ہم انسان اگر کسی زبان کے صرف 80 لفظ سیکھ لیں تو ہم اس زبان میں اپنا مافی الضمیر پیش کر سکتے ہیں، ہمارے پاس اگر دو سو الفاظ کا ذخیرہ ہو تو ہم رائیٹر بن سکتے ہیں اور ہم اگر تاریخ ساز لکھاری بننا چاہتے ہیں تو صرف تین سو مختلف الفاظ کافی ہوں گے، شیکسپیئر نے اپنے ڈراموں میں صرف اڑھائی سو الفاظ استعمال کیے، وہ پوری زندگی صرف ان اڑھائی سو لفظوں سے کھیلتے رہے، آپ اگر پرانی انگریزی کے وہ اڑھائی سو الفاظ سیکھ لیں، آپ ان الفاظ کی بیک گراؤنڈ جان لیں تو آپ شیکسپیئر کو اسی فیصد سمجھ سکتے ہیں باقی بیس فیصد کے لیے وجدان، ریاضت اور مطالعہ درکار ہے۔
ہم لکھاری لفظوں کے بازی گر ہوتے ہیں، ہم لفظوں اور ان لفظوں کو پڑھنے والوں دونوں کو اچھی طرح جانتے ہیں، ہم جانتے ہیں، ہمارا کون سا لفظ، کون سا فقرہ دلوں کی رفتار بڑھا دے گا، ہمارے کون سے لفظ آنکھوں میں ریت کے ذرے بن جائیں گے، ہمارے کون سے لفظ شعور میں کانٹا بن کر دھنس جائیں گے اور ہمارے کون سے الفاظ روتے ہوئوں کو قہقہہ لگانے پر مجبور کر دیں گے، آپ کو صرف دو اڑھائی سو لفظ چاہیے اور ان لفظوں کو برتنے کا ڈھنگ آنا چاہیے اور بس! لیکن کیا ہمارا کام صرف لفظوں کی بازی گری، فقروں کا مداری پن ہے؟ کیا ہمیں وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ سورج مکھی کی طرح اپنا زاویہ نظر بھی بدل لینا چاہیے، کیا ہمیں وقت کے ساتھ اپنے لفظوں کی قندیلیں بھی اونچی نیچی کرتے رہنا چاہیے؟
مجھے اس وقت ہزاروں لوگ گالیاں دے رہے ہیں، میرا فیس بک پیج، ٹویٹر، ای میل اور ایس ایم ایس باکس گالیوں سے بھرا ہوا ہے اور یہ گالیاں اس ملک کا پڑھا لکھا طبقہ دے رہا ہے، اس پڑھے لکھے طبقے کا خیال ہے لکھنے والوں کو ذاتی رائے نہیں دینی چاہیے، ان کی سوچ اور ان کی رائے کے دھارے میں بہنا چاہیے، یہ لوگ جن کو وقتی طور پر محبوب سمجھ رہے ہیں، یہ جنھیں چار دن کے لیے اپنا ہیرو سمجھتے ہیں، لکھنے اور بولنے والوں کو ان کی بیعت کر لینی چاہیے، میں لکھاری ہوں، میرے لیے ان لوگوں کے تیر اور ترکش کے رخ بدلنا مشکل نہیں، میں نے ایک کالم لکھنا ہے اور ٹیلی ویژن پر ساڑھے پانچ منٹ کی تقریر کرنی ہے، انقلاب زندہ باد کے نعرے لگانے ہیں، عمران خان کو مبارک باد پیش کرنی ہے اور ڈنڈا بردار نوجوانوں سے درخواست کرنی ہے، آپ آگے بڑھیں اور کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دیں، آپ تمام نقش کہن مٹا دیں اور جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی، آپ اس کھیت کے تمام خوشہ ہائے گندم کو جلا دیں اور یہ ساڑھے پانچ منٹ اور ایک کالم گالیاں دینے والے ہزاروں لوگوں کو زندہ باد، زندہ باد کے نعرے لگانے پر مجبور کر دے گا۔
میں جو لمحہ موجود میں ولن ہوں میں ہیرو بن جائوں گا، میرے لیے کتنا آسان ہے، میں گھر سے نکلوں، عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے کنٹینر پر چڑھوں، مولانا میرا لائیو استقبال کریں، میں عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو کر جھومنا شروع کر دوں اور میں آخر میں ان سے بغل گیر ہوں، مکا بنائوں اور ہوا میں لہرا دوں اور تالیوں کی گونج میں گھر واپس آ جائوں یا پھر میں فیس بک پر عمران خان اور علامہ طاہر القادری کو مبارک باد پیش کروں اور لاکھوں لوگ جواب میں مجھے مبارک باد پیش کرنے لگیں، یہ کتنا آسان ہے مگر کیا لوگوں کو خوش کرنا میرا ہنر، میرا کام اور میری ذمے داری ہے یا پھر اصل حقائق لوگوں کے سامنے پیش کرنا، انھیں نعروں اور دعوئوں کے سبز باغوں سے نکالنا۔
