Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Chand Qadam Peechay Hat Jain

Chand Qadam Peechay Hat Jain

آپ کو یاد ہو گا21 جولائی2013ء کو لندن جاتے ہوئے پی آئی اے کے طیارے کا انجن فیل ہو گیا، ماسکو ائیر پورٹ قریب ترین تھا چنانچہ پائلٹ وہاں ایمرجنسی لینڈنگ پر مجبور ہوگیا، اس کے بعد ایک دلچسپ اسٹوری شروع ہوئی، آپ اس اسٹوری میں اپنا مستقبل دیکھ سکتے ہیں، جہاز اترنے کے بعد روسی انجینئرز نے طیارے کا معائنہ کیا، طیارے کا انجن مکمل فیل ہو چکا تھا، یہ فلائٹ اڑ نہیں سکتی تھی، مسافروں کو لاؤنج میں جانے کی اجازت دے دی گئی، اسلام آباد ائیر پورٹ پر مانچسٹر جانے والی فلائٹ تیار کھڑی تھی۔

پی آئی اے نے ماسکو میں پھنسے مسافر نکالنے کے لیے یہ فلائٹ روس روانہ کر دی، فلائٹ میں مانچسٹر کے مسافر بھی موجود تھے، یہ فلائٹ شام کے وقت ماسکو میں لینڈ کر گئی، اس وقت تک خراب جہاز کے مسافروں کو ماسکو ائیر پورٹ پر آٹھ گھنٹے ہو چکے تھے، رمضان کا مہینہ تھا، مسافر روزہ رکھ کر ائیرپورٹ پر پریشان پھر رہے تھے، مانچسٹر کی فلائٹ ماسکو پہنچی تو مسافروں نے شکر ادا کیا مگر اصل امتحان اس کے بعد شروع ہوا۔

پی آئی اے نے ماسکو میں پھنسے مسافر مانچسٹر کی فلائٹ میں شفٹ کر دیے، طیارہ پرواز کے لیے تیار ہوا تو ماسکو سول ایوی ایشن کے افسر طیارے میں پہنچے اور انھوں نے پائلٹ کو جہاز اڑانے سے روک دیا، ان کا کہنا تھا" آپ جب تک دونوں فلائٹس کے لینڈنگ چارجز، پٹرول، خراب جہاز کے معائنے اور فلائنگ چارجز ادا نہیں کر تے آپ ماسکو سے پروازنہیں کر سکتے" پائلٹ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کریڈٹ شیٹ پر دستخط کے لیے تیار تھا مگر ماسکو سول ایوی یشن کا کہنا تھا " ہم نقد رقم چاہتے ہیں، ہم پاکستان کے ساتھ کریڈٹ کے لیے تیار نہیں ہیں " پائلٹ کے پاس نقد رقم کہاں سے آتی، اس نے ماسکو میں پی آئی اے کے عملے سے رابطہ کیا، ان کے پاس بھی رقم موجود نہیں تھی، ماسکو میں پاکستانی سفیر سے رابطہ کیا گیا، سفیر نے سفارتی عملے کا ایک سینئر رکن ائیر پورٹ کی طرف بھگادیا، یہ رکن سفارت کار بھی تھا اور اس کے پاس ائیر پورٹ کے اندر داخل ہونے کا خصوصی کارڈ بھی موجود تھا۔

یہ ائیر پورٹ پہنچا مگر ائیر پورٹ حکام نے اسے اندر داخل نہ ہونے دیا، حکام کا اصرار تھا " ہم مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں، آپ صرف رقم ادا کریں " اب صورتحال یہ تھی، ہمارا ایک طیارہ خراب تھا، دوسرے میں مانچسٹر اور لندن کے مسافر بیٹھے تھے، ائیر پورٹ حکام اس طیارے کو اڑنے نہیں دے رہے تھے، ہمارا سفارت کار ائیرپورٹ کے دروازے پر کھڑا تھا، اسے مذاکرات کے لیے ائیرپورٹ کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں مل رہی تھی اور مسافر تین گھنٹے سے جہاز کے اندر تھے، طیارے کے اندر حبس ہو رہا تھا، مسافر چیخ رہے تھے اور فضائی عملہ پریشانی کے عالم میں کبھی کاک پٹ میں جاتا اور کبھی مسافروں سے صبر کی درخواست کرتا تھا، ہمارے سفارتخانے نے اس دوران روسی دفتر خارجہ سے رابطہ کیا۔

