Thursday, 28 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Khachapuri

    Khachapuri

    سگ ناگی (Signagi) تبلیسی سے ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر خوبصورت جارجین قصبہ ہے، یہ قصبہ پہاڑوں کے درمیان بڑی سی چٹان پر واقع ہے، آپ کو اس کے چاروں اطراف سیکڑوں میل تک پھیلی وادی، ہزاروں ایکڑ پر محیط انگور کے باغ اور چھوٹے چھوٹے دیہات دکھائی دیتے ہیں، قصبے کے گرد چیڑھ، صنوبر، چیری، آلو بخارے اور اخروٹ کے درخت بھی ہیں، یہ دور سے سبز جنگلوں کے درمیان سرخ اینٹوں کا وسیع اسٹوپا محسوس ہوتا ہے، سگ ناگی (جارجین لوگ سگ ناگی کو سگ ناغی بولتے ہیں) پہاڑی قصبہ ہے چنانچہ اس کی گلیاں اونچی نیچی ہیں، گھر تین تین، چار چار اسٹیپس میں بنے ہیں، کھڑکیاں وادیوں کی طرف کھلتی ہیں، ہر گھر میں چھوٹا سا باغ یا لان بھی ہے اور ٹیرس بھی۔

    حکومت نے پورا قصبہ دوبارہ بنایا لیکن بناتے ہوئے اس کی ڈیڑھ دو ہزار سال کی تاریخ کو مدنظر رکھا، گلیوں، گھروں اور باغوں کی قدیم "لُک" برقرار رکھی، چھتیں سرخ ہیں، پتھر اور لکڑی کا کام جابجا دکھائی دیتا ہے، آپ کو ہر مکان میں انگور کی بیلیں ضرور ملتی ہیں، یہ قصبہ انگور اور چیری کی وائن کی وجہ سے پورے جارجیا میں مشہور ہے، جارجیا میں انگوروں کی پانچ سو اقسام ہیں، یہ لوگ پانچ سو اقسام کی "وائین" بناتے ہیں، سگ ناگی کے گھروں میں وائین بنائی جاتی ہے، شہر کے زیادہ تر گھروں میں تہہ خانے ہیں، یہ تہہ خانے وائین کی فیکٹریاں اور اسٹور ہیں، یہ لوگ لکڑی کے بڑے بڑے کڑاہوں میں انگور کے گچھے ڈال دیتے ہیں، کڑاہے بھر جاتے ہیں تو کنواری لڑکیاں ننگے پائوں ان کڑاہوں میں گھس جاتی ہیں، یہ پیروں سے انگوروں کو کچلتی ہیں، انگور جوس میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

    یہ جوس بعد ازاں مٹی کے بڑے بڑے مٹکوں میں ڈال دیا جاتا ہے، مٹکے گردن تک زمین میں دفن ہوتے ہیں، مٹکوں پر ڈھکن لگا دیے جاتے ہیں، ڈھکن ائیر ٹائٹ کر دیے جاتے ہیں، انگور کا جوس مٹکوں کے اندر وائن میں تبدیل ہو جاتا ہے، یہ لوگ جوس کو انگوروں کی نسل، قسم اور موسم کے مطابق مٹکے میں بند رکھتے ہیں، یہ بعد ازاں انھیں بوتلوں میں بند کر کے تہہ خانے میں رکھ دیتے ہیں، مجھے سگ ناگی میں معلوم ہوا وائین کی بوتل کو سیدھا نہیں رکھا جاتا، بوتلوں کو ٹیڑھا یا لٹا کر رکھا جاتا ہے، کیوں؟ میں نے پوچھا، گھر کے مالک نے بتایا " بوتل سیدھی رکھنے سے وائین خراب ہو جاتی ہے" شاید یہ آکسیجن کا کوئی چکر ہو گا، مالک نے بتایا، ہم لوگ وائین کو برسوں تک تہہ خانوں میں رکھتے ہیں، وائین جتنی پرانی ہو گی، یہ اتنی ہی قیمتی ہو جائے گی، سگ ناگی کے تہہ خانوں میں پچاس پچاس برس پرانی وائین موجود ہے۔

