ہم اب مارچ، دھرنے اور تھرڈ ایمپائر کی طرف آتے ہیں، عمران خان اور طاہر القادری کا خیال تھا، یہ دس بیس لاکھ لوگوں کو گھروں سے نکال لیں گے، اسمبلیوں میں عمران خان کے 123 ارکان تھے، یہ ارکان چار لاکھ لوگ جمع کر لیں گے، تین چار لاکھ لوگ خیبر پختونخواہ حکومت لے آئے گی، چار پانچ لاکھ عام لوگ اکٹھے ہو جائیں گے اور دو سے تین لاکھ مریدین علامہ طاہرالقادری کے میدان میں آ جائیں گے، پنجاب حکومت علامہ طاہر القادری کو ماڈل ٹاؤن سے نکلنے نہیں دے گی، حکومت نے بھی علامہ صاحب کو روکنے کی پوری تیاریاں کر رکھی تھیں۔
عمران خان نے 14 اگست کو چھ سات لاکھ لوگوں کے ساتھ لاہور سے نکلنا تھا، علامہ صاحب کا ماڈل ٹاؤن میں پولیس سے تصادم ہونا تھا، میڈیا نے دونوں کو بھرپور کوریج دینی تھی، آٹھ دس نعشیں گرنی تھیں اور گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے فیصلہ ہو جانا تھا، اسلام آباد، پشاور، لاہور اور کراچی میں آرٹیکل 245 نافذ ہو چکا تھا۔ عمران خان کا خیال تھا، فوج حالات کنٹرول کرنے کے لیے باہر آنے پر مجبور ہو جائے گی اور یوں ملک میں انقلاب آ جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا، لاہور چھ سات لاکھ لوگ جمع ہو ئے اور نہ ہی ماڈل ٹاؤن میں تصادم ہوا۔
حکومت نے علامہ صاحب کو اچانک اسلام آباد جانے کی اجازت دے دی، ان کے ساتھ 24 سے 26 ہزار لوگ تھے، عمران خان کے مارچ میں ان سے بھی کم لوگ تھے، میڈیا نے دونوں کا بھرپور ساتھ دیا لیکن مارچ اس کے باوجود ناکام ہو گیا، سفر کی طوالت کی وجہ سے لوگ تھک گئے، خیبر پختونخواہ سے آیا ہوا ہر اول دستہ 24 گھنٹے انتظار کر کے تتر بتر ہو گیا، بارش اور حبس نے بھی رنگ دکھا دیا، جلسہ گاہ میں بنیادی سہولتوں کی کمی نے بھی مظاہرین کو مایوس کر دیا، عوام نے بھی انقلابیوں کا ساتھ نہیں دیا، یوں پہلا مرحلہ ناکام ہو گیا، دوسرے مرحلے میں دھرنا دیا گیا، انقلابیوں کا خیال تھا دھرنے میں دس لاکھ لوگ پورے ہو جائیں گے مگر یہ بھی نہ ہو سکا، تقریریں ہوئیں، مائیک اور اسکرین کے ذریعے آگ لگائی گئی لیکن کام نہ بن سکا دوسرا مرحلہ بھی ناکام ہو گیا۔
تیسرے مرحلے میں انقلابیوں کا خیال تھا، یہ ریڈ زون کی طرف مارچ کریں گے، حکومت روکے گی، تصادم ہو گا، آنسو گیس، لاٹھی چارج، ربڑ کی گولیاں اور آخر میں اصلی گولیاں چلیں گی، لاشیں گریں گی اور انقلاب آ جائے گا، ریڈ زون کی طرف مارچ ہوا، چوہدری نثار انھیں روکنا چاہتے تھے لیکن وزیراعظم نے عین وقت پر معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے، ریڈزون کی عمارتیں فوج کے حوالے کردی گئیں، فورس کو پیچھے ہٹا دیا گیا اور یوں عمران خان اور علامہ طاہر القادری ریڈزون پہنچ گئے، انقلابیوں کا خیال تھا حکومت زیادہ دیر تک انھیں برداشت نہیں کرے گی، وزیراعظم مستعفی ہونے پر مجبور جائیں گے لیکن اسکیم الٹ ہو گئی۔
پارلیمنٹ میں موجود گیارہ جماعتوں نے حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا، یہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہو گئیں، حکومت نے دوسری عقل مندی مذاکرات کی شکل میں کی، مذاکرات شروع ہوئے تو انقلاب کا ایجنڈا سامنے آ گیا، قوم کو معلوم ہوگیا، مارچ اور دھرنوں کا ایجنڈا دو نقاطی ہے، نواز شریف استعفیٰ دیں اور پارلیمنٹ اور اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کریں، مذاکرات نے ایجنڈا آشکار کردیا اور یوں خان صاحب اور قادری صاحب سیاسی تنہائی کا شکار ہو گئے۔
