Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Dunya Ke Akhri Kone Par

Dunya Ke Akhri Kone Par

ہونگ وئوگ قطب شمالی کی طرف آخری بندر گاہ ہے، یہ ہزار لوگوں پر مشتمل چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔ یہ بھی شمالی ناروے کی طرح پہاڑی علاقہ ہے، شہر میں خنکی اور دھند تھی، شمالی ناروے کے سفر پر پہلی بار جیکٹ پہننی پڑی۔ شمالی ناروے قدرت کی عجیب صناعی ہے، چاروں طرف برف ہے لیکن سورج بھی چمک رہا ہوتا ہے اور وہاں گرمی ہوتی ہے، آپ تھرمسو میں برف میں "ہاف سلیو" شرٹ پہن کر پھرتے ہیں لیکن ہونگ وئوگ میں صورتحال مختلف تھی، وہاں ٹھنڈ تھی اور آپ جیکٹ اور چار دیواری دونوں کی پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ہونگ وئوگ سے قطب شمالی کے لیے بسیں بھی چلتی ہیں اور پرائیویٹ گاڑیا ں بھی۔ اس علاقے میں دو بڑی دلچسپیاں ہیں، ایک نارتھ پول اور دوسری دنیا کی سب سے بڑی برڈ سفاری۔ ہونگ وئوگ سے چالیس منٹ کی ڈرائیو پر "یس وار" کا گائوں ہے، یہ گائوں سمندر کے کنارے آباد ہے، اس کی آبادی 120 لوگوں پر مشتمل ہے، یہ لوگ مچھیرے ہیں لیکن ان کے گھر خوبصورت، صاف ستھرے اور حسن ذوق کے شاہکار ہیں، یس وار سے چھوٹے بحری جہاز چلتے ہیں، یہ جہاز مسافروں کو لے کر ٹھنڈے سمندر میں چلے جاتے ہیں، گائوں سے دس منٹ کی بحری مسافت پر تین درمیانے سائز کی پہاڑیاں ہیں۔

یہ پہاڑیاں سائبیریا، قطب شمالی اور نارویجن پرندوں کا گھر ہیں، ان پہاڑیوں پر 30 لاکھ پرندے رہتے ہیں، ہم نے "ہونگ وئوگ" سے کرائے پر گاڑی لی، جہانزیب نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور ہم "یس وار" پہنچ گئے، راستے میں گلیشیئر، چھوٹی بڑی درجنوں جھیلیں دور دور تک پھیلا ہوا سبزہ اور بارہ سنگھوں کی ڈاریں تھیں، شمالی ناروے کے بارہ سنگھے پچاس پچاس سو کی تعداد میں سفر کرتے ہیں۔

یہ برف میں رہتے ہیں اور صرف چارے کے لیے سبزے پر آتے ہیں، ہم نے انھیں جہاں بھی دیکھا برف پر بیٹھے دیکھا، یہ بے خوف تھے، یہ انسان سے گھبراتے نہیں تھے، سڑک بہت اچھی اوررواں تھی، حکومت نے سڑکوں کے دائیں بائیں بیٹھنے کے لیے جگہ جگہ بینچ لگا دیے ہیں یہ سڑک کے کنارے چھوٹے چھوٹے پکنک سپاٹ تھے آپ ان پر بیٹھ کر لنچ بھی کر سکتے ہیں برف کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں اور جھیلوں میں بھی جھانک سکتے ہیں۔

ہم چالیس منٹ میں یس وار پہنچ گئے، یہ خوبصورت لیکن خنک گائوں تھا، گائوں سے برڈ سفار کے لیے تین اوقات میں جہاز چلتا ہے ہم تین بجے جہاز میں سوار ہو گئے، یہ جہاز پندرہ منٹوں میں پرندوں کی پہاڑیوں تک پہنچ گیا، پہاڑیوں میں چھوٹے بڑے دس لاکھ سوراخ ہیں، یہ سوراخ قدرتی گھونسلے ہیں چنانچہ ہر سال سائبیریا اور قطب شمالی سے لاکھوں پرندے یہاں آتے ہیں اور ان پہاڑیوں پر بسیرا کر لیتے ہیں، یہ دنیا میں پرندوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، گرمیوں میں یہاں 190 نسلوں کے کم و بیش تیس لاکھ پرندے آتے ہیں، یہ پہاڑ دور سے سفید، سیاہ، برائون اور گرے دکھائی دیتے ہیں لیکن آپ جوں ہی ان کے قریب پہنچتے ہیں، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں یہ سارے رنگ پرندوں کی وجہ سے ہیں۔

