آمنہ کا تعلق مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کے گاؤں لنڈی پتافی سے تھا، آمنہ کی عمر 22 سال تھی، اس کے تین جرم تھے، اس کا پہلا جرم سماجی کمزوری تھا، یہ کمزور خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور آپ اگر سماجی لحاظ سے کمزور ہیں تو اس ملک میں آپ کے 75 فیصد انسانی حقوق پیدا ہوتے ہی سلب ہو جاتے ہیں، اس کا دوسرا جرم خوبصورتی تھا، یہ جسمانی لحاظ سے خوبصورت بچی تھی اور آپ اگر خاتون ہیں اورخوبصورت بھی ہیں تو آپ جان لیں آپ اس ملک میں محفوظ نہیں ہیں، آپ بیری کا وہ درخت ہیں جس پر دن رات پتھر پڑیں گے، ہمارے ملک میں بچیاں اس وقت زیادہ غیر محفوظ ہو جاتی ہیں جب یہ خوبصورت بھی ہوں اور ان کا خاندان بھی کمزور ہو اور آمنہ میں یہ دونوں خامیاں موجود تھیں اور آمنہ کا تیسرا جرم اس کا پاکستان میں پیدا ہو نا بھی تھا، ہمارے ملک میں سب کچھ ہے، نہیں ہے تو انصاف نہیں، ہم مانیں یا نہ مانیں ہمارے ملک میں آج بھی حکمران وقت چیف جسٹس ہوتے ہیں، فیصلہ بڑا ہو یا چھوٹا یہ فیصلہ بہرحال یہ لوگ ہی کرتے ہیں۔
خدا کی پناہ جس ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کو اس جرم میں پھانسی پر چڑھا دیا جائے کہ یہ عین اس دور میں ملک کے سب سے بڑے لیڈر تھے جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا تھا اور میاں نواز شریف کے پورے خاندان کو اس لیے جیلوں میں پھینک دیا جائے اور ملک سے زبردستی جلا وطن کر دیا جائے کہ تین جرنیلوں نے اقتدار پر قابض ہونے کا فیصلہ کر لیا تھااور یہ جرنیل جب اقتدار پر قابض ہو جائیں تو سپریم کورٹ نہ صرف ان کی انا کی توثیق کر دے بلکہ انھیں ملکی آئین میں ترامیم کا اختیار بھی دے دے لہٰذا جس ملک میں انصاف کی صورتحال یہ ہو، جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگا دیا جاتا ہوں، میاں نواز شریف کو خاندان سمیت جدہ پھینک دیا جاتا ہو اور جس میں ماتحت جنرل پرویز مشرف ایوان صدر آئے اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر رفیق احمد تارڑ کو کرائے کی گاڑی میں بٹھا کر لاہور روانہ کر دے اور اپنے آپ کو صدر ڈکلیر کر دے، اس ملک میں آمنہ جیسی بچیوں کا پیدا ہونا جرم نہیں تو کیا ہے؟ اور آمنہ اس جرم کی سزا وار بھی تھی، مجرم آمنہ علاقے کے بااثر خاندان کے ایک سپوت نادر حسین بھنڈ کوپسند آ گئی، اس نے رشتہ مانگا، آمنہ کے والدین نے انکار کر دیا، ہمارے ملک میں انکار سننے کی روایت موجود نہیں اور یہ انکار اگر کسی نوجوان بچی کے غریب والدین کی طرف سے ہو تو یہ ناقابل معافی جرم بھی ہوتا ہے، نادر بھنڈ مائینڈ کر گیا چنانچہ اس نے 5 جنوری 2014ء کو آمنہ کو اٹھا لیا، یہ پانچ لوگ تھے، ان پانچ لوگوں نے آمنہ کے ساتھ وہ کیا جو یہ لوگ کر سکتے تھے، آمنہ کو درندگی کا نشانہ بنا کر باہر پھینک دیا گیا۔