میرے نزدیک صحافت عورت کی عزت کی طرح مقدس اور ماں کی حرمت کی طرح پوتر ہے، میں ماں اور بہن کی گالی برداشت کر سکتا ہوں مگر مجھ سے بے ایمان، بکائو اور جانبدار ہونے کی گالی برداشت نہیں ہوتی، آپ اگر مجھ سے دھونس اور دبائو کے ذریعے مرضی کے تاثرات لینا چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا، میں اس کے مقابلے میں یہ پیشہ چھوڑنا یا مرنا قبول کر لوں گا مگر گالیوں اور ڈنڈوں کے بہائو میں نہیں بہوں گا، آپ جتنا زور لگانا چاہتے ہیں لگا لیں۔
ہم نے آج فیصلہ کرنا ہے، ہم نے ملک کو بچانا ہے یا پھر نعوذ باللہ توڑنا ہے، ہم نے اگر توڑنا ہے تو پھر آئیے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے جمع ہو جاتے ہیں اور ہم پارلیمنٹ ہائوس اور وزیراعظم ہائوس پر قابض ہو جاتے ہیں اور پھر اس قبضے کے نتائج دیکھتے ہیں، اس قبضے کا پہلا نتیجہ بلوچستان کی علیحدگی ہو گا، بلوچ قیادت اس انقلاب کو مسترد کر چکی ہے، میرحاصل بزنجو بلوچ لیڈر ہیں اور محمود خان اچکزئی بلوچستان کے پشتون لیڈر۔ بلوچستان میں اس وقت دونوں حکمران ہیں، یہ دونوں عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے انقلاب کو مسترد کرچکے ہیں۔
بلوچستان میں کسی بھی وقت بڑی ریلی نکلے گی اور عوام پہلے اس انقلاب اور بعد ازاں وفاق کو مسترد کر دیں گے، کیا ہم اس کے بعد بلوچستان میں مارشل لاء لگائیں گے اور کیا عوام اس مارشل لاء کو قبول کرلیں گے؟ خیبر پختونخواہ میں پرویز خٹک کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی ہے، اپوزیشن جماعتیں وہاں بھی سڑک پرآ رہی ہیں، مولانا فضل الرحمن اور ان کے کارکن باہر نکلنے والے ہیں، یہ صوبے کا سارا نظام مفلوج کردیں گے، کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟ ہماری قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس سڑکوں پر ہوں گے، ارکان سڑک پر بیٹھیں گے اور پوری دنیا عوامی قومی اسمبلی کا تماشہ دیکھے گی، کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟ پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب میں مضبوط ہے، پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، یہ لوگ بنی گالہ اور منہاج سیکریٹریٹ کا گھیرائو بھی کریں گے اور سڑکوں پر بھی نکلیں گے، یہ پارلیمنٹ کی حفاظت کے لیے اسلام آباد کی طرف مارچ بھی کریں گے، کیا ہم یہ چاہتے ہیں، عمران خان نے نسلوں کے دشمن سیاستدانوں کو اکٹھا کر دیا، یہ لوگ اکٹھے ہو چکے ہیں، یہ دوستی کے نئے رشتوں میں بندھ جائیں گے، یہ آج کے بعد ایک دوسرے کی کرپشن پر آنکھیں بند کرلیں گے، یہ اب زیادہ شدت سے ایک دوسرے کی سپورٹ کریں گے، یوں ملک میں اپوزیشن کا وجود ختم ہو جائے گا، کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟
