پارا چنار کے محاصرے کو تین ماہ سے چند دن اوپری ہوگئے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جسے ایک بڑا طبقہ عالم اسلام کا قلعہ قرار دیتا آیا اور کچھ کے خیال میں اب بھی ہے۔ اپنے ہی ملک میں تیس چالیس کلومیٹر کی سڑک کھلوانے میں "بے بسی کا شکار" ہے۔ دعوے سنو تو پِتہ "پانی" ہوتا ہے۔ غزہ کے لئے ملین مارچ کرنے والوں کے پاس بھی چھوٹی سی "جلوسڑی" پارا چنار والوں کے حق میں نکالنے کا "ٹیم" نہی ہے۔
میرے خیال میں ہم سبھی کو مان لینا چاہیے کہ ہم فرقہ پرستی کے بالا خانوں پر "رمبا ناچ" کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔
آگے بڑھنے سے قبل ایک سرکاری مراسلے کی جانب توجہ دلانا ازبس ضروری ہے۔
یہ مراسلہ 4 جنوری 2025ء کو ڈپٹی کمشنر ضلع کرم کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے خیبر پختونخوا کو بھجوایا گیا ہے۔ اس مراسلے کے اہم نکات یہ ہیں۔
(1) ڈپٹی کمشنر ضلع کرم پر حملہ بگن میں ہوا (یہ حملہ چند دن قبل ہوا تھا جس میں ڈپٹی کمشنر سمیت 6 افراد زخمی ہوگئے تھے)۔
(2) لوئر اور سنٹرل کرم میں ٹی ٹی پی اور ٹی ٹی اے کے دہشت گرد موجود ہیں (افسوس کہ مراسلہ نگار نے بگن میں لشکر جھنگوی اور تحریک المجاہدین کے جنگجوئوں کے ساتھ غیر مقامی یعنی افغان دہشت گردوں کی موجودگی کو نظرانداز کردیا)۔
(3) لوئر کرم میں دہشت گردوں کے پاس اینٹی ایئرکرافٹ گن جیسا بھاری اور خطرناک اسلحہ موجود ہے جس سے ہیلی کاپٹرز اور جہاز کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
یہ بھی عرض کردوں کہ بگن ضلع کرم میں ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر حملے کا مقدمہ درج ہوچکا ہے۔ متعدد نامزد ملزموں کے ساتھ نامعلوم افراد کے خلاف درج ہونے وا لے اس مقدمے میں گزشتہ روز پہلی گرفتاری ایک تاجر رہنما ارشاد کی ہوئی جبکہ دیگر ملزمان کی حوالگی کے لئے مقامی عمائدین سے "درخواست" کی گئی ہے جو حکومت تین ماہ سے بند سڑک نہیں کھلوا سکی وہ ایف آئی آر میں نامزد دہشت گردوں اور نامعلوم سہولت کاروں و معاونین کو انصاف کے کٹہرے میں کیسے لاپائے گی؟ یہ بذات خود اڑھائی ارب روپے کا سوال ہے۔
ساعت بھر کے لئے رکئے میں آپ کو یہ بتائے دیتا ہوں کہ بعض اطلاعات کے مطابق بگن میں ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا سرغنہ بنی گل غلجے عرف حاجی (یہ ایف آئی آر میں بھی نامزد ہے) پشاور ایئرپورٹ سے ایجنسیوں اور دوسرے ذمہ داران کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ملک سے فرار ہوگیا ہے۔ یہاں ایک سادہ سا سوال ہے۔ ڈی سی کرم پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا سرغنہ بنی گل غلجے ملک سے کیسے فرار ہوگیا۔ کیا صوبائی حکومت کے اندر سے کسی نے سہولت کاری کی یا یہ الزام درست ہے کہ صوبائی مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے خصوصی انتظامات کروا کے بنی گل غلجے کو فرار کروایا؟
ہمیں نہیں معلوم کہ اس سنگین معاملہ کی کوئی تحقیقات بھی ہوگی یا نہیں اور اگر ہوتی بھی ہے تو کیا بیرسٹر سیف کو تحقیقات میں شامل کیا جائے گا۔
فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ بگن اور گردونواح میں 22 سو سے 3 ہزار غیر مقامی جنگجو موجود ہیں ان میں افغان دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ ان غیر مقامی دہشت گردوں کا مقامی میزبان کاظم ڈپٹی کمشنر حملہ کیس میں نامزد ملزم ہے۔ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ اس جرگہ میں طے پانے والے امن معاہدے کے بعد محصورین پارا چنار نے امن معاہدے سے خیرسگالی کے لئے اپنا دھرنا ختم کردیا۔
کرم کے ڈپٹی کمشنر پر حملہ اس وقت ہوا جب وہ امن معاہدے کے تحت پارا چنار لیجائے جانے والے سامان سے بھرے ٹرکوں کے قافلے کو بحفاظت پہنچانے کے لئے ایڈوانس پارٹی کے طور پر صورتحال کا جائزہ لینے میں مصروف تھے۔
اب اسے ڈپٹی کمشنر کی بے خبری کہیں یا ایجنسیوں کی جنہوں نے گڈز ٹرانسپورٹ کے قافلے (سامان لیجانے والی گاڑیوں) کے خلاف سینکڑوں مسلح افراد کے بگن بازار میں دھرنے اور دیگر مقامات پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں سے اس کے باوجود صرف نظر کیا کہ ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر حملے سے سولہ اٹھارہ گھنٹے قبل بگن میں پارا چنار کا محاصرہ جاری رکھنے کے حق میں ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا تھا اس اجتماع کے مقررین کی شعلہ بیانی اور تکفیری اعلانات کی ویڈیو اسی شب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں مگر کسی نے اس کا نوٹس کیوں نہ لیا؟
