اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور تھا، مارگلہ ٹاور۔ یہ ٹاور8 اکتوبر2005ء کے زلزلے میں زمین بوس ہو گیا اور اس کے ملبے میں 74 مرد، خواتین اور بچے دفن ہو گئے، مارگلہ ٹاور کی تیسری منزل پر ایک خاندان رہتا تھا، گھر میں چار لوگ تھے، گھر کا مالک، ان کی بیگم، والدہ اور 13 سال کا بیٹا۔ یہ خاندان بھی ملبے میں دب گیا، صاحب خانہ کو ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک ستون کے قریب گرا پایا، بیوی کو آواز دی، بیوی بھی زندہ تھی، والدہ اور بیٹے کو بلایا، وہ دونوں معمولی زخمی تھے۔
یہ چاروں لوگ چند گز کے فاصلے پر تھے مگر ملبے کی وجہ سے ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے، صاحب خانہ کو اچانک یاد آیا ان کا موبائل فون ان کی جیب میں ہے، انھوں نے آڑھے ترچھے ہو کر جیب میں ہاتھ ڈالا، موبائل فون نکال کر دیکھا، فون آن بھی تھا اور سگنل بھی موجود تھے، صاحب خانہ نے دوست احباب کو فون کرنا شروع کر دیا، دوستوں کو اطلاع ہوئی تو یہ گھروں سے نکل کھڑے ہوئے، ریسکیو ورکر بھی ٹاور پہنچ گئے۔
وہ صاحب فون آن کرتے، دوستوں کو گائیڈ کرتے اور بیٹری بچانے کے لیے فون بند کر دیتے، دوست ریسکیو ورکرز کوان کی لوکیشن سمجھا دیتے، یہ سلسلہ دودن جاری رہایہاں تک کہ ریسکیو ورکرز ان تک پہنچ گئے، خاندان بچا لیا گیا، یہ خاندان اللہ کے کرم اور موبائل فون کی وجہ سے سلامت رہا، اگر اس وقت موبائل فون صاحب کی جیب میں نہ ہوتا تو یہ ریسکیو ورکرز اور دوستوں کو گائیڈ نہ کر سکتے اور یوں یہ اور ان کا خاندان دوسرے 74 لوگوں کے ساتھ ملبے میں دفن ہو جاتے، میں نے اس خاندان کی یہ کہانی 2005ء میں پڑھی اور میں نے اس کے بعد یہ معمول بنا لیا، میں اپنا فون ہر وقت ساتھ بھی رکھتا ہوں اور چارج بھی رکھتا ہوں۔
میں رات سونے سے قبل فون چارج کرتا ہوں اور اسے سرہانے کے نیچے رکھ کر سوتا ہوں، میں فون باتھ روم میں بھی ساتھ لے کر جاتا ہوں، میرا آپ کو مشورہ ہے آپ بھی یہ معمول بنا لیں کیونکہ اس معمول کی وجہ سے آپ کسی بھی ایمرجنسی میں اپنے دوست احباب سے رابطہ کر سکیں گے، میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو باتھ روموں میں پھنسے ہوئے دیکھا، لوگ فرش پر گرجاتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں اور باہر بیٹھے لوگوں کو اطلاع تک نہیں ہوتی، ہمارے باتھ رومز کے دروازے بھی بعض اوقات جام ہو جاتے ہیں یا دروازہ کھولتے وقت ان کا ہینڈل نکل جاتا ہے یا ہم نے پورے جسم پر صابن لگا یا ہوتا ہے اور پانی ختم ہو جاتا ہے۔
ہمارے پاس اگر اس صورت حال میں موبائل فون ہو گا تو ہم کسی نہ کسی شخص کو اطلاع دے دیں گے ورنہ دوسری صورت میں ہم ہوں گے اورہماری ابتر حالت ہو گی۔ میں اپنا فون ہمیشہ سائیلنٹ رکھتا ہوں، اس کی وجہ ٹینشن ہے، میں محسوس کرتا ہوں ہم میں سے نوے فیصد لوگ دوسروں کو بلاوجہ فون کرتے ہیں، آپ کسی روز دن بھر موصول ہونے والی کالز کا ڈیٹا بنائیے، آپ دیکھیں گے آپ کو موصول ہونے والی نوے فیصد کالز بلا ضرورت اور بلا وجہ تھیں۔
