مارکوٹی 14 ویں صدی عیسوی کا گاؤں تھا، یہ گاؤں اطالوی باشندوں نے 1326ء میں آباد کیا، گاؤں میں آج بھی چودھویں صدی کی سیڑھیاں اور چرچ موجود ہے، گلیاں تنگ اور مکان چھوٹے ہیں، آپ گلی میں داخل ہوتے ہیں تو مکان تہہ در تہہ اوپر پہاڑ پر چڑھنے لگتے ہیں، ہر مکان کی بالکونی جھیل کی طرف کھلتی ہے جب کہ صحن جنگل اور پہاڑ کا حصہ محسوس ہوتا ہے، مارکوٹی کا قبرستان شاید دنیا کا خوبصورت ترین قبرستان ہو، یہ قبرستان بھی چودھویں صدی میں بنا، یہ بھی تہہ در تہہ اوپر پہاڑ پر چڑھتا چلا جاتا ہے۔
میں قبرستان پہنچا تو اس کی لوکیشن اور قبروں کی خوبصورتی نے میرا سانس کھینچ لیا اور میں دم بخود ہو کر رہ گیا، اس قبرستان کی ہر قبر آرٹ کا نمونہ تھی، آپ قبرستان کے درمیان کھڑے ہو جائیں تو آپ کو محسوس ہو گا قبروں کے درمیان خوبصورتی اور آرٹ کا مقابلہ ہو رہا ہے، قبروں کے تعویز انتہائی دلکش اور سنگ مزار انتہائی قیمتی ہیں، ہر قبر پر خوبصورت پھول لگے ہیں اور صاحب قبر کا نام نہایت ہی دل آویز اور پرکشش رسم الخط میں تحریر ہے، قبروں پر مجسمے بھی ایستادہ ہیں اور ہر مجسمہ آرٹ کا شہ پارہ ہے، بعض پرانی قبروں پر مزار بھی بنے ہیں اور یہ مزار بھی پرکشش اطالوی طرز تعمیر کا نمونہ ہیں، آپ جوں جوں چودھویں صدی سے اکیسویں صدی کی قبروں کی طرف سفر کرتے ہیں آپ کو آرٹ بھی تبدیل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے، مثلاً 2006ء میں فوت ہونے والی خاتون کی قبر پر شیشے کی پلیٹیں لگی تھیں، یہ پلیٹیں ایستادہ تھیں اور شروع سے آخر کی طرف ان کی اونچائی بڑھتی چلی جاتی تھی۔
آپ ان پلیٹوں کے سامنے موم بتی جلاتے تھے تو اس ایک موم بتی کا عکس دو درجن شیشوں میں ڈولتا ہوا نظر آتا تھا اور اس موم بتی کا شعلہ جب ہوا سے لرزتا تھا تو آپ کو تمام شیشوں میں آگ سی لگی ہوئی محسوس ہوتی تھی، یہ قبر کیتھرائن نام کی کسی خاتون کی تھی اور یہ چند لمحوں کے لیے ہر گزرنے والے کے قدم جکڑ لیتی تھی، میں نے مختلف قبروں کے کتبے پڑھے تو معلوم ہوا قبرستان کے زیادہ تر مُردے آرٹسٹ، مجسمہ ساز، شاعر، مصنف اور اداکار ہیں اور یہ قبریں انھوں نے خود ڈیزائن کی ہیں، قبرستان کی باؤنڈری وال چھوٹی ہے، ہر قبر سے جھیل کا رنگ بدلتا پانی اور ہوا کی تال پر جھومتا ہوا جنگل نظر آتا ہے، یہ قبرستان بارش اور دھند میں مزید خوبصورت ہو جاتا ہوگا، میں شام کے وقت وہاں پہنچا، سورج پہاڑوں کے سبزے میں گم ہو رہا تھا، آسمان کی لالی جھیل میں آہستہ آہستہ گھل رہی تھی، جھیل میں تیرتی موٹر بوٹس پانی کی لکیریں چھوڑتی ہوئی کناروں کی طرف بڑھ رہی تھیں اور سرد ہوا اوپر سے نیچے کی طرف دوڑ رہی تھی، میں نے دائیں بائیں دیکھا چرچ کے گھڑیال نے شام کے نو بجنے کا اعلان کیا۔
