Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Justice Jawad S Khawaja Ke Liye

Justice Jawad S Khawaja Ke Liye

جسٹس جواد ایس خواجہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج ہیں، یہ وزیرآباد سے تعلق رکھتے ہیں، خواجہ صاحب کا خاندان وزیر آباد کی معزز اور متمول ترین فیملی تھی، پاکستان بننے کے بعد وزیرآباد شہر میں صرف دو گاڑیاں تھیں اور ان دو گاڑیوں میں سے ایک گاڑی کے مالک جسٹس جواد ایس خواجہ کے والد تھے، جسٹس جواد نے خوشحالی، نیک نامی اور تہذیب میں آنکھ کھولی، یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں، نیک نام بھی ہیں اور ایماندار بھی۔

یہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے قریبی ساتھیوں میں بھی شمار ہوتے ہیں، 19 اپریل 2014ء کے بعد "جیو ٹیلی ویژن" کا معاملہ اٹھا، جیو کی انتظامیہ نے مئی کے شروع میں سپریم کورٹ میں نشریات کی بندش کے خلاف پٹیشن دائر کی، چیف جسٹس نے جواد ایس خواجہ، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بینچ بنا دیا، یہ خبرشایع ہوئی تو چند لوگوں نے اعتراض شروع کر دیا، میر شکیل الرحمن اورجسٹس جواد ایس خواجہ رشتے دار ہیں، میر شکیل الرحمن کی ہمشیرہ جسٹس جواد ایس خواجہ کی بھابی ہیں۔

یہ خبر شایع ہونے کے بعد نامعلوم افراد نے آبپارہ اور ریڈ زون میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے خلاف بینر لگوا دیے، یہ بینر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے لگے، یہ اخبارات میں بھی تصویر اور خبر کی شکل میں شایع ہو ئے اور ٹیلی ویژن چینلز نے بھی ان کی خبر نشر کر دی، جسٹس جواد ایس خواجہ نے 26 مئی کو ان بینرز کا نوٹس لے لیا، جسٹس صاحب نے اٹارنی جنرل، آئی جی اور ایس ایس پی اسلام آباد سے استفسار کیا، وفاقی حکومت اور پولیس متحرک ہوئی، 27 مئی کو تھانہ آبپارہ میں پولیس کی مدعیت میں دفعہ 504 اور 505(2) کے تحت ایف آئی آر درج ہوئی۔

پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے شروع کیے اور راولپنڈی کے ایک پینٹر شفیق بٹ اور اس کے 16 سال کے معاون محمد ناصر کو گرفتار کر لیا، اٹارنی جنرل سلیمان اسلم بٹ نے اگلے دن یعنی 28 مئی کو سپریم کورٹ کو ملزمان کی گرفتاری کی نوید سنا دی، سپریم کورٹ پولیس اور حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہو گئی یوں ایک کہانی ختم ہو گئی لیکن دوسری کہانی شروع ہو گئی، یہ پینٹر شفیق بٹ اور اس کے ہیلپر محمدناصر کی کہانی ہے۔

شفیق بٹ راولپنڈی کا ایک معمولی پینٹر ہے، یہ بنی کے علاقے میں جامع مسجد روڈ پر پل شاہ نذر کے قریب رہتا ہے، یہ 1964ء میں بچہ تھا، اسکول جاتا تھا، والد کا انتقال ہو گیا، پورے گھر کی ذمے داری دس سال کے بچے کے کندھوں پر آ گئی، یہ پیدائشی مصور تھا، ڈرائنگ اور خط اچھا تھا چنانچہ اس نے دس سال کی عمر میں وال چاکنگ شروع کر دی، یہ برش لے کر دیواروں پر اشتہار لکھنے لگا، شفیق بٹ کا کام چل نکلا، یہ چاکنگ اور بینر لکھنے کا کام کرنے لگا، یہ سلسلہ چلتا رہا۔

