پنجابی کا ایک بہت خوبصورت لفظ ہے " جھاکا"۔ میں پچھلے دس برس سے اردو، انگریزی اور فرنچ میں اس کا نعم البدل تلاش کر رہا ہوں مگر مجھے نہیں مل رہا۔ یہ لفظ محض لفظ نہیں بلکہ ایک پوری نفسیاتی کیفیت ہے اور آپ جب تک اس کیفیت سے نہیں گزرتے، آپ اس وقت تک اس لفظ کی گہرائی اور گیرائی سے واقف نہیں ہو سکتے مثلاً ہم میں کچھ لوگ پانی سے ڈرتے ہیں لیکن یہ کسی دن حادثاتی طور پر یا پھر کسی مہربان کی مہربانی سے پانی میں گر جاتے ہیں، یہ چند غوطے کھاتے ہیں، پانی سے باہر آتے ہیں اور ان کا خوف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے، پانی کا یہ خوف "جھاکا" تھا اور اس خوف کا خاتمہ " جھاکا اترنا" تھا مگر اس مثال کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں، آپ جھاکا کو فوبیا سمجھ لیں کیونکہ فوبیا اس کے وسیع تر معانی کا ایک فیصد بھی کور نہیں کرتا، جھاکا فوبیا سے کئی گنا بڑا لفظ ہے اور یہ ہر اس جگہ استعمال ہو سکتا ہے جہاں آپ چیزوں کے احترام، خوف، کشش اور حصول کی جدوجہد سے باہر نکل جاتے ہیں۔
آپ جھاکا کو ایک لمحے کے لیے سائیڈ پر رکھیے اور آپ پاکستان کی تاریخ کے شاندار ترین دن یعنی بارہ اکتوبر کی طرف آئیے، یہ ایک حیران کن دن تھا، اس دن معطل آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ہوا میں مارشل لاء لگا دیا، راولپنڈی سے ٹرپل ون بریگیڈ کا ایک میجر دو ٹرکوں کے ساتھ وزیراعظم ہائوس پہنچا اور میاں نواز شریف دو تہائی عوامی اکثریت کے باوجود اقتدار سے فارغ ہو گئے اور اس کے بعد ملک کے وہ تمام حقائق سامنے آگئے جو 52 برس سے چھپے ہوئے تھے، اس دن نے چند لمحوں میں قوم کی آنکھوں سے تمام پٹیاں اتار دیں مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آرمی چیف خواہ معطل ہی کیوں نہ ہو اور یہ ہوا ہی میں کیوں نہ ہو، یہ مارشل لاء لگا سکتا ہے۔
مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا جمہوری حکومت خواہ دو تہائی اکثریت لے کر آئے اسے فارغ کرنے کے لیے دو ٹرک اور تین درجن جوان کافی ہوتے ہیں، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ نے اگر دو تہائی اکثریت حاصل کی ہے تو اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں قوم یا عوام بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، آپ جب اقتدار سے فارغ ہوں گے یا کر دیے جائیں گے تو آپ کو شیر پنجاب کا ٹائٹل دینے والے بھی غائب ہو جائیں گے اور زندہ ہے بھٹو زندہ کے دعوے کرنے والے بھی، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا یہ ملک ایسی زمین پر بنا ہے جس کا سورج ہمیشہ برسراقتدار شخص کی جیب سے طلوع ہوتا ہے اور یہ شخص جس دن مسند اقتدار سے فارغ ہوتا ہے اس دن اس کا سورج بھی رخصت ہو جاتا ہے، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہی کیوں نہ ہوں، آپ ملک کے دس بڑے صنعتی گروپوں میں شامل کیوں نہ ہوں اور آپ کھرب پتی ہی کیوں نہ ہوں، آپ کسی بھی وقت پورے خاندان سمیت گرفتار ہو سکتے ہیں۔
