Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Jahan Suraj Ghurub Nahi Hota

Jahan Suraj Ghurub Nahi Hota

تھرمسو میں کسی شخص کو شام سے پہلے گھر پہنچنے کی جلدی نہیں ہوتی کیونکہ یہاں شام ہی نہیں ہوتی، سورج اس شہر میں 24 گھنٹے چمکتا ہے، شہر میں مشرق اور مغرب کی تمیز بھی ممکن نہیں، سورج چھتوں پر بھی نہیں پہنچتا، یہ صرف کھڑکیوں، دروازوں پر دستک دے کر آگے بڑھ جاتا ہے، آپ اگر زمین کا گلوب دیکھیں تو آپ کو قطب شمالی اس کی چوٹی پر نظر آئے گا، نارتھ پول دراصل زمین کی چھت ہے، یہ چھت سورج کے گرد دائیں سے بائیں گھومتی ہے۔

سورج گھومنے کے دوران اسے ایک خاص زاویے سے فوکس رکھتا ہے اور یوں شمالی ناروے میں رات نہیں ہوتی، سورج چوبیس گھنٹے آسمان پر چمکتا رہتا ہے، سورج کی یہ چمک 25 ستمبر تک جاری رہتی ہے، 25 ستمبر کو قطب شمالی سے سورج اچانک غائب ہو جاتا ہے اور پورے خطے پر طویل رات طاری ہو جاتی ہے، چوبیس گھنٹے کی لمبی رات۔ شمالی ناروے کے ایک گائوں "روزویا" میں 19 اکتوبر سے 23 فروری تک 24 گھنٹے مکمل اندھیرا رہتا ہے، آپ دن کے وقت بھی باہر نکلیں تو آپ کو ہاتھ سے ہاتھ سجھائی نہیں دیتا، قطب شمالی کی رات18 مارچ تک جاری رہتی ہے 25 ستمبر سے 18 مارچ تک 175 دن یہ خطہ اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے، اس دوران یہاں برف ہوتی ہے، سردی ہوتی ہے اور قطب شمالی کے سفید ریچھ ہوتے ہیں۔

25 ستمبر کو سورج واپس آ جاتا ہے اور قطب شمالی کے لوگ سورج کی واپسی کا تہوار مناتے ہیں اور پھر یہ سورج 25 ستمبر تک ڈوبتا نہیں، ان 175 دنوں میں 20 جون سے 20 جولائی کے دوران قطب شمالی میں " مڈ نائیٹ سن" رہتا ہے، سورج دائیں سے بائیں گھومتے ہوئے رات کے بارہ بجے نقطہ انتہا تک پہنچتا ہے اور پھر ڈوبے بغیر آگے کا سفر شروع کر دیتا ہے، یہ ایک حیران کن تجربہ ہوتا ہے، آپ کے سامنے سورج مشرق سے مغرب تک جاتا ہے اور پھر وہاں سے چمکتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے اور آپ رات کے بارہ بجے سورج کو دن کے بارہ بجے کی پوزیشن پر دیکھتے ہیں۔

تھرمسو شمالی ناروے کا آخری بڑا شہر ہے، ہم رات پونے بارہ بجے تھرمسو ایئر پورٹ پر اترے، سورج پوری طرح چمک رہا تھا، رات کے بارہ بجے، پھر ایک، دو اور تین بج گئے لیکن دن ختم نہیں ہوا شہر کی گلیاں سونی ہوگئیں، سڑکوں پر ٹریفک ختم ہو گئی، لوگ گھروں میں گھس گئے لیکن دن ختم نہیں ہوا، آپ اپنی سہولت کے لیے یوں سمجھ لیں، آپ کے شہر میں دن کے دو بجے ہوں اور لوگ گھروں میں گھس کر سو جائیں اور شہر ویران ہو جائے، تھرمسو شہر کی صورتحال رات کے دو تین بجے یہ ہوتی ہے۔

سورج چمک رہا ہے لیکن لوگ غائب ہیں، میں اور میرے دوست جہانزیب نے تھرمسو میں ایک رات گزاری، صبح اٹھے تو سورج وہیں تھا جہاں ہم نے اسے رات کے وقت چھوڑا تھا۔ تھرمسو ایک درمیانے سائز کا جزیرہ ہے، یہ جزیرہ سمندر کے درمیان واقع ہے، اس کے چاروں اطراف سمندر ہے لیکن اس سمندر کو تین اطراف سے پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے، حکومت نے سمندر پر دو پل بنا کر تھرمسو کو دونوں اطراف کی پہاڑیوں سے جوڑ دیا ہے، شہر کے چاروں اطراف سبزہ اور پانی ہے، آپ کسی جگہ کھڑے ہو جائیں آپ کو برف پوش پہاڑ، سبزہ اور پانی دکھائی دے گا۔

