Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Joote Ke Zariye Botal Ki Talash

Joote Ke Zariye Botal Ki Talash

راحت فتح علی خان نامور اور مہنگے ترین گلوکار ہیں، بھارت اور پاکستان میں ان کے کروڑوں چاہنے والے ہیں، میں بھی ان میں شامل ہوں، انڈین فلم عشقیہ کے گانے ان کے فن کی پیک ہیں، استاد نصرت فتح علی خان کے بعد گلوکاری میں جو خلاء پیدا ہوا تھا وہ راحت فتح علی خان نے پُر کیا او رکمال پُر کیا، ان کی آواز میں سوز، انرجی اور اثر تینوں ہیں اور یہ تینوں مل کر سننے والے کو دنیا اور مافیہا سے پرے لے جاتے ہیں، راحت فتح علی خان اس کمال کے باوجود اکثرخبروں کے منفی ریلے میں رہتے ہیں اور یہ خبریں ہمیشہ ان کے کردار پر سوال اٹھاتی رہتی ہیں۔

پچھلے دو دن سے راحت صاحب ایک بار پھر خبروں میں ہیں اور لوگ چسکے لے کر ان کا ویڈیو کلپ دوسروں کو بھجوا رہے ہیں، اس ویڈیو کلپ میں راحت صاحب اپنے ایک ملازم کو بری طرح پیٹ رہے ہیں اور بار بار پوچھ رہے ہیں میری بوتل کہاں ہے جب کہ ملازم اپنی لا علمی کا اظہار کر رہا ہے، یہ ویڈیو بھی ان کے کسی گھریلو ملازم یا فیملی ممبر نے ریکارڈ کی اور اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیا اور یوں یہ ویڈیو وائرل ہوگئی، راحت فتح علی خان نے اس کے بعد دو وضاحتی ویڈیوز جاری کیں، پہلی ویڈیو میں ایک نوجوان لڑکا ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

وہ اس کا تعارف نوید حسنین کے نام سے کراتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں یہ میرا شاگرد ہے اور استاد کے ہاتھوں شاگرد کی مار کٹائی روز کا معمول ہوتا ہے، ہم استاد شاگردوں کو غلطی پر پھینٹا بھی لگاتے ہیں اور پھر پیار بھی کرتے ہیں، شاگرد اس کے بعد استاد سے پیار کا اظہار کرتا ہے اور پھر بتاتا ہے استاد جی کے پیر صاحب نے پانی دم کرکے دیا تھا، وہ بوتل گم ہوگئی جس کے بعد استاد جی نے بڑے پیار سے مجھے پھینٹا لگا دیاجب کہ دوسری ویڈیو میں اس نا خلف شاگرد کا والد نفیس احمد بھی ساتھ کھڑا ہے اور وہ بھی سر ہلا کر استاد اور شاگرد کی اس شان دار رشتے داری کا اعتراف کرتا ہے، ان ویڈیو ز کے آخر میں راحت فتح علی دیکھنے والوں سے سوال کرتے ہیں، آپ لوگ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں، آپ خود کتنے ظالم ہیں؟

میں راحت فتح علی خان کے اس شاہکار سے ناواقف تھا، مجھے یہ اطلاع ان کی وضاحتی ویڈیو سے ہوئی، فارسی کا محاورا ہے "عذر گناہ بدتر از گناہ" یعنی آپ جب کسی گناہ کی صفائی پیش کرتے ہیں تو وہ اکثر اوقات گناہ سے زیادہ بدتر ثابت ہوتی ہے، راحت فتح علی خان کے ساتھ بھی یہی ہوا، یہ ایک عام سا مار پیٹ کا واقعہ تھا مگر راحت فتح علی خان نے وضاحتی ویڈیوز اور پھر ان ویڈیوز میں تشدد کی ویڈیو لگا کر اسے بین الاقوامی بنا دیا اور یہ ویڈیو اب راحت فتح علی خان کی وضاحتی ویڈیو کے ساتھ دیکھی جا رہی ہے۔

وضاحت سے قبل اس واقعے کے ویوز صرف 81 ہزار تھے لیکن وضاحت کے بعد اس کے ویوز اب تک 12 ملین ہو چکے ہیں لہٰذا جس نے بھی راحت فتح علی کو وضاحت کا مشورہ دیا وہ ٹھیک ٹھاک احمق تھا، ایسی صورت حال میں خاموشی سے بہتر کوئی سٹریٹجی نہیں ہوتی، دنیا جہاں کے مشہور اور معروف لوگوں کو اس نوعیت کے واقعات کے بعد خاموش اور میڈیا سے دور رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے جس کے بعد اس نوعیت کی ویڈیوز خبروں کے ریلے میں بہہ کر ختم ہو جاتی ہیں لیکن جب مشہور لوگ وضاحت دیتے ہیں تو وہ وضاحت منفی خبر کو دائمی زندگی دے دیتی ہے اور وہ خبر اس کے بعد ہمیشہ کے لیے ان کے پروفائل کا حصہ بن جاتی ہے۔