1980ء کی دہائی میں راولپنڈی میں منشیات عام ہو ئیں، بنی کے نوجوان بھی چرس، افیون اور ہیروئن کی لت میں مبتلا ہونے لگے، شفیق بٹ نے نوجوانوں کو نشے کے ہاتھوں برباد ہوتے دیکھا تو اس نے1992ء میں "نجات" کے نام سے نشیوں کی بحالی کا مرکز قائم کیا، یہ اپنی کمائی کا ایک حصہ "نجات" میں خرچ کرنے لگا، یہ مرکز چل پڑا، یہ مرکز آج ٹرسٹ بن چکا ہے، یہ ٹرسٹ سیکڑوں ہزاروں نوجوانوں کو بحال کر چکا ہے، شفیق بٹ راولپنڈی میں دو اولڈ پیپل ہوم بھی چلا رہا ہے۔ میں آپ کو پینٹرز کے کام کی بھی ذرا سی تفصیل بتاتا چلوں، پینٹرز کا کام شاگردوں اور ٹھیکے کی بنیاد پر چلتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم میں سے بعض لوگوں کو خوش خطی اور پینٹنگ کا ٹیلنٹ دے کر دنیا میں بھجواتا ہے، ہم میں سے ہر 13 واں شخص آرٹسٹ یا پینٹر ہوتا ہے، یہ لوگ اگر غریب اور پسماندہ علاقوں میں پیدا ہو جائیں تو یہ ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں، لوگ ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور انھیں پتھر بھی مارتے ہیں، یہ لوگ غربت کی وجہ سے بچپن ہی میں وال چاکنگ اور بورڈوں کی لکھائی شروع کر دیتے ہیں، یہ کام بڑے شہروں میں ہوتا ہے چنانچہ یہ لوگ دیہات اور قصبوں سے بھاگ کر بڑے شہروں میں آ جاتے ہیں، شہروں کے پینٹر انھیں اپنا شاگرد بنا لیتے ہیں، یہ شروع میں چاکنگ کے لیے دیواروں پر سفیدی کرتے ہیں، یہ لوگ تیار شدہ بینر لٹکانے کا کام بھی کرتے ہیں، یہ ان پڑھ ہوتے ہیں، یہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے، قدرت انھیں لفظوں کی نقالی کا ملکہ دے دیتی ہے، یہ حرف اور لفظ دیکھتے ہیں اور اس کو کاپی کر دیتے ہیں۔

آپ فلموں کے اشتہاروں میں عموماً ایک عجیب وغریب لفظ دیکھتے ہوں گے "آجشبکو"۔ یہ لفظ تین الفاظ آج، شب، کو کا مجموعہ ہے، کسی پینٹر نے ان تینوں لفظوں کو اکٹھا لکھ کر "آجشبکو" بنا دیا تھا اور یہ آج تک آجشبکو چلا آ رہا ہے، پینٹر کے شاگرد جب تیار ہو جاتے ہیں تو یہ انھیں ٹھیکیدار بنا دیتے ہیں، یہ ٹھیکیدار شاگرد کام تلاش کرتے ہیں، بینر تیار کرتے ہیں، بینر لٹکاتے ہیں، معاوضے کا 75فیصد خود رکھ لیتے ہیں اور 25فیصد استاد کو دے دیتے ہیں، یہ استاد کی "گڈ ول منی" ہوتی ہے، شفیق بٹ کے پاس بھی درجن بھر شاگرد ہیں، مئی کے آخری عشرے میں شفیق بٹ کا ایک ہمسایہ اس کے شاگرد کے پاس آیا، رقم دی اور چھ سات بینرز کی تیاری کا آرڈر دے دیا، شاگرد نے بینر تیار کر دیے۔

یہ ہمسایہ دوسرے شاگرد محمد ناصر کو ساتھ لے کرگیا اورآبپارہ میں بینر لگوا دیے یوں یہ جاب ختم ہو گئی، بینر لگانے والے محمد ناصر کی عمر سولہ سال ہے، یہ کبیر والا کا رہنے والا ہے، ان پڑھ اور غریب ہے، یہ غربت سے بھاگ کر راولپنڈی آیا تھا، یہ روزانہ سو ڈیڑھ سو روپے کماتا ہے اور یہ سو ڈیڑھ سو روپے کبیر والا میں اس کے خاندان کی کفالت کا واحد ذریعہ ہیں، یہ لوگ کبھی سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے سے نہیں گزرے، یہ جسٹس، قانون اور وکیلوں کے نام تک سے واقف نہیں ہیں، یہ جسٹس جواد ایس خواجہ اور ان کے خاندان کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے، یہ بینر بنانے اور لگانے والے انتہائی غریب لوگ ہیں۔

گلی کے ایک شخص نے انھیں بینر بنانے اور لگانے کا آرڈر دیا اور انھوں نے کاغذ پر لکھے ہوئے لفظوں کی نقالی کر دی مگر سپریم کورٹ نے جب نوٹس لیا تو کاغذ پر عبارت لکھنے، بینر کا آرڈر دینے اور بینر لگوانے والے بچ گئے لیکن یہ مزدور پکڑے گئے، شفیق بٹ اور ان کے شاگردوں نے پولیس کو بینرز کا آرڈر دینے اور بینر لگوانے والے کا نام اور پتہ تک دیا تھا۔