عمران خان نے اس دوران چار بڑی غلطیاں کیں، یہ دن میں اوسطاً سات بار تقریر کرتے رہے، ان کی زبان بھی خراب تھی، باڈی لینگویج بھی اوردھمکیاں بھی۔ غیر ضروری میڈیا کوریج، زبان اور دھمکیوں کی وجہ سے ان کا امیج خراب ہوا، دو، انھوں نے سول نافرمانی، ہنڈی اور سرکاری بینکوں سے رقم نکالنے کا اعلان کردیا، یہ اعلان ریاست سے بغاوت تھا، یہ بھی ان کے گلے پڑ گیا، تین، خیبر پختونخواہ کی حکومت بچا لی مگر دوسری اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا گیا، 31 ارکان کے استعفے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ بھجوا دیے گئے لیکن شیخ رشید اور عمران خان نے اپنا استعفیٰ پاس رکھ لیا، یہ حکمت عملی بھی ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی اور چار، یہ غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے قیام، انتخابی اصلاحات اور دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے لاہور سے نکلے تھے لیکن اسلام آباد پہنچ کر انھوں نے یہ تمام مطالبات طاق میں رکھ دیے اور میاں نواز شریف کا استعفیٰ مانگنا شروع کر دیا، یہ حکمت عملی بھی ان کے گلے پڑ گئی۔
یہ خرابیاں، یہ غلطیاں اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے عمران خان اور علامہ طاہر القادری تمام تر مسائل کے باوجود ریڈزون میں ڈٹے رہے، میں دونوں کی استقامت کی داد دیتا ہوں بالخصوص علامہ طاہر القادری کے ورکرز قابل ستائش ہیں، یہ لوگ ڈسپلن میں بھی رہے اور انھوں نے کسی کے ساتھ کسی قسم کی بدتمیزی بھی نہیں کی، یہ لوگ مظلوم بھی ہیں، ان کے 14 لوگ شہید اور 80 زخمی ہوئے ہیں، ایف آئی آر ان کا حق تھا، حکومت نے انھیں یہ حق نہ دے کر زیادتی کی، سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر لواحقین کی مرضی کے مطابق درج ہونی چاہیے تھی اور وزیراعلیٰ پنجاب کو مستعفی بھی ہونا چاہیے تھا، اس میں رعایت نہیں کی جا سکتی، یہ لوگ اس ظلم کے باوجود اگر ریڈ زون میں پرامن رہے، ہمیں اس پر انھیں سلام بھی پیش کرنا چاہیے۔
ہم ایشو کی طرف واپس آتے ہیں، عمران خان کا خیال تھا، فوج زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہے گی، یہ ایمپائر بن کر انگلی اٹھا دے گی، عمران خان کے دو ساتھی اور شیخ رشید انھیں روز یہ یقین دلاتے تھے، علامہ صاحب کو یقین دلانے کی ذمے داری چوہدری صاحبان کی تھی، یہ بھی انھیں ہر دو تین گھنٹے بعد "اللہ کی نصرت بہت قریب ہے" کا پیغام دیتے تھے لیکن فوج وزیراعظم کے ساتھ اختلافات کے باوجود خاموش رہی، کیوں؟ انقرہ سے لے کر خواجگان کے بیانات تک اور جیو سے لے کر جنرل مشرف، محمود اچکزئی کی کابل سے واپسی اور میاں نواز شریف کی بھارتی پالیسی تک فوج کو وزیراعظم کے بے شمار اقدامات پر اعتراض تھا، فوج اور حکومت کے درمیان کھچاؤ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں تھا اور یہ فوج کے پاس حکومت سے انتقام لینے کا سنہری موقع بھی تھا لیکن فوج اس کے باوجود خاموش رہی، یہ ایمپائر نہیں بنی، کیوں؟
فوج کی خاموشی کی تین وجوہات تھیں، پہلی وجہ فوج میاں نواز شریف کو ہٹانا نہیں چاہتی، فوج نے اگر وزیراعظم کو ہٹانا ہوتا تو اس کے لیے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ بہترین راستے تھے، وزیراعظم کے خلاف اتحاد بنتا، ن لیگ میں فارورڈ بلاک بنایا جاتا، اپوزیشن جماعتیں اس بلاک کا ساتھ دیتیں اور پارلیمانی انقلاب آ جاتا یا پھر سپریم کورٹ وزیراعظم کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس کھول دیتی، وزیراعظم کا اپنا حلقہ کھل جاتا، دھاندلی ثابت ہو جاتی، وزیراعظم "ڈس کوالی فائی" کر جاتے اور یوسف رضا گیلانی کی طرح 30 سیکنڈ کی سزا بھگت کر گھر چلے جاتے لیکن یہ راستے اختیار کرنے کے بجائے مارچ اور دھرنوں کا انتظار کیوں کیا گیا؟
