Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Game Of Thrones

Game Of Thrones

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ڈرامہ سیریز تھی، یہ سیریز ڈیوڈ بینی آف (David Benioff) نے ڈی بی وائز کے ساتھ مل کر ایچ بی او کے لیے بنائی تھی، اس کی پہلی قسط 17 اپریل 2011ء کو نشر ہوئی اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے امریکا میں تہلکہ مچا دیا اور پھر یہ باقی دنیا میں مشہور ہوتی چلی گئی، گیم آف تھرونز کے آٹھ سیزنز اور 73 قسطیں آ چکی ہیں، آخری قسط 19مئی 2019کو نشر ہوئی اور اس کے بعد ناظرین آج تک نویں سیزن اور 74 ویں قسط کا انتظار کر رہے ہیں، اس کے ابتدائی سیزنز کروشیا اور آئس لینڈ میں فلمائے گئے تھے، صرف اس شوٹنگ کی وجہ سے کروشیا اور آئس لینڈ میں سیاحت کی انڈسٹری ڈویلپ ہوگئی اور یہ دونوں ملک اب ٹورازم سے اربوں ڈالر کما رہے ہیں۔

اس کے کچھ حصے اسپین، مالٹا، مراکو اور کینیڈا میں بھی شوٹ ہوئے جس کے بعد ان لوکیشنز کی ویلیو اور سیاحت میں بھی اضافہ ہوگیا اور مقامی آبادی کو کروڑوں روپے کا فائدہ ہونے لگا، گیم آف تھرونز نے دنیا جہاں کے ایوارڈز بھی حاصل کیے اور اسے دنیا کی کام یاب ترین اور مہنگی ترین سیریز کا اعزاز بھی ملا، اب سوال یہ ہے گیم آف تھرونز کی کام یابی کی وجہ کیا تھی؟ اس کی سب سے بڑی وجہ تجسس اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی صورت حال تھی، آپ اگر ایک بار یہ سیریز دیکھنا شروع کر دیں تو تجسس آپ کے ذہن کو جکڑ لے گا اور آپ کو ہر کردار آخری محسوس ہوگا، ایک ولن مرے گا تو آپ محسوس کریں گے سیریز ختم ہوگئی لیکن اس کے ساتھ ہی دوسرا کردار آئے گا اور وہ پہلے کردار سے زیادہ آپ کی توجہ کھینچ لے گا۔

ہر ہیرو کی موت کے بعد نیا ہیرو آئے گا اور وہ پچھلے سے زیادہ پاور فل ہوگا لہٰذا ہم اگر ایک فقرے میں گیم آف تھرونز کی تعریف کریں تو یہ نیور اینڈنگ (نہ ختم ہونے والی) کہانی ہے، اس میں ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کردار آتا ہے اور یہ پہلے سے زیادہ ظالم، طاقتور، خوف ناک اور سازشی ثابت ہوتا ہے، یہ بالکل ایسے ہے جیسے انسان یہ سوچ لے قیامت کے بعد کھیل ختم ہوجائے گا لیکن اسے پھر پتا چلے قیامت کے بعد بھی ایک قیامت ہوگی اور وہ پچھلی سے زیادہ ہول ناک ہے تو اس کا کیا بنے گا؟ گیم آف تھرونز ایک ایسی ہی سیریزہے جس میں قیامت کے بعد ایک اور قیامت آتی ہے اور یہ فیصلہ مشکل ہو جاتا ہے ہیرو کون تھا اور ولن کون؟ اور یہ ولن زیادہ ظالم تھا یا پچھلا یا آنے والا اس کا بھی باپ ثابت ہوگا؟

مجھے بدقسمتی سے پاکستان بھی اس وقت ایک ایسی گیم آف تھرونز محسوس ہو رہا ہے جس میں ہر بار ہر کردار کے بعد محسوس ہوتا ہے کھیل اب ختم ہوگیا ہے، اب ملک میں استحکام آ جائے گا، اب کوئی دھرنا، کوئی مظاہرہ نہیں ہوگا لیکن اگلے دن دھرنے یاجوج ماجوج کی دیوار کی طرح دوبارہ راستے میں کھڑے ہوتے ہیں، گیم آف تھرونز کا تازہ سیزن 2007میں وکلاء کی تحریک سے شروع ہوا تھا جس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے یونیفارم اتار دی، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف واپس آ گئے اور الیکشن کا وقت آ گیا، قوم نے اس وقت سکھ کا سانس لیا، سب کا خیال تھا الیکشن ہوں گے۔

