کے علاقے سے برآمد کیا گیا تھا، آپ اگر راولپنڈی اسلام آباد میں رہتے ہیں یا آپ ان دونوں شہروں سے واقف ہیں تو پھر یقینا آپ پیر ودہائی سے بھی آگاہ ہوں گے، پیر ودہائی اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع ہے، یہ بنیادی طور پر بسوں، ویگنوں اور ٹرکوں کا اڈہ ہے۔
یہاں سیکڑوں کی تعداد میں چھوٹے چائے خانے، نچلے درجے کے ہوٹل، سرائے، کھوکھے، کچی آبادیاں اور جرائم پیشہ لوگوں کے ٹھکانے ہیں، یہ علاقہ منشیات فروشی، عصمت فروشی اور نابالغ بچوں کے ساتھ زیادتی کا مرکز بھی ہے، پیر ودہائی سے شراب، چرس اور افیون سے لے کر ہیروئن اور کوکین تک ملتی ہے، یہاں روزانہ سیکڑوں ٹرک ڈرائیور اور کلینر آتے ہیں، ان کی اکثریت منشیات اور جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہوتی ہے، ایک بریگیڈیئر صاحب اینٹی نارکوٹکس فورس کے کمانڈرہیں، یہ بریگیڈیئر صاحب پیر ودہائی میں منشیات فروشوں کے ٹھکانوں پر چھاپے مارتے رہتے ہیں۔
انھوں نے ایک بار علاقے سے چند نوجوان لڑکیاں برآمد کیں، یہ بچیاں کالج میں پڑھتی تھیں، یہ منشیات کی عادی ہو گئیں، یہ گھر سے کالج جاتیں لیکن منشیات لینے کے لیے پیر ودہائی چلی جاتیں اور وہاں ٹرکوں کے ڈرائیور اور کلینر ایک آدھ پڑیا کے بدلے ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے، آپ اس کا تصور تک نہیں کر سکتے، بریگیڈیئر صاحب نے ان بچیوں کو انتہائی بری حالت میں "ریکور" کیا، بچیوں سے تفتیش ہوئی تو ان کا تعلق معزز خاندانوں سے نکلا، بریگیڈیئر صاحب نے بچیوں کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور انھیں ان کے خاندانوں کے حوالے کر دیا، یہ پیر ودہائی کا ایک پہلو تھا، دوسرا پہلو سات سال کا بچہ جاوید ہے، بیرسٹر عابد بیت المال کے موجودہ ایم ڈی ہیں، یہ ملک کے بڑے کاروباری گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔
بیرسٹر عابد کو 2011 میں کسی نے اطلاع دی، پیر ودہائی کے ایک مکان میں چھوٹا سا بچہ قید ہے، اس بچے کے ساتھ مسلسل زیادتی ہو رہی ہے، بیرسٹر عابد پولیس فورس لے کر پیر ودہائی پہنچ گئے، مکان پر چھاپہ مارا اور جاوید "ری کور" ہو گیا، بچے کی عمر چار سال تھی اور اس کی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی حالت انتہائی خراب تھی، یہ بچہ جوان مردوں کو دیکھ کر چیخیں مارتا تھا اور دوڑ کر کمروں کے کونوں میں چھپنے کی کوشش کرتا تھا، بیرسٹر عابد بچے کو اپنے گھر لے گئے، یہ بچہ اب "سویٹ ہوم" میں مقیم ہے، اس کی نفسیات بحال ہو رہی ہے لیکن یہ آج بھی لوگوں کو دیکھ کر ڈر جاتا ہے۔
میں عید پر سویٹ ہوم گیا، میں جاوید سے ملا، میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے اپنے پاس بٹھا لیا، بچے کی آنکھوں میں ابھی تک اداسی، خوف اور دہشت موجود ہے، یہ گھبرا کر دائیں بائیں دیکھتا ہے، یہ دوسرے بچوں کے ساتھ "مکس اپ" ہونے میں بھی دقت محسوس کرتا ہے، میں اس معصوم بچے کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا، میری آنکھوں میں آنسو تھے اور میں سوچ رہا تھا، ہم کس سماج میں رہ رہے ہیں، ایک ایسے سماج میں جس میں چند درندوں نے ملک کے کسی حصے سے اڑھائی سال کا بچہ اغواء کیا۔