وہاں درمیانے سائز کی ایک پوری پہاڑی پرندوں کی بیٹھوں کی وجہ سے سفید ہو چکی ہے جب کہ دوسری سیاہ پرندوں کی وجہ سے دور سے کالی دکھائی دیتی ہے، آپ کو پانی پر بھی لاکھوں پرندے ڈولتے نظر آتے ہیں، یہاں سیاہ عقابوں کی ایک نسل بھی پائی جاتی ہے، حکومت 15 جون کے بعد ان پہاڑوں پر جانے یا ان پہاڑوں کے ساحلوں پر اترنے پر پابندی لگا دیتی ہے، جہاز کے کپتان نے اس کی وجہ انڈوں کا سیزن بتائی۔

اس کا کہنا تھا، پرندے 15 جون کے بعد انڈے سیتے ہیں جنانچہ حکومت کا خیال ہے، انسانوں کو اس موسم میں پرندوں کو تنگ نہیں کرنا چاہیے، بحری جہاز پہاڑیوں کے قریب پہنچ کر واپس آجاتے ہیں، ان پہاڑیوں کے قریب سیل (ڈولفن کی ایک قسم) مچھلیوں کا ایک قبیلہ بھی رہائش پذیر ہے، یہ بحری جہازوں کو دیکھ کر اپنی تھوتھنیاں پانی سے باہر نکالتی ہیں، عرشے پر کھڑے لوگوں کی دیکھتی ہیں اور پانی میں غائب ہو جاتی ہیں، آپ کو قریب آتے دیکھ کر ہزاروں لاکھوں پرندے بھی فضا میں اڑ کر آ پ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

قطب شمالی یس وار سے چالیس منٹ کی ڈرائیو پر ہے، ناروے کے لوگ اس مقام کو " نارڈ کوپ" کہتے ہیں، یہ مقام زمین کے 71ویں درجے (زاویئے) پر واقع ہے، آپ اگر 71ویں درجے پر گلوب پر لکیر کھینچیں تو یہ لکیر ناروے، فن لینڈ، سویڈن اور پورے روس کے بالائی حصے سے گزرے گی گویا دنیا کے یہ سرد ترین ممالک 71 ویں درجے سے نیچے ہیں، 71ویں درجے کے 78واں درجہ آتا ہے اور اس کے بعد 90ڈگری۔ 71 ویں درجے (ڈگری) کے بعد برفیں ہیں اور ان برفوں پر زندگی نہ ہونے کے برابر ہے، ناروے کے دو مقامات سے قطب شمالی شروع ہوتا ہے۔

ایک نارڈ کوپ جہاں ہم جا رہے تھے اور دوسرا "سوال بار" کا جزیرہ ہے، یہ جزیرہ ناروے سے شمال کی طرف خاصے فاصلے پر واقع ہے، یہ قطب شمالی کی طرف آخری آبادی ہے، اس جزیرے پر 2600 لوگ رہتے ہیں، اکثریت روسی ہیں، دوسری طرف "نارڈ کوپ" ہے، نارڈ کوپ زمین کا آخری سرا ہے، دنیا اسے اینڈ آف دی ورلڈ یا ٹاپ آف دی ورلڈ بھی کہتی ہے، یہاں پہنچ کر تہذیب اور معاشرت ختم ہو جاتی ہے، انسانی قدم رک جاتے ہیں اور اس سے آگے موت کا کھیل شروع ہو جاتا ہے، منجمد موت کا کھیل۔ زمین گول ہے لیکن اس گول زمین کے دونوں کونوں پر قطب شمالی اور قطب جنوبی ہیں، یہ دونوں قطبین برفوں میں دفن ہیں۔

دونوں قطبوں پر چھ ماہ کے دن اور چھ ماہ کی راتیں ہوتی ہیں، قطب شمالی پر چھ ماہ کے لیے سورج طلوع ہوتا ہے تو قطب جنوبی طویل رات اوڑھ کر لیٹ جاتا ہے اورجب قطب جنوبی سورج کے سامنے آتا ہے تو قطب شمالی چھ ماہ کے لیے اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے، ہم شام ساڑھے پانچ بجے "نارڈ کوپ" کے لیے روانہ ہوئے، ساڑھے چھ بجے زیرو پوائنٹ پر پہنچ گئے، نارڈ کوپ پر تیز یخ ہوائیں، دبیز دھند اور بے انتہا سردی تھی، ہم چلتے چلتے زمین کے آخری سرے پر پہنچ گئے، زمین ختم ہو چکی تھی، ہم نے نیچے دیکھا تو ہمیں دور نیچے دھند میں لپٹا ہوا یخ سمندر دکھائی دیا، ہمارے پائوں سے دھند شروع ہوتی تھی اور تاحد نظر افق تک دھند ہی دھند تھی۔

