Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Imran Khan Mera Hero

Imran Khan Mera Hero

قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے کرشماتی لیڈر تھے، بھٹو صاحب گھر سے نکلے تو یہ خیبر سے لے کر گوادر تک عوام کے جسم میں بجلی بن کر دوڑ گئے، ملک کا ہر غریب خود کو بھٹو کا بھائی، بھٹو کا بیٹا اور بھٹو کا دوست سمجھنے لگا، بھٹو صاحب بعد ازاں اسلامی بلاک کے بانی بھی بنے، اسلامی بم کے موجد بھی بنے اور اسلامی بینک کے مصور بھی بنے۔

جان ایف کینیڈی نے بھٹو سے مل کر کہا تھا " ذوالفقار آپ اگر امریکی ہوتے تو آپ میری کابینہ کے وزیر ہوتے" بھٹو نے قہقہہ لگا کر جواب دیا " نہیں، میں اگر امریکی ہوتا تو میں امریکا کا صدر ہوتا" بھٹو صاحب واقعی کرشماتی لیڈر تھے مگر افسوس ہم نے اس عظیم لیڈر کو معمولی مفاد اور تھوڑی سی ہوس اقتدار کے عوض پھانسی پر لٹکا دیا، سینیٹر پرویزرشید بھٹو صاحب کے جیالے تھے، میں نے کل انھیں ٹیلی ویژن پر ایاز خان سے گفتگو کرتے سنا، پرویز رشید نے بھٹو صاحب کے بارے میں کمال فقرہ بولا، انھوں نے کہا " ہم نے بھٹو کو اس کی خامیوں کی سزا نہیں دی، ہم نے اسے اس کی خوبیوں کی سزا دی تھی" بھٹو صاحب کو حقیقتاً ان کی خوبیوں نے پھانسی پر چڑھا یا تھا اور ان کے بعد سیاست بونوں کا کھیل بن کر رہ گئی۔

میرے ہیرو عمران خان بھٹو صاحب کے بعد ملک کے تیسرے کرشماتی لیڈر ہیں، عمران خان میں بے شمار خوبیاں ہیں، یہ اسٹار ہیں، دنیا ان کو ان کے نام اور شکل سے پہچانتی ہے، یہ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں لوگ ان کے ساتھ رک کر تصویر بنواتے ہیں، یہ بے خوف بھی ہیں، یہ دوسروں سے مرعوب بھی نہیں ہوتے، انگریزی، اردو اور پنجابی تین زبانیں بولتے ہیں، ملک اور بیرون ملک اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی، بچپن اور جوانی دونوں بھرپور گزاریں، کوئی حسرت ادھوری نہیں رہی۔

لوگ جب ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی کرتے ہیں عمران خان اس وقت سیاست میں آئے اور صرف 15برسوں میں خود لیڈر بن گئے اور ان کی جماعت ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی۔ شوکت خانم کینسر اسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسا کمال بھی کیا، یہ ایماندار بھی ہیں، سچے بھی ہیں اور یہ مایوس بھی نہیں ہوتے، ان کی شخصیت میں تسلسل بھی ہے، عمران خان کا دل بھی کھلا ہے، یہ شیخ رشید جیسے شخص کو بھی کھلے دل سے قبول کر لیتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی گلے لگا لیتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں سیتا وائیٹ "متعارف" کروائی تھی۔

یہ لبرل مسلمان ہیں، نماز بھی پڑھتے ہیں اور میوزک بھی سنتے ہیں اور یہ عوام کے ساتھ بھنگڑا بھی ڈال لیتے ہیں، یہ ملک کے واحد لیڈر ہیں جو بیک وقت مذہبی طبقے، ایلیٹ کلاس، مڈل کلاس، سیاسی لیڈر شپ اور فوج میں پاپولر ہیں، یہ میرٹ پر بھی چلتے ہیں، نیازی ہیں مگر ان کے اردگرد نیازی نظر نہیں آتے، لوگ ان کو خان صاحب کے بجائے عمران کہتے ہیں اور یہ برا بھی نہیں مناتے، مجھے آج بھی یقین ہے میاں نواز شریف کے بعد عمران خان کی حکومت بنے گی کیونکہ میاں صاحب جتنی تیزی سے غلطیاں کر رہے ہیں، ان کا فائدہ بہرحال عمران خان کو ہو گا، عمران خان میرے ہیرو ہیں، بس ان میں تین خامیاں ہیں اور یہ تین خامیاں ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

