Wednesday, 15 January 2025
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Israel Ki Tashkeel o Parwarish Mein Aalmi Idaron Ka Kirdar (3)

    Israel Ki Tashkeel o Parwarish Mein Aalmi Idaron Ka Kirdar (3)

    جب انیس سو پینتالیس میں اقوامِ متحدہ تشکیل پائی تو اس کے تاسیسی اجلاس میں اکیاون ممالک نے شرکت کی۔ تب آدھی دنیا تب سامراجی غلام تھی۔ چنانچہ عالمی جنگ کے فاتحین کو نئی عالمی تنظیم کو اپنا دم چھلا بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ پانچوں فاتحین (امریکا، سوویت یونین، برطانیہ، فرانس، چین) نے ویٹو پاور اپنے ہاتھ میں رکھ لی۔ اقوامِ متحدہ میں اسی توازنِ طاقت کے بل پر پانچوں ویٹو پاورز نے انتیس نومبر انیس سو سینتالیس کو فلسطین کی غیر منصفانہ تقسیم کی قرار داد کے سائے میں اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کر دی۔

    اگرچہ آج اناسی برس بعد بھی ویٹو طاقتیں پانچ ہی ہیں مگر اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد اکیاون سے بڑھ کے ایک سو ترانوے ہوگئی ہے۔

    رکن ممالک کا بس اقوامِ متحدہ کے سب سے اہم فیصلہ ساز ادارے سلامتی کونسل پر نہیں چلتا مگر ایک سو ترانوے رکنی جنرل اسمبلی کا جھکاؤ فلسطینی کاز کی جانب ہے۔ جنرل اسمبلی کی قرار دادوں پر عمل ہو نہ ہوتاہم ان کا اخلاقی وزن سلامتی کونسل کی چوہدراہٹ کو مسلسل چیلنج کرتا رہتا ہے اور یہ تمام قراردادیں تاریخ کا حصہ ہیں جن کی مدد سے مستقبل کا مورخ دیکھ پائے گا کہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں حق کہاں کھڑا تھا اور باطل کہاں کہاں موجود تھا۔

    اس تناظر میں جب ہم مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کا جائزہ لیتے ہیں تو دل کو تھوڑی ڈھارس ہوتی ہے۔ مثلاً یہ جنرل اسمبلی ہی تھی جس نے جون انیس سو سڑسٹھ سے اب تک غربِ اردن اور غزہ پر اسرائیلی قبضے اور مقبوضہ علاقے میں اسرائیلی آبادکاری کو غیرقانونی اور ناجائز قرار دیا۔

    اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے انتیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ انیس سو چوہتر نے دو قرار دادیں منظور کیں۔ قرار داد نمبر بتیس سو چھتیس (بائیس نومبر) میں فلسطینیوں کے حقِ خود اختیاری و آزادی اور حقِ واپسی کو تسلیم کرتے ہوئے تنظیمِ آزادیِ فلسطین (پی ایل او) کو بطور فلسطینی نمایندہ تسلیم کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے تمام رکن ممالک سے اپیل کی گئی کہ وہ فلسطینیوں کی منصفانہ جدوجہد کی مدد کریں۔ قرار داد کے حق میں نواسی اور مخالفت میں آٹھ ووٹ آئے جب کہ سینتیس ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

    اسی اجلاس میں قرار داد نمبر بتیس سو سینتیس بھی منظور ہوئی۔ اس کے تحت پی ایل او کو بطور مبصر اقوامِ متحدہ کی کارروائی میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا گیا اور اگلے برس پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ شہرہِ آفاق جملہ کہا کہ میرے ایک ہاتھ میں شاخِ زیتون اور دوسرے میں حریت پسند کی بندوق ہے۔ براہِ کرم میرے ہاتھ سے شاخِ زیتون گرنے نہ دیجے۔

    دس نومبر انیس سو پچھتر کو جنرل اسمبلی نے قرار داد نمبر تینتیس سو اناسی منظور کی۔ اس میں کہا گیا کہ جنوبی افریقہ کے اپارتھائیڈ نظریے کی طرح صیہونیت ایک نسل پرستانہ نظریہ ہے۔ پرانا نوآبادیاتی نظام، نیا نو آبادیاتی نظام، نسلی امتیاز، جبری قبضہ، اپارتھائیڈ اور صیہونیت جیسے نظریات انسانی حرمت اور حقِ خوداختیاری اور بین الاقوامی امن و سلامتی کی راہ میں یکساں رکاوٹ ہیں۔

    اس قرار داد میں اقوامِ متحدہ کی بیس نومبر انیس سو تریسٹھ کی قرار داد انیس سو چار کا حوالہ بھی شامل کیا گیا۔ جس کے تحت نسلی امتیاز اور نسلی برتری کی نام نہاد سائنسی توجیحات کو رد کیا گیا۔ نیز اقوامِ متحدہ کی چودہ دسمبر انیس سو تہتر کو منظور کردہ قرار داد نمبر اکتیس سو اکیاون کا حوالہ بھی شامل کیا گیا۔ اس قرار داد میں جنوبی افریقہ، رہوڈیشیا (زمبابوے) اور اسرائیل کے نسل پرستانہ اتحاد کی مذمت کی گئی تھی۔