ان کی منت کی، روسی دفتر خارجہ نے سول ایوی ایشن سے درخواست کی اور یوں ہمارے سفارت کار کو تین گھنٹے بعد ائیرپورٹ کے اندر داخل ہونے کی اجازت ملی، یہ سول ایوی ایشن کے حکام تک پہنچا اور اس نے مذاکرات شروع کر دیے، ماسکو حکام نقد ادائیگی کے علاوہ کسی آپشن پر تیار نہیں تھے، مذاکرات طول پکڑتے رہے، مسافر بے چین ہوتے رہے یہاں تک کہ ہمارا سفیر مذاکرات میں شامل ہوگیا، پاکستانی سفارت خانہ "ساورن گارنٹی" دینے کے لیے تیار ہوگیا، بانڈ تیار ہوا، ہمارے سفارتی عملے نے اس بانڈ پر دستخط کیے اور یوں چار گھنٹے کی طویل خواری کے بعد ہمارے طیارے کو اڑنے کی اجازت مل گئی، لندن کے مسافروں کواس وقت تک ماسکو میں بارہ گھنٹے ہو چکے تھے جب کہ مانچسٹر کے مسافر چار گھنٹے سے جہاز کے اندر محصور تھے۔

ہمارا خراب جہاز اس وقت بھی ماسکو میں کھڑا ہے، روزانہ کی بنیاد پر اس کے لینڈنگ چارجز میں اضافہ ہو رہا ہے، مجھے خطرہ ہے یہ جہاز جس دن ٹھیک ہو جائے گا اس دن حکومت پاکستان کو اقوام متحدہ کی گارنٹی کی ضرورت پڑ جائے گی، ہم بان کی مون سے ماسکو سول ایوی ایشن کو فون کروائیں گے، جنرل اسمبلی بانڈ پر دستخط کرے گی اور یوں ہمیں یہ جہاز اڑانے کی اجازت ملے گی بصورت دیگر ہمارا جہاز ضبط ہو جائے گا، میرے دوست اور نج کاری کے وزیر مملکت انجینئر خرم دستگیر بھی لندن کی اس فلائٹ میں موجود تھے، یہ بھی بارہ گھنٹے ماسکو میں پھنسے رہے، یہ اس واقعے کے عینی شاہد ہیں، میں نے عید سے قبل ان سے اس واقعے کی تصدیق چاہی تو انھوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور یہ کہہ کر نکل گئے" ہمارے ملک کی اس سے بڑی بے عزتی نہیں ہو سکتی" یہ وزیر ہیں چنانچہ یہ ایسے واقعات کی تصدیق نہیں کر سکتے مگر دونوں فلائٹس کے مسافر اور پی آئی اے کا عملہ ذلت کی اس داستان کے ایک ایک لمحے کے گواہ ہیں۔

وزیراعظم میاں نواز شریف (یہ ملک کے وزیر دفاع بھی ہیں اور پی آئی اے وزارت دفاع کا ذیلی ادارہ ہے) انجینئر خرم دستگیر، مسافروں، پی آئی اے کے عملے اور ماسکو میں پاکستانی سفارتی حکام سے اس واقعے کی تحقیقات کروا سکتے ہیں، اس واقعے کی جامع رپورٹ بھی بنوائی جا سکتی ہے تاکہ ہم اس رپورٹ کی بنیاد پر اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرسکیں۔

دنیا ہمارے بارے میں یہ رائے رکھتی ہے، یہ ہمارے طیاروں تک کو اڑنے کی اجازت نہیں دیتی، دوسرے ممالک کی سول ایوی ایشن ہم سے نقد رقم مانگتی ہے مگر ہم اس کے باوجود دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھتے ہیں، آپ کی جیب میں اگر سبز پاسپورٹ ہے اور آپ خواہ ملک کے کتنے ہی اہم شخص کیوں نہ ہوں، آپ دنیا بھر کے ائیرپورٹس پر ذلیل ہوتے ہیں، آپ کی دس دس بار تلاشی لی جاتی ہے، آپ کے پاسپورٹ کو بار بار کھول کر چیک کیا جاتا ہے اور ملک کے اندر بھی آپ پر نظر رکھی جاتی ہے، ہم اس سلوک پر کتنا ہی احتجاج کر لیں مگر یہ حقیقت ہے ہم اس سلوک کے خود ذمے دار ہیں، ملک جب اس قدر کمزور ہو جائیں کہ شدت پسند جیلیں توڑ کر چار چار سو ملزمان کو بھگا لے جائیں، پولیس کے کڑے پہرے کے بغیر نماز ممکن نہ رہے، پولیس لائین، جی ایچ کیو، نیول کمپلیکس اور کامرہ ائیر بیس تک دہشت گردوں سے محفوظ نہ رہیں اور وزیراعظم اپنی پرائیویٹ رہائش گاہ جاتی عمرہ (رائے ونڈ فارم ہاؤس) اور صدر بلاول ہاؤس میں عید کی نماز ادا کرنے پر مجبور ہو جائیں تو دنیا اس ملک کی خاک عزت کرے گی؟

