Friday, 27 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Fake News Industry

Fake News Industry

یہ جون 2023 کی بات ہے، جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ فرانس کے شہر انیسی میں اپنی بیگم کے ساتھ سیر کر رہے تھے، یہ دونوں کسی گلی کے کسی مکان کی دہلیز پر بیٹھے تھے وہاں سے ایک افغانی پاکستانی شہری گزرا، اس نے جنرل باجوہ کو پہچان لیا اور ان کی وڈیو بنانا شروع کر دی، وڈیو بعدازاں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، وڈیو بنانے والے نے اسے ایڈٹ کرکے اس پر کمنٹری بھی ریکارڈ کر دی تھی جس میں نامناسب الفاظ اور فقرے تھے، دوسری طرف جنرل باجوہ نے وڈیو بنانے والے کی تصویر کھینچ کر فرانس حکومت کو دے دی اور اس کے بعد اس شخص کو فرانس سے بھی فرار ہونا پڑا اور وڈیو بھی ڈیلیٹ کرنا پڑی۔

آپ دوسرا واقعہ بھی دیکھیں، 2022 میں مریم اورنگزیب وفاقی وزیر اطلاعات تھیں، وزیراعظم شہباز شریف28 اپریل2022 کو سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے، وفد میں مریم اورنگزیب بھی تھیں، مسجد نبوی میں چند پاکستانیوں نے انھیں گھیر لیا اور نعرے بازی شروع کر دی، یہ وڈیو بھی وائرل ہوگئی، سعودی حکومت نے وڈیو بنانے اور نعرے لگانے والے تمام لوگ گرفتار کیے، مرکزی ملزموں کو دس دس پندرہ پندرہ سال قید ہوئی، باقی تمام کو ڈی پورٹ کر دیا گیا اور یہ ہمیشہ کے لیے سعودی عرب کے لیے بین ہو گئے، یہ اب کبھی سعودی عرب کا ویزہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔

جنرل باجوہ کے ساتھ دوبئی میں بھی ایک واقعہ پیش آیا تھا، یہ اپنے بیٹے کے ساتھ ٹریفک سگنل پر کھڑے تھے، کسی نے ان کی تصویر بنا لی اور یہ تصویر بھی وائرل ہوگئی، وہ شخص بھی پکڑا گیا، دوبئی سے ڈی پورٹ ہوا اور ہمیشہ کے لیے دوبئی کے لیے بین ہوگیا۔

یہ چند واقعات ہیں، یہ ثابت کرتے ہیں دوبئی ہو، سعودی عرب ہو یا پھر یورپ ہو کوئی شخص کسی شخص کی بلااجازت وڈیو بنا سکتا ہے اور نہ تصویر اگر کوئی بنا لے اور دوسرے شخص کو پتا چل جائے تو وہ اس کے خلاف شکایت کر سکتا ہے اور پولیس وڈیو بنانے والے کو پیک کرکے رکھ دیتی ہے، دوسرا تمام سولائزڈ ممالک میں کوئی شخص کسی شخص کے خلاف نفرت، بے عزتی اور ہتک سے بھرا ہوا مواد سوشل میڈیا پر آپ لوڈ نہیں کر سکتا۔

برطانیہ کے قوانین ذرا نرم تھے لیکن 29جولائی 2024 کوسائوتھ پورٹ میں تین کم سن لڑکیاں ایک لڑکے ایکسل رداکبانہ کے ہاتھوں ماری گئیں، کسی نے سوشل میڈیا پر قاتل کو مسلمان قرار دے دیا، یہ فیک نیوز تھی، یہ تیزی سے وائرل ہوئی اور برطانیہ میں مسلمانوں کی پراپرٹیز اور مسجدوں پر حملے شروع ہو گئے اور یوں وہاں فسادات پھوٹ پڑے، پولیس نے تین چار دنوں میں نہ صرف تمام مجرم گرفتار کر لیے بلکہ چوبیس گھنٹے عدالتیں لگا کر ڈیڑھ سو ملزموں کو سزائیں بھی دیں، برطانیہ اب فائر وال کے ذریعے سوشل میڈیا کو مانیٹر بھی کر رہا ہے۔