ہم فون پر بات بھی اونچی آواز میں کرتے ہیں، آپ اپنے اردگرد دیکھئے وہاں اگر پانچ لوگ ہیں تو ان میں سے دو یا تین لوگوں کے فون مسلسل بج رہے ہوں گے اور وہ "ہاں جی" کا نعرہ لگا کر پورا ماحول آلودہ کر رہے ہوں گے، آپ کسی جگہ چلے جائیں آپ وہاں موبائل کی گھنٹی ضرور سنیں گے، یہ گھنٹیاں لوگوں کے اعصاب پر برے اثرات مرتب کر رہی ہیں، آپ بھی میری طرح اپنا فون سائیلنٹ کر کے دیکھئے، آپ کو بھی اپنے مسائل کم ہوتے نظر آئیں گے، میں ہمیشہ "کال بیک" کرتا ہوں، اس سے میرے فون کے بجٹ میں پچاس فیصد اضافہ ہو جاتا ہے لیکن زندگی میں سو فیصد سکون آ جاتا ہے۔
یہ ہماری زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں، ہم ان باتوں سے زندگی کو زیادہ بہترین بنا سکتے ہیں، مثلاًمیرے دوستوں نے گاڑیوں میں ایک ایک اضافی فون رکھا ہے، یہ فون سستا ہوتا ہے، یہ ہر وقت چارج اور آن رہتا ہے، یہ نمبر صرف خاندان اور چند قریبی دوستوں کے پاس ہوتا ہے، یہ ایمرجنسی فون ہے، آپ بھی گاڑیوں یا موٹر سائیکلوں میں ایمرجنسی فون رکھیں، یہ فون ایمرجنسی میں آپ کا معاون ثابت ہو گا، آپ خواہ کسی بھی عمر کے انسان ہیں، آپ تھیلا، بیگ یا بریف کیس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں، آپ کا "ہینڈ بیگ" آپ کا بہترین دوست ثابت ہو گا، آپ بیگ میں اپنی تمام ضروری اشیاء رکھیں۔
آپ اس میں تھوڑی سی نقدی رکھ لیں، آپ اس میں ایمرجنسی ادویات رکھیں، آپ اس میں موبائل کا چارجر رکھیں، آپ اس میں کنگھی، ٹشو پیپرز، چیونگم، ڈائری، کاغذ، قلم اور اپنی چیک بک بھی رکھیں، آپ اس میں اپنے تمام ایڈریسز اور اپنے دوست احباب کے ٹیلی فون نمبرز بھی رکھیں، یہ بیگ آپ کو ہر قسم کے مسائل سے بچائے گا، آپ کو مارکیٹ سے ہر قسم کے ہینڈ بیگ مل جاتے ہیں، آپ کندھے پر لٹکانے والا کپڑے اور چمڑے کا خوبصورت بیگ بھی لے سکتے ہیں اور لیپ ٹاپ بیگ بھی، بریف کیس بھی اور اسمارٹ "ہینڈ بیگ" بھی۔ یہ بیگ اٹھانے میں آسان، دیکھنے میں خوبصورت اور سائز میں چھوٹا ہونا چاہیے۔
آپ اپنے بچوں کو بھی بیگ کی عادت ڈالیں، یہ عادت انھیں ذمے دار بھی بنائے گی اور ان کی زندگی میں ڈسپلن بھی پیدا کرے گی، آپ کو اگر اللہ تعالیٰ نے گاڑی کی نعمت سے نواز رکھا ہے تو آپ پھر اس نعمت کی ڈکی کو ضرور استعمال کریں، آپ ڈکی میں چھتری، چھوٹا ٹول بکس، ٹارچ، آگ بجھانے کا سیلنڈر، جاگرز، رین کوٹ، پانی کی بوتلیں، بسکٹ کے ڈبے اور ایک گرم جیکٹ ضرور رکھیں، یہ بندوبست آپ اور آپ کے خاندان کو سفر کے دوران بہت فائدہ پہنچائے گا، میں ملکی حالات کی وجہ سے اپنے دوستوں کو ہمیشہ مشورہ دیتا ہوں آپ گاڑی کے فیول ٹینک کو کبھی آدھے سے نیچے نہ جانے دیں۔
فیول کی سوئی جوں ہی درمیان میں پہنچے، آپ فیول ٹینک فل کرا لیں، یہ عادت آپ کو مسائل سے بچائے گی کیونکہ ملک میں کسی بھی وقت " فیول ایمرجنسی" ہو سکتی ہے، ملک کے مختلف علاقوں اور شہروں میں روزانہ وارداتیں ہوتی ہیں اور لوگ ان وارداتوں میں مال اور جان دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، ہمیں حالات کو ذہن میں رکھ کر چند چھوٹے چھوٹے اقدامات کرنے چاہئیں، مثلاً ہمیں دروازوں کی کنڈیاں مضبوط کر لینی چاہئیں، گھر کا مرکزی گیٹ دن کے وقت بھی بند رہنا چاہیے، آپ پوچھے بغیر کبھی دروازہ نہ کھولیں، گھر میں بھی دروازے بند کر کے سوئیں، کھڑکیوں پر لوہے کی مضبوط سلاخیں لگائیں اور آپ اگر "افورڈ" کر سکتے ہیں تو گھر کے کسی کونے میں ایک مضبوط "ایمرجنسی روم" ضرور بنائیں تا کہ ایمرجنسی میں آپ پورے خاندان کے ساتھ اس کمرے میں پناہ گزین ہو جائیں۔