یہ بچہ مختلف لوگوں کے ہاتھوں بکتا ہوا پیر ودہائی پہنچا اور پیرودہائی میں اس چھوٹے سے معصوم بچے کو "چائلڈ پراسٹی چیوٹ" بنا دیا گیا، یہ بچہ ڈیڑھ سال تک درندگی کا نشانہ بنتا رہا، یہ خوش نصیب تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کی آہیں اور سسکیاں سن لیں، بیرسٹر عابد اس تک پہنچ گئے اور یوں یہ بچہ درندگی کے دوزخ سے باہر آ گیا جب کہ جاوید جیسے نہ جانے کتنے بچے اس وقت پیر ودہائی میں موجود ہوں اور ان کے ساتھ بھی جاوید جیسا سلوک ہو رہا ہو، آپ تصور کیجیے اور اس کے بعد سوچیے کیا ہمیں جاوید جیسی مثالوں کے بعد اللہ تعالیٰ سے کرم کی توقع رکھنی چاہیے؟
کیا ہم ایسے مظالم اور ایسی مثالوں کے بعد قدرت کی طرف سے اس سلوک کے حق دار نہیں ہیں جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، میں جب جاوید سے ملا تو مجھے محسوس ہوا ہم اس سے کہیں زیادہ برے سلوک کے مستحق ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی ہے، قدرت ہمیں صرف جوتے مار رہی ہے ورنہ ہم آسمان سے پتھروں اور زمین سے زلزلوں کے حق دار ہیں، اسلام آباد چوہدری نثار علی خان کی "سلطنت" ہے، میری ان سے درخواست ہے آپ کم از کم پیر ودہائی ہی کو منشیات، عصمت دری اور "چائلڈ پراسٹی چیوشن" سے پاک کر دیں، آپ کو سیکڑوں ہزاروں لوگ جھولی پھیلا کر دعائیں دیں گے۔
بیت المال حکومت پاکستان کا ادارہ ہے، حکومت نے یہ ادارہ 1992میں ملک کے نادار، بے بس اور بے کس لوگوں کی مدد کے لیے بنایا تھا، ملک کے دوسرے اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی آہستہ آہستہ فوت ہو گیا لیکن پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں اس کی ذمے داری زمرد خان کو سونپ دی گئی، زمرد خان پیپلز پارٹی کے پرانے ورکر ہیں، یہ 2002 میں راولپنڈی سے ایم این اے بھی رہے، زمرد خان نے اس مردہ محکمے میں دوبارہ روح پھونک دی، خان صاحب نے بے شمار کام کیے، ان کاموں میں "سویٹ ہوم" بھی شامل ہے۔
بیت المال میں 2010 میں "سویٹ ہوم" قائم کیا گیا، یہ ہوم یتیم بچوں کی کفالت، رہائش اور تعلیم کے لیے بنایا گیا، ملک بھر سے چھوٹے یتیم بچے لائے گئے، ان بچوں کو سویٹ ہوم میں رکھا گیا اور انھیں عام بچوں کے برابر سہولتیں دی گئیں، زمرد خان کا یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا، 2013 تک ملک میں 28 سویٹ ہومز بن چکے تھے، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو دیگر عہدیداروں کی طرح زمرد خان بھی فارغ ہو گئے، کاش ہمارے ملک میں اتنی سیاسی بلوغت پیدا ہو جائے کہ ہم لوگوں کو پارٹی، نسل، قوم اور زبان کے بجائے پرفارمنس پر دیکھنا اور پرکھنا شروع کر دیں .
