مزدوروں کے چہروں پر غربت تھی، بھوک نہیں، میں سڑک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گیا، فٹ پاتھ پر ان کے اوزار پڑے تھے، ٹول باکس بھی تھے، کُھرپے بھی، گینتیاں بھی، ہتھوڑے بھی اور کسّیاں بھی، یہ لوگ سڑک کی تین فٹ اونچی دیوار پر بیٹھے تھے، یہ جینز اور شرٹس میں ملبوس تھے، وہ قہوہ اور سگریٹ پی رہے تھے اور چند مزدور تاش، شطرنج اور کیرم بورڈ کھیل رہے تھے، یہ جارجیا کے مزدور تھے اور یہ تبلیسی شہر کی ایک سڑک کا منظر تھا، یہ ہمارے مزدوروں کی طرح فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتے ہیں، لوگ گاڑیوں میں آتے ہیں۔
ان کا انٹرویو کرتے ہیں، انھیں کام بتاتے ہیں اور پھر گاڑی میں بٹھا کر گھر، دفتر یا فیکٹری لے جاتے ہیں، ہمارے فٹ پاتھوں پر روزانہ ایسے سیکڑوں ہزاروں مزدور، مستری، مکینک اور پلمبر آ کر بیٹھتے ہیں، لوگ آتے ہیں اور انھیں ساتھ لے جاتے ہیں، یہ منظر جارجیا اور پاکستان دونوں ملکوں میں مشترک ہیں لیکن جارجیا کے مزدوروں اور ہمارے مزدوروں میں ایک فرق ہے، وہ لوگ صرف غریب دکھائی دیتے ہیں، ان کے چہروں پر بھوک نہیں ہوتی جب کہ ہمارے مزدوروں کے چہروں پر بھوک کا لیپ ہوتا ہے، ہمارے مزدور دو کلو میٹر سے بھوکے دکھائی دیتے ہیں، یہ فرق کیوں ہے؟ اس کی محض ایک وجہ ہے، جارجیا کے لوگ خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہیں، یہ صدیوں سے "کھاچا پوری" بنا اور کھا رہے ہیں۔
کھاچا پوری میں پنیر کی آدھ انچ موٹی تہہ ہوتی ہے، ایک کھاچا پوری دو سے تین لوگوں کے لیے کافی ہوتی ہے، یہ لوگ قہوہ، چائے یا کولڈ ڈرنک کے ساتھ کھاچا پوری کھاتے ہیں اور پورا دن گزار لیتے ہیں، ملک میں سیکڑوں ہزاروں تنور ہیں، ان تنوروں پر کھاچا پوری ملتی ہیں، آپ خریدیں اور دن گزار لیں، لوگ خاندان کی ضرورت کے مطابق گھروں میں سبزی اور پھل بھی اگاتے ہیں، یہ لوگ ایک آدھ گائے بھی رکھ لیتے ہیں اور یوں یہ خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہوتے ہیں، میں نے اکثر گھروں میں ایک دو مرلے کا "فارم ہاؤس" دیکھا، یہ لوگ اس "فارم ہاؤس" میں سبزیاں بھی اگاتے ہیں، پھلوں کے درخت بھی لگاتے ہیں اور مرغیاں بھی پالتے ہیں۔
جارجیا میں شاید ہی کوئی گھر ہو گا جس میں انگور کی بیل نہ ہو یا گھر کے لوگ گھر سے سیب، اخروٹ، بادام، آڑو، چیری اور آلو بخارہ حاصل نہ کر رہے ہوں، اس " فارم ہاؤس" میں کاشت کاری کا کام گھر کی خواتین اور بچے سرانجام دیتے ہیں، یہ لوگ گھر کی ضرورت کے لیے اچار، چٹنیاں، مربے، جیم اور پنیر خود تیار کرتے ہیں، یہ لوگ اگرچھوٹے گھروں میں رہتے ہوں تو کرائے پر زمین لے کر سبزیاں اور پھل اگا لیتے ہیں اور یہ بھی اگر ممکن نہ ہو تو یہ گھر کے باہر یا صحن میں کاشت کاری کر لیتے ہیں جب کہ ہمارے لوگ، ہمارے مزدور عمر بھر خوراک کی محتاجی میں مبتلا رہتے ہیں، یہ آٹا، گھی اور چینی خریدنے کے لیے مزدوری کرتے ہیں اور ہمارے اس رویے نے ہمارے چہرے پر بھوک مل دی ہے، ہم سب کی آنکھوں میں بھوک درج ہو چکی ہے۔