جب کہ پاکستان میں فیک نیوز اور دوسروں کی پرائیویٹ وڈیوز ایک نارمل عمل ہے، آپ کو سوشل میڈیا پر لاکھوں فیک نیوز اور لوگوں کی پرائیویٹ وڈیوز مل جائیں گی، پاکستان میں ساڑھے اٹھارہ کروڑ موبائل فونز ہیں، ان میں سے 15 کروڑ اسمارٹ فون ہیں اور اتنے ہی تجزیہ کار، مبصر اور اینکر ہیں، ان 15 کروڑ لوگوں کو راہ چلتے جو بھی شخص نظر آجاتا ہے یہ اس کی وڈیو بنانے لگتے ہیں اور وہ شخص چند گھنٹوں میں کوڑی کا نہیں رہتا، یہ کھیل اگر یہاں تک رہتا تو شاید برداشت ہو جاتا لیکن یہ اس سے بھی آگے نکل گیا ہے، پاکستانی معاشرہ وائرل ہونے کے خبط میں مبتلا ہو چکا ہے، سوشل میڈیا پر لاکھوں اکائونٹس ہیں اور ان میں سے ہر شخص وائرل، شیئرز، لائیکس اور سبسکرپشن کی دوڑ میں لگ چکا ہے اور اس دوڑ نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔

ہم لوگ وائرل ہونے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں، مثلاً ایک ایم این اے اور سیاستدان سینٹورس میں اپنی بہو اور بیٹی کے ساتھ کھڑا تھا، کسی نے اس کی وڈیو بنائی اور اس کی بہو اور بیٹی کو اس کی گرل فرینڈ قرار دے دیا اور یہ بری طرح وائرل ہوگئی، آپ اب ذرا اس خاندان کی اذیت کا اندازہ کیجیے، ہم آئے روز کسی پارٹی کی وڈیو دیکھتے ہیں جس میں چند لوگ شراب پی کر ڈانس کر رہے ہوتے ہیں، یہ وڈیو اکثر اوقات ججوں سے منسوب کر دی جاتی ہے اور لوگ نہ صرف اس پر یقین کر لیتے ہیں بلکہ اسے فارورڈ بھی کرتے ہیں، پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے اسی طرح مختلف سیاستدانوں اور صحافیوں کے واہیات نام رکھے ہوئے ہیں، یہ کسی کو بوٹ پالشیا، کسی کو پٹواری، کسی کو لفافہ اور کسی کو کا لاڈلا کہنا شروع کر دیتے ہیں اور لوگ بعدازاں اس کو اس نام سے پکارنے لگتے ہیں، آج کل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق ان کا خصوصی ہدف ہیں، چیف جسٹس کی ڈونٹس کی وڈیو خوف ناک حد تک وائرل ہوئی، یہ وڈیو بیکری کے ایک ایسے سیلزمین نے بنائی تھی جسے قاضی فائز عیسیٰ کا نام بھی نہیں آتا تھا، یہ وائرل ہوئی اور پی ٹی آئی نے ڈونٹس شاپ کو زیارت گاہ بنا لیا اور آپ اب اس صورتحال کا کلائمیکس دیکھیے۔

پنجاب کالج لاہور کے گلبرگ کیمپس سے متعلق ایک وڈیو 10اکتوبر کو سامنے آئی، اس میں ایک طالبہ نے دعویٰ کیا ہمارے کمپلیکس کے بیس منٹ میں فرسٹ ائیر کی ایک لڑکی ریپ ہوگئی اور یہ ریپ کالج کے سیکیورٹی گارڈ نے کیا، یہ وڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی، ملک میں اگلے دو دنوں میں ایک طرف شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس چل رہا تھا اور دوسری طرف یہ وڈیو وائرل ہو رہی تھی یہاں تک کہ یہ اسکینڈل ایس سی او کی میڈیا کوریج کو کھا گیا، طالب علموں نے احتجاج شروع کر دیا، احتجاج بڑھتے بڑھتے پورے پنجاب میں پھیل گیا اور طالب علموں نے درجنوں کیمپس تباہ کر دیے، شیشے توڑ دیے گئے، عمارتوں کو آگ لگا دی گئی اور گاڑیاں اور موٹر سائیکل جلا دیے گئے، ساڑھے چار سو لوگ زخمی ہو گئے۔

گجرات کا سیکیورٹی گارڈ مارا گیا اور دو دن قبل راولپنڈی میں پولیس کو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس چلانا پڑگئی، جمعہ 18 اکتوبر کو پنجاب کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے تمام تعلیمی ادارے بند کرنا پڑ گئے جب کہ دوسری طرف پولیس اور وزیر اعلیٰ مسلسل چیخ رہے ہیں اس قسم کا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں، جس لڑکی کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ دو اکتوبر کو گھر میں سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوئی اور اس وقت آئی سی یو میں ہے۔

