لاہور آرٹس کونسل کو عطاء الحق قاسمی نہ ملتے تو یہ کونسل اب تک میانی صاحب کی کوئی ٹوٹی پھوٹی قبر بن چکی ہوتی اور سیاہ رنگ کے کوے اس کے سرہانے بیٹھے ہوتے، لاہور آرٹس کونسل اور ملک بھر کے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، موسیقاروں، گلوکاروں، نعت خوانوں، مصوروں، اداکاروں اور صحافیوں کو قاسمی صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ انھوں نے پاکستان کے ان تمام مرتے ہوئے فنون اور شخصیات کو نئی زندگی دے دی جو گم نام گوشوں کے بجھے ہوئے چراغ بن چکے تھے، وقت اگر قاسمی صاحب کی کالم نگاری، شاعری، نثر، محفل آرائی، خلوص اور حس مزاح کو فراموش بھی کر دے تو بھی یہ لاہور آرٹس کونسل کے لیے ان کی خدمات کو نہیں بھلا سکے گا، یہ میرا یقین بھی ہے اور دعویٰ بھی۔
لاہور آرٹس کونسل پاکستان بالخصوص پنجاب میں آرٹ اور کلچر کی ترویج کے لیے بنائی گئی تھی لیکن یہ ادارہ بھی پاکستان کے دوسرے اداروں کی طرح آہستہ آہستہ مردہ گھوڑا بن گیا، عطاء الحق قاسمی نے چھ سال قبل لاہور آرٹس کونسل کی سربراہی قبول کی اور اس کے بعد یہ ادارہ دوبارہ زندہ ہو گیا، یہ اس وقت ملک میں آرٹ اور کلچر کی واحد زندہ کونسل ہے، آپ اگر لاہور کے رہنے والے ہیں یا آپ لاہور آتے جاتے رہتے ہیں تو آپ کو یاد ہو گا الحمراء لاہور کے تینوں ہال فحش ڈراموں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے، یہ ڈرامے فحاشی اور مجرا بازی کے ایٹمی ری ایکٹر تھے، اس دور میں نیک خواتین و حضرات الحمراء میں قدم رکھنا تو دور یہ اس کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے لیکن قاسمی صاحب نے نہ صرف الحمراء کو فحاشی و عریانی سے پاک کر دیا بلکہ انھوں نے اس کمپلیکس کو ادب، ثقافت اور تہذیب کے پانیوں سے غسل بھی دے دیا۔
میں قاسمی صاحب کا صرف فین نہیں ہوں میں ان کا مرید بھی ہوں، یہ میرے لیے گرو کی حیثیت رکھتے ہیں، عظیم شخصیات کے بارے میں کہا جاتا ہے، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، آپ جن کی محفل میں بور نہیں ہوتے، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں آپ جن کے پاس دس بیس گھنٹے گزارنے کے بعد بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں "یہ محفل جلدی ختم ہو گئی" اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، آپ جن کے پاس سے اٹھتے ہوئے ہمیشہ تجربے، دانائی اور دانش کے موتی لے کر اٹھتے ہیں اور عطاء الحق قاسمی ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، میں ان سے جب بھی ملا، میں نے یہ ضرور سوچا قاسمی صاحب کے بغیر زندگی کتنی اداس ہو جاتی ہے، میں جب بھی ان سے ملا۔
میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور میں نے جب بھی ان سے ملاقات کی، میرے اندر سے قہقہے نکلے، ملک میں اس وقت ان جیسا کوئی ایسا شخص موجود نہیں جس میں یہ ساری خوبیاں موجود ہوں، جو شاعر بھی ہو اور اس کے ساتھ انسان بھی ہو، جو صحافی بھی ہو اور اس میں عاجزی بھی ہو، جو دانش ور بھی ہو اور اس کا دل بھی کھلا ہو، جو مفکر بھی ہو اور ہنسنا بھی جانتا ہو، جو کالم نگار بھی ہو اور اپنے خیالات میں واضح بھی ہو اور جو سرکاری خدمات بھی سرانجام دیتا ہو اور سرکاری منافقت سے بھی پاک ہو، قاسمی صاحب واقعی قاسمی صاحب ہیں۔
عطاء الحق قاسمی پانچ برسوں سے لاہور میں ادبی کانفرنسیں کروا رہے ہیں، انھوں نے 23 مئی سے 25مئی تین دن لاہور میں پانچویں انٹرنیشنل کانفرنس کروائی، اس کا موضوع قاسمی صاحب کے خیالات کی طرح اچھوتا تھا "بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں " یہ ایک منفرد کانفرنس تھی کیونکہ یہ صرف ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں تک محدود نہیں تھی بلکہ اس میں ریٹائرڈ بیورو کریٹس، پروفیسرز، جرنیل، ڈاکٹر، سائنس دان، سیاستدان، گلوکار، اداکار، موسیقار، مصور، وکیل، کھلاڑی، سوشل ورکرز، صنعت کار اور تاجر بھی شریک تھے، الحمرا کے تین ہال تین دن تک "پیک" رہے، سیکڑوں لوگ ہالوں میں بیٹھ کر اپنی پسندیدہ شخصیات کے بیتے دنوں کی یادیں سنتے رہے، یہ قہقہوں، آہوں، سسکیوں اور پھر قہقہوں کی ایک دلچسپ تقریب تھی، میں بھی اس کانفرنس میں شریک تھا۔