وہاں سورج 24 گھنٹے چمکتا ہے لیکن اسے دھند گھیرے رکھتی ہے، دھند کی بے لگام لہریں آتی ہیں اور روشنی کو نگل لیتی ہیں اور پھر وہاں ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دیتا، ٹھنڈی ہوا آپ کی ہڈیوں کا گودا تک جما دیتی ہے، نارویجن حکومت نے زمین کے آخری سرے پر لوہے کا دیو قامت گلوب نصب کر دیا ہے، یہ گلوب دنیا کے اختتام کی نشانی ہے، آپ کو گلوب کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنوانے کے لیے سورج کا انتظار کرنا پڑتا ہے، وہاں دھند اور سورج کا مقابلہ چلتا رہتا ہے، حکومت نے "نارڈ کوپ" پر ایک بڑا کمپلیکس بھی بنا رکھا ہے، یہ لکڑی، شیشے اور پتھروں کی خوبصورت عمارت ہے، سیاح کافی کے مگ لے کر کھڑکیوں کے قریب کھڑے ہو جاتے ہیں، جوں ہی دھند کی تہہ میں سوراخ ہوتے ہیں اور سورج کی روشنی دکھائی دیتی ہے تو سیاح کیمرے لے کر گلوب کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔

تصویریں بناتے ہیں اور ٹھٹھرتے ہوئے واپس کمپلیکس میں آ جاتے ہیں، کمپلیکس کے اندر جدید سینما ہے جس میں قطب شمالی کے بارے میں فلم چلتی ہے، فلم میں "نارڈ کوپ" کے چاروں موسم دکھائے جاتے ہیں، کمپلیکس میں چھوٹا سا خوبصورت چرچ بھی ہے، یہ چرچ چٹانیں تراش کر بنایا گیا ہے، یہ بھی دیکھنے کی جگہ ہے، وہاں چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جس میں اس مقام کی تلاش اور اس کی تیاری کے مختلف مراحل دکھائے گئے ہیں، وہاں لائٹ اینڈ سائونڈ" شو بھی ہوتا ہے، اس جگہ کو "کیو آف لائیٹس" یعنی روشنیوں کا غار کہا جاتا ہے۔

"نارڈ کوپ" کی ایک انفرادیت ناردرن لائیٹس یعنی شمالی روشنیاں بھی ہیں، سردیوں کے موسم میں جب قطب شمالی اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے تو اس وقت یہاں جادوئی روشنیاں نظر آتی ہیں، یہ نیلی اور سبز لائیٹس ہوتی ہیں جو آبشاروں کی طرح آسمان سے زمین پر اترتی ہیں اور لہروں کی طرح ڈولتی ہیں اور ماحول کو خواب ناک بنا دیتی ہیں، قطب شمالی اور شمالی ناروے کے قدیم باشندے انھیں معجزہ، جادو یا جنات کی بارات کہتے تھے لیکن آج سائنس نے انکشاف کیا، زمین اور سورج کے درمیان بڑے بڑے ذرات بہہ رہے ہیں۔

سورج کی روشنی جب ان ذرات سے منعکس ہو کر قطب شمالی کی برف پر پڑتی ہے تو یہ روشنی سبز اور نیلے رنگوں کی آبشار بن جاتی ہے، رنگوں کی یہ آبشاریں ناردرن لائیٹس یا ناردرن ارورا کہلاتی ہیں، یہ روشنیاں کیا ہیں؟ آپ اگر چند لمحوں کے لیے یہ سوال فراموش کر دیں تو آپ قدرت کا یہ معجزہ دیکھ کر مبہوت ہو جائیں گے، یہ روشنیاں دسمبر اور جنوری میں پورے شمالی ناروے میں دکھائی دیتی ہیں لیکن یہ "نارڈ کوپ" پر زیادہ واضح اور خوبصورت ہوتی ہیں، آپ ذرا تصور کیجیے، آپ دنیا کے آخری کونے پر کھڑے ہیں، گلوب برف سے ڈھکا ہوا ہے۔

زمین برف میں دفن ہے اور آپ کے قدموں کے نیچے سمندر کی موجیں ٹھاٹھیں مار رہی ہیں اور آپ کو دور قطب شمالی کی برفیں دکھائی دیتی ہیں اور عین نظروں کے سامنے آسمان سے زمین تک سبز روشنی کی آبشار گر رہی ہے، یہ منظر کیسا ہو گا؟ میں کیونکہ گرمیوں میں "نارڈ کوپ" پہنچا ہوں، یہ ناردرن لائیٹس کا موسم نہیں چنانچہ میں روشنیوں کی آبشار نہیں دیکھ سکا لیکن دنیا کے اس آخری کونے میں کھڑے ہو کر میں نے دعا کی اللہ تعالیٰ نے اگر موقع دیا تو میں زندگی کے کسی حصے میں ناردرن لائیٹس دیکھنے کے لیے سردیوں میں بھی یہاں آئوں گا، میں نے یہ بھی دعا کی اللہ تعالیٰ نے اگر چاہا تو میں "سوال بار" کی طرف سے بھی قطب شمالی کے اس کنارے پر پہنچنے کی کوشش کروں گا۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.