حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں، میں انہیں 1995ء سے جانتا ہوں اور میرے ان کے ساتھ فیملی ٹرمز ہیں، ان کا ایک ہی بیٹا ہے اور یہ وکیل ہے، میں اسے بھی پندرہ برس سے جانتا ہوں، حافظ صاحب دین دار اور مذہبی انسان ہیں، ہر حال میں وقت پر نماز ادا کرتے ہیں اور روزانہ تلاوت بھی کرتے ہیں، ان کے بیٹے اور بہو کے ساتھ پچھلے اتوار کو لاہور میں وہ خوف ناک واقعہ پیش آیا جو اس وقت دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا ہوا ہے اورلوگ وحشت سے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔
یہ دونوں میاں بیوی راولپنڈی سے وزٹ کے لیے لاہور گئے اور بدقسمتی سے شاپنگ کے لیے اچھرہ مارکیٹ چلے گئے، خاتون نے سعودی ڈریس ڈیزائنر شالک ریاض کا کرتہ پہن رکھا تھا، یہ برینڈ عربی حروف تہجی کے کرتے بناتا ہے اور یہ خواتین میں بہت مشہور ہیں، پاکستانی ڈریس ڈیزائنرز نے بھی اب انہیں کاپی کرنا شروع کر دیا ہے، دونوں میاں بیوی مختلف دکانوں سے ہوتے ہوئے بازار کے درمیان پہنچے تو دو باریش نوجوان آئے اور ان کا راستہ روک کھڑے ہو گئے، دونوں مسلح تھے، دونوں نے اونچی آواز میں چلاتے ہوئے کہا"تم لوگ قادیانی ہو اور تم نے قرآن مجید کی توہین کی" میاں بیوی پریشان ہو گئے اور حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگے، نوجوان وکیل نے پوچھا، آپ ہم پر یہ الزام کیوں لگا رہے ہیں؟ باریش نوجوان نے جواب دیا، تمہاری بیوی نے قرآنی آیات کا کرتہ پہن رکھا ہے، نوجوان وکیل نے پوچھا، کیا تمہیں قرآن پڑھنا آتا ہے۔
باریش نوجوان نے چلا کر جواب دیا، قرآن کس مسلمان کو پڑھنا نہیں آتا، اس دوران خاتون نے انہیں بتانا شروع کر دیا، یہ صرف حروف تہجی ہیں اوران کے درمیان حلوہ لکھا ہے، یہ آیات یا قرآنی الفاظ نہیں ہیں لیکن وہ دونوں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، اس دوران نوجوانوں کی آواز بلند ہوتی چلی گئی اور ان کو دیکھ کر لوگ جمع ہونے لگے، دونوں نوجوانوں کا کہنا تھا "تم یہ کرتہ فوراً اتار دو" خاتون کا جواب تھا میں بازار کے درمیان اتنے لوگوں میں یہ کیسے اتار سکتی ہوں؟ بارش نوجوان نے اس دوران پستول نکالا اور دونوں پر تان لیا، ہجوم نے بھی چیخنا چلانا شروع کر دیا، لوگ دونوں کو مارنے اور جلانے کا مطالبہ کر رہے تھے، بازار میں یہ خبر بھی پھیل گئی دو گستاخ رسول پکڑے گئے ہیں اور انہیں سزا دی جا رہی ہے، لوگ سزا میں شامل ہونے کے لیے اکٹھے ہونے لگے، نوجوان وکیل نے پولیس کو فون کرنا شروع کر دیا، بڑی کوشش کے بعد پولیس سے ون فائیو پر رابطہ ہوا اور تھوڑی دیر بعد ایس ایچ او اہلکاروں کے ساتھ وہاں پہنچ گیا، ہجوم نے جوڑے کو گھیر رکھا تھا اور وہ دونوں خوف زدہ تھے۔
