عربی ساربان نے پوچھا "تمہارے پاس کتنے اونٹ ہیں؟ اجنبی نے مسکرا کر جواب دیا "میں سادہ سا ریاضی دان ہوں، میرا علم بتاتا ہے آپ جب تک دوسرے پلڑے میں وزن برابر نہیں کرتے آپ کا توازن مکمل نہیں ہوتا، میرے پاس کوئی اونٹ نہیں۔
ساربان نے برا سا منہ بنایا اور کجاوے سے وزن اتارنا شروع کر دیا، ریاضی دان نے گھبرا کر پوچھا " تم یہ کیا کر رہے ہو؟ ساربان نے عربی کی ایک کہاوت پڑھی، جس کا مفہوم تھا " تم جب بھی مشورہ کرو، تجربہ کار سے کرو، عقل مند سے نہ کرو، اور اس کے بعد بولا " تم خواہ کتنے ہی بڑے ریاضی دان کیوں نہ ہو جاؤ، تمہارا اونٹوں کے بارے میں تجربہ صفر ہے اور میں ناتجربہ کار کے ہاتھوں برباد نہیں ہونا چاہتا، ریاضی دان اپنا سا منہ لے کر رہ گیا، یہ کیا تھا؟ یہ عربوں کی ایک چھوٹی سی داستان تھی، داستان کے مطابق عرب ساربان اونٹ پر وزن لاد رہا تھا۔
اس نے سارا وزن کجاوے کی ایک سائیڈ پر لاد دیا، اونٹ کو اٹھایا تو اونٹ نے اٹھنے سے انکار کر دیا، ریاضی دان یہ منظر دیکھ رہا تھا، ریاضی دان نے ساربان کو مشورہ دیا "تم کجاوے سے آدھا وزن نکال کر دوسرے حصے میں ڈال دو، کجاوے میں توازن قائم ہو جائے گا اور اونٹ آسانی سے کھڑا ہو جائے گا۔
ساربان نے بات مان لی، ایک سائیڈ سے آدھا وزن اتار کر دوسری سائیڈ میں ڈال دیا، توازن قائم ہو گیا، اونٹ کھڑا ہو گیا، ساربان نے خوش ہو کر ریاضی دان سے پوچھا " تمہارے پاس کتنے اونٹ ہیں، ریاضی دان نے جواب دیا "میں سادہ سا ریاضی دان ہوں، میرے پاس کوئی اونٹ نہیں، ساربان نے غصے سے ماتھے پر ہاتھ مارا، اونٹ نیچے بٹھایا، وزن اتار کر دوبارہ پہلے کجاوے میں ڈال دیا اور بولا " میں ناتجربہ کار کے ہاتھوں برباد نہیں ہوناچاہتا، آپ کو یہ عرب یقینا بے وقوف محسوس ہو گا لیکن عرب لوگ ہزاروں برس سے تجربے کو عقل پر فوقیت دیتے آ رہے ہیں، یہ جب بھی مشورہ کرتے ہیں، یہ عقل مند کے بجائے تجربہ کار سے کرتے ہیں۔
یہ طریقہ کار عربوں کے جینز کا حصہ بن چکا ہے۔ تجربہ دنیا کی اتنی بڑی حقیقت ہوتا ہے، آپ کتنے ہی عقل مند کیوں نہ ہو جائیں، آپ بہر حال تجربہ کار لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ کسی دن دنیا کے کامیاب لوگوں پر تحقیق کریں، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے یہ لوگ ہمیشہ تجربہ کار لوگوں کو اپنا مشیر بناتے ہیں، آپ دنیا کے کامیاب حکمرانوں کے پروفائل بھی نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو ان کے گرد بھی سفید بالوں والے تجربہ کار لوگ نظر آئیں گے اور آپ دنیا کے بڑے دانشوروں، سائنس دانوں، پروفیسروں اور فلاسفروں کے پروفائل بھی نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو ان کی کنپٹیاں بھی سفید دکھائی دیں گی۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے، آپ کو انبیاء کی اس فہرست میں بھی بہت کم جوان نبی نظر آئیں گے، آپ نوے فیصد انبیاء پر اس وقت وحی اترتے دیکھیں گے جب وہ تین چوتھائی زندگی گزار چکے تھے اور ان کی کنپٹیاں اور داڑھیاں سفید ہو چکی تھیں، ایسا کیوں ہے؟ یہ اللہ کی طرف سے تجربے کا اعتراف ہے، قدرت بھی وحی نازل کرنے سے قبل نبی ؐکے تجربہ کار ہونے کا انتظار کرتی تھی، تجربہ انسان کو پختہ بناتا ہے۔
یہ انسان کے اعتماد میں بھی اضافہ کرتا ہے اور یہ اس کی عقل کو بھی سلیم کرتا ہے، آپ کو زندگی میں زیادہ تر عقل مند لوگ غلطیاں کرتے دکھائی دیں گے جب کہ آپ تجربہ کار لوگوں کو ہمیشہ اطمینان سے بیٹھا دیکھیں گے، یہ آپ کو چھلانگیں لگاتے نظر نہیں آئیں گے، کیوں؟ کیونکہ تجربہ انسان کے اندر استحکام پیدا کرتا ہے۔