آپ قید ہو سکتے ہیں اور آپ کو ملک کا کوئی قانونی ادارہ، کوئی عدالت انصاف نہیں دے گی، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ خواہ ملک کے طاقتور ترین شخص کیوں نہ ہوں، آپ نے ایٹمی دھماکے کیوں نہ کیے ہوں اور آپ نے موٹروے ہی کیوں نہ بنائی ہو، آپ پر جہاز کے اغواء کا مقدمہ بن سکتا ہے، آپ کے خلاف گواہ بھی مل سکتے ہیں اور آپ کو اس کیس میں سزا بھی ہو سکتی ہے، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا، آپ اگر سزایافتہ بھی ہیں اور آپ کو عدالت سے (غلط یا صحیح) عمر قید ہو چکی ہے لیکن اگر امریکا، برطانیہ یا سعودی عرب کا شاہی خاندان آپ کا دوست ہے تو آپ کے لیے شاہی طیارہ اسلام آباد آ سکتا ہے، آپ کو جیل میں پاسپورٹس مل سکتے ہیں اور آپ خاندان سمیت جدہ شفٹ ہو سکتے ہیں۔
مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا اگر انٹرنیشنل کھلاڑی آپ کے ساتھ ہیں تو آپ کو جدہ میں محل مل سکتا ہے اور آپ جدہ میں رہ کر سعودی عرب اور برطانیہ میں کاروبار اور سیاست کر سکتے ہیں، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ اگر لندن میں جائیداد اور کاروبار کے مالک ہیں تو آپ معاہدے کے باوجود سعودی عرب سے لندن شفٹ ہو سکتے ہیں اور آپ اپنے کاروبار اور سیاسی جماعت دونوں کو دوبارہ قدموں پر کھڑا کر سکتے ہیں، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ اگر اقتدار سے فارغ ہو چکے ہیں تو آپ کے قریبی ترین ساتھی آپ کو چھوڑ جائیں گے اور یہ ق لیگ بھی بنائیں گے اور چڑھتے سورج کی پوجا بھی کریں گے، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ اگر انٹرنیشنل کھلاڑیوں اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر پاکستان آئیں گے تو آپ کو ائیر پورٹ سے دھکے دے کر واپس بھجوا دیا جائے گا، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا پاکستان میں سیاسی اختلافات محض کاغذی، بیاناتی اور ذاتی ہوتے ہیں اور اگر میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں جلا وطن ہیں تو انھیں ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے، میثاق جمہوریت کرتے اور رحمن ملک کے گھر جاتے دیر نہیں لگے گی۔
بارہ اکتوبر کی برکتیں صرف یہاں تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس دن نے یہ بھی ثابت کر دیا اقتدار ہماری سیاست کا سب سے بڑا مقصد ہے اور اگر سیاستدانوں کو اقتدار نظر آ رہا ہو تو یہ فوجی حکمرانوں سے ملاقات کرنے، این آر او کرنے اور میثاق جمہوریت توڑنے میں دیر نہیں لگاتے، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ کو اگر سعودی عرب، یو اے ای، برطانیہ اور امریکا کی آشیر باد حاصل ہو تو آپ دس سال کے معاہدوں کے باوجود ملک میں واپس آ سکتے ہیں اور آپ دوسری سیاسی جماعتوں سے معاہدہ توڑ کر الیکشن بھی لڑ سکتے ہیں، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ نے اگر یونیفارم اتار دی تو آپ کو دس دس بار یونیفارم میں الیکٹ کرانے کا دعویٰ کرنے والے چند منٹ میں آنکھیں پھیر لیں گے، یہ آپ کو ایوان صدر میں اکیلا چھوڑ دیں گے، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ کو اگر پنجاب میں اقتدار مل رہا ہو تو آپ ان لوٹوں کو بھی قبول کر لیں گے جو پانچ سال تک آپ اور آپ کے خاندان کو گالی دیتے رہے اور جنھیں آپ ننگ سیاست کہتے تھے، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ کو اگر اقتدار مل رہا ہو تو آپ اس زرداری کے بڑے بھائی بن جائیں گے۔
