وہ دونوں دوست تھے اور دونوں وقت کے عظیم فلسفی دیوجانس کلبی کے سامنے حاضر ہو گئے۔ دیوجانس کلبی ڈھائی ہزار سال قبل یونان کا ایک ایسا فلسفی تھا جس کی سوچ نے آنے والے زمانوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ درویشی اور ایمان کی ان حدوں تک پہنچ چکا تھا جہاں انسان کو پانی پینے کا پیالہ بھی عیاشی اور اصراف محسوس ہونے لگتا ہے۔ دیو جانس کلبی عین جوانی میں یہ راز پا گیا دنیا کی ہر چیز مایا ہے اور انسانی زندگی میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس نے گھر بار چھوڑ دیا، وہ عزیز رشتے داروں اوردوستوں کے بوجھ سے آزاد ہو گیا اور آخر میں اس نے سماج کو بھی تیاگ دیا۔ اس نے خدا کی زمین کو بستر اور آسمان کو اپنا لحاف بنا لیا، اس کا زیادہ تر وقت ایتھنز کے مضافات میں گزرتا تھا۔
وہ زندگی کے آخری حصے میں مذہب کی بندش سے بھی آزاد ہوگیا، اس کا خیال تھا متولیوں نے مذہب کو تجارت بنا دیا ہے اور وہ اس تجارت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ لاتعلق، گستاخ اور کھردرا انسان تھا مگر لوگ اس کے باوجود اس کا پیچھا کرتے تھے۔ یہ اسے جنگلوں، میدانوں، ویرانوں اور ندیوں پر تلاش کرلیتے تھے، وہ لوگوں سے بھاگتا تھا مگر علم اور دانش کے متوالے اسے گھیر کر بیٹھ جاتے تھے اور وہ جب تک تھک نہیں جاتا تھا لوگ علم کے موتی چنتے رہتے تھے۔
ایک دن عجیب واقعہ پیش آیا، ایتھنز کے دو دوست اس کے پاس آئے، ایک دوست انتہائی امیر تھا، اس کے تجارتی قافلے سینٹرل یورپ سے سینٹرل ایشیا تک جاتے تھے، وہ تجارتی کشتیوں اور شہر کے مضافات میں وسیع باغوں کا مالک تھا جب کہ دوسرا دوست غریب تھا، وہ نان نفقہ چلانے کے لیے کندھے پر چمڑے کی مشک رکھ کر گھر گھر پانی بیچتا تھا۔ دنیا میں واٹر سپلائی سے قبل پینے کا پانی تجارت ہوتا تھا، شہروں اور قصبوں میں ہزاروں ماشکی ہوتے تھے، یہ لوگ میٹھے کنویں سے پانی کی مشکیں بھرتے، لوگوں کے گھروں تک پانی پہنچاتے اور معاوضہ وصول کرتے۔ میونسپل کمیٹیوں نے بھی ماشکی ملازم رکھے ہوتے تھے، یہ لوگ راستوں کی گرد بٹھانے کے لیے گلیوں اور سڑکوں پر پانی کا تروکا کرتے تھے۔ یہ مشک بھر کر سڑک پر آتے، مشک کا منہ ہلکا سا کھولتے اور سڑک پر پانی کا چھڑکائو کرتے جاتے، اس چھڑکائو سے گرد بیٹھ جاتی تھی۔ یہ سسٹم پرانے زمانوں سے 1980ء کی دہائی تک جاری رہا۔
میں نے خود اپنی آنکھوں سے ماشکی دیکھے مگر معاشرے کی دوسری مثبت روایات کی طرح ماشکی بھی اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں اور مجھے یقین ہے آج کے نوجوانوں کے لیے مشک اور ماشکی دونوں لفظ اجنبی ہوں گے۔ میں دیو جانس کلبی کے ایتھنز کی طرف واپس آتا ہوں۔ میں دوبار ایتھنز شہر گیا اور میں نے یونان کی قدیم شاندار تہذیب کا اپنی آنکھوں سے مطالعہ کیا، میں اس جگہ بھی گیا جہاں سقراط بیٹھتا تھا اور اس مقام پر بھی جہاں سقراط کے عظیم شاگرد افلاطون نے اکیڈمی بنائی تھی۔ میں ماضی کے ایک کالم میں غلطی سے افلاطون کی اکیڈمی کو سقراط کی درسگاہ لکھ گیا۔