عمران خان اور میاں نواز شریف میں بھی تجربے کا فرق ہے، عمران خان عقل، مقبولیت، اعتماد اور ایکسپوژر میں میاں نواز شریف سے بہت آگے ہیں، یہ 35 برس سے لائم لائیٹ میں ہیں، دنیا کا کوئی بڑا ٹیلی ویژن، اخبار اور میگزین نہیں جس نے عمران خان کا انٹرویو نہ کیا ہو، دنیا کا کوئی بڑا لیڈر اور بڑا فورم نہیں جہاں عمران خان نہیں پہنچے، عمران خان کا نام 31برس سے پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔
یہ عقل مند بھی ہیں، یہ مقبول بھی ہیں اور یہ آکسفورڈین لہجے میں انگریزی بھی بولتے ہیں جب کہ میاں نواز شریف ان کے مقابلے میں عام سے انسان ہیں، یہ انگریزی نہیں جانتے، یہ شرمیلے بھی ہیں، یہ عوام میں بھی زیادہ پاپولر نہیں ہیں اور یہ چاکلیٹی شخصیت بھی نہیں رکھتے لیکن ان تمام کمیوں کے باوجود میاں نواز شریف کامیاب اور عمران خان ناکام ہوئے، کیوں؟ کیونکہ نواز شریف عمران خان کے مقابلے میں زیادہ تجربہ کار ہیں، یہ 1984ء سے جوڑ توڑ کی سیاست کا حصہ ہیں یہ، سیاسی تجربہ میاں نواز شریف کی سیاست کا اصل جوہر ہے اور عمران خان اس جوہر سے خالی ہیں۔
عمران خان نے 2014ء میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی تحریک چلائی، یہ تحریک مکمل طورپر ناکام رہی، کیوں؟ عمران خان کی ناتجربہ کاری اس ناکامی کی وجہ تھی! میاں نواز شریف اگست 2014ء میں پہاڑ کے آخری سرے پر کھڑے تھے لیکن یہ گرنے سے صاف بچ گئے، کیوں؟ صرف اپنے سیاسی تجربے کی وجہ سے! آپ ماضی میں جا کر دیکھیں، آپ کو معلوم ہو گا عمران خان نے سیاسی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اگست میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے خلاف کر لیا تھا، خان صاحب سیاست کا بنیادی نقطہ بھول گئے تھے کہ آپ جب تک دشمن کے دشمن کو اپنا دوست نہیں بناتے، آپ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوتے، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی اور الطاف حسین میاں نوازکے سیاسی مخالف تھے۔
عمران خان اگر ان میں سے کسی ایک بڑے حریف کو اپنے ساتھ ملالیتے تو میاں نواز شریف کی حکومت فارغ ہوجاتی مگر عمران خان نے اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ان تمام طاقتوں کو دھکیل کر میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑا کر دیا، میاں نواز شریف تجربہ کار تھے، انھوں نے بقائے باہمی کے تحت تمام سیاسی مخالفین کو اپنے ساتھ شامل کر لیا، یہ سب اکٹھے ہوئے اور یہ لوگ جیت گئے اور عمران خان ہار گئے۔
آپ میاں نواز شریف کی تجربہ کاری کا ایک اور ثبوت بھی ملاحظہ کیجیے، میاں نواز شریف 16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد خود پشاور چلے گئے جب کہ عمران خان کو آرمی قیادت کے حکم پر پشاور جانا اور دھرنے کے خاتمے کا اعلان کرنا پڑا، عمران خان شاہ محمود قریشی کو پشاور بھجوانا چاہتے تھے لیکن پھر انھیں ایک سخت فون آیا اور یہ نہ صرف بقلم خود پشاور جانے پر مجبور ہوئے بلکہ انھوں نے اسی میاں نواز شریف کی اے پی سی میں بھی شرکت کی جسے یہ اوئے نوازشریف کہتے تھے، خان صاحب کو اس پارلیمنٹ کی21ویں ترمیم کی حمایت بھی کرنا پڑ گئی جسے یہ جعلی پارلیمنٹ کہتے تھے۔
عمران خان کو اگر ذرا سا سیاسی تجربہ ہوتا تو یہ 21ویں ترمیم پر ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت قومی اسمبلی چلے جاتے لیکن یہ اپنی غلطی پر ڈٹے رہے اور یوں یہ پیاز اور جوتے دونوں کھاتے رہے، عمران خان کو اگر ذرا سا سیاسی تجربہ ہوتا تو یہ سینیٹ کے الیکشن کو ذہن میں رکھ کر بھی 21ویں ترمیم کی منظوری کے دن قومی اسمبلی چلے جاتے تو ان کی عزت رہ جاتی اور یہ اگر اس دن نہیں گئے تو پھر انھیں سینیٹ کے الیکشن میں امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ عمران خان نے جس دن سینیٹ کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا پاکستان مسلم لیگ ن کے وزراء نے اس دن ایک دوسرے کو مبارک باد دی، کیوں؟ کیونکہ سینیٹ میں اپنے امیدوار کھڑا کرنے کا مطلب تھا۔