یہ اس گاڑی تک کی نشاندہی کر چکے ہیں جس کے ذریعے ان لوگوں کو بینر لگوانے کے لیے اسلام آباد لایا گیا تھا مگر پولیس نے آج تک اصل مجرم پر ہاتھ نہیں ڈالا جب کہ شفیق بٹ اور سولہ سال کا محمد ناصر 27 مئی سے جیل میں ہیں اور ملک کی کوئی عدالت سپریم کورٹ کی وجہ سے ان کی ضمانت لینے کے لیے تیار نہیں، راولپنڈی کے چند اہل دل نے سیشن کورٹ میں محمد ناصر کی ضمانت کی درخواست جمع کروائی مگر عدالت نے یہ درخواست مسترد کر دی، آخر چھوٹی عدالتیں ملک کی سب سے بڑی عدالت کا بوجھ کیسے اٹھا سکتی ہیں۔

میری جسٹس جواد ایس خواجہ اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی سے درخواست ہے، آپ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے، سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات سے جب شفیق بٹ اور محمد ناصر جیسے لوگ گرفتار ہو جائیں گے تو ملک کی کون سی عدالت ان کی ضمانت لے گی، کون سی عدالت انھیں بے گناہ قرار دینے کا رسک لے گی؟ آپ ملک میں انصاف کی صورتحال بھی ملاحظہ کر لیجیے، بینر کا آرڈر دینے اور لگوانے والے آزاد ہیں مگر ان پڑھ اور غریب پینٹرز جیلوں میں سڑ رہے ہیں، یہ ہے ہمارے ملک کا انصاف اور قانون۔ ہم اس قانون اور اس طرز انصاف کے ساتھ کتنی دیر زندہ رہ لیں گے۔

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر چند لمحوں کے لیے سوچئے، مجھے یقین ہے آپ کو اپنے دل سے شفیق بٹ اور محمد ناصر جیسے بے بس لوگوں کی چیخوں کی آوازیں آئیں گی، میں آپ کی توجہ ایک دوسرے مقدمے کی طرف بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں، آپ کو یاد ہو گا نومبر 2010ء میں حج سکینڈل سامنے آیا تھا، سپریم کورٹ کے نوٹس پر اس وقت کے ڈی جی حج رائو شکیل کو گرفتار کر لیا گیا تھا، مکہ اور مدینہ میں رہائش گاہوں کے تعین میں ڈی جی رائوشکیل کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، حج کے معاملات کی تمام منظوریاں وزارت مذہبی امور، وفاقی کابینہ اور وزیراعظم نے دیں، رائو شکیل کے پاس ان منظوریوں کے تمام تحریری ثبوت بھی موجود ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے " یہ مان بھی لیا جائے میں ان انتظامات کا ذمے دار تھا تو بھی اس سال رہائش گاہیں کم کرائے پر حاصل کی گئی تھیں اور رہائش گاہوں کے مالکان نے حاجیوں کو رقم بھی واپس کی تھی" لیکن کیونکہ یہ مقدمہ چیف جسٹس کے سوموٹو نوٹس پر قائم ہوا تھا اور رائو شکیل سپریم کورٹ کے دبائو پر گرفتار ہوئے تھے چنانچہ یہ 45 ماہ سے جیل میں پڑے ہیں اور کوئی جج، کوئی تفتیشی ادارہ اور کوئی تفتیشی افسر ان کی بات سننے کے لیے تیار نہیں، یہ اگر واقعی ملزم ہیں تو پھر انھیں سزا کیوں نہیں دی جاتی اور یہ اگر بے گناہ ہیں تو ان کی ضمانت قبول کیوں نہیں ہورہی؟ کیا یہ باقی زندگی فیصلے کے بغیر جیل میں گزاریں گے؟ اگر ہاں تو کیا یہ انصاف ہو گا؟ کیا ہماری عدلیہ، ہمارے قانون اور ہمارے نظام کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہے اور کیا ہم " جس کے گلے میں پھندا آ جائے اسے لٹکا دیں " کی پالیسی کے ساتھ ملک کو چلا لیں گے۔

جسٹس صاحب آپ ایک لمحے کے لیے یہ ضرور سوچئے، یہ ممکن ہے آپ کے نام پر لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہو۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.