اور ہم نے ایک آدھ دن میں ریڈ زون کے حالات کنٹرول نہ کیے تو فوج مداخلت پر مجبور ہو جائے گی، یہ مارشل لاء یا ایمرجنسی لگا دے گی اور عمران خان، طاہر القادری اور میاں نواز شریف تینوں فارغ ہوجائیں گے، ملک پانچ دس سال کے لیے آمریت کے قبضے میں چلا جائے گا، کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟ عمران خان اور علامہ صاحب کی یہ بات درست ہے یہ سسٹم خراب ہے، یہ نظام کسی کو انصاف فراہم کر رہا ہے اور نہ ہی تحفظ۔ یہ عوام کو روزگار، تعلیم، صحت اور عزت بھی نہیں دے پا رہا، ملک میں الیکشن بھی غیر جانبدارانہ اور شفاف نہیں ہوتے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے، ہم اس پورے نظام کو ختم کر دیں اور عوام کے فیصلے ڈنڈوں سے ہوں؟
نہیں، ہمیں نظام توڑنے کے بجائے ٹھیک کرنا چاہیے اور نظام کو ٹھیک کرنے کا واحد راستہ آئین اور پارلیمنٹ ہے، یہ ملک 1947ء میں بنا اور ملک کا پہلا اور شاید آخری متفقہ آئین 1973ء میں بنا یعنی قوم کو آئین تک پہنچنے میں 26 سال لگ گئے تھے، ملک میں آئین نہ ہونے کی وجہ سے آدھا ملک ٹوٹ گیا، آج اگر خدانخواستہ یہ آئین ختم ہو جاتا ہے تو شاید پوری قوم مل کر نیا آئین نہ بنا سکے چنانچہ میری درخواست ہے، آپ آئین کو تسلیم کریں، آپ پارلیمنٹ کے تقدس کا خیال بھی رکھیں اور آپ کو اگر سسٹم میں خرابیاں نظر آتی ہیں تو آپ آئین میں ترامیم لے آئیں، آپ آئینی طریقے سے نظام کو اندر سے بدلیں۔
آپ نظام پر باہر سے حملے نہ کریں، آپ نے اگر یہ حملے جاری رکھے تو بلوچستان کے لیڈر کوئٹہ میں جمع ہو جائیں گے، جے یو آئی، اے این پی اور ن لیگ پشاور میں جلسے شروع کر دیں گی اور پاکستان مسلم لیگ ن ملک بھر میں اپنے کارکنوں کو باہر لے آئے گی! کیا اس وقت لوگ ملک کی گلیوں، بازاروں اور چوکوں میں ایک دوسرے کے سر نہیں پھاڑیں گے، کیا چوکوں میں پھانسی گھاٹ تیار نہیں ہوں گے؟ آج عوامی پارلیمنٹ بن گئی ہے تو کیا کل عوامی عدالتیں نہیں لگ جائیں گی اور یہ عدالتیں لوگوں کو سرے عام پھانسی نہیں دے دیں گی؟
آج اسٹیج سے پولیس اور رینجرز کو حکم دیا جا رہا ہے، آپ سائیڈ پر ہوجائیں، کل اگر فوج کو بھی یہ احکامات جاری کر دیے جاتے ہیں " آپ ہمارے راستے میں حائل نہ ہوں " تو کیا ہو گا؟ یہ ایک لاکھ، دو لاکھ یا دس لاکھ لوگ ہیں، یہ اگر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے پہنچ کر حکومت کو فارغ کردیتے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کل عمران خان وزیراعظم بنیں گے تو کوئی پارٹی بیس لاکھ لوگ جمع کر کے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے نہیں آئے گی اور یہ پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیراعظم ہاؤس کی چھت پر کھڑی ہو کر ان سے استعفیٰ نہیں لے گی، یہ اگر آج پورے پارلیمانی نظام کو فارغ کر دیتے ہیں تو کیا کل پچاس لاکھ لوگ اسلام آباد آ کر ریاست سے ایٹم بم نہیں چھین لیں گے یا ریاست کو بھارت پر حملہ کرنے کا حکم جاری نہیں کریں گے۔
پاکستان میں فیصلے اگر لانگ مارچ سے ہوں گے تو پھر آپ لکھ لیجیے ہمیں عراق، شام اور لیبیا بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا، نظام عورت کی عصمت کی طرح ہوتے ہیں، یہ اگر ایک بار روند دیے جائیں تو یہ کبھی دوبارہ واپس نہیں آتے، آپ لوگوں نے صرف انقلاب کا نام سنا ہے، آپ ذرا اس کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، وہ لوگ جو ایک بار لوگوں کو لے کر باہر نکلے وہ کبھی انھیں واپس نہ لے جا سکے، وہ ڈنڈے جو دوسروں کے سر پر ٹوٹے انھیں ڈنڈوں نے بعد ازاں اپنے لیڈروں کے سر کچلے چنانچہ آپ فیصلہ کر لیجیے، آپ کو یہ انقلاب چاہیے یا پھر ملک۔