    "آپ لوگ اتنی بزرگ وائن پیتے ہیں " میں نے مالک سے پوچھا، اس نے قہقہہ لگا کر بات ٹال دی۔ سگ ناگی کے زیادہ تر گھر ریستورانوں اور شراب خانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، لوگ لان میں انگور کی بیلوں کے نیچے بیٹھ کر "شغل مے" فرماتے ہیں اور پہاڑوں سے اترتی نم ہوائوں کے گھونٹ بھرتے ہیں، قصبے کے اندر گھوڑے بھی چلتے ہیں، بگھیاں بھی اور سائیکل رکشے بھی۔ سیاح اس قصبے میں پہنچ کر حقیقتاً راستہ بھول جاتے ہیں، آج سے بیس سال قبل ایک امریکی سیاح سگ ناگی آیا اور واپس جانے سے انکار کر دیا، اس نے قصبے میں اب ایک ریستوران اور شراب خانہ بنا رکھا ہے، یہ شراب خانہ امریکی پب کہلاتا ہے۔

    سگ ناگی سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر "بودبی" کی چٹان ہے، یہ ہزار میٹر بلند چٹان ہے جس پر خوبصورت چرچ ہے، یہ سینٹ نینو کا چرچ کہلاتا ہے، سینٹ نینو اطالوی خاتون تھی، یہ خاتون چوتھی صدی عیسوی میں اٹلی سے جارجیا آئی، اس نے اس وقت کے بادشاہ کی عزیز ترین ملکہ کے لیے دعا کی، ملکہ نانا مہلک بیماری سے صحت یاب ہو گئی، بادشاہ نے اسے "بودبی" کی چٹان پر چرچ بنانے کی اجازت دے دی، یہ چرچ بنا اور جارجیا کا متبرک ترین مقام بن گیا، یہ چرچ اور یہ علاقہ درجنوں مرتبہ فتح اور تاراج ہوا مگر یہ چرچ کم و بیش قائم رہا، اس چرچ کی تین چیزیں بہت مشہور ہیں۔

    ایک سینٹ نینو کی قبر، لوگ اس قبر کی زیارت کے لیے آتے ہیں، قبر کا تعویز چومتے ہیں، یہ لوگ قبر پر اسی طرح جھک جاتے ہیں جس طرح ہم لوگ پیروں، فقیروں کے مزارات پر جھکتے ہیں، یہ تقریباً سجدہ ہوتا ہے، لوگ لائن میں لگ کر قبر کے کمرے میں جاتے ہیں، سجدہ کرتے ہیں اور باہر نکل جاتے ہیں۔

    دوسری چیز اس کا چشمہ ہے، یہ چشمہ چٹان کے قدموں میں واقع ہے، زائرین چرچ سے 620 سیڑھیاں اتر کر چشمے تک جاتے ہیں، وضو اور غسل کرتے ہیں اور 620 سیڑھیاں چڑھ کر اوپر واپس آ جاتے ہیں، یہ سیڑھیاں خوبصورت ہیں، اس کے دائیں بائیں جنگل ہے اور اس جنگل کے درمیان پتھروں سے بنی ہوئی ہموار سیڑھیاں ہیں، میں اور مبشر شیخ 620 سیڑھیاں اتر کر چشمے تک پہنچے، چرچ کی انتظامیہ نے چشمے کے گرد کمرہ بنا دیا تھا، یہ غسل خانہ بن چکا تھا، سیکڑوں لوگ غسل خانے کو گھیر کر کھڑے تھے، ہم چشمہ دیکھے بغیر واپس آ گئے، ہمارے لیے یہ 1240 سیڑھیاں تفریح بن گئیں اور اس کی تیسری چیز نئے شادی شدہ جوڑے ہیں، پورے علاقے کے لوگ شادی کے بعد اس چرچ میں آتے ہیں، سینٹ نینو کی قبر کی زیارت کرتے ہیں، دعا کرتے ہیں اور اس کے بعد گھر جاتے ہیں۔

    جارجیا کی شادی بیاہ کی رسومات پنجابی عروسی روایات کے بہت قریب ہیں، یہ لوگ بھی ہماری طرح خوب آتش بازی کرتے ہیں، دولہے اور دلہن کو پھولوں والی گاڑی میں بٹھاتے ہیں، دولہا گاڑیاں لے کر دلہن کے گھر جاتا ہے تاہم دلہن عیسائی دلہنوں کی طرح سفید فراک پہنتی ہے، آپ اگر پنجاب کے دیہاتی علاقوں سے واقف ہیں تو آپ جانتے ہوں گے ہمارے دولہے شادی سے قبل گائوں کے قبرستان، بزرگ کے مزار اور مسجد میں جاتے ہیں اور اس کے بعد دلہن کے گھر جاتے ہیں۔