میرے انتہائی پڑھے لکھے بیورو کریٹ دوست سیرت جوڑا نے اس غلطی کی نشاندہی کی، مجھے اپنی یادداشت پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ تھا چنانچہ میں نے غلطی کوغلطی ماننے سے انکار کر دیامگر چند دن بعد جب پرانی ڈائریاں نکالیں اور نوٹس دیکھے تو سیرت جوڑا کی بات درست نکلی، وہ واقعی افلاطون کی اکیڈمی تھی، سقراط اس جگہ بیٹھ کر اپنے شاگر دسے بات چیت کرتا تھا، وہ جب زہر کا پیالہ پی کر مر گیا تو افلاطون نے اس میٹنگ پوائنٹ پر دنیا کی پہلی اکیڈمی بنائی اور یہ آگے چل کر افلاطون سے منسوب ہوئی۔ میں غلط تھا، میں نے غلط لکھ دیا جب کہ سیرت صاحب بیوروکریٹ ہونے کے باوجود سچے ثابت ہوئے، میں اس غلطی پران سے شرمندہ ہوں۔
دیوجانس کلبی کے پاس دو دوست آئے، ایک انتہائی امیر شخص تھا جب کہ دوسرا ایتھنز کا ماشکی اور انتہائی غریب۔ امیر شخص نے کلبی کو اپنا اور اپنے دوست کا تعارف کروایا۔ دیوجانس کلبی نے ان کی طرف دیکھا اور طویل قہقہہ لگا یا۔ امیر یونانی نے قہقہے کی وجہ پوچھی، دیو جانس کلبی نے فرمایا" ایک امیر ہے اور دوسرا غریب، دونوں ایک دوسرے کے دوست کیسے ہو سکتے ہیں؟ " امیر یونانی نے عرض کیا "اے وقت کے عظیم فلسفی!میں آپ کی بات سمجھ نہیں سکا" دیوجانس کلبی نے جواب دیا" امیر دوست کے ہوتے ہوئے اگردوسرا دوست غریب ہے تو اس کا مطلب ہے امیرشخص بہت گھٹیا ہے اور یہ دل سے اس کو اپنا دوست نہیں سمجھتا" امیر یونانی ساکت ہو کر رہ گیا، دیو جانس کلبی نے کہا "تم اگر اسے واقعی اپنا دوست سمجھتے ہو تو پھر جائو اسے بھی اپنے جیسا امیر بنائو، میں تمہارے خلوص پر تمہیں مبارک باد پیش کروں گا" وہ شخص رکا، اس نے غریب دوست کا ہاتھ پکڑا اور ایتھنز واپس چلاگیا۔
دیوجانس کلبی کا تجزیہ ایک حد تک درست تھا؟ اور دوسری حد تک غلط۔ ہم پہلے غلط کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں لاکھ لوگوں میں سے صرف ایک شخص زندگی میں اپنی کلاس تبدیل کر پاتا ہے، صرف ایک شخص جاہلوں میں رہ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے، صرف ایک شخص غربت سے امارت تک پہنچتا ہے، صرف ایک شخص ناکامیوں کے کیچڑ سے کامیابی کے خشک پتھرپر پائوں رکھتا ہے اور لاکھوں میں سے صرف ایک شخص اپنے والدین کے لائف اسٹائل سے جان چھڑاپاتا ہے۔ اگر یہ شخص اپنی کامیابی کے شیش محل میں اپنے جاہل، نالائق اور سست رشتے داروں اور دوستوں کوبسانے کی غلطی کر بیٹھے تو یہ لوگ چند دنوں میں شیش محل کو بھی برباد کر دیتے ہیں اور کامیاب انسان کو بھی پاگل کر دیتے ہیں اور یہ پاکستانی معاشرے کی عام مثال ہے۔
ہم میں سے کوئی ایک شخص اللہ کے کرم اور اپنی محنت سے کامیاب ہو تا ہے اور آخر میں اپنے کسی نالائق بھائی، لالچی بہنوئی اور ظالم سالے کے شکنجے میں پھنس جاتا ہے اور اپنی بے وقوفیوں پر ماتم کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہو جاتاہے۔ یہ اپروچ سو فیصد غلط ہے۔ ہم اب آتے ہیں دیو جانس کلبی کے فلسفے کی طرف، ہم اگر زندگی میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر ہم پر فرض ہو جاتاہے ہم کامیابی کی یہ ــ"جھاگ" اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کے دودھ کو بھی لگائیں، اگرہم کامیاب ہونگے اور ہمارے رشتے دار اور دوست ناکام تو آپ خود تصور کیجیے ہم کیسے مطمئن زندگی گزار سکیں گے؟