اُدھر سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جا رہا ہے ریپ10 اکتوبر کو ہوا، لڑکی کے والدین اور رشتے دار بیان دے چکے ہیں ہماری بیٹی کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا، پولیس نے گارڈ کو سرگودھا سے گرفتار کر لیا، اس نے سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت کیا میں اس دن وقوعہ پر موجود نہیں تھا لیکن مظاہرین حقائق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان کا دعویٰ ہے وزیراعلیٰ اور پولیس واقعے پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے حکومت واقعے پر پردہ کیوں ڈالے گی۔

اگر ریپ ہوا ہوتا تو پولیس کے لیے آسان تھا یہ ملزم کو گرفتار کرتی، عدالت میں پیش کرتی اور یہ معاملہ چند گھنٹوں میں نبٹ جاتا، اسے اپنے گلے میں پھندا ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا ریپ کا الزام کسی بڑے آدمی یا کالج کے پرنسپل پر ہے؟ جی نہیں، اس میں صرف گارڈ کا نام لیا جا رہا ہے، پولیس اور حکومت کوگارڈ میں کیا دل چسپی ہوگی؟ دوسرا ابھی تک کوئی متاثرہ لڑکی سامنے نہیں آئی، وڈیو بنانے والی لڑکیاں اور لڑکے اپنی غلطی مان چکے ہیں، یہ بتا رہے ہیں ہم نے سنی سنائی بات پر بلا تحقیق وڈیو بنا دی تھی اور ہم اس پر معذرت خواہ ہیں، یہ بھی پتا چلا اس ایشو کو 66 سوشل میڈیا پیجز سے وائرل کیا گیا، چند بڑے صحافیوں اور یوٹیوبرز نے اسے ہوا دی اور یوں یہ ایشو بن گیا اور اس نے پنجاب بھر میں آگ لگا دی۔

یہ واقعہ کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے موبائل فون کی شکل میں ایک بم ہمارے ہاتھوں میں ہے اور اس کا ٹریگر سوشل میڈیا کے ایلگوردھم کے ہاتھ میں ہے اور امریکا، برطانیہ اور اسرائیل میں بیٹھے کسی شخص نے لیپ ٹاپ کا بٹن دبانا ہے اور ہمارے ملک میں آگ لگ جائے گی، اس ریپ ایشو میں بھی یہی ہو رہا ہے، ریپ سے متعلقہ وڈیوز صرف نوجوان طالب علموں کو دکھائی جا رہی ہیں اور خاص عمر اور خاص نفسیات کے نوجوان اس پر احتجاج کر رہے ہیں اور ہم تیزی سے بنگلہ دیش جیسی صورتحال کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

ہمارے پاس اب دو آپشن ہیں، ہم معاشرے کو اسی طرح اس کے حال پر چھوڑ دیں، ملک میں انارکی پھیل جائے اور خانہ جنگی پورے ملک کو نگل جائے یا پھر ہم سخت قوانین بنائیں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں، میری تجویز ہے حکومت کو فوری طور پر دو قوانین بنانے چاہئیں، ایک کسی بھی شخص کو کسی دوسرے شخص کی بلااجازت تصویر یا وڈیو بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اگر کوئی شخص یہ حرکت کرے تو اس پر بھاری جرمانہ بھی ہونا چاہیے اور کم از کم دس سال قید بھی، دوسرا فیک نیوز اور پروپیگنڈا کے خلاف قوانین کو سخت کر دیا جائے، ۔

ملک میں اگر فوری طور پر سائبر کورٹس بنا دی جائیں تو یہ بھی بہت بڑی مہربانی ہوگی، سائبر کورٹس کو پابند کیا جائے یہ چھ ماہ میں فیصلے کریں اور فیک نیوز بنانے اور پھیلانے والوں کو عبرت ناک سزائیں دیں، ہم نے ملک کو تماشا بنا دیا ہے یہاں کوئی ماجھا گاماں اٹھتا ہے، پورے شہر میں آگ لگا دیتا ہے اور ریاست سائیڈ پر کھڑی ہو کر تماشا دیکھتی رہ جاتی ہے، یہ تماشا اب بند ہونا چاہیے، ہمارا پورا ملک فالٹ لائنز پر کھڑا ہے یہاں کسی دن اگر کوئی فالٹ لائین پھٹ گئی تو ہم خون میں ڈوب جائیں گے لہٰذا خدا کا واسطہ ہے ریاست عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے بندے توڑنے کے بجائے فیک نیوز جیسے طوفانوں پر توجہ دے، مولانا یا عمران خان ملک کے لیے اتنی بڑی تھریٹ نہیں ہیں جتنا بڑا مسئلہ یہ فیک نیوز ہیں، پلیز اس پر توجہ دیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.