    جارجیا میں بھی یہ رسم موجود ہے تاہم یہاں دولہا اور دلہن دونوں گھر جانے سے قبل مقدس چرچ، بزرگوں کی قبروں اور قبرستانوں میں جاتے ہیں، یہ لوگ شہر کے خوبصورت حصوں میں بھی جاتے ہیں، وہاں تصویریں بنواتے ہیں اور اس کے بعد قافلے کی شکل میں گھر جاتے ہیں، یہ رسم ترکی میں بھی موجود ہے، گجر قبائل کیونکہ جارجیا سے ہندوستان گئے تھے چنانچہ یہ رسم بھی جارجیا سے ہندوستان چلی گئی، ہمارے گائوں شاہ سرمست کے قبرستان میں بھی ایک قدیم درگاہ ہے، یہ باباشاہ سرمست کا مزار کہلاتا ہے، ہم اسے "دربار" کہتے ہیں، میں نے بچپن میں گائوں کے تمام دولہوں کو اپنی شادی کا سفر اس دربار سے شروع کرتے دیکھا، یہ رسم یقینا آج بھی قائم ہوگی۔

    میں جارجیا کے لوگوں کو یہ "حرکت" کرتے دیکھ کر حیرت میں چلا گیا، جارجیا کے لوگ "ڈیری پراڈکٹس" بہت استعمال کرتے ہیں، پنیر بہت کھائی جاتی ہے، مکھن، دودھ اور دہی بھی بہت استعمال ہوتا ہے، دیہات میں خواتین گائے چراتی ہیں لیکن یہ عورتیں ہماری عورتوں سے مختلف ہیں، یہ نسبتاً صاف ستھری ہیں، یہ جینز اور شرٹس پہنتی ہیں اور ہاتھوں میں چھتریاں لے کر گائے چراتی ہیں، پنیر گھروں میں بنائی جاتی ہے اور یہ پنیر یہ لوگ خود ہی کھا جاتے ہیں، شہروں میں پنیر کی سیکڑوں دکانیں ہیں، آپ شہر سے باہر جائیں تو آپ کو مضافات میں سڑکوں کے کنارے دیسی پنیر کی دکانیں ملتی ہیں، یہ لوگ مخصوص قسم کا " چیز نان" بناتے ہیں، یہ نان"کھا چاپوری"کہلاتا ہے، یہ میدے کے اندر پنیر کی تہہ جماتے ہیں، اسے بیل کر روٹی بناتے ہیں اور تنور میں لگا دیتے ہیں۔

    جارجیا کے تمام شہروں میں کھاچا پوری کے ہزاروں تنور ہیں، لوگ صبح کے وقت یہاں ناشتہ کرتے ہیں، کھاچاپوری گھروں میں بھی کھائی جاتی ہے اور ریستورانوں میں بھی"سرو" کی جاتی ہے، یہ ان کی زندگی کا معمول ہے، میرا خیال ہے پوری اور کھاجا کا لفظ جارجیا سے ہندوستان گیا، یہ "چھوٹا چھوٹا" بھی بولتے ہیں اور یہ لفظ ٹھیک انھی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو اردو اور پنجابی میں ہوتا ہے، یہ ترجمان کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں ا ور ان کی زبان میں پردے کے معنی بھی وہی ہیں جو ہماری زبان میں ہیں، جارجین عورتیں بے انتہا خوبصورت ہیں، ہم اگر جارجیا کو سرخ اور سفید لوگوں کی سرزمین کہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا، آپ جس طرف دیکھتے ہیں، آپ کو لگتا ہے دودھ کے پیالے میں گلاب گھولے جارہے ہیں، ہر رخسار پر آگ سی لگی نظر آتی ہے، آنکھیں جھیل بھی ہیں اور گہری بھی۔

    خواتین بہت ایکٹو ہیں، یہ معاشرے کا سارا نظام چلا رہی ہیں، آپ