عمران خان کو آگے کا سفر جاری رکھنے سے قبل اپنی یہ خامیاں دور کرنا ہوں گی، ان کی پہلی خامی جلد بازی ہے، یہ جلد باز واقع ہوئے ہیں اور سیاست میں جلد بازی اتنی ہی خطرناک ہے جتنا ہیلمٹ کے بغیر کرٹلی امبروز یاایلن ڈونلڈ کے سامنے کھڑا ہو جانا۔ ان کی دوسری خامی خوش فہمی ہے، ان کی توقعات اور زمینی حقائق میں اتنا فاصلہ ہوتا ہے جتنا مریخ اور زمین کے درمیان ہے اور ان کی تیسری خامی "مر جائیں یا مار دیں " جیسا رویہ ہے، یہ معاملات کو انتہا پر لے جاتے ہیں اور سیاست میں یہ رویہ خودکشی کے مترادف ہوتا ہے، سیاست میں آپ ہمیشہ واپسی کا راستہ کھلا رکھتے ہیں۔

سیاست میں کشتیاں جلانے والے ہمیشہ مار کھا جاتے ہیں، ملک کی قیادت اور کرکٹ ٹیم کی قیادت میں بڑا فرق ہوتا ہے، آپ کرکٹ میں ہار بھی جائیں تو بھی آپ کے پاس اگلے ورلڈ کپ کی گنجائش ہوتی ہے جب کہ سیاست میں ہارنے کا مطلب پوری پارٹی، پوری قوم کی ہار ہوتی ہے اور تاریخ بہت کم لیڈروں اور قوموں کو ڈوب کر دوبارہ ابھرنے کا موقع دیتی ہے، عمران خان نے جس دن اپنی ان تینوں غلطیوں پر قابو پا لیا، یہ اس دن ملک کے طلسماتی لیڈر بن جائیں گے۔

یہ لانگ مارچ اور سول نافرمانی کا اعلان عمران خان کی سیاسی غلطیاں ہیں، لانگ مارچ بنیادی طور پر خوش فہمیوں اور ناآسودہ توقعات کی بارات تھا، عمران خان کے جلسے بہت کامیاب تھے، عمران خان ان جلسوں کی بنیاد پر بڑا جواء کھیل بیٹھے اور یہ بھول گئے جلسہ ٹونٹی ٹونٹی میچ ہوتا ہے، لوگ پیدل آتے ہیں، تین چار تقریریں سنتے ہیں اور واپس گھر جا کر سو جاتے ہیں جب کہ لانگ مارچ ٹیسٹ میچ ہوتا ہے، لوگوں کو اس کے لیے گھر، دکان، دفتر اور فیکٹری چھوڑنا پڑتی ہے، دھوپ، بارش اور سردی برداشت کرنا پڑتی ہے، ننگی زمین پر سونا پڑتا ہے، بھوک اور پیاس کاٹنا پڑتی ہے اور پولیس کے ڈنڈے، آنسو گیس اور گولیاں کھانا پڑتی ہیں اور یہ ساری مصیبتیں، یہ سارے آلام صرف علامہ طاہر القادری کے مریدین برداشت کر سکتے ہیں۔

یہ مصیبتیں جھیلنا فیس بک، ٹویٹر اور اسکائپ کے ممی ڈیڈی کرائوڈ کے بس کی بات نہیں ہوتی، عمران خان یہاں مار کھا گئے، عمران خان موسم کے ہاتھوں بھی مارے گئے، برسات برصغیر کا بدترین موسم ہوتا ہے، ہمارے ملک میں برسات اپنے ساتھ حبس لے کر آتی ہے اور اس حبس میں گدھے بھی درختوں کے نیچے پناہ لے لیتے ہیں جب کہ آپ نے انسانوں سے توقع باندھ لی تھی، یہ سڑکوں پر بیٹھ جائیں گے، برسات اور حبس کتنی خوفناک آفت ہوتی ہے، آپ اس کا اندازہ اس سے لگا لیجیے۔

عمران خان اور ان کے انقلابی ساتھی شام چھ سے پہلے گھروں اور ہوٹلوں سے نکلنے کا رسک نہیں لیتے تھے اور یہ صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی حبس، بو اور گرمی سے بھاگ کر سینٹرلی ائیر کنڈیشنڈ ہوٹلوں اور بنی گالہ میں پناہ گزین ہو جاتے تھے، عمران خان نے تیسری غلطی سفر لمبا کر کے کی، انھوں نے نو گھنٹے لاہور میں ضایع کر دیے اور پانچ گھنٹے گوجرانوالہ میں ناشتے پر لگا دیے، اس دوران خیبر پختونخواہ کے انقلابی واپس چلے گئے یا مری کی سیر کے لیے نکل گئے۔

راولپنڈی اور اسلام آباد کی پارٹی انتظامیہ بھی فیل ہو گئی، اس نے انقلابیوں کے لیے خیموں کا بندوبست کیا اور نہ ہی روٹی پانی، ادویات اور واش رومز کا جب کہ ان کے مقابلے میں پاکستان عوامی تحریک کے انتظامات بہت اچھے ہیں، ان کے ورکرز نے پورے جلسہ گاہ کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں اور وہاں واقعی کوئی پتہ ٹوٹا اور نہ ہی کسی کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔

عمران خان، شیخ رشید اور اسد عمر اپنے اپنے حلقے کے عوام کو بھی باہر نکالنے میں ناکام رہے، پاکستان تحریک انصاف کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 123 نشستیں ہیں، یہ لوگ اگر ہر حلقے سے دو ہزار لوگ نکال لیتے تو اسلام آباد میں اڑھائی لاکھ لوگ جمع ہو جاتے مگر یہ بدقسمتی سے ہر حلقے سے اتنے لوگ بھی دارالحکومت نہیں لا سکے، خیبر پختونخواہ میں ان کی حکومت ہے، یہ وہاں سے کم از کم تین چار لاکھ لوگ لا سکتے تھے مگر یہ وہاں بھی فیل ہو گئے۔

عمران خان نے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد سول نافرمانی کا اعلان کر کے دوسری بڑی غلطی کی، سول نافرمانی غیر ملکی آقائوں کے خلاف ہوتی ہے، آپ اپنی ہی حکومت اور اپنی ہی ریاست کے خلاف سول نافرمانی نہیں کر تے، خیبر پختونخواہ میں آپ کی حکومت ہے آپ کے صوبے کے لوگ اگر آپ کو ٹیکس نہیں دیں گے تو صوبہ کیسے چلے گا؟ عمران خان کے اعلان کے بعد اگر کے پی کے کے عوام نے صوبائی ٹیکس روک لیے، گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس ادا نہ کی، اشٹام پیپر کی ادائیگی نہ ہوئی، چونگیوں اور مارکیٹ کمیٹیوں کے ٹیکس معطل ہوگئے اور میونسپل کمیٹیوں کی ادائیگیاں رک گئیں تو صوبے کی معیشت کا جنازہ نکل جائے گا۔

یہ بھی سوچنے کی بات ہے، کیا اٹک کے پار لوگ پٹرول پر ٹیکس نہیں دیں گے اور کیا مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس ادا نہیں کیا جائے گا، پاکستان میں کل 2688 ارب روپے ٹیکس وصول ہوتا ہے، کسٹم ڈیوٹی سے 281 ارب روپے، سیلز ٹیکس سے 1147 ارب روپے، انکم ٹیکس سے 1099 ارب روپے اور دیگر ٹیکس 161 ارب روپے ہیں، کیا کوئی شخص انکم ٹیکس سے انکار کر سکتا ہے، کیا عمران خان اور ان کے ایم پی اے اور ایم این ایز حکومت کو اپنی تنخواہوں سے انکم ٹیکس نہیں کاٹنے دیں گے۔

کیا تاجر سیلز ٹیکس سے انکار کر سکتے ہیں اور کسٹم کے معاملے میں درآمد کنندگان ٹیکس پہلے ادا کرتے ہیں اور ان کا سامان بندرگاہ سے بعد میں نکلتا ہے، یہ لوگ اگر کسٹم جمع نہیں کرائیں گے تو انھیں روزانہ پانچ سے دس ہزار روپے چارجز بھی پڑ جائیں گے اور حکومت 45 دن بعد ان کا مال بھی نیلام کر دے گی، لوگ بجلی اور گیس کے بل نہیں دیں گے تو واپڈا بجلی کا کنکشن کاٹ دے گا، لوگ کیا کریں، یہ گھر، دکانیں اور کار خانے کیسے چلائیں گے چنانچہ عمران خان نے سول نافرمانی کا حکم دے کر اپنے کارکنوں کو بے عزت کرا دیا۔

یہ دونوں غلطیاں قابل اصلاح ہیں، مجھے خطرہ ہے عمران خان کہیں اپنے ورکروں کو ریڈ زون میں نہ لے جائیں اوریہ پارلیمنٹ یا وزیراعظم ہائوس پر قبضہ نہ کرلیں، یہ غلطی عمران کی آخری غلطی ثابت ہو گی، میاں نواز شریف کے ورکروں نے 1997 میں سپریم کورٹ کے ایک کمرے پر حملہ کیا تھا اور اس سے صرف ایک شیشہ ٹوٹا تھا، میاں صاحب آج تک اس غلطی کا جواب دے رہے ہیں۔

عمران خان پارلیمنٹ ہائوس یا وزیراعظم ہائوس پر قبضہ کر کے کس کس کو جواب دیں گے چنانچہ میری عمران خان سے درخواست ہے، آپ میرے اور اس قوم کے ہیرو ہیں، ہیرو ہار کر بھی جیتتے ہیں، آپ کو پھر موقع ملے گا، آپ کی سیاست ختم نہیں ہوئی، آپ واپس چلے جائیں، آپ نے اسمبلیوں سے استعفے دے دیے، ٹھیک مگر آپ ریڈ زون میں قدم رکھنے کی غلطی نہ کریں، یہ غلطی آپ کی آخری غلطی ہو گی، آپ اور آپ کی سیاست ختم ہو جائے گی، آپ میرے اور قوم کے ہیرو ہیں اور ہیرو اپنی شکست مردانگی سے قبول کیا کرتے ہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.