ہم ہمیشہ ایسے نہیں تھے، ہمارے ملک میں تیس سال قبل بھوک نہیں تھی، صرف غربت تھی اور اگر غربت میں بھوک نہ ہو تو غربت قابل برداشت ہو جاتی ہے، غریب شخص اس وقت مجرم، درندہ اور ظالم بنتا ہے جب اس کی غربت میں بھوک شامل ہو جاتی ہے، ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی آج بھی دیہات میں رہتی ہے، یہ لوگ 30 سال پہلے تک خوراک کے معاملے میں خود کفیل تھے، ہمارے دیہات کے ہر گھر میں بھینس، گائے، بکری، مرغی اور گدھا ہوتا تھا، خاندان بھینس اور گائے سے دودھ، دہی، مکھن، لسی، بالائی اور گھی کی ضرورت پوری کر لیتا تھا، بکری اور مرغی، انڈے اور گوشت کا مسئلہ حل کر دیتی تھی، گدھا باربرداری کے کام آتا تھا اور رہ گیا اناج تو یہ لوگ سبزیاں اور گندم بھی اپنی اگا تے تھے۔
گاؤں کے ہر گھر میں گندم اسٹور کرنے کا مٹی، لوہے یا لکڑی کا "پڑہولا" ہوتا تھا، یہ لوگ چولہے میں لکڑیاں اور اُپلے جلاتے تھے، واش روم کھیت ہوتے تھے اور نہانے دھونے کا فریضہ ٹیوب ویلوں اور کنوؤں پر ادا ہوتا تھا چنانچہ یہ لوگ خوراک اور رہائش دونوں معاملوں میں خود کفیل تھے، گھر کا ایک آدھ فرد چھوٹی بڑی نوکری کر لیتا تھا، وہ فوج میں بھرتی ہو جاتا تھا، ڈاک خانے، فیکٹری یا ریلوے میں ملازم ہو جاتا تھا یا پھر راج مستریوں کے ساتھ لگ جاتا تھا، اس شخص کی آمدنی خاندان کی بچت ہوتی تھی، بہ بچت شادی بیاہ کے کام آتی تھی یا بیماری اور حادثوں کے اخراجات پورے کر دیتی تھی یا پھر گھر میں نئے کمرے ڈالنے کے کام آتی تھی۔
جارجیا کی کھاچا پوری کی طرح ہمارے دیہات اور شہروں کی بھی کوئی نہ کوئی مخصوص خوراک ہوتی تھی، گاؤں کے لوگ تنوری روٹی پر مکھن لگا کر یا پھر اچار رکھ کر دن گزار لیتے تھے، لسی پورے گاؤں کا مشروب تھی، آپ جہاں جاتے، آپ کو وہاں لسی کا پیالہ ضرور ملتا، آپ اگر معزز مہمان ہیں تو آپ کو دودھ کا پیالہ عنایت ہو جاتا تھا، یہ دودھ مکمل غذا ہوتی تھی، شہروں میں کلچے، نان اور دال روٹی ملتی تھی، پورے شہر میں سیکڑوں تنور ہوتے تھے، آپ کسی تنور سے ایک نان اور دال لیتے اور پورا دن گزار لیتے تھے، ہم نے اپنی سماجی بے وقوفی سے صدیوں میں بنا یہ سسٹم ختم کر دیا، گاؤں میں فلیش سسٹم آیا، اس نے پورے گاؤں کا پانی آلودہ کر دیا، لوگوں نے بھینس، گائے، بکری اور مرغی رکھنا بھی بند کر دی۔
گاؤں کے لوگ گندم، دالیں اور ترکاری بھی خرید کر استعمال کرنے لگے، گڑ اور شکر کی جگہ چینی آ گئی، لسی ختم ہو گئی اور اس کی جگہ چائے، کولڈ ڈرنکس اور ڈبے کے جوس آ گئے، دیسی گھی کی جگہ بناسپتی گھی استعمال ہونے لگا، لکڑی اور اُپلوں کی جگہ گیس کے چولہے آ گئے، مسواک کی جگہ ٹوتھ برش آیا اور تیل کی جگہ شیمپو استعمال ہونے لگا، یہ تمام چیزیں بازار سے ملتی ہیں اور انسان جب ایک بار بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بازار چلا جائے تو پھر اس کی غربت میں بھوک شامل ہوتے دیر نہیں لگاتی اور ہماری دیہی آبادی کے ساتھ یہی ہوا، یہ لوگ تیس برسوں میں غذائی خود مختاری سے بھوک کی محتاجی میں چلے گئے، یہ لوگ اب روز ہتھوڑی اور کَسّی لے کر فٹ پاتھوں پر بیٹھتے ہیں اور ہر گزرنے والے کو للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