    قرار داد تینتیس سو اناسی میں جولائی انیس سو پچھتر میں میکسیکو میں ہونے والی عالمی خواتین کانفرنس کی قرار داد اور اگست انیس سو پچھتر میں افریقی اتحاد کی تنظیم کے سربراہ اجلاس کی قرار داد کا حوالہ بھی دیا گیا۔ دونوں قرار دادوں میں صیہونیت کو جنوبی افریقہ میں نافذ نسلی برتری کے نظریہ اپارتھائیڈ کا ہم پلہ قرار دیا گیا۔

    صیہونیت کو نسل پرست نظریہ قرار دینے والی قرار داد تینتیس سو اناسی کے حق میں بہتر اور مخالفت میں پینتس ووٹ آئے جب کہ بتیس ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اس موقع پر اسرائیلی مندوب خائم ہرزوگ (جو بعد ازاں اسرائیل کے صدر بنے) نے قرار داد کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرار داد نفرت انگیز اور جھوٹی اور ایک ردی کاغذ ہے جس کی کوئی قانونی یا اخلاقی حیثیت نہیں۔ خائم ہرزوگ نے قرار داد پھاڑتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد تل ابیب، حیفہ اور یروشلم میں جن شاہراہوں کے نام یو این ایونیو رکھے گئے تھے انھیں بدل کے زائیونسٹ ایونیو کیا جا رہا ہے۔

    قرار داد پر ووٹنگ سے پہلے امریکی مندوب ڈینیل پیٹرک مونیہان نے اسرائیلی مندوب سے بھی دو ہاتھ آگے جا کر کہا کہ اقوامِ متحدہ اس قرارداد کے ذریعے یہود دشمنی کو ایک بین الاقوامی قانون میں بدل رہی ہے۔ ہم کبھی بھی اس قرارداد کو نہ مانیں گے نہ اس پر عمل کریں گے۔

    میکسیکو نے اس قرار داد کے حق میں ووٹ دیا۔ امریکی یہودی لابی نے میکسیکو کے سیاحتی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ میکسیکو کے وزیرِ خارجہ ایمیلیو رباسا نے اشک شوئی کے لیے اسرائیل کا دورہ کیا مگر امریکی دباؤ کے سبب انھیں بالاخر اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔

    مگر سولہ برس بعد سولہ دسمبر انیس سو اکیانوے کو اسی جنرل اسمبلی نے قرار داد چھیالیس چھیاسی کے ذریعے قرار داد تینتیس سو اناسی کو منسوخ کر دیا۔ یعنی صیہونیت کو نسل پرست نظریات کی فہرست سے خارج کر دیا گیا۔ اسرائیل نے شرط رکھی تھی کہ جب تک صیہونیت کے خلاف قرار داد واپس نہیں لی جاتی اسرائیل فلسطینیوں سے امن مذاکرات نہیں کرے گا۔

    یہ قرار داد امریکی صدر جارج بش نے ذاتی طور پر پیش کی۔ حق میں ایک سو گیارہ ووٹ آئے۔ ان میں بھارت اور سوویت یونین سمیت وہ ممالک بھی شامل تھے جنھوں نے صیہونیت کو نسل پرست نظریہ قرار دینے کے حق میں بھی ووٹ دیا تھا اور سولہ برس بعد یو ٹرن لے لیا۔ پچیس ممالک نے نئی قرار داد کے خلاف ووٹ دیا اور تیرہ نے ووٹ نہیں دیا۔ غیر حاضر ممالک میں ترکی بھی تھا۔

    جون دو ہزار چار میں یہود دشمنی کے خلاف اقوامِ متحدہ کے تحت پہلی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے صیہونیت کے خلاف اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے منظور ہونے والی قرار داد کی تنسیخ کو " خوش آیند " قرار دیا۔

    انیس سو ستر سے اب تک امریکا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے حق میں انچاس بار ویٹو استعمال کر چکا ہے۔ ان میں چار ویٹو غزہ میں جنگ بندی کے خلاف گزشتہ چودہ ماہ میں استعمال ہوئے۔ مگر اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں دو ہزار چھ سے دو ہزار بائیس تک ننانوے قراردادیں اسرائیل کے خلاف اور اکسٹھ دیگر ممالک کے خلاف منظور ہوئیں۔ جب کہ جنرل اسمبلی میں دو ہزار پندرہ سے دو ہزار بائیس تک صرف سات برس میں اسرائیل کے خلاف ایک سو چالیس اور دیگر ممالک کے خلاف اڑسٹھ قراردادیں منظور ہوئیں۔

    اگرچہ اقوامِ متحدہ کے اکثریتی ارکان کا رویہ روز بروز اسرائیل مخالف ہے۔ مگر جب تک سلامتی کونسل میں پانچ بڑوں کے پاس ویٹو کی لاٹھیاں ہیں۔ بین الاقوامی بھینس کو بھی یہی ممالک ہنکالتے رہیں گے۔ اگر اقوامِ متحدہ سے ہی ویٹو اپارتھائیڈ نظام ختم نہیں ہوتا تو باقی دنیا سے کیسے ہوگا؟

    About Wusat Ullah Khan

    Wusat Ullah Khan

    Wusat Ullah Khan is associated with the BBC Urdu. His columns are published on BBC Urdu, Daily Express and Daily Dunya. He is regarded amongst senior Journalists.