تھرمسو کی دائیں طرف آپ پل پار کر کے پہاڑ کے دامن میں پہنچتے ہیں تو آپ شہر کی واحد کیبل کار تک پہنچ جاتے ہیں، یہ کیبل کار 1961ء میں بنائی گئی تھی، آپ کیبل کار کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتے ہیں، چوٹی سے آپ کو پورا تھرمسو شہر، تاحد نظر پھیلا ٹھنڈا سمندر اور اس لا محدود کائنات میں چھوٹا سا اپنا آپ نظر آتا ہے اور آپ قدرت کی صناعی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے، آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، میں نے بھی کلمہ پڑھا، درود شریف کا ورد کیا اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا جس نے مجھے کائنات کی وسعتیں دیکھنے اور اپنی حیران کن دنیا میں جھانکنے کا موقع عنایت کیا۔

پہاڑ کی چوٹی پر لوگوں نے ایک ڈیڑھ فٹ کے چھوٹے چھوٹے مینار بنا رکھے تھے، لوگ زمین پر بیٹھتے تھے، چھوٹے چھوٹے پتھر جمع کرتے تھے، پتھر پر پتھر جماتے تھے اور یوں چھوٹا سا مینار بن جاتا تھا، یہ دعاؤں کے مینار تھے، ناروے کے لوگوں کا عقیدہ ہے، آپ پہاڑ کی چوٹی پر پتھروں کا چھوٹا سا مینار بنائیں، یہ مینار جب مکمل ہو جائے تو آپ اس کے قریب بیٹھ کر جو دعا مانگیں وہ قبول ہو جاتی ہے، آپ اگر دور سے ان میناروں کو دیکھیں تو یہ آپ کو چھوٹا سا قبرستان دکھائی دیتے تھے، میں نے جب لوگوں کو مینار بناتے اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے دیکھا تو میں توہم پرستی کے اس شہکار تک پہنچ گیا، انسان دنیا کے جس کونے میں بھی ہو وہ بہرحال انسان ہی ہوتا ہے، کمزور، لاچار اور دکھی اور اس کے دکھ، اس کی بے چارگی اوراس کی کمزوری اسے اکثر اوقات پتھروں کے مینار بنانے پر مجبور کر دیتی ہے۔

یہ سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ (نعوذ بااللہ) بچہ ہے، ہم اسے پتھر جوڑ جوڑ کر دکھائیں گے تو یہ راضی ہو جائے گا، ہم دو ہزار سیڑھیاں چڑھ کر چوٹی پر پہنچیں گے، مندر یا معبد کی گھنٹی بجائیں گے تو یہ خوش ہو جائے گا، ہم بہت سادہ ہیں، ہم یہ بھول جاتے ہیں، اللہ کے نزدیک خلوص نیت سے بڑی کوئی عبادت نہیں، آپ دل میں خلوص بھر کر اس سے جو مانگیں یہ فوراً عنایت کر دیتا ہے، والدین اور بچے اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ خلوص نیت سے مانگتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ چند سیکنڈ میں ان کی سن لیتا ہے جب کہ باقی لوگوں کی دعائیں لفظوں کے خوبصورت پیکیج کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔ آپ دل میں صرف خلوص پیدا کر لیں، آپ کی اللہ تعالیٰ سے اس وقت کمیونی کیشن شروع ہو جائے گی، آپ اللہ تعالیٰ سے کہیں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کی سننے لگے گا۔

چوبیس گھنٹے جاگنے والے شہروں کی اپنی ہی روایات ہوتی ہیں، لوگ اپنی مرضی کے اوقات طے کر لیتے ہیں مثلاً آپ اس کیبل کار ہی کو لے لیجیے، یہ کیبل کار چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے، آپ کو ہر آدھ گھنٹے بعد کیبل کار مل جاتی ہے، لوگ اس کیبل کار کے ذریعے پہاڑ پر آتے ہیں اور یہاں کھڑے ہو کر "مڈ نائیٹ سن " کا نظارہ کرتے ہیں، رات کے بارہ بجے آسمان پر چمکتا سورج دیکھتے ہیں، آپ اس شہر میں اپنی مرضی کا دن اور مرضی کی رات بھی طے کر سکتے ہیں۔