عمران خان نے اس پارلیمنٹ کے وجود کو بھی تسلیم کر لیا جسے یہ جعلی کہتے تھے اورانھوں نے ان تمام لیڈرز کو بھی مان لیا جنھیں یہ جعلی، لٹیرے اور ڈاکو کہتے تھے، میاں نواز شریف اس دن سمجھ گئے عمران خان اب خود کو پارلیمنٹ سے باہر نہیں رکھ سکیں گے، آپ عمران کی ناتجربہ کاری ملاحظہ کیجیے، عمران خان نے دو فروری کو سینیٹ کے الیکشن اوپن بیلٹنگ سے کرانے کا مطالبہ کر دیا، یہ سیدھا سادا کیچ تھا، میاں نواز شریف نے یہ کیچ فوراً پکڑ لیا، ہم عمران خان کے مطالبے کو کیچ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک، میاں نواز شریف جانتے تھے حکومت اگر 22ویں ترمیم تیار کرتی ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف اور اے این پی اس ترمیم کی حمایت نہیں کریں گی، کیوں؟ کیونکہ آصف علی زرداری رحمٰن ملک کو سینیٹ کا چیئرمین بنانا چاہتے ہیں۔
زرداری صاحب کورحمٰن ملک کے لیے ووٹ چاہئیں، یہ ووٹ جے یو آئی اور اے این پی دے گی اور اے این پی اور جے یو آئی ف کو رحمٰن ملک کے لیے سینیٹ میں نئے سینیٹر چاہئیں، یہ سینیٹر کہاں سے آئیں گے؟ یہ سینیٹر سرمائے سے آئیں گے، رئیس اور امیر امیدوار ایم پی ایز کے ووٹ خریدیں گے، یہ رئیس امیدوار سینیٹر بنیں گے اور یہ سینیٹر بعد ازاں رحمٰن ملک کو ووٹ دے کر چیئرمین بنائیں گے، اب سوال یہ ہے یہ سینیٹر کس پارٹی کے ایم پی اے خریدیں گے، یہ لوگ پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کو خریدیں گے چنانچہ ہارس ٹریڈنگ سے پی ٹی آئی اورپاکستان مسلم لیگ ن دونوں براہ راست متاثر ہوتی ہیں، پی ٹی آئی کو ہارس ٹریڈنگ سے زیادہ خطرہ ہو گا، کیوں؟ کیونکہ اس کے ایم پی اے زیادہ کمزور اور نالاں ہیں، دوسری وجہ عمران خان کے امیدوار تھے، میاں نواز شریف جانتے تھے۔
عمران خان کے ایک امیدوار نے ٹکٹ کے وعدے پر شوکت خانم کینسراسپتال کو 60کروڑ روپے ڈونیشن دیا، عمران خان ہر حال میں اس امیدوار کو جتوانا چاہتے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز اس امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، اب صورتحال یہ ہے، عمران خان اپنے اس امیدوار اور ان دوسرے امیدواروں جن میں چیف سیکریٹری کی اہلیہ سبینہ عابد شامل ہیں یہ انھیں اس وقت تک نہیں جتوا سکتے جب تک یہ 22 ویں ترمیم نہیں کروا لیتے، آئین میں جب تک سینیٹ کے الیکشن کے لیے اوپن بیلٹنگ نہیں ہوتی اور سیاسی لیڈر شپ کو " غلط" ووٹ پول کرنے والوں کو اسمبلی سے فارغ کرنے کا اختیار نہیں مل جاتا، آپ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے، پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی ف اور اے این پی نے 22ویں ترمیم کی مخالفت کردی۔
عمران خان یہ ترمیم کرانا چاہتے ہیں، حکومت عمران خان کا مطالبہ مان کر ترمیم کا مسودہ تیار کر چکی ہے لہٰذا عمران خان کے پاس اب صرف دو آپشن بچے ہیں، یہ اپنے سینیٹرز کی قربانی دے دیں، یہ60 کروڑ کے سینیٹر کو ہارنے دیں، یا پھر یہ اپنے 35ایم این ایز کو "جعلی" قومی اسمبلی میں بھجوا کر میاں نواز شریف کی تیار کردہ 22ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دے دیں اور اگر عمران خان قومی اسمبلی میں چلے جاتے ہیں تو یہ ان کی آخری ہارہو گی، یہ اس کے بعد سیاسی لیڈر تو رہ جائیں گے لیکن پھر ان میں اور زرداری صاحب اور نواز شریف میں کوئی فرق نہیں رہے گا، انقلاب ختم ہو جائے گا اور خان پیچھے رہ جائے گا۔