میاں نواز شریف کو چاہیے تھا۔ یہ زمرد خان کو پیپلز پارٹی کے بجائے بیت المال کی پرفارمنس پر دیکھتے اور اقتدار کی تبدیلی کے باوجود ان سے کام جاری رکھنے کی درخواست کرتے لیکن ملک کے سیاسی کلچر کے عین مطابق زمرد خان کو بھی فارغ کر دیا گیا تاہم "سویٹ ہوم" جاری رہے، بیرسٹر عابد بیت المال کے نئے ایم ڈی ہیں، یہ اچھے، پڑھے لکھے اور متحرک نوجوان ہیں، یہ زمرد خان کی خدمات کو مانتے بھی ہیں اور ان کی تعریف بھی کرتے ہیں، سویٹ ہوم کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے، یہ اب 33 ہو چکے ہیں ان میں ساڑھے تین ہزار یتیم بچے ہیں، 14سویٹ ہومز ملک کے مختلف مخیر حضرات چلا رہے ہیں، گیارہ سو بچے اہل درد نے گود لے رکھے ہیں، یہ ان بچوں کے تمام اخراجات برداشت کر رہے ہیں، میری مخیر حضرات سے درخواست ہے آپ سویٹ ہومز کا دورہ کریں، بچوں سے ملیں اور اپنی استطاعت کے مطابق بچوں کو سپانسر کرنا شروع کر دیں، سویٹ ہوم میں اسپانسر شپ کی تین کیٹگریز ہیں، آٹھ ہزار روپے، دس ہزار روپے اور بارہ ہزار روپے ماہانہ، آپ ان میں سے کوئی ایک پیکیج منتخب کر سکتے ہیں۔
میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو بھی "سویٹ ہومز" سے متعلق ایک تجویز دینا چاہتا ہوں، میاں برادران اگر سویٹ ہوم یا بیت المال کو صرف دس منٹ دے دیں اور وہ پالیسی بنا دیں جس کا میں ذکر کروں گا تو ملک میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے، ہم اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں عثمانی خلافت تاریخ اسلام کا مضبوط ترین دور محسوس ہو گی، یہ سلطنت عثمان بن ارطغرل نے 1299 میں قائم کی اور یہ 1922تک قائم رہی، عثمانی خلافت چار براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی، عثمانی سلطنت کی کامیابی کی چار وجوہات میں سے ایک وجہ اس کی بیورو کریسی تھی۔
ترک بادشاہوں کے سرکاری اہلکار بے انتہا ایماندار، ماہر، ذہین اور بہادر تھے، یہ چار سو لوگوں کا گروپ تھا، یہ لوگ پوری سلطنت کے امور چلاتے تھے، یہ عثمانی سلطنت کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتے تھے، یہ چار سو لوگ کون ہوتے تھے؟ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی، یہ یتیم بچے ہوتے تھے اور ان کی اکثریت عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھی، بادشاہوں نے استنبول میں اعلیٰ سطح کے پانچ اسکول اور بورڈنگ ہائوس بنا رکھے تھے، یہ ملک کے مختلف حصوں سے یتیم بچوں کو ان بورڈنگ ہائوسز سے لاتے تھے، شہزادوں کی طرح ان کی پرورش کی جاتی تھی، انھیں اعلیٰ ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی تربیت دی جاتی تھی، ملک کے نامور اتالیق انھیں جدید ترین تعلیم دیتے تھے، ان بچوں کو جنگی مہارت بھی سکھائی جاتی تھی اور انتظامی امور بھی۔
یہ بچے جب جوان ہوتے تو انھیں مختلف محکموں اور شعبوں کی ٹریننگ دی جاتی اور یہ لوگ جب تربیت کے تمام کٹھن مراحل گزار لیتے تھے تو پھر انھیں بیورو کریسی میں شامل کر دیا جاتا، یہ بچے یتیم ہوتے تھے، ان کا کوئی خاندان، کوئی قبیلہ نہیں ہوتا تھا چنانچہ یہ اقرباء پروری اور فیورٹ ازم جیسی علتوں سے پاک ہوتے تھے، یہ عیسائی ہوتے تھے چنانچہ یہ مذہبی دبائو میں بھی نہیں آتے تھے اور انھیں پہلے دن سے افسر بنایا جاتا تھا چنانچہ یہ ماہر بھی ہوتے تھے، ترکوں کا یہ فارمولہ کامیاب ہو گیا اور عثمانی خلافت 6 سو23 سال تک چار براعظموں پر قدم جما کر کھڑی رہی۔
میاں نواز شریف بھی اگر ان سویٹ ہومز کو ملٹری اور سول سروسز اکیڈمیز میں تبدیل کر دیں، یہ ملک میں مزید 65 سویٹ ہومز بنائیں، یتیم بچوں کو ملٹری اور سول سروسز کی ٹریننگ دیں، ان بچوں کو مخصوص ماحول میں بڑا کیا جائے اور انھیں بڑا ہونے کے بعد ملکی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بنا دیا جائے تو یہ بچے وہ کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں جو آج تک دوسرے لوگ نہیں دے سکے، یہ پورے ملک کو بدل کر رکھ دیں گے، یہ بچے اصلی پاکستانی ہیں، یہ پاکستان کے اصل محافظ ثابت ہو سکتے ہیں، آپ بس ان کے سر پر ہاتھ رکھ دیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا کرم ملاحظہ کریں، یہ بچے مایوس پاکستان کو کبھی مایوس نہیں کریں گے، آپ ایک بار تجربہ کر کے دیکھ لیں۔