آپ یہ فیصلہ کرلیں میری صبح اس وقت شروع ہو گی جب دنیا سہ پہر کے وقت کام ختم کر کے گھر جا رہی ہو گی اور میری رات اس وقت شروع ہو گی جب لوگ سو کر اٹھ رہے ہوں گے اور کوئی شخص آپ پر اعتراض نہیں کرے گا کیونکہ وہاں دن 24 گھنٹے کا ہوتا ہے اور آپ اسے اپنی مرضی سے رات بنا سکتے ہیں، تھرمسو کے پرندے اور جانور بھی اس اصول کے تحت زندگی گزارتے ہیں، یہ بے چارے جب تھک جاتے ہیں تو یہ دن کو رات بنا لیتے ہیں اور یہ جب آرام کر کے تھک جاتے ہیں تو یہ رات کو دن میں تبدیل کر لیتے ہیں۔

ہم نے تھرمسو سے "نارتھ پول" کے لیے بحری جہاز لیا تھرمسو سے شام (یا پھر دن) ساڑھے چھ بجے نارتھ پول کے لیے جہاز چلتا ہے، یہ ہوٹل جہاز ہے، اس میں کمرے بنے ہیں، جہاز چل پڑتا ہے اور آپ کمرے میں جا کر سو جاتے ہیں، ہم ساڑھے چھ بجے ہوٹل میں داخل ہوئے، یہ سات منزلہ ہوٹل تھا، میں یہ کالم اسی ہوٹل جہاز میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں، جہاز کی پہلی دو منزلیں بار برداری کے لیے استعمال ہوتی تھیں، تیسری منزل پر کمرے تھے، چوتھی منزل کافی شاپس، دکانوں، ڈائننگ ہال، بار روم، اسٹیم باتھ اور جم پر مشتمل تھی، پانچویں اور چھٹی منزل پر کمرے تھے اور ساتویں منزل ایک طویل ڈرائنگ روم تھی، اس میں بیٹھنے کے چھ قسم کے بندوبست تھے، آپ ڈیک (عرشے) پر کھلی فضا میں بھی بیٹھ سکتے تھے، سن روم میں بھی اور اس کے بعد ڈرائنگ روموں اور لابیوں میں بھی۔

آپ جہاں بھی بیٹھ جائیں، آپ کو چاروں اطراف سمندر دکھائی دیتا تھا، ہم ساڑھے چھ بجے روانہ ہوئے تو ہمارے دائیں بائیں پہاڑوں کا لا متناہی سلسلہ تھا، سمندر میں چھوٹے بڑے ہزاروں جزیرے تھے، یہ جزیرے غیر آباد تھے، ان پر پرندوں کے جھنڈ تھے اور برفیں تھیں، چوبیس گھنٹے چمکتا ہوا سورج تھا، خنکی تھی اور پانی پر سرکتا ہوا جہاز تھا، راستے میں مچھیروں کی چند بستیاں آئیں، یہ پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار لوگوں کی آبادیاں تھیں لیکن ان بستیوں میں بھی تمام سہولتیں موجود تھیں۔

اس جہاز نے اگلے دن ساڑھے گیارہ بجے "ہوینگ وینگ" پہنچنا تھا، جہاز ہوینگ وینگ" پہنچ کر رک جاتا ہے، یہاں سے "نارتھ پول" دو گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے، مسافر جہاز سے اتر کر بسیں اور گاڑیاں کرائے پر لیتے ہیں اور نارتھ پول کی طرف نکل جاتے ہیں، آپ دو گھنٹے بعد اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں "سولائزیشن" ختم ہو جاتی ہے، اس سے آگے سمندر ہے اور سمندر پر ہزاروں سال کی جمی برفیں ہیں، عام لوگوں کے لیے اس مقام سے آگے جانا مشکل ہوتا ہے، اس سے آگے صرف وہ خاص لوگ جا سکتے ہیں جو منفی چالیس درجے پر زندہ رہ سکتے ہیں، ہم نے اس مقام پر پہنچنا تھا جہاں سولائزیشن ختم ہو جاتی ہے، اور قطب شمالی شروع ہوتا ہے، اگلی صبح گیارہ بجے ہوینگ وینگ آگیا۔

ہوینگ وینگ میں دھند تھی، ہمیں دور سے زمین کا کنارہ نظر آرہا تھا لیکن وہ کنارہ دھند میں لپٹا تھا، دھند کے اس پار دو گھنٹے کی ڈرائیو پر قطب شمالی تھا، وہ مقام جہاں انسان کے قدم تو پہنچے لیکن یہ وہاں آباد نہیں ہو سکا، جہاں زندگی ہے لیکن وہ زندگی موت سے بد تر ہے، وہ قطب شمالی جہاں گرمیوں میں سورج 24 گھنٹے چمکتا ہے اور سردیوں میں چمکنا بھول جاتا ہے، "ہوینگ وینگ" جہاز کے کپتان نے ہوینگ وینگ کی انائونسمنٹ کی اور اس کے ساتھ ہی ہمارے دل پر ہلکی ہلکی خارش شروع ہو گئی۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.