میں تین دن مختلف ہالوں میں بیٹھ کر اپنی پسندیدہ شخصیات کی یادیں سنتا رہا اور ہر شخص کی یادیں سننے کے بعد میرے عزم اور حوصلے میں اضافہ ہوا۔ کانفرنس میں شریک تمام لوگ سیلف میڈ تھے اور یہ مشکلات، آلام اور مصائب کی کرچیوں پر چل کر کامیابی کی سیڑھی تک پہنچے تھے، پہلے دن کی تقریب میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اپنے بیتے ہوئے دنوں کی یادیں شیئرکیں، میاں صاحب نے بتایا، میں میاں نواز شریف کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا، میاں صاحب نے بڑے بھائی کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے مجھے غلط آئوٹ دے دیا، پیچھے سے آواز آئی "میاں صاحب آج بھی یہی کر رہے ہیں ".
علامہ اقبال کے صاحبزادے جسٹس جاوید اقبال نے بتایا میری والدہ علامہ اقبال سے اکثر کہا کرتی تھیں، آپ سارا دن گھر میں لیٹے رہتے ہیں، آپ کوئی کام دھندہ کیوں نہیں کرتے، سینیٹر پرویز رشید نے جوانی کی یادیں شیئر کیں، ان کا کہنا تھا، استاد غلام حسین شگن موہنی روڈ کی مسجد کی دیوار کے ساتھ بیٹھ کر ہرسال سنگیت کی محفل سجاتے تھے، برصغیر کی استادی گائیکی کے تمام گائیک اس محفل میں شریک ہوتے تھے، عشاء کی نماز کے بعد یہ محفل شروع ہوتی تھی اور فجر کی اذان تک جاری رہتی تھی، مسجد کے امام صاحب سمیت کسی بھی شخص کو اس پراعتراض نہیں ہوتا تھا، فجر کے وقت امام صاحب خود آ کر استاد شگن سے کہتے تھے فجر کی اذان کا وقت ہو گیا ہے، آپ یہ محفل ختم کریں تاکہ اذان دی جائے۔
اعتزاز احسن نے بتایا میں 1946ء میں اس وقت پہلی بار گرفتار ہوا جب میری عمر فقط ایک سال تھی، میں والدہ کی گود میں والدہ کے ساتھ گرفتار ہو گیا، اصغر ندیم سید نے انکشاف کیا، مولانا فضل الرحمن میرے اسکول فیلو تھے، یہ بچپن میں بھی اسی طرح موٹے تازے، خوبصورت اور گگلو سے تھے اور یہ اسکول میں سب کی توجہ کا مرکز رہتے تھے، سندھ کے مشہور ماہر تعلیم اور مصنف ڈاکٹر قاسم بھوگیو نے انکشاف کیا، میرے والد چرواہے تھے، یہ دوسروں کی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے، ڈاکٹر خواجہ ذکریا نے بتایا، میں پوری زندگی استعفیٰ جیب میں ڈال کر پھرتا رہا اور عطاء الحق قاسمی نے انکشاف کیا، میں نے وزیر آباد کے جس اسکول میں تعلیم حاصل کی لوگ اس اسکول کو کھوتی اسکول کہتے تھے۔
میں نے بھی کانفرنس میں اپنی زندگی کی سو عظیم حماقتوں میں سے چند حماقتیں پیش کیں، میری پہلی حماقت بچپن میں ایک بزرگ کے کان میں پھونک مارنا تھی، ملک کے تمام محلوں میں چند ایسے بزرگ ہوتے ہیں جو بڑھاپے کی انتہا چھوتے ہی مسجد میں نماز پڑھنے پر اصرار شروع کر دیتے ہیں، یہ سلو موشن میں چلنے والے بزرگ ہوتے ہیں، یہ ظہر کے وقت گھر سے نکلتے ہیں اور یہ جب مسجد پہنچتے ہیں تو عصر کی جماعت کھڑی ہو چکی ہوتی ہے، یہ عموماً آخری صف میں کھڑے ہوتے ہیں، نمازی سجدے میں ہوتے ہیں لیکن یہ رکوع کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں، ہمارے محلے میں بھی ایک ایسے ہی بزرگ ہوتے تھے، یہ بہت نیک، پارسا اور اچھے انسان تھے بس ان میں ایک خرابی تھی کوئی شخص یا بچہ اگر ان کے کان میں پھونک مار دیتا تھا تو وہ پاگل ہو جاتے تھے اور وہ اس پاگل پن میں اسے ماں بہن کی ننگی گالیاں دینے لگتے تھے، میں ان کے اس خبط سے واقف نہیں تھا.