اس کمرے میں بنیادی ضروریات بھی موجود ہونی چاہئیں، ٹیلی فون بھی اور ہتھیار بھی۔ آپ کوشش کریں رات کے وقت گھر کا کوئی نہ کوئی فرد جاگ رہا ہو، یہ آپ کی سیکیورٹی کے لیے اچھا ہو گا، آج کل موبائل فون پر "لوکیشن" کا آپشن موجود ہوتا ہے، آپ اپنی اور بچوں کی "لوکیشن" ہمیشہ آن رکھا کریں تا کہ خاندان، آپ اور آپ اپنے بچوں کی لوکیشن کا اندازہ لگا سکیں، ملکی حالات خراب ہیں، ملک میں دہشت گردی بھی ہے، اغواء برائے تاوان بھی اور لڑائی جھگڑے اور چھینا جھپٹی بھی۔ ہمیں ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بھی چند چھوٹے چھوٹے اقدامات کرنے چاہئیں، آپ کا فرقہ یا آپ کا مذہب آج کے حالات میں آپ کو ٹارگٹ بنا سکتا ہے۔
آپ اگر عارضی طور پر ایسے اقدامات کر لیں جن سے دوسروں کو آپ کے مذہب یا فرقے کا اندازہ نہ ہو سکے تو یہ آپ، خاندان اور معاشرے تینوں کے لیے بہتر ہو گا، آپ اپنے نام کے ساتھ وہ سابقے اور لاحقے ختم کر دیں جن کی وجہ سے آپ غیر محفوظ ہو سکتے ہیں، آپ پورے خاندان کے ساتھ سفر نہ کریں اور اگر ضروری ہو تو آپ ایک گاڑی میں نہ بیٹھیں، خاندان کو دو حصوں میں تقسیم کریں اور انھیں دو ٹیکسیوں، دو رکشوں، دو بسوں، دو ٹرینوں اور دو گاڑیوں میں سوار کریں۔
آپ کے بجٹ میں تو یقینا اضافہ ہو جائے گا لیکن جان کی سلامتی بہرحال رقم سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے، آپ ہڑتالوں کے دنوں میں گھروں سے نہ نکلیں، مظاہروں کی جگہوں پر کبھی نہ جائیں، میں نے مظاہروں کے دوران ہمیشہ بے گناہ لوگوں کو زخمی ہوتے اور مرتے دیکھا ہے، مظاہرین زیادہ تر عام لوگوں کی گاڑیاں توڑتے ہیں، آپ ایسی جگہوں سے بچ کر رہیں، نماز مسجد کی بجائے گھر میں پڑھ لیں تو بہتر ہو گا، جمعہ کی نماز کا اہتمام بھی اگر دو تین خاندان مل کر صحن میں کر لیں تو یہ بھی بہتر ہو گا۔
آپ کوشش کریں آپ کے بچے باہر نہ جائیں، آپ گھر کے اندر ان کے بیٹھنے، کھیلنے اور ٹی وی دیکھنے کی جگہ بنا دیں، آپ انھیں اپنے دوستوں کو گھر بلانے کی اجازت دے دیں، بچوں کے دوستوں کے والدین کا نام، پتہ اور ٹیلی فون نمبر لے لیں، آپ کے بچے کا کوئی دوست جب آپ کے گھر آئے تو آپ اس کے والد کو فون کر کے اطلاع کر دیں، آپ کا فون بچے کے والدین کو بھی مطمئن کر دے گا اور آپ اپنے بچے کے دوستوں کے بیک گراؤنڈ سے بھی مطمئن ہو جائیں گے۔
آپ دوسرے والدین کو بھی یہ عادت ڈالیں وہ بھی آپ کو فون کر کے اطلاع دیں، والدین کی یہ "سوشل نیٹ ورکنگ" بچوں کے مستقبل کے لیے بہتر ہو گی اور آخری بات آپ کوشش کریں آپ اپنی آمدنی کا کم از کم بیس فیصد حصہ بچا کر رکھیں، یہ بچت آپ کو آسودگی بھی دے گی، اعتماد بھی اورحوصلہ بھی۔ آپ اگر اپنی آمدنی میں بچت نہیں کر سکتے تو آپ بچت کے لیے اضافی کام کریں، آپ پارٹ ٹائم کام کریں اور اس پارٹ ٹائم کام سے حاصل ہونے والی آمدنی بچا کر رکھیں، یہ بچی ہوئی آمدنی آپ کو درجنوں مسائل سے بچائے گی۔
یہ چھوٹی چھوٹی باتیں میرا ذاتی اور میرے دوستوں کا تجربہ ہیں، ہم نے ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے زندگی کے بے شمار سکھ حاصل کیے ہیں، آپ بھی کر سکتے ہیں۔
نوٹ: بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض نے کراچی کے بچے عرفان خان کے علاج کی ذمے داری اٹھا لی، خاندان کے بھارت کے سفر، رہائش اور دیگر اخراجات کا بندوبست بھی ہو چکا ہے۔ خاندان کی ضرورت پوری ہو چکی ہے چنانچہ احباب سے درخواست ہے آپ مزید رقم نہ بھجوائیں۔