مارکوٹی کی سرخ چھتوں پر گزرے دن کی حسرتیں چپکی تھیں، قبرستان کی بغل میں چار سو چار سیڑھیوں کا وہ سلسلہ تھا جو نہایت خاموشی اور عقیدت سے اوپر پہاڑ کی طرف بڑھتا تھا اور آپ کی نظروں کے سامنے جنگل میں گم ہو جاتا تھا اور میرے آمنے سامنے اور دائیں بائیں قبریں ہی قبریں تھیں اور ہر قبر آرٹ کا نمونہ تھی، مجھے جھرجھری آئی اور زندگی ایک لمحے کے لیے جی ہاں ایک لمحے کے لیے رک سی گئی اور مجھے محسوس ہوا جیسے مارکوٹی کی قبروں نے میرے قدم باندھ دیے ہیں اور میں خوبصورت مجسموں کے درمیان ایک بدصورت مجسمہ ہوں۔
ادھوری خواہشوں اور ناتمام حسرتوں کا گندمی مجسمہ جو زندگی کی تلاش میں اس قبرستان تک پہنچا اور اپنے کاسئہ تن کی بچی کھچی زندگی قبروں کے خوبصورت جنگل میں لٹا بیٹھا، مارکوٹی کا قبرستان حقیقتاً زندہ شہروں سے زیادہ خوبصورت اور دلفریب تھا، یہ قبرستان اس قدر دلفریب تھا کہ دیکھنے والے کے دل میں مر جانے اور اس قبرستان میں دفن ہونے کی خواہش انگڑائی لینے لگتی تھی، میں نے جھر جھری لی اور سیڑھیوں کی طرف چل پڑا، یہ سیڑھیاں مارکوٹی گائوں میں اترتی تھیں۔
مجھے مارکوٹی کے قبرستان میں ایک اور انوکھی چیز نظر آئی، قبرستان میں مُردوں کی دیوار تھی، دیوار پر ہر مُردے کے لیے ڈیڑھ بائی ڈیڑھ فٹ کی جگہ مختص تھی، دیوار پرسنگی تختیاں لگی تھیں، تختیوں پر لواحقین نے مُردے کا نام بھی کندا کروا رکھا تھا، مُردے کی تصویر بھی لگا رکھی تھی اور پھول لگانے اور موم بتی جلانے کی جگہ بھی بنا رکھی تھی، تختیوں پر مُردوں کا پروفائل اور قبر کا نمبر بھی لکھا تھا، یہ ایک اچھا آئیڈیا ہے، ہماری حکومت کو چاہیے یہ ملک میں ماڈل قبرستان بنوائے اور ہر قبرستان میں ایک ایسی دیوار بنوا دے جس پر قبرستان میں دفن لوگوں کا پروفائل آ جائے، ہمارے قبرستان بدقسمتی سے بے ترتیبی کا عظیم نمونہ ہوتے ہیں اور یہ نمونے مُردوں کی زندگی اور آخرت دونوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
آپ ملک کے کسی قبرستان میں داخل ہو جائیں آپ کو اس میں ترتیب، سلیقے اور خوبصورتی کی کمی نظر آئے گی، یہ بے ترتیبی ثابت کرتی ہے ہم انسان کو زندگی میں عزت دیتے ہیں اور نہ ہی مرنے کے بعد، ہم اگر اپنے قبرستانوں کو بہتر بنا لیں تو یہ بھی کمال ہو گا، میری چیئرمین سی ڈی اے ندیم حسن آصف سے درخواست ہے، یہ کسی دن اسلام آباد کے قبرستان میں تشریف لے جائیں، یہ وہاں چند لمحے گزاریں، قبروں کے کتبے پڑھیں، ان پر درج فرعونوں کے نام پڑھیں اور پھر اس کے بعد اس قبرستان کی صورتحال دیکھیں تو انھیں بھی ان مُردوں پر رحم آ جائے گا، اس قبرستان میں آٹھ سابق چیئرمین سی ڈی اے بھی دفن ہیں، ان حضرات نے کیونکہ اپنی آخری آرام گاہ پر توجہ نہیں دی چنانچہ یہ بھی آج اس خرابے میں حشر کا انتظار کر رہے ہیں۔