یہ بچی صرف "مجرم" نہیں تھی، یہ بے وقوف بھی تھی اور ظالم بھی۔ آپ اس کی بے وقوفی ملاحظہ کیجیے، یہ انصاف لینے کے لیے اپنی ماں کے ساتھ تھانے چلی گئی، ایسے مقدمے تھانوں کے لیے صرف مقدمے نہیں ہوتے، یہ سونے کی کان ہوتے ہیں، ایف آئی آر درج ہوتی ہے، ملزم گرفتار ہوتے ہیں، ملزموں سے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں، میڈیکل رپورٹ کے نام پر ڈاکٹروں کو بھی نوازا جاتا ہے، کیس عدالتوں میں جاتے ہیں تو وکیلوں کا جمعہ بازار لگ جاتا ہے، مظلوم کو انصاف تک پہنچنے کے لیے وکیل کرنا پڑتا ہے، متاثرہ خاتون کو بار بار عدالت طلب کیا جاتا ہے، اس سے درجنوں لوگوں کی موجودگی میں پوچھا جاتا ہے، بی بی بتا، ان میں سے کون کون تھا، کس نے کیا کیا، تمہیں اچھا لگا یا برا، شروع میں برا لگا، پھر اچھا لگا اور آخر میں بہت برا، مقدمہ جوں جوں آگے بڑھتا جاتا ہے، ڈاکٹر، تفتیشی اور وکیل امیر ہوتے جاتے ہیں، انصاف کے اندھے عمل کے دوران متاثرہ خاتون عزت، توقیر، ذہنی توازن اور روحانی قوت تمام اثاثوں سے محروم ہو جاتی ہے، یہ کیس بھی تھانہ بیٹ میر ہزار خان کے عملے کے لیے رزق کا ذریعہ بن گیا، ملزم گرفتار ہوئے، ملزموں سے ستر ہزار روپے وصول کیے گئے، "جرم" کے آثار ختم کیے گئے، "مجرم آمنہ" کے بیانات میں سے تضادات تلاش کیے گئے اور آخر میں پولیس نے ملزمان کو بے گناہ قرار دے دیا، آمنہ اور اس کی ماں کو بلیک میلر کا ٹائیٹل دے دیا گیا۔
پولیس کی نظر میں آمنہ بلیک میلر تھی، یہ ایک ایسی بلیک میلر بھی جو باعزت خاندانوں کی عزت اچھالنا چاہتی تھی، عدالت نے 13 مارچ کو باعزت نادر حسین بھنڈ کو باعزت بری کر دیا، نادر بھنڈ کے دوستوں نے عدالت کے سامنے مٹھائی تقسیم کی، ڈھول بجائے اور یہ لوگ نعرے لگاتے ہوئے واپس آ گئے، آمنہ اس عظیم اور بروقت انصاف کی تاب نہ لا سکی، یہ اپنی ماں کے ساتھ تھانے پہنچی، ایس ایچ او اور تفتیشی آفیسر کے بارے میں پوچھا، یہ دونوں تھانے میں موجود نہیں تھے، آمنہ تھانے سے باہر آئی، اس نے اپنے اوپر تیل چھڑکا اور خود کو آگ لگا لی، لوگوں نے آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن آگ اگر صرف باہر ہوتی تو یہ شاید بجھ بھی جاتی، آمنہ تو باہر اور اندر دونوں طرف سے جل رہی تھی چنانچہ آگ نہ بجھی، یہ بچی اگلے دن نشتر اسپتال ملتان میں انتقال کر گئی۔
میں نے عرض کیا ناں یہ بچی مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ بے وقوف بھی تھی اور ظالم بھی۔ یہ اگر بے وقوف نہ ہوتی تو یہ کبھی تھانے نہ جاتی، یہ اس ملک کے نظام کو اسی دن سمجھ جاتی جس دن یہ دن دھاڑے اغوا ہوئی تھی اور اس کے ساتھ جب پانچ لوگوں نے زیادتی کی، اسے معلوم ہو جانا چاہیے تھا، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف نام کی کوئی چیز موجود نہیں، آمنہ کو چاہیے تھا، یہ اس ظلم کو چپ چاپ پی جاتی، یہ اپنی بے عزتی کے ساتھ سمجھوتہ کرتی اور چپ چاپ گھر بیٹھ جاتی لیکن یہ کیونکہ بے وقوف تھی اور یہ غباروں کے جوتے پہن کر کانٹوں پر چل پڑی تھی اور پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو ایسے بے وقوفوں کے ساتھ ہوتا ہے، یہ بچی صرف بے وقوف ہوتی تو شاید مجھے کوئی پروا نہ ہوتی، ملک میں ایسی کروڑوں آمنائیں ہیں جو پیدا ہی دکھ سمیٹنے اور مرنے کے لیے ہوتی ہیں مگر یہ بچی ظالم بھی تھی اور مجھے اس کے ظالم ہونے پر اعتراض ہے۔