دنیا کو جب یہ معلوم ہو جائے گا ہم ڈرون حملے روک سکتے ہیں اور نہ ہی اسامہ بن لادن، ڈاکٹر ایمن الظواہری اور ملا عمر کو اور ہماری عدالتوں کو دہشت گردوں کو سزا تک سنانے کی جرأت نہیں ہوتی اور ہمارے ملک میں گورنر اپنے سرکاری گارڈ کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے، عدالت ملزم کو سزا سنا دیتی ہے مگر ریاست میں اس سزا پر عملدرآمد کی ہمت نہیں ہوتی تو دنیا ہمارے بارے میں کیا رائے رکھے گی؟ کیا یہ ہمارے ساتھ وہ سلوک نہیں کرے گی جو ہمارے سیکڑوں مسافروں کے ساتھ ماسکو ائیر پورٹ پر ہوا اور ہمارا ایک وزیر مملکت بھی اس سلوک کا نشانہ بنا، روس نے اسے بھی عام مسافروں سے زیادہ اہمیت نہیں دی، آپ فرض کیجیے کل کو اگر ہمارے صدر یا وزیراعظم کا طیارہ ماسکو میں ہنگامی لینڈنگ پر مجبور ہوجاتا ہے اور ماسکو سول ایوی ایشن اس طیارے کو بھی نقد ادائیگی کے بغیر پرواز کی اجازت نہیں دیتی تو ہم کیا کریں گے، ہم کس کو منہ دکھائیں گے؟ کیا ہم اس کے بعد بھی جوہری طاقت ہونے کا دعویٰ کر سکیں گے؟ ۔

ہمیں فوری طورپر چند بڑے فیصلے کرنا ہوں گے، ہمیں ایران، افغانستان اور بھارت کے ساتھ اپنے مسئلے حل کرنا ہوں گے، ہمیں اگر وقتی طور پر اپنے اصولی موقف سے چندقدم پیچھے بھی ہٹنا پڑے تو ہمیں ہٹ جانا چاہیے، ہمیں عارضی طور پر افغانستان، ایران اور بھارت کی بات مان لینی چاہیے تا کہ یہ ملک ہمارے ان لوگوں کو سپورٹ کرنا بند کر دیں جو اس ریاست کو کمزور کر رہے ہیں، جو ہمارے باغیوں کو اسلحہ، مہارت اور پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں، اگر امریکا ویتنام، روس افغانستان اور چین بھارت کے ساتھ معاملات "سیٹل" کرسکتے ہیں، یہ بقا کے لیے پسپائی اختیار کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم اپنے ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات استوار کیوں نہیں کر سکتے؟ آپ سرحدوں کی نشاندہی کیجیے، ہاٹ لائین قائم کیجیے، خود فائر کریں اور نہ دوسروں کو فائرنگ پر مجبور کریں، دنیا کو بین الاقوامی بارڈر بنانے دیں اور اس بارڈر کی تکریم کریں، اگر چین سکم کے ایشو پر بھارت سے معاملات طے کر سکتا ہے تو پھر ہم کیوں نہیں کر سکتے؟

کیا ہم چین سے بڑا ملک ہیں؟ کیا ہم چین سے بڑی معیشت ہیں؟ ہمیں چند قدم پیچھے ہٹ جانا چاہیے تا کہ ہمارے بیرونی محاذ بند ہوسکیں اور ہم یکسوئی سے اپنے اندرونی حالات پر توجہ دے سکیں، ہم اپنی مسجدوں، پولیس لائینز اور مارکیٹوں کو محفوظ بنا سکیں، ہم فوج کو اندرونی سیکیورٹی پر لگا سکیں اور ہم اپنا بین الاقوامی امیج بہتر بنا سکیں، آپ یقین کیجیے ہم نے اگر فوری فیصلے نہ کیے تو آج جو صدر اور وزیراعظم عید اور جمعہ کی نمازیں گھروں میں پڑھ رہے ہیں، یہ کل کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے حکومت پر مجبور ہو جائیں گے، وزیراعظم لندن اور صدر دوبئی میں بیٹھ کر سکائپ کے ذریعے احکامات جاری کریں گے اور سیکریٹری اور آئی جی مورچوں میں بیٹھ کر" اوکے سر" کا جواب دیں گے، ہم اگر ایسا ملک چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ضد اور انا کی کاشتکاری اسی طرح جاری رکھنی چاہیے لیکن ہم اگر عزت اور امن سے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں چند قدم پیچھے ہٹ جانا چاہیے، اتنے قدم جتنے ایک لمبی جست کے لیے ضروری ہوتے ہیں کیونکہ زندگی صرف بدروحنین نہیں ہوتی، یہ حدیبیہ بھی ہوتی ہے اور شعب ابی طالب بھی اور ہمیں یہ حقیقت ماننا ہوگی۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.