تبت ہمالیہ کی انتہائی بلندیوں پر واقع ہے، یہ علاقہ سال کے سات ماہ برف میں دفن رہتا ہے، یہ دنیا کی چھت بھی کہلاتا ہے، یہ علاقہ بدھ مت کا دارالحکومت ہے، بدھوں کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا دلائی لامہ تبت میں رہتا تھا، بدھ لوگ تبت کو آزاد خطہ سمجھتے ہیں مگر چین اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے چنانچہ چین نے 1950ء میں تبت پر حملہ کیا، تبت کو فتح کیا اور اسے چین کا حصہ ڈکلیئر کر دیا، دلائی لامہ تبت کی فتح کے بعد 1959ء میں لہاسا سے نکلا، بھارت آیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انڈیا میں آباد ہو گیا اور اس نے دھرم شالا میں اپنی جلاوطن حکومت بنا لی، دنیا بالخصوص امریکا اور یورپ دلائی لامہ کو سپورٹ کر رہا ہے، دلائی لامہ کو 1989ء میں امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔
سوال یہ ہے بھارت نے دلائی لامہ کو پناہ کیوں دی، اس کی وجہ سکم، اکسائی چین اور تبت کے چند علاقے ہیں، بھارت ان علاقوں کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے، تبت پر قبضے کے بعد بھارت اور چین کے درمیان تنازعہ شروع ہوگیا، بھارت نے دلائی لامہ کو پناہ دی، اس کی جلاوطن حکومت کو تسلیم کیا اور سرحدی علاقوں پر قبضہ کر کے بیٹھ گیا، چین نے اپنے علاقوں کی واپسی کے لیے 1962ء میں بھارت پر حملہ کر دیا، دونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی، چین یہ جنگ جیت گیا، اس نے بھارت کے بہت بڑے رقبے پر قبضہ کرلیا لیکن پھر چین نے سوچا بھارت ان علاقوں کے حصول کے لیے تیاری کرے گا، فوج اور اسلحہ جمع کرے گا، سرحد پر جھڑپیں ہوں گی اور یوں دونوں ملک ایک لمبی اور خوفناک جنگ میں پھنس جائیں گے، یہ جنگ دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں ہوگی چنانچہ چین نے ایک عجیب فیصلہ کیا، اس نے بھارت کے مقبوضہ علاقے واپس کر دیے اور اپنی فوجیں میک موہن لائین سے واپس بلوا لیں مگر اس کے باوجود 38 ہزار مربع کلو میٹر کا متنازعہ علاقہ ابھی تک چین کے قبضے میں ہے جب کہ بھارت نے 1987ء میں 90 ہزار مربع کلو میٹر کے متنازعہ علاقے میں ارونا چل پردیش کے نام سے نئی ریاست بنا لی۔
چین اور بھارت کے درمیان اس وقت ساڑھے تین ہزار مربع کلو میٹر علاقے کا تنازعہ چل رہا ہے، بھارت اور چین اپنی اپنی پوزیشن پر ڈٹے ہوئے ہیں اور یہ دونوں اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں مگر اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم سو ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، بھارت اور چین کی اسٹیٹ آئل کمپنیاں ایک دوسرے کی پارٹنر بھی بن چکی ہیں، یہ دونوں مل کر عرب ممالک، ایشیا اور افریقہ میں تیل کے معاہدے کرتی ہیں اور یہ تیل نکالنے کے لیے مشترکہ بولی بھی دیتی ہیں، اس "جوائنٹ وینچر" کی وجہ سے نہ صرف بھارت اور چین کی تیل کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں بلکہ دونوں ہر سال 50 ارب ڈالر کا مالی فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔
آپ فرض کیجیے اگر چین اور بھارت ساٹھ کی دہائی میں یہ اہم فیصلہ نہ کرتے، چین میک موہن لائین کے پار بھارتی علاقوں پر قبضہ جاری رکھتا اور بھارت تبت میں ترنگا لہرانے کا اعلان کرتا رہتا تو آج کیا صورتحال ہوتی، دونوں جوہری طاقتیں اب تک ایٹم بم استعمال نہ کر چکی ہوتیں؟ اور کیا دنیا کی ایک چوتھائی آبادی گوشت، ہڈیوں اور خون کا ملغوبہ نہ بن چکی ہوتی لیکن دونوں ممالک نے سمجھ داری کا ثبوت دیا، دونوں انپے اصولی موقف پر بھی قائم ہیں اور ساتھ ساتھ وقت کے تقاضوں کو بھی نبھا رہے ہیں، چین بھارت میں قائم دلائی لامہ کی جلاوطن حکومت پر خاموش ہے اور بھارت تبت پر ترنگا لہرانے کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار کر رہا ہے اور یوں دونوں ملک معاشی لحاظ سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