دنیا کی ہر قوم کا کوئی نہ کوئی ہنر، کوئی نہ کوئی آرٹ ہوتا ہے، سوئس قوم کا آرٹ اس کا ریلوے اور گھڑیاں ہیں، سوئس واچ کی ایک کمپنی 1853ء میں بنی، اس کمپنی نے اس سال اپنے 160 سال مکمل کیے جب کہ سوئس ریلوے نے 1871ء میں پہاڑ کی چوٹیوں تک ٹرین پہنچا دی تھی، میں پچھلے سفر کے دوران " یون فرون" گیا تھا، یہ انٹر لاکن کے قریب ساڑھے دس ہزار فٹ بلند مقام ہے، اس بلندی پر زندہ گلیشیئر موجود ہے جس پر جون اور جولائی میں بھی برف باری ہوتی رہتی ہے۔
سوئٹزر لینڈ نے 1870ء میں اور1871ء میں اس گلیشیئر تک ٹرین پہنچا دی، یہ ٹرین کئی میل تک پہاڑ کے اندر اونچائی کی طرف چلتی ہے اور لوگوں کو حیران کر دیتی ہے، ہم لوگ اس بار ریگی ٹاپ گئے، یہ چھ ہزارفٹ اونچا پہاڑ ہے، یہاں پہنچنے کے لیے آپ کو پہلے لوزرن جانا پڑتا ہے، لوزرن بھی اپنی خوبصورت جھیل کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، ہم پہلے لوزرن گئے۔
وہاں سے شپ کے ذریعے پہاڑ کے دامن میں پہنچے، وہاں سے کیبل کار کے ذریعے ریگی پہاڑ کی پہلی منزل تک گئے، یہ منزل بھی جھیل سے تقریباً تین ہزار فٹ کی بلندی پر تھی اور آپ اس بلندی تک کیبل کار کے ذریعے پہنچتے ہیں، آپ پہلی منزل سے ٹرین لیتے ہیں، یہ ٹرین پہاڑ پر چڑھنا شروع ہوتی ہے اور عقل کو حیران کر دیتی ہے، یہ ٹرین دو تین منزلوں پر رک کر ساڑھے چھ ہزار فٹ کی بلندی پر ریگی ٹاپ پہنچ جاتی ہے، یہ اس علاقے کی بلند ترین چھوٹی ہے، آپ پر چوٹی پر پہنچ کر حیرتوں کے نئے دروازے کھل جاتے ہیں، آپ چوٹی پر کھڑے ہو کر نیچے گہرائی میں دو مختلف شہر اور دو طویل جھیلیں دیکھتے ہیں، آپ کو شہروں، ان کی جھیلوں اور اپنے درمیان بادل بھی لہراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، ریگی ٹاپ کے دوسری طرف تاحد نظر گھنا جنگل ہے، اس جنگل میں جگہ جگہ خوبصورت ہٹس اور جانوروں کے باڑے ہیں، آپ کو آبشاریں، جھرنے اور ندیاں بھی ملتی ہیں، جنگل میں پیدل چلنے والوں کے لیے ٹریک اور کیمپنگ سائیٹس بھی ہیں، ریگی ٹاپ پر ایک فور اسٹار ہوٹل، ریستوران، کافی شاپ اور تین چار دکانیں بھی ہیں، شام سات بجے تک ہر آدھ گھنٹے بعد یہاں ٹرین پہنچتی ہے اور واپسی پر مسافروں کو لے کر نیچے چلی جاتی ہے۔
یہ ٹرین واپسی پر مسافروں کو لوزرن جھیل کے کنارے چھوڑ دیتی ہے، آپ وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے لوزرن شہر پہنچ جاتے ہیں یا پھر آپ اس ٹرین کے ذریعے گولڈاؤ شہر چلے جاتے ہیں اور وہاں سے ٹرین کے ذریعے دوسرے سوئس علاقوں کی طرف نکل جاتے ہیں، یہ ریل نیٹ ورک انسانی معجزہ ہے۔