پارا چنار کی صورتحال کے حوالے سے ایک عمومی سوال یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ وفاقی ادارے دہشت گردوں اور محاصرہ کرنے والوں کے خلاف تین ماہ سے کوئی کارروائی کیوں نہیں کرپائے؟
بہت سادہ اور آسان جواب یہ ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد امن و امان کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ہے ناگزیر صورتحال میں صوبائی حکومت وفاق سے متاثرہ علاقے میں کارروائی کے لئے فوج بھجوانے کی درخواست کرسکتی ہے۔
پچھلے برس اکتوبر میں جب سکیورٹی اداروں کی نگرانی میں مسافر کانوائے پر بگن میں حملہ ہوا (اس میں درجنوں مردوزن اور بچے جاں بحق ہوئے تھے) تھا اس وقت بھی خیبر پختونخوا کی حکومت اسلام آباد پر لشکر کشی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ اکتوبر اور نومبر میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے دوبار اسلام آباد پر چڑھائی کی۔ یاد رہے ہم اس کا صرف حوالہ دے رہے ہیں یہ ہمارا موضوع نہیں۔
مگر کیا صوبائی حکومت ضلع کرم اور بالخصوص پارا چنار کی ناگفتہ بہ صورتحال سے لاعلم تھی؟ اس کے مشیر اطلاعات تو ایک سے دو گھنٹے میں کل پارا چنار روڈ کھلوا دینے کا دعویٰ کرتے رہے۔ بدقسمتی سے یہی موصوف بیرسٹر سیف اس بات پر بضد تھے کہ جرگے میں امن معاہدے سے قبل پارا چنار کے محصورین اسلحہ حکومت کے پاس جمع کروادیں۔
کیا بیرسٹر سیف جیسا پرانا خاندانی جہادی پارا چنار کے جغرافیہ سے لاعلم تھا اور اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ پارا چنار شہر کا محاصرہ کرنے والے کون ہیں اور ان کی صفوں میں کون کون موجود ہے؟ کیا خیبر پختونخوا حکومت ماضی میں پارا چنار سے ملحقہ افغان حدود سے پارا چنار میں ہوئی دہشت گردی کے نتائج کو بھول چکی ہے؟
یہاں ایک سوال وفاقی سکیورٹی اداروں اور بارڈر مینجمنٹ کے ذمہ داروں سے بھی ہے۔ 2021ء سے دسمبر 2024ء کے درمیان پارا چنار سے ملحقہ افغان حدود سے دراندازی کے درجنوں واقعات ہوئے مستقبل میں ان کے تدارک کو یقینی بنانے کے لئے بارڈر مینجمنٹ کو مزید بہتر بنانے کے لئے کیا اقدامات ہوئے اور سرحد پر لگی باڑ افغان انتظامیہ کی نگرانی میں کاٹنے کے عمل پر وفاقی حکومت نے وزارت خارجہ کے توسط سے ا فغان طالبان حکومت سے باضابطہ احتجاج کیا؟
بدھ 8 جنوری کی دوپہر میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو پارا چنار سے موصولہ اطلاعات کے مطابق محصورین پارا چنار کے لئے لیجائے جانے والے سامان سے لدے ٹرکوں کے قافلہ کا بڑا حصہ تین دن تک ٹل کے مقام پر رکے رہنے کے بعد واپس چلا گیا ہے۔
بہت ادب سے عرض کروں سامان سے بھرے گاڑیوں کے قافلے بڑے حصے کا منزل کی بجائے واپس چلے جانا ایٹمی پاکستان کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے اگر محسوس کیا جائے تو۔
ویسے محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ محصورین پارا چنار کا کیا ہے غذائی اشیاء، بچوں کا دودھ سری لیک وغیرہ اور ادویات کے ساتھ متعدد ضروری چیزیں نایاب ہوچکیں۔ ایدھی ٹرسٹ کے امدادی سامان پر بعض سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی جانب سے "ہاتھ صاف" کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔
ہیلی کاپٹر سروس کو ان اطلاعات کے بعد بند کیا گیا تھا کہ بگن وغیرہ میں موجود دہشت گردوں کے پاس اینٹی ایئرکرافٹ گن تک موجود ہیں۔ اب آیئے اس بنیادی سوال پر بات کرتے ہیں کہ کیا وفاقی حکومت اس امر سے لاعلم ہے کہ پارا چنار کی گھمبیر صورتحال پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تک تشویش کا اظہار کرچکے؟
صوبے کے وزیراعلیٰ نے امن جرگہ میں معاہدہ کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا "پارا چنار ہمارا مسئلہ ہے اور ہم ہی اسے حل کریں گے"۔ اس اعلان کےبعد انہوں نے "دھنیا" پی لیا کیا؟
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ محصورین پارا چنار کو تیزی کے ساتھ ایک بڑے اور خوفناک المیے کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔ ظاہر ہے خوراک، ادویات اور دوسری ضروری چیزوں کے بغیر 5 لاکھ کی آبادی مزید کتنا جی پائے گی۔ یہ وہ سوال ہے جو ہر اہل دل و فکر کو دہلادیتا ہے۔
صوبائی حکومت نے سیاسی عیاشیوں سے کچھ وقت نکال کر اگر اپنے فرائض پر توجہ دی ہوتی تو یہ صورتحال ہرگز پیدا نہ ہوتی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب تک پی ٹی آئی کی صفوں میں بیرسٹر سیف اور اسد قیصر جیسے لوگ موجود ہیں خیبر پختونخوا حکومت پارا چنار کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرسکتی۔ حرف آخر یہی ہے کہ "مٹ جائے گی مخلوق تو دادرسی کس کی کرو گے"۔۔