ایس ایچ او کو شروع میں محسوس ہوا خاتون کا قصور ہے اور یہ واقعی گستاخی کی مرتکب ہوئی ہے لہٰذا وہ ان دونوں پر چڑھ دوڑا، باریش نوجوان پولیس کی آمد سے قبل نوجوان وکیل کو مکا بھی مار چکا تھا اور وہ زخمی تھا، پولیس بہرحال دونوں کو دھکیل کر قریبی کیفے میں لے گئی، اس دوران ایک مقامی عالم دین وہاں پہنچ گئے، وکیل اور ان کی بیگم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس دوران خاتون کے منہ سے نکل گیا "یہ قرآن نہیں ہے، عربی کیلی گرافی ہے" بس عربی کیلی گرافی سننے کی دیر تھی، عالم دین نے جوڑے کے خلاف تقریر شروع کر دی، ہجوم کی شدت اور نفرت میں اضافہ ہوگیا اور لوگ چھریاں چاقو لے کر پہنچ گئے اور یہ ان دونوں کو گولی مارنے اور جلانے کا مطالبہ کرنے لگے، ایس ایچ او نے ہجوم کو بتایا اگر ان لوگوں نے واقعی جان بوجھ کر یہ گستاخی کی ہے تو میں انہیں آپ کے حوالے کر دوں گا اور آپ ان کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں لیکن اگر انہوں نے غلطی سے کیا تو آپ انہیں معاف کر دیں لیکن ہجوم قابو میں نہیں آ رہا تھا۔
نوجوان وکیل اس دوران اپنے والد اور دوست احباب کو فون کرتا رہا جب کہ ہجوم اور پولیس اس سے فون چھیننے کی کوشش کرتے رہے لیکن نوجوان کی ہمت کو داد دینی پڑے گی اس نے ہاتھ سے فون نہیں نکلنے دیا، اس دوران اے ایس پی شہر بانو نقوی اپنی فورس کے ساتھ موقع پر پہنچ گئیں، ہجوم کی وجہ سے راستے بند تھے لہٰذا پولیس کو گاڑیاں دور کھڑی کرکے پیدل موقع پر پہنچنا پڑا، وہاں صورت حال یہ تھی خاتون کونے میں دبکی بیٹھی تھی جب کہ نوجوان وکیل کو ہجوم نے گھیر رکھا تھا اور ایس ایچ او اسے بچانے کی کوشش کر رہا تھا اور باہر تین چار سو مشتعل لوگ کھڑے تھے اور وہ انہیں مار دینے اور زندہ جلا دینے کا مطالبہ کر رہے تھے، شہر بانو نقوی کو ہجوم کو ٹھنڈا کرنے میں بہت وقت لگ گیاجس کے بعد فیصلہ ہوا پولیس دونوں کو تھانے لے جاتی ہے۔
اعتراض کرنے والے لوگ بھی ساتھ جائیں گے اور فیصلہ تھانے میں ہوگا اگر یہ گستاخ نکلے تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی اور اگر یہ غلط فہمی نکلی تویہ معافی مانگیں گے، اس کے بعد شہربانو نقوی نے خاتون کو برقعہ پہنایا، اس کے سر پر چادر دی، خاتون کو کھینچ کر ہجوم کے درمیان سے نکالا، گاڑی میں بٹھایا اور اسے پولیس سٹیشن لے گئی، خاتون کو کینٹ نارتھ سٹیشن لے جایا گیا جب کہ نوجوان وکیل اور مذہبی جماعت کے ارکان تھانہ گارڈن ٹائون لے جائے گئے، مذہبی جماعت کے لوگوں کا اصرار تھا آپ ان دونوں کے خلاف توہین مذہب، توہین قرآن اور گستاخی رسول کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کریں جب کہ نوجوان وکیل بار بار پوچھ رہا تھا ہم نے گستاخی کب اور کیسے کی؟ مذہبی جماعت کے لوگوں کا کہنا تھا جن حروف تہجی میں قرآن لکھا گیا وہ بھی مقدس ہیں اور کسی شخص کو ان حروف تہجی کی گستاخی کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اس دوران نوجوان وکیل کے والد اپنے مختلف دوستوں کو فون کرتے رہے، وہ بھی تھانے میں جمع ہوتے رہے۔