راحت فتح علی خان کے معاملے میں بھی یہی ہوا، ان کا عذر گناہ ان کے گناہ سے زیادہ بدتر ثابت ہوا، دوسرا یہ پتا بھی چل گیا موسیقی اور گلوکاری کے اساتذہ اپنے شاگردوں کوسُر اور سنگیت کی کس طرح ٹریننگ دیتے ہیں، یہ ان کی انا، عزت نفس اور انسانیت کو کچل کر انہیں موسیقی سکھاتے ہیں، راحت فتح علی جیسے استاد اپنے شاگردوں کو گلے اور ہارمونیم سے نہیں سکھاتے جوتوں اور تھپڑوں سے سکھاتے ہیں اور تھپڑوں اور جوتوں سے سیکھے ہوئے لوگ زندگی میں کیا کمال کرتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے کسی لمبی چوڑی سائنس کی ضرورت نہیں ہوتی، تیسرا یہ بھی پتا چل گیا راحت فتح علی کے کوئی پیر صاحب بھی ہیں اور وہ استاد کو پانی پر دم کرکے دیتے ہیں اور وہ دم ان کی کسی خفیہ بیماری کا علاج ہے اور استاد صاحب اس پانی کے لیے اتنے حساس ہیں کہ شاگرد کو جوتوں سے پھینٹا لگا دیتے ہیں۔

چناں چہ ہمیں فوری طور پر اس پیر صاحب کا کھوج لگانا چاہیے جس کے دم کی تاثیر سے راحت جیسا نفیس انسان جانور بن گیا اور اس نے اپنے اس شاگرد کو پھینٹ دیا جس نے کل ان کی طرح استاد بننا ہے اور چوتھا یہ بھی پتا چل گیا بڑے استاد شاگرد کو موسیقی کی تعلیم کے دوران غلط سُر لگانے پر نہیں مارتے یہ بوتل دائیں بائیں ہونے پرشاگردوں کو پھینٹا لگاتے ہیں بہرحال معاملہ وہ ہو یا یہ ہو لیکن راحت فتح علی کی وضاحت ڈھیلی ڈھالی اور غیر متاثر کن تھی، اصل بات صرف اتنی ہے راحت فتح علی کو دو بوتلیں ملی تھیں، ایک ان کے سرہانے رہ گئی اور دوسری کسی شاگرد نے اڑا لی، استاد جوتا لے کر دوسری کی تلاش میں نکلا اور اس نے متوقع مجرم کو پھینٹا لگا دیا، شاگرد پھینٹے کے دوران بار بار کہہ رہا تھا ایک ہی بوتل آئی تھی، دوسری نہیں تھی لیکن استاد کی تسلی نہیں ہو رہی تھی، یہ سین کیوں کہ استاد کے آستانے پر اکثر ہوتا ہوگا لہٰذا کسی متاثرہ شخص نے ویڈیو ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر چڑھا دی اور یوں استاد کے اندر چھپا ہوا خوف ناک استاد دنیا کے سامنے آ گیا۔

ہم انسان زندگی میں تین وجوہات سے کام کرتے ہیں، ہم میں سے ہر شخص امیر ہونا چاہتا ہے، دولت ہماری سب سے بڑی ڈرائیو ہوتی ہے، دوسرا ہم میں سے ہر شخص مشہور ہونا چاہتا ہے، شہرت دوسری بڑی ڈرائیو ہوتی ہے اور تیسرا ہم میں سے ہر شخص طاقتور ہونا چاہتا ہے، ہم بادشاہ بننااور دوسروں پر حکم چلانا چاہتے ہیں، طاقت ہماری تیسری بڑی ڈرائیو ہوتی ہے لیکن ایشو یہ نہیں ہم اپنی یہ تینوں خواہشیں پوری کر پاتے ہیں یا نہیں، ایشو یہ ہے ہم ان خواہشوں کی تکمیل کے بعد کیا کرتے ہیں؟ میرا تجربہ ہے ہم انسان مشہور، امیر اور طاقتور ہونے کے بعد انسان نہیں رہتے، ہمارے اندر چھپے ہوئے درندے بڑی تیزی سے نکل کر باہر آ جاتے ہیں اور پھر ہم وہی کرتے ہیں جو میرے ہیرو راحت فتح علی نے کیا، ہم جوتوں سے بوتلیں تلاش کرتے ہیں اور پھر وضاحت کرتے رہتے ہیں، میں خوش قسمتی یا بدقسمتی سے طاقتور، دولت مند اور مشہور لوگوں میں رہتا ہوں۔