آپ اگر دنیا کی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر قوموں کا ڈیٹا جمع کریں تو آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، دنیا کا ہر وہ ملک جس میں تنازعے ہیں اور کرپشن موجود ہے، وہ تباہ ہو گیا خواہ قدرت نے اسے کتنے ہی وسائل سے کیوں نہ نواز رکھا ہو اور دنیا کا ہر وہ ملک جس نے کرپشن اور اندرونی اور بیرونی تنازعوں پر قابو پا لیا، وہ ترقی کر گیا خواہ اس کے پاس ایک انچ زرعی زمین نہ ہو یا اس کی مٹی میں مٹی کے سوا کچھ نہ ہو، آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ الجیریا کی مثال لے لیجیے، الجیریا ہر سال دس ارب ڈالر کا پٹرول بیچتا تھا مگر پھر 1992ء میں وہاں ایک صدر قتل ہوگیا، خانہ جنگی شروع ہوئی، یہ انارکی 2002ء تک جاری رہی اور اس میں ایک لاکھ لوگ مارے گئے، پورا ملک برباد ہوگیا، 2002ء میں صدر عبدالعزیز لیکا نے متحارب گروپوں سے مذاکرات کیے، باغیوں کو عام معافی دی، معاہدے ہوئے، معافی تلافی ہوئی اور الجیریا میں امن قائم ہوگیا، آج الجیریا ایک بار پھر دس ارب ڈالر کا تیل بیچ رہا ہے اور لوگ سکھ کی زندگی گزار رہے ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ ہیرے اور قیمتی لکڑی لائبیریا میں پائی جاتی ہے، لائبیریا کا ایک ایک سردار سال میں دو دو ارب ڈالر کے ہیرے بیچ دیتا تھا لیکن پھر یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہوا، اس نے ہمسایوں کے ساتھ بھی لڑائی چھیڑ لی اور یوں وہ وقت آگیا جب دارالحکومت کے لوگ دو سال تک پانی اور بجلی کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے، وار لارڈز نے بچوں کی فوج بنالی، دس سال کے بچوں کو گولی مارنے اور دس دس سال کی بچیوں کو عصمت فروشی کی تربیت دے دی گئی، لائبیریا میں وار لارڈز مخالف قبیلے کے لوگوں کو دو آپشن دیتے تھے، آپ سر عام اپنی بہن یا والدہ کے ساتھ منہ کالا کریں پھر اپنا ایک بازو کٹوا دو اور پورا شہر کھلی آنکھوں سے دونوں آپشن پر عمل ہوتا دیکھتا تھا، یہاں تک کہ دنیا اس ملک کو عالمی قبرستان کا نام دینے پر مجبور ہوگئی، انگولا سے روزانہ بیس لاکھ بیرل تیل نکلتا تھا، یہ دنیا میں ہیروں کا دوسرا بڑا سینٹر بھی تھا، آج سے دس سال قبل اس کی فی کس آمدنی چین، بھارت، انڈونیشیا اور پاکستان سے زیادہ تھی مگر پھر یہ بھی خانہ جنگی اور بیرونی تنازعوں میں الجھ گیا اوریہ تنازعے، اس کے 20 لاکھ لوگ کھا گئے، ملکی معیشت کو 40 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور یہ ملک بھی آج دنیا کا قبرستان بن چکا ہے، کافی دنیا کی دوسری بڑی تجارت اور نیل دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔
یہ دریا بھی ایتھوپیا سے نکلتا ہے اور کافی بھی ایتھوپیا میں دریافت ہوئی تھی، کافے ایتھوپیا کا ایک چھوٹا سا گائوں ہے، اس گائوں میں کافی دریافت ہوئی اور دنیا نے کافے کی وجہ سے اس مشروب کو کافی کا نام دے دیا مگر یہ ملک بھی نیل اور کافی کے باوجود دنیا کا پسماندہ ترین خطہ ہے، کیوں؟ کیونکہ یہ بھی تیس سال تک اندرونی اور بیرونی تنازعوں کا شکار رہا، ایتھوپیا میں نفرت کی صورتحال یہ تھی، باغیوں نے بادشاہ اور اس کے خاندان کو قتل کیا، انھیں زمین میں دفن کیا اوراوپر "پبلک ٹوائلٹ" بنوا دیے، یوگنڈا کی فی کس آمدنی 1980ء میں 949 ڈالر تھی، خانہ جنگی شروع ہوئی اور پانچ سال بعد اس کی فی کس آمدنی 31 ڈالر رہ گئی، عیدی امین اپنے کتوں اور شیروں سمیت سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا، اریٹریا کا اسمارہ دنیا کا واحد مقام تھا جہاں مصنوعی سیاروں کے براہ راست سگنلز آ سکتے تھے اور امریکا سمیت پوری دنیا ٹیلی کام کے جدید نظام کے لیے اریٹریا کی محتاج تھی مگر یہ ملک بھی اندرونی اور بیرونی تنازعوں کا شکار ہوا اور کوڑی کوڑی کا محتاج ہوگیا۔
عراق دنیا میں تیل پیدا کرنے والا ساتواں بڑا ملک تھا مگر پھر صدام حسین نے اسے ایران، کویت اور امریکا سے لڑا دیا، اس نے ملک کو کرد اور عرب اور شیعہ اور سنی کے تنازعے میں الجھا دیا چنانچہ آج یہ ملک تیل کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود دنیاکا غیر محفوظ ترین ملک ہو چکا ہے، آپ اسرائیل کی مثال بھی لے لیجیے، امریکا نے پچاس برسوں میں اسرائیل کو 3 کھرب ڈالر امداد دی، امریکا اسے ہر سال سو ارب ڈالر براہ راست دیتا ہے، یہ معاشی لحاظ سے خوش حال ترین ملکوں میں بھی شمار ہوتا ہے، فی کس آمدنی 30 ہزار ڈالر ہے اور یہ اسلحہ بیچنے والا دنیا کا نواں بڑا ملک بھی ہے مگر یہ بھی تنازعوں کی وجہ سے آج تک اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو سکا، یہ آج بھی امداد کا محتاج ہے۔
آپ ان ملکوں کی مثال لیجیے اور اس کے بعد فیصلہ کیجیے کیا ہم آج کے دور میں اندرونی اور بیرونی تنازعات کے متحمل ہو سکتے ہیں، کیا ہم فاٹا میں اپنے لوگوں سے لڑ سکتے ہیں، کیا ہم خودکش حملے برداشت کر سکتے ہیں، کیا ہم بیک وقت افغانستان، ایران اور بھارت تین ملکوں سے جنگ لڑ سکتے ہیں اور یہ جنگ بھی ان حالات میں لڑی جائے جب کراچی ہمارے کنٹرول سے باہر ہو، جب بلوچستان میں ہزارہ اور پنجابیوں کو سر عام مارا جا رہا ہو، جب خیبر پختونخواہ میں ہر روز بم پھٹتے ہوں، ایم پی اے قتل ہوتے ہوں، جب ملک میں مسالک کے درمیان لڑائی کرانے کی کوشش ہو رہی ہو اور جب کوئی اجمل قصاب اٹھ کر بھارت اورپاکستان کے تعلقات کو 20 سال پیچھے لے جائے اور جب وزیراعظم، صدر اور آرمی چیف عید کی نماز بھی گھروں میں پڑھنے پر مجبور ہو جائیں، کیا ہم ان حالات میں بیرونی محاذ کھول سکتے ہیں، اگر ہاں تو پھر آئیے بندوق اٹھاتے ہیں اور ملک کے اندر اور باہر دونوں محاذوں پر لڑائی شروع کر دیتے ہیں۔
ہم ملک کے اندر سنی اور شیعہ، سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی اور مہاجر کو مارتے ہیں اور پھر بھارتی، افغانوں اور ایرانیوں کو قتل کردیتے ہیں اور اس جنگ کے آخر میں انگولا، لائبیریا اور ایتھوپیا بن جاتے ہیں اوریوں تاریخ کے اندھے صفحوں میں گم ہو جاتے ہیں، ہمیں اگر یہ منظور نہیں تو پھر ہمیں چین کی طرح بڑا فیصلہ کرنا ہوگا، ہمیں اندرونی اور بیرونی دونوں محاذ فوری طور پر بند کرنا ہوں گے، ہمیں باعزت طریقے سے افغانستان، ایران اور بھارت کے جائز مطالبات مان لینے چاہئیں، ہمیں ملک کے تمام اندرونی تنازعوں کے خاتمے کا اعلان بھی کردینا چاہیے، طالبان سے بھی مذاکرات کرنے چاہئیں اور بی ایل اے سے بھی اور ان مذاکرات کے نتائج ہماری قومی پالیسی ہونی چاہیے، ہم اگر آج یہ کر لیتے ہیں تو ہم دس سال بعد چین ہوں گے اور اگر ہم نے یہ وقت ضایع کر دیا تو پھر ہم پانچ سال کے اندر اندر لائبیریا ہوں گے، ہمارے ہر محلے کی ایک فوج ہو گی، اس فوج کا سپہ سالار دس پندرہ سال کا بچہ ہو گا اور یہ بچہ روزانہ محلہ میں ایک پھانسی گھاٹ سجائے گا۔
آئیے ہم فیصلہ کریں، چین یا پھر لائبیریا۔