تھانے میں بحث لمبی ہوگئی، اس دوران واقعے کے کلپ وائرل ہونے لگے اور یہ معاملہ نیشنل اور انٹرنیشنل بنتا چلا گیا، بہرحال قصہ مختصر پولیس نے جوڑے کو سمجھایا آپ معذرت کریں اور جان چھڑائیں، اس دوران خاتون کو کہا گیا مولوی صاحب جب آپ کے سامنے آئیں تو آپ ان کے پائوں پکڑ لیں، اپنی جان بچائیں، یہ لوگ بہت خطرناک ہیں، آپ نے اسی ملک میں رہنا ہے، دونوں سے بار بار کلمہ سن کر ان کے اسلام کی تصدیق بھی کی گئی، بہرحال قصہ مزید مختصر آخر میں مذہبی جماعت کے ارکان کو خاتون کے پاس لے جایا گیا اور جوڑے نے عالم دین اور مذہبی جماعت کے ارکان سے باقاعدہ معافی مانگ کر اپنی جان چھڑائی اور یوں آخر میں حملہ آور نعرے لگاتے ہوئے گھر واپس چلے گئے۔
ہم اگر اس واقعے کا نفسیاتی اور معاشرتی جائزہ لیں تو چند چیزیں سامنے آتی ہیں مثلاً ہماری گلیوں اور محلوں میں خدائی فوج داروں کے کئی لشکر پروان چڑھ چکے ہیں اور یہ لوگ کسی بھی جگہ کسی کے ایمان کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور ملزم کو سرعام قتل کر سکتے ہیں اور ریاست ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکتی، دو، آپ کے پاس اسلام کا نالج ہو یا نہ ہو بس آپ کا حلیہ اسلامی ہونا چاہیے اور اس کے بعد آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور آپ کے ہدف کے پاس صرف ایک آپشن بچے گا، وہ آپ کے ہاتھوں قتل ہو جائے یا پھر پائوں پکڑ کر معافی مانگ لے اور اس معاملے میں ریاست کھل کرحملہ آور کا ساتھ دے گی، یہ اس سے یہ تک نہیں پوچھے گی تم نے پستول کہاں سے لیا اور تمہیں کس نے حق دیاتم اسے سرعام کسی شخص کے سر پر تان دو اور تین مذہب ٹھیکے داروں کے قبضے میں چلا گیا ہے لہٰذا آپ اگر اب زندہ رہنا چاہتے ہیں توآپ لوگوں کے سامنے نماز پڑھنے میں بھی احتیاط کریں کیوں کہ کوئی بھی شخص آپ کے وضو، آپ کے کپڑوں اور آپ کے رکوع وسجود پر اعتراض کرکے آپ کو گستاخ قرار دے سکتا ہے اور سننے اور دیکھنے والے چند منٹوں میں اس کے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور آخری نقطہ، ریاست اب ریاست نہیں رہی، میں شہربانو نقوی کی جرات کو سلام کرتا ہوں لیکن سوال یہ ہے باقی پولیس کا کیا رویہ تھا؟ کیا اس نے ہجوم کو اکٹھا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی۔
کیا اس نے جوڑے کو روکنے، ان کو تشدد کا نشانہ بنانے اور ان پر پستول تاننے والوں سے پوچھا اور کیا اس نے ہجوم کو اشتعال دلانے والوں سے کوئی سوال کیا؟ یہ سوال تو دور پولیس نے الٹا جوڑے سے معافی منگوائی اور پھر حملہ آوروں کو سلام کرکے گھر بھجوا دیا، کیا یہ رویہ ثابت نہیں کرتا ہماری ریاست بطور ریاست آخری سانسیں لے رہی ہے اور اب اس پر ہجوم حکمرانی کر رہے ہیں، پورا ملک اس وقت شہربانو زندہ باد کے نعرے لگا رہا ہے (یہ خاتون واقعی تعریف کے قابل ہے)لیکن سوال یہ ہے جوڑے کوہراساں کرنے اور اس کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والوں سے باز پرس کس نے کرنی ہے؟ اس خونی رویے پر ریسرچ کس نے کرنی ہے اور جہالت کے اس دہکتے تنور کی آگ کس نے ٹھنڈی کرنی ہے؟ ہم بھی کیا لوگ ہیں ہم قاتل کو گلیوں میں کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور گورکن کو تمغے دیتے ہیں، ہم بھی کیا لوگ ہیں ہم اسلام کے نام پر جاہل معاشرہ تخلیق کرکے ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کر رہے ہیں، ہم بھی کیا لوگ ہیں؟