جس کے خلاف آپ نے مقدمے بنائے تھے اور جس نے رحمن ملک کے ذریعے آپ کے والد کو دفتر سے کرسی سمیت اٹھوایا تھا، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا آپ کو اگر اقتدار نظر آ رہا ہو تو آپ اس پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی اتحاد کر لیں گے جس کے مسلح گروپ نے آپ کے والد کو قتل کروایا تھا اور وہ پیپلز پارٹی بھی آپ کو گلے لگا لے گی جس کے چیئرمین کے ڈیتھ وارنٹ کا پین آپ اپنے ڈرائنگ روم میں سجا کر رکھتے تھے، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا پاکستان کے تمام سیاسی اختلافات محض اقتدار کا اختلاف ہیں، آپ کو اگر کسی کو گالی دے کر اقتدار ملے گا تو آپ گالی دے دیں گے اور آپ کو اگر اس شخص کو گلے لگا کر اقتدار ملے گا تو آپ اسے گلے لگا لیں گے، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا سیاسی وفاداری ملک میں سب سے بڑی بے وقوفی ہے، آپ اگر خواجہ آصف، جاوید ہاشمی، احسن اقبال، مہتاب عباسی، شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق اور اقبال ظفر جھگڑا ہیں تو آپ نادان ہیں۔
آپ گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں اور جس دن میاں نواز شریف واپس آئیں گے آپ اس دن پچھلی سیٹوں پر چلے جائیں گے اور آپ کی جگہ پاکستان مسلم لیگ مشرف کے لوگ بیٹھ جائیں گے، مثلاً اس دن نے ثابت کر دیا پاکستان میں اقدار نعرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں اور آپ کو اگر الیکشن جیتنے کے لیے ہم خیال، امیر مقام، خواجہ ہوتی، ماروی میمن، طارق عظیم، سمیرا ملک اور زاہد حامد کو بھی ساتھ ملانا پڑے تو آپ ملا لیں گے، مثلاًاس دن نے ثابت کر دیا ہماری سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتیں نہیں ہیں یہ وراثتی زمینیں اور وراثتی فیکٹریاں ہیں، یہ ترکے اور وراثت میں خاندانوں میں تقسیم ہوتی ہیں اور خواجہ آصف، احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کچھ بھی کر لیں، یہ خواہ وفاداری، اہلیت اور ایمانداری کی جس بلندی پر چاہیں بیٹھ جائیں پارٹی کی مسند پر بہرحال میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز شریف ہی بیٹھیں گی اور خورشید شاہ، مخدوم امین فہیم اور صفدر عباسی خواہ کتنے ہی وفادار اور اہل کیوں نہ ہو جائیں تاج بہرحال بھٹو خاندان ہی میں رہے گا اور اس دن نے ثابت کر دیا آپ اگر فوج کے ذریعے اقتدار میں آئے تھے تو آپ اقتدار کے بعد محفوظ بھی رہیں گے، مسرور بھی اور مطمئن بھی، آپ خواہ لندن میں بیٹھیں، دوبئی میں یا پھر نیویارک میں کوئی آپ کا بال تک بیکا نہیں کر سکتا۔
یہ دن یعنی 12 اکتوبر ہماری تاریخ کا وہ دن ہے جس نے قوم کے سارے جھاکے اتار دیے ہیں اور یہ دن اگر نہ ہوتا تو شاید ہمیں اپنے قومی ادراک تک پہنچنے میں مزید پچاس سال لگ جاتے، ہم مزید کئی دہائیوں تک غلط فہمیوں کے سمندروں میں ڈبکیاں لگا تے رہتے چنانچہ قوم کو بارہ اکتوبر اور اس کے بعدجنرل پرویز مشرف، میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، چوہدری صاحبان اور دوسری سیاسی جماعتوں کی قیادت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ اگر یہ لوگ مہربانی نہ کرتے تو ہم آج بھی غلط فہمی کا شکار رہتے، ہم آج بھی کوئوں کے سفید ہونے کاا نتظار کرتے رہتے۔