آپ یقین کریں میں نے ان لوگوں کے ایسے ایسے چہرے دیکھے ہیں جن پر آنکھوں اور کانوں کو یقین نہیں آتا، دولت، شہرت اور طاقت کے بعدان کے اندر کے درندے باہر نکل کر بیٹھ جاتے ہیں مثلاً مجھے ایک بار ایک طاقتور شخص نے بلایا، میں جب اس کے کمرے میں داخل ہوا تو ایک دوسرا طاقتور اور امیر شخص اس کے پائوں میں بیٹھا تھااور طاقتور کے پائوں کا مساج کر رہا تھا، میں یہ منظر دیکھ کر سہم گیا، طاقتور شخص نے قہقہہ لگایا اور کہا یہ میرے بھائی ہیں اور یہ مجھ سے دل سے محبت کرتے ہیں، دوسرے طاقتور شخص نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلا دیا۔

میں آج بھی جب اس شخص سے ملتا ہوں تو مجھے وہ منظر یاد آ جاتا ہے اورمیں اپنے آپ کو یقین دلاتا ہوں میری آنکھوں نے غلط دیکھا ہوگا ورنہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اسی طرح اڑھائی سال قبل میری ایک طاقتور شخص سے میٹنگ تھی، اس دوران ایک بڑی سیاسی جماعت کے ایک مشہور صاحب آ گئے، مجھے ڈائننگ ایریا میں بٹھا دیا گیا، ڈرائنگ روم اور ڈائننگ کے درمیان صرف کپڑے کا پردہ تھا، میں بڑی آسانی سے دوسری طرف کی گفتگو سن سکتا تھا، سیاسی جماعت کے مشہور سیاست دان نے جب فرمانا شروع کیا تو میرے سارے طوطے اڑ گئے جب کہ طاقتور شخص بھولے بن کر سنتے رہے، آدھ گھنٹے بعد انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا چودھری صاحب آپ بھی ہمیں جوائن کر لیں، آپ کے ایک دوست یہاں بیٹھے ہیں۔

میں پریشان ہوگیا کیوں کہ میں اس شخص کا دل سے احترام کرتا تھا اور میں نے اسے ہمیشہ ہائی مورل گرائونڈ پر دیکھا تھا لیکن بہرحال میرے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا چناں چہ میں پردہ ہٹا کر اندر آ گیا، وہ صاحب اٹھ کر مجھے ملے لیکن اس کے بعد یہ مجھے پھر کبھی نہیں ملے، یہ مجھ سے پکے ناراض ہیں، لوگ وجہ پوچھتے ہیں تو میں کہتا ہوں، یہ صرف وہ بتا سکتے ہیں، میں اسی طرح ایک بار ایک مشہور آدمی کے پاس گیا، وہ اس وقت یوگا کر رہے تھے، ان کی بیگم صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہی تھی، صاحب نے ٹی وی بند کرنے کا حکم دیا مگر بیگم نے شاید سنا نہیں تھا یا پھر وہ ٹی وی میں زیادہ کھوئی ہوئی تھی، صاحب نے اپنی چپل اٹھائی اور تاک کر بیگم کو دے ماری، میں ان کے نشانے کی داد دینے پر مجبور ہوگیا کیوں کہ اس نشانے سے بیگم اور ٹی وی دونوں آف ہو گئے۔

یہ صرف تین مثالیں نہیں ہیں، ایسی ہزاروں مثالیں ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں دولت، طاقت اور شہرت انسان کے اندر کا درندہ باہر لے آتی ہے اور پھر وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو راحت فتح علی نے کیا تھا لیکن اب سوال یہ ہے اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل بہت سادہ اور آسان ہے، عاجزی اور سادگی دو ایسی چادریں ہیں جو شہرت، طاقت اور دولت کی غلطیوں کو ڈھانپ لیتی ہیں لہٰذا آپ جتنے مشہور، طاقتور اور امیر ہوتے جائیں آپ اتنے ہی سادہ اور عاجز ہوجائیں، آپ کے اندر کے درندے قابو میں رہیں گے ورنہ طاقت، شہرت اور دولت انہیں آپ کے بدن کے پنجرے سے باہر نکال دے گی اور اس کے بعد آپ راحت فتح علی خان بن جائیں گے، آپ بھی جوتے سے بوتل تلاش کرتے رہیں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.