آمنہ نے خود کو تھانے کے سامنے آگ لگا کر ملک میں انصاف کا متبادل نظام متعارف کروا دیا، اس نے ملک کی تمام آمناؤں کو بتا دیا، آپ اگر انصاف چاہتی ہیں تو آپ کو اپنے جسم پر تیل چھڑکنا ہوگا، ماچس جلانی ہوگی اور سیکڑوں ہزاروں لوگوں کے سامنے خود کو آگ لگانی ہو گی، تم اگر یہ کر لو گی تو میڈیا بھی تمہارے دروازے پر آ جائے گا، چیف جسٹس بھی سوموٹو ایکشن لے لیں گے، وزیراعلیٰ بھی تمہارے گھر پہنچے گا، آئی جی بھی لوگوں کے سامنے خفت اٹھائے گا، آر پی او بھی معطل ہو گا، ایس ایچ او اور تفتیشی بھی گرفتار ہو گا، ملزمان کو جیل میں بھی ڈالا جائے گا، فرانزک لیبارٹری بھی چل پڑے گی، گواہ بھی مل جائیں گے، ڈاکٹر بھی اصل رپورٹ لے کر حاضر ہو جائے گا، ماں کو پانچ لاکھ روپے اور بھائی کو نوکری بھی مل جائے گی اور ملک کے بڑے صحافی اور اینکر بھی تمہارا نام لیں گے، آمنہ ظالم تھی، یہ ملک کو انصاف کا متبادل نظام دے گئی، یہ 18 کروڑ مظلوم پاکستانیوں کو بتا گئی تم اگر انصاف چاہتے ہو، شہرت چاہتے ہو، ماں کی مالی امداد کرانا چاہتے ہو، پولیس کا احتساب کرانا چاہتے ہو، ڈاکٹر سے اصل میڈیکل سرٹیفکیٹ لینا چاہتے ہو، چیف جسٹس کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہو، چیف منسٹر کو مظلوم کے دروازے پر دیکھنا چاہتے ہو، بھائی کی نوکری کا بندوبست کرانا چاہتے ہو اور دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہو جتوئی بھی ایک تحصیل ہے اور اس تحصیل میں لنڈی پتافی نام کا ایک گاؤں بھی ہے تو پھر تمہیں ایک موم بتی، ایک شمع جلانا ہوگی، اپنے بدن کی موم بتی، اپنے جسم کی شمع جلانا ہوگی، تم خود کو مشعل بنا لو، تم اپنی مظلومیت کے دھاگے کو آگ لگا ؤ اور انسانیت کی موم کو دنیا کے سامنے پگھل جانے دو، پورا ملک تمہاری طرف متوجہ ہو جائے گا، تمہارے بدن کی آگ نظام کی نیند اڑا دے گی اور آمنہ، ظالم آمنہ نے یہ کیا، اس نے سمجھوتوں کے کیچڑ میں لپٹے معاشرے کے ہاتھ میں بدن کی مشعل پکڑا دی اور اب میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری اورعمران خان اور الطاف بھائی اور مولانا فضل الرحمن اور چوہدری شجاعت حسین اور جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور پارلیمنٹ شریف تمام ادارے تمام لوگ مشعلیں گننا شروع کردیں، ایک آمنہ کے بعد دوسری آمنہ اور دوسری آمنہ کے بعد سیکڑوں ہزاروں آمناؤں کے لیے چیک تیار کر لیں اور ہیلی کاپٹروں میں پٹرول ڈلوا لیں کیونکہ جسموں کی مشعلیں تیل سے تر ہو چکی ہیں، ہماری ہر گلی میں ایک آمنہ بیٹھی ہے اور اس آمنہ کے ہاتھ میں جتوئی کی آمنہ نے اپنے جسم کی مشعل پکڑا دی ہے۔