وجہ صاف ظاہر ہے حکومت کو صرف رگڑا لگانا، ناک سے لکیریں نکلوانا ور اس کے ہاتھ بندھوانا مقصود تھا اور یہ کام ہو گیا، دوسری وجہ، عمران خان اور علامہ طاہر القادری دونوں مستقل خطرہ ہیں، ان دونوں کو فارغ کرنا یا پھر سائز میں لانا ضروری تھا اور یہ کام بھی دھرنوں کے ذریعے ہو گیا، علامہ صاحب شاید اس مارچ کے بعد کوئی تیسرا مارچ نہ کر سکیں اور عمران خان بھی خیبر پختونخواہ تک محدود ہو کر رہ جائیں اور تیسری وجہ، یہ ثابت ہو گیا، میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کر کے آرام سے حکومت نہیں کر سکتے، فوج ملک کا واحد منظم اور مضبوط ادارہ ہے، ملک کے دیگر ادارے ختم ہو چکے ہیں اور حکومت کو سیلاب سے لے کر دہشت گردی اور کراچی میں قیام امن سے لے کر ریڈ زون کی عمارتوں کی حفاظت تک فوج کی ضرورت پڑتی ہے اور آپ فوج کو تنگ کر کے، ناراض کر کے اور اس کی بے عزتی کر کے کاروبار سلطنت نہیں چلا سکتے، یہ دھرنے اور مارچ میاں نواز شریف کے لیے خطرہ نہیں تھے، یہ خطرے کاالارم تھے، میاں صاحب کو اس الارم کے ذریعے پیغام دیا گیا "آپ اپنا رویہ تبدیل کریں، آپ فوج کو بلاوجہ تنگ نہ کر یں، یہ آپ کی معاون ہے، دشمن نہیں "
میاں صاحب کو اس وارننگ کو سیریس لینا چاہیے، میاں صاحب کی فوج کے معاملے میں اپروچ درست نہیں، ریاست کے تمام اداروں کوبلاشبہ حکومت کے ماتحت ہونا چاہیے لیکن حکومت کو پہلے خود کو اس کا اہل ثابت کرنا ہو گا، میاں صاحب کو ترکی ماڈل پرجانا چاہیے، آپ افغانستان اور بھارت پالیسی میں زیادہ چھیڑ چھاڑ نہ کریں، دہشت گردی کا ایشو بھی فوج کے حوالے کر دیں اور گورننس اور پرفارمنس پر توجہ دیں، اداروں کی "ری سٹرکچرنگ" کریں، اکانومی کو بہتر بنائیں، بجلی پیدا کریں، نوکریاں بڑھائیں، بلدیاتی الیکشن کرا کر چھوٹے قصبوں اور شہروں کی حالت بدلیں، نیب کو خود مختار بنائیں اور کرپشن کو جڑوں سے کھینچ کر باہر پھینک دیں، آپ کی ٹرانسپورٹ پالیسی اچھی ہے، آپ ملک میں موٹرویز اور میٹرو بسوں جیسے منصوبوں کا جال بچھا دیں، آپ یقین کریں، آپ کی پرفارمنس ملک کے تمام اداروں کو آپ کی ماتحتی میں لے آئے گی لیکن آپ نے اگر یہ چھیڑ چھاڑ جاری رکھی تو آپ پر بہت جلد ایک اور حملہ ہوگا اور وہ حملہ سو فیصد جان لیوا ثابت ہو گا، آپ کی حکومت بھی جائے گی، آپ کو بھٹو بنانے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
ہم اب آتے ہیں دھرنے کے نقصانات کی طرف۔ ہمارا ایٹمی پروگرام ہمارا سب سے بڑا دفاع ہے، یہ بم جس دن ہمارے ہاتھ سے نکل گیا، ہمارے دشمن اس دن ہمارے پانچ ٹکڑے کر دیں گے، فوج دوسرا بڑا دفاع ہے، ہمارے دشمن اس ادارے کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہماری اقتصادیات ہمارا تیسرا دفاع ہے، چین، ترکی اور سعودی عرب ہماری اقتصادی مدد کررہے ہیں، ہمارے دشمنوں کو یہ بھی منظور نہیں، مارچ اور دھرنوں نے ہمارے دشمنوں کو نیا راستہ دکھا دیا، یہ جان گئے پاکستان میں دو تین لاکھ لوگوں کو سڑکوں پر لا کر پوری ریاست کو مفلوج کیا جا سکتا ہے۔
یہ سوچ ہمارے لیے خطرناک ثابت ہو گی، دھرنوں نے عوام کو بھی ذہنی مریض بنا دیا ہے، لوگ چڑچڑے ہو چکے ہیں، یہ اپنے مستقبل سے مایوس ہو چکے ہیں اور یہ مایوسی قوموں کو عموماً خودکشی کی طرف لے جاتی ہے، قوم اس وقت عمران خان اور علامہ طاہر القادری بن چکی ہے، یہ رجحان بھی مستقبل میں خطرناک ثابت ہو گا۔