چنانچہ ہم پر فرض ہے ہم اپنے گردونواح میں موجود لوگوں کی حالت تبدیل کریں اور دیوجانس کلبی کا یہ مطلب تھا۔ اس کی نظر میں امیر دوست کے ہوتے ہوئے غریب ہونا زیادتی تھی، یہ بات بھی سو فیصد درست ہے۔ اب سوال یہ ہے ہم دیو جانس کلبی کے فارمولے پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ آپ کبھی اپنے کسی عزیز، رشتہ دار اور دوستوں کے ساتھ اپنی کامیابی شیئر نہ کریں، آپ انھیں اپنے ادارے، اپنی دولت میں حصے دار نہ بنائیں، آپ انھیں صرف وہ فارمولہ ٹرانسفر کردیں جس پر عمل کر کے آپ کامیاب ہوئے، آپ کو جس فارمولے نے امیر بنایا تھا۔
آپ کے دوست اگر آپ سے مچھلی پکڑنے کا طریقہ سیکھ گئے تو یہ چند ماہ میں اپنے قدموں پر کھڑے ہو جائیں گے اور یوں آپ اس کا رشتہ دار یا دوست ہونے پر شرمندہ ہوں گے اور نہ وہ شرمندگی محسوس کریں گے۔ آپ دوستوں میں تلی ہوئی مچھلیاں تقسیم نہ کریں، آپ انھیں کانٹے خرید دیں اورانھیں ایک مچھلی پکڑا دیں، آپ کی ذمے داری ختم ہو جائے گی۔ آپ کو اگر اپنے دوستوں اور رشتے داروں میں سیکھنے کا پوٹینشل دکھائی نہ دے تو آپ ان کی اولاد پر توجہ دیں، آپ کو ان میں کوئی نہ کوئی ہونہار بچہ مل جائے گا، آپ اس کی مدد کریں، اسے پڑھائیں، لکھائیں اورسیکھائیں۔ وہ اپنے خاندان کا بوجھ اٹھائے گا اور یوں آپ کا حق دوستی ادا ہو جائے گا۔
آپ دیو جانس کلبی کے فقرے کو ذہن میں رکھیں اور اس کے بعد میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان کے قوم سے خطاب کے ابتدائی فقرے ملاحظہ کیجیے۔ یہ ہمیشہ عوام سے میرے بھائیو، میری بہنو، میری مائوں، میرے دوستواور میرے بچو کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں، میں جب بھی ان کے منہ سے یہ لفظ سنتا ہوں مجھے دیو جانس کلبی یاد آ جاتا ہے اور میں سوچتا ہوں وہ شخص جس کے پاوں میں جوتا نہیں، وہ بوڑھی عورت جس کے سرپر چادر نہیں اور وہ بچہ جو برسوں سے بے روزگار ہے کیا وہ واقعی میاں نواز شریف کا بچہ، آصف علی زرداری کی ماں اور عمران خان کی بہن ہے، اگر ہاں تو پھر ان کے والد ہونے، ان کے بیٹے ہونے اور ان کے بھائی ہونے پر ایک لاکھ افسوس ہے۔
یہ کیسے بھائی ہیں جن کی بہنوں کے سر پر چادر نہیں، یہ کیسے بیٹے ہیں جن کی مائوں کے پائوں میں جوتے نہیں اور یہ کیسے والد ہیں جن کے بچے بھوک مٹانے کے لیے گردے بیچنے پر مجبور ہیں اوریہ سفید سنگ مرمر کے محلوں میں رہتے، ذاتی جہاز اڑاتے ہیں اور لندن، نیویارک، سعودی عرب اور دوبئی میں ڈالر گنتے پھرتے ہیں۔ یہ امیرلوگ اپنے غریب بچوں، بہنوں، مائوں اور دوستوں کی حالت بدلیں یا پھر یہ سیاست چھوڑ دیں کیونکہ گندگی اور شہد دونوں ایک ہتھیلی پر نہیں رہ سکتے، آپ پانی اور آگ کو ایک برتن میں اکٹھا نہیں کر سکتے اور آپ کیکر کے درختوں پر ریشم کے کیڑے نہیں پال سکتے۔ آپ اگران کے دوست ہیں تو پھر دوست نظر آئیں، آپ دوستی کے صرف دعوے نہ کریں۔