جنرل مشرف چلا جائے گا، عدلیہ بحال ہوگی اور استحکام آ جائے گا لیکن پھر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوگئیں اور سندھ میں پاکستان نہ کھپے کے نعرے لگ گئے، سیکڑوں پراپرٹیز جلا دی گئیں، بہرحال آصف علی زرداری کی مہربانی سے وہ طوفان سمٹ گیا، الیکشن ہو گئے اور دونوں ازلی دشمن پارٹیوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مل کر حکومت بنا لی، قوم نے پھر سکھ کا سانس لیا مگر یہ اتحاد بمشکل سواماہ چل سکا اور اس کے بعد ایک بار پھر "اوئے توں " شروع ہوگئی، عدلیہ بحالی تحریک میں بھی زور آ گیا، وکلاء اور جج ریاست کو ماں جیسی بنانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے اور میاں نواز شریف نے اپنا وزن ججز کے پلڑے میں ڈال کر صورت حال کو مزید ڈراؤنا بنا دیا بہرحال طویل ترین ذلالت کے بعد جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہو گئے اور پی سی او ججز فارغ ہو گئے۔

قوم نے پھر سکھ کا سانس لیالیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے افتخار محمد چوہدری نے تلوار نکالی اور لوگوں کے سر قلم کرکے اپنی میز پر رکھنا شروع کر دیے، سپریم کورٹ سرکس بن گئی اور اس نے کسی کو امن اور سکون سے زندگی نہیں گزارنے دی، ملک میں اس دوران دہشت گردی اسٹارٹ ہوگئی، طالبان نے ملک کی چولیں ہلا دیں اور دوسری طرف جنرل پاشا کی مہربانی سے عمران خان کا ظہور ہوگیا اور اس کے بعد اللہ دے اور بندہ لے، ایک طرف طالبان نے تباہی مچا دی اور دوسری طرف عمران خان نے کھوپڑیوں کے مینار بنا دیے، قوم نے بڑی مشکل سے آصف علی زرداری کے پانچ سال پورے کیے، اس دوران سپریم کورٹ سے روز کوئی نہ کوئی بری خبر آتی تھی اور عوام کی چیخیں نکل جاتی تھیں، 2013 کا الیکشن ہوا، میاں نواز شریف نے وفاق اور پنجاب میں حکومت بنا لی۔

بانی پی ٹی آئی کو کے پی اور پیپلز پارٹی کو سندھ مل گیا، قوم نے پھر سکھ کا سانس لیا، ہمارا خیال تھا اب استحکام آ جائے گا لیکن پھر خان سڑکوں پر آیا اور اس نے دھرنوں کے ذریعے ملک کی مت مار دی، یہ اپنے ساتھ سوشل میڈیا، یوتھیے، دھرنے اور نفرت لے کر آئے اور ان ہتھیاروں سے ملک کی بنیادیں کھودنے لگے، اس دوران جسٹس ثاقب نثار اور جنرل فیض حمید کا ظہور بھی ہوگیا یوں عمران خان، جنرل فیض حمید اور جسٹس ثاقب نثار کا ٹرائیکا بنا اور اس نے پھر کسی کو آرام سے سونے نہیں دیا، قوم کے وہ پانچ سال بھی مکمل برباد ہو گئے، گیم آف تھرونز کے اس سیزن کے آخرمیں 2018 کے الیکشن ہو گئے اور خان کی حکومت بن گئی، یہ حکومت پچھلی حکومتوں سے مکمل مختلف تھی، بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھے۔

اپوزیشن مکمل طور پر فارغ ہو چکی تھی، نواز شریف کو جیل سے نکال کر لندن بھجوا دیا گیا تھا، ن لیگ کے باقی تمام لیڈرز جیلوں میں تھے اور آصف علی زرداری گھٹنوں تک فیک اکاؤنٹس کے مقدموں میں دھنسے ہوئے تھے اور میڈیا اور سوشل میڈیا بھی حکومت کے کنٹرول میں تھا لیکن اس کے باوجود خان نے کسی کو سانس نہیں لینے دیا، انڈسٹری اجڑ گئی، اکانومی برباد ہوگئی، سفارتی تعلقات تباہ ہو گئے اور رہی سہی کسر عثمان بزدار اور محمود خان نے پوری کر دی، اس کے بعد عمران خان ہٹاؤ پروجیکٹ شروع ہوگیا، عوام کا خیال تھا خان کے بعد استحکام آ جائے گا لیکن خان کے ہٹتے ہی ملک تیزاب کے ڈرم میں جا گرا اور مسائل میں اضافہ ہوتا چلا گیا، قوم کا خیال تھا اس کے ذمے دار جنرل باجوہ ہیں، ان کے بعد استحکام آ جائے گا مگر کمانڈ کی تبدیلی کے بعد مسائل میں اضافہ ہوگیا اور سپریم کورٹ نے ان مسائل پر تیل پھینکنا شروع کر دیا۔