میری تجویز ہے خواجہ سعد رفیق کو وقت نکال کر سوئس ریلوے کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے اور سوئٹزرلینڈ آ کر ان ٹرینوں پر سفر بھی کرنا چاہیے، ہم اگر سوئس ریلوے کو کاپی کر لیں، ہم مری، کاغان اور سوات تک ریل پہنچا دیں تو اس سے ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا اور سیاحت کو بھی فروغ ملے گا، اگر سوئٹزر لینڈ کے لوگ یہ کارنامہ 1871ء میں کر سکتے ہیں تو ہم 2013ء میں کیوں نہیں کر سکتے، آپ اپنے انجینئرز سوئٹزرلینڈ بھجوائیں، یہ لوگ یہ آرٹ سیکھیں اور ہم دس پندرہ برسوں میں اپنے ریلوے کو سوئس ریلوے کے مد مقابل کھڑا کر دیں، آخر ہم میں اور سوئس کے لوگوں میں کیا فرق ہے؟ یہ بھی ہماری طرح انسان ہیں اور اگر وہ یہ کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
ہم بھی سوئس لوگوں کی طرح کسی ایک شعبے کو اپنی اسپیشلٹی بنا لیں، ہم اس میں مہارت حاصل کر لیں اور پوری دنیا میں اس شعبے کی علامت بن جائیں، اگر سوئس لوگ چاکلیٹ، دودھ، گھڑی، بینکنگ اور ریل کو اپنی علامت بنا سکتے ہیں تو ہم میں کیا کمی ہے؟ ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ سوئس لوگوں نے جھیلوں کے ذریعے بھی اپنے ملک کو خوبصورت اور قابل کاشت بنا لیا ہے، ہم بھی پاکستان کو جھیلوں کا ملک بنا سکتے ہیں، ہم فیصلہ کرلیں ہم نے آج سے بارش کا پانی ضایع نہیں کرنا، ہم پہاڑوں کی اترائیوں میں پانی جمع کریں، ہم شہروں کے گرد بھی مصنوعی جھیلیں بنا لیں تو اس سے شہروں کی خوبصورت میں بھی اضافہ ہو گا، زراعت بھی بڑھے گی اور زمین میں پانی کا لیول بھی بلند ہو جائے گا، آرلینڈو میں قانون ہے ہر رہائشی علاقے میں مصنوعی جھیل ضرور ہو گی، یہ جھیل بارش کے پانی سے بھر جاتی ہے اور یہ علاقے میں ہریالی کا ذریعہ بنتی ہے، ہم بھی ایسا قانون بنا کر اپنے مسائل کم کر سکتے ہیں اور اس میں زیادہ زور بھی نہیں لگانا پڑے گا لیکن کیا کیجیے انسان اگر کچھ نہ کرنا چاہے تو اس سے دیوتا بھی کچھ نہیں کروا سکتے اور اگر یہ کرنا چاہے تو یہ دوزخ میں بھی انگور کی بیل اگا سکتا ہے، سوئس لوگ ایسے لوگ ہیں جب کہ ہم نے دیوتاؤں کو بھی بے بس کر دیا ہے۔
ھیں مسلسل دھوکے میں رکھا جاتا ہے، جس سے معاملات ومسائل میں پیچیدگیوں کے علاوہ عوام کے ریاستی اداروں پر عدم اعتماد میں بھی اضافہ ہوا جیسا کہ ڈرون کے معاملہ میں حکومت کی دہری پالیسی نے عوام اور حکومت کے درمیان بداعتمادی پیدا کی ہے۔ چہارم، میڈیا کو یک طرفہ پروپیگنڈا کرنے کے بجائے عوام تک صحیح اطلاعات اور معلومات کی غیر جانبدارانہ انداز میں رسائی کو یقینی بناناچاہیے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ہر تجزیہ نگار امریکا کے بارے میں منفی باتیں کرکے اپنی مقبولیت بڑھانے کی تو کوشش کررہاہے، مگر یہ بتانے کی جرأت نہیں کرتاکہ اس دوران پاکستان سے کیا غلطیاں سرزدہوئیں۔ متوشش شہریوں کا کہنا ہے کہ حکمران اور منصوبہ سازبیشک جھوٹ بول کر عوام کو بیوقوف بناتے رہیں، لیکن ذرایع ابلاغ کوکم ازکم اس قسم کے رویے سے گریز کرتے ہوئے عوام کو صحیح معلومات مہیا کرنا چاہیے اور جھوٹ کی بیخ کنی کرتے رہنا چاہیے۔