ہماری بربادی میں ہماری سماجی روایات کے انتقال نے بھی اہم کردار ادا کیا، میں نے بچپن میں گاؤں میں درجنوں شاندار روایات دیکھی تھیں، یہ روایات آہستہ آہستہ مر گئیں، ان کے انتقال نے عام آدمی کے معاشی بحران میں اضافہ کر دیا مثلاً گاؤں کی ہر بچی کی شادی پورا گاؤں مل کر کیا کرتا تھا، پورا گاؤں ایک ایک چیز گفٹ کرتا تھا اور یہ چیزیں مل کر جہیز بن جاتی تھیں، بارات کے لیے کھانا پورا گاؤں مل کر بناتا تھا، باراتیوں کی رہائش کا بندوبست پورا گاؤں کرتا تھا مثلاً مہمان پورے گاؤں کے مہمان ہوتے تھے۔
یہ رہتے کسی کے گھر میں تھے، ناشتہ کسی کے گھر سے آتا تھا، لنچ دوسرے گھر اور ڈنر تیسرے گھر میں ہوتا تھا، مثلاً کسی کا انتقال پورے گاؤں کی "میت" کہلاتا تھا۔ قل تک کا کھانا لوگ مل کر دیتے تھے، مثلاً گندم کی کٹائی پورا گاؤں مل کر کرتا تھا، مثلاً لڑائی میں پورا گاؤں اپنے "بندے" کے ساتھ کھڑا ہو تا تھا، تھانے کچہری میں پورا گاؤں جاتا تھا، مثلاً قتل تک کے جھگڑے پنچایت میں نبٹائے جاتے تھے، مثلاً گاؤں میں اجتماعی بیٹھک ہوتی تھی، اسے "دارا" کہا جاتا تھا، لوگ شام کے وقت اس دارے میں بیٹھ جاتے تھے، مثلاً گاؤں کا کوئی شخص بیمار ہو جاتا تھا تو پورا گاؤں اس کے "سرہانے" پیسے رکھ کر جاتا تھا، یہ پیسے پوچھ، سرعت یا عیادت کہلاتے تھے۔
یہ رقم مریض کے علاج پر خرچ ہوتی تھی، مثلاً بچہ پیدا ہوتا تھا تو گاؤں کے لوگ بچے کو پیسے دے کر جاتے تھے، یہ پیسے زچہ اور بچہ دونوں کی بحالی پر خرچ ہوتے تھے، مثلاً خوراک کا بارٹر سسٹم نافذ تھا، آپ گندم دے کر چنے لے لیتے تھے اور مسور دے کر گُڑ حاصل کر لیتے تھے، مثلاً آپ نائی کو گندم دے کر حجامت کرا لیتے تھے، بکری دے کر موچی سے جوتے لے لیتے تھے اور گنے دے کر درزی سے کپڑے سلا لیتے تھے، مثلاً کوئی بچی روٹھ کر میکے آ جاتی تھی تو پورا گاؤں ڈنڈے لے کر سسرالی گاؤں پہنچ جاتا تھا، مثلاً لوگ ضرورت کے وقت دوسروں سے برتن، کپڑے، جوتے، زیورات اور جانور ادھار لے لیتے تھے اور مثلاً قدرتی آفتوں یعنی سیلاب، زلزلے اور آندھیوں کے بعد پورا گاؤں مل کر گری ہوئی دیواریں اور چھتیں بنا دیتا تھا، یہ "سوشل ارینج منٹ" غربت اور بھوک کے درمیان بہت بڑی خلیج تھا۔ یہ بندوبست سیکڑوں ہزاروں سال کے سماجی تجربے کے بعد بنا تھا۔
یہ غریب کو بھوکا نہیں رہنے دیتا تھا لیکن ہم نے یہ سماجی بندوبست بھی ختم کر دیا۔ ہم نے نیا نظام بنائے بغیر پرانا نظام توڑ دیا، ہم نے اپنے لوگوں کو لسی، نیوندرے، دارے، پوچھ اور بارٹر سسٹم چھوڑنے سے قبل یہ نہیں بتایا کارپوریٹ نظام میں لوگ اہم نہیں ہوتے، لوگوں کا ہنر، لوگوں کی پرفارمنس اور لوگوں کی آؤٹ پٹ اہم ہوتی ہے، آپ اگر مائیکرو سافٹ کو کما کر دے رہے ہیں تو بل گیٹس آپ کو جھک کر سلام کرے گا لیکن آپ اگر کمپنی کے پرافٹ میں اضافہ نہیں کر رہے تو پھر آپ خواہ بل گیٹس کے والد محترم ہی کیوں نہ ہوں۔
آپ کمپنی کی دیواروں کے سائے تک میں نہیں بیٹھ سکیں گے۔ آپ کا مقدر بھوک، غربت، بیماری اور فٹ پاتھ ہوں گے، ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ آج اسی کرب سے گزر رہا ہے، یہ روز آنکھوں میں بھوک کا سرمہ لگا کر ہر گزرتی گاڑی کو امید اور نفرت کی نظروں سے دیکھتا ہے اور یہ نفرت اور یہ امید اس وقت تک قائم رہے گی جب تک مزدور آٹے اور روٹی کے لیے کام کرتا رہے گا، یہ جب تک غربت اور بھوک کے درمیان موجود فرق کو نہیں سمجھے گا۔