ہم بچے ایک دن مسجد میں بیٹھے تھے، بابا جی آخری صف میں کھڑے ہو کر رکوع کی تیاری کر رہے تھے، میرے ایک ساتھی نے مجھے ترغیب دی، تم اس بابا جی کی کان میں پھونک مار کر جو دعا کرو گے وہ فوراً قبول ہو جائے گی، میں ساتھی کے چکر میں آگیا، بابا جی اس وقت رکوع کے لیے جھک رہے تھے، میں اپنا منہ بابا جی کے کان کے قریب لایا اور ان کے کان میں پھونک مار دی، بابا جی کو کرنٹ سا لگا، وہ سیدھے ہوئے اونچی آواز میں چلا کر بولے، مجھے نماز ختم کر لینے دو، اس کے بعد تمہاری ماں کو ?"۔
بابا جی کی چیخ اور گالی سن کر نمازیوں کی ہنسی چھوٹ گئی، جماعت ٹوٹ گئی، لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور ٹھیک ٹھاک پھینٹی لگا دی، میں نے اس مار سے سیکھا "انسان کو کبھی کسی اجنبی کے کان میں پھونک نہیں مارنی چاہیے" میں آج کل جب میاں نواز شریف کے ساتھیوں کو یہ کہتے سنتا ہوں "میاں صاحب کا قصور کیا ہے؟ " تو میں ان سے عرض کرتا ہوں "میاں صاحب بلاوجہ فوج کے کان میں پھونک مار رہے ہیں " میری دوسری حماقت کون آئس کریم تھی، میں نے آٹھویں جماعت میں پہلی بار کون آئس کریم دیکھی، میں نے ڈیڑھ روپے میں کون خریدلی، دکاندار نے کون ٹشو پیپر میں لپیٹی اور میرے حوالے کر دی میں نے ٹشو پیپر بھی پہلی بار دیکھا تھا، میں کون آئس کریم کے ساتھ ساتھ ٹشو پیپر بھی کھا گیا، میں آج بھی جب ٹشو پیپر دیکھتا ہوں تو مجھے یہ واقعہ یاد آجاتا ہے اور میں انگریزوں کو برا بھلا کہنے لگتا ہوں کہ ان بدبختوں نے کیسی واہیات اور بد ذائقہ چیز بنائی۔ میں نے اپنی پہلی کافی کی واردات بھی بیان کی جسے پینے کے بعد میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا تھا "کیا تمہاری چائے کا دودھ بھی خراب ہے یا پھر صرف میرا خراب ہے"۔
میں ایک نالائق طالب علم تھا، میں ہر کلاس میں دوسرے تیسرے درجے میں پاس ہوتا تھا لیکن پھر میں نے یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی، میں نے اپنے نوٹس بنائے، ان کا رٹہ لگایا، آدھ گھنٹے میں 25 صفحے لکھنے کی پریکٹس کی اور میں نے یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کر لیا، میں نے اس سے سیکھا، آپ اگر تکنیک اور مشقت کو زندگی بنا لیں اور اللہ تعالیٰ آپ پر کرم فرمائے تو آپ زندگی میں کامیاب ہو جاتے ہیں، میں نے نوجوانوں کو پہلی جاب حاصل کرنے کا قصہ بھی سنایا، میں کس طرح مہینہ بھر نوائے وقت لاہور کے چکر لگاتا رہا، میں وہاں کس طرح تین تین، چارچار گھنٹے بیٹھتا رہا اور کس طرح میرے ڈھیٹ پن نے میرے سفارشی پیدا کر دیے۔
کانفرنس کے تمام شرکاء اور حاضرین عطاء الحق قاسمی کے ممنون تھے، قاسمی صاحب نے اس کانفرنس کے ذریعے حالات کے جبر میں پھنسے لوگوں کو یہ پیغام دے دیا "اگر یہ لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں تو آپ بھی کامرانیوں کو چھو سکتے ہیں، بس پلکوں سے بت تراشنا سیکھ لیں، آپ کی زندگی آسان ہو جائے گی"۔