عوام کا خیال تھا جسٹس عمر عطاء بندیال ذمے دار ہیں، یہ جائیں گے تو استحکام آ جائے گا، بندیال صاحب چلے گئے اور قاضی فائز عیسیٰ آ گئے لیکن بحران میں مزید اضافہ ہوگیا، قوم کا خیال تھا 2024کے الیکشنز کے بعد اچھا وقت آ جائے گا لیکن الیکشنز کے بعد آگ مزید بھڑک گئی اور اب یہ کہا جا رہا ہے 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی لیکن آپ پچھلے دو ہفتوں کی کارروائیاں دیکھ لیں، ہر دن عدم استحکام کا آخری دن محسوس ہوتا ہے لیکن شام تک صورت حال مزید گھمبیر ہو جاتی ہے لہٰذا مجھے یوں محسوس ہوتا ہے آئینی ترمیم کے بعد گیم آف تھرونز کا کوئی نیا کردار سامنے آئے گا اور وہ پچھلے تمام کرداروں کو مات دے دے گا، یہ آئینی ترمیم ایک ایسا نیا بحران پیدا کرے گی جو ہمیں پچھلے تمام بحران بھلا دے گی۔

دنیا میں ہر شر کے بارے میں کہا جاتا ہے اس سے خیر کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نکلتا ہے لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ہر شر ایک نئے شر کو جنم دیتا ہے اور وہ شر پچھلے شر سے زیادہ خوف ناک ثابت ہوتا ہے اور شر کے اندر شر کی پیدائش کے نتیجے میں آج ملک میں ایک بھی معزز شخص نہیں بچا، تمام شخصیات اور تمام عہدے متنازع ہو چکے ہیں، اتھارٹیز کا خوف بھی ختم ہو چکا ہے اور ریاست کی رٹ بھی، آج بے یقینی کی یہ حالت ہے لوگ صبح اٹھ کر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا آج سڑکیں کھلی ہوں گی اور کیا ہم اسکول، کالج، مارکیٹ اور دفتر جاسکیں گے اور اگر خوش قسمتی سے لوگ باہر چلے جائیں تو گھر والوں کو ان کی واپسی کا یقین نہیں ہوتا، ہم اے آئی کے دور میں زندہ ہیں لیکن ہمارے موبائل فون کس وقت بند ہو جائیں اور انٹرنیٹ اور وائی فائی کس وقت جواب دے جائے ہم نہیں جانتے، سڑکیں بند ہونا اور ٹریفک جام ہونا روٹین بن چکی ہے اور ان کے ساتھ ساتھ لیڈروں سے لے کر عوام تک پورا ملک اخلاقیات کے خوف ناک بحران کا شکار ہو چکا ہے، کسی کو کسی کی کسی بات پر یقین نہیں ہوتا لہٰذا پھر سوال یہ ہے۔

ان حالات کے ساتھ یہ ملک کیسے چل سکے گا؟ یہ گیم آف تھرونز مزید کتنے لوگوں کا سر لے گی، میرا خیال ہے ہمیں اب یہ ڈرامہ ختم کر دینا چاہیے، ہم جو کرنا چاہتے ہیں ایک ہی بار کر دیں اور روز روز کا سیاپا ختم کریں، کم از کم سڑکیں تو کھلی ہونی چاہییں اور انٹرنیٹ اور فون سروس تو ہونی چاہیے تاکہ کاروبار حیات چل سکے، یہ آئین اور ایکسٹینشن کا مسئلہ بھی ایک ہی بار ختم ہونا چاہیے، جس کو جو چاہیے اسے تاحیات دے دیں تاکہ استحکام آ سکے تاکہ گیم آف تھرونزختم ہو سکے اور تاکہ ہماری نسل چند سال ہی سہی لیکن سکھ کا تھوڑا سا سانس تو لے سکے لیکن شاید یہ ہمارے نصیب میں ہی نہیں ہے، ترامیم کے بعد اب جج استعفے تیار کرکے بیٹھے ہیں اور یہ جس دن ستعفے دیں گے اس دن گیم آف تھرونز کا اگلا سیزن شروع ہو جائے گا اور اس سیزن میں کس کس کا سر جائے گا ہم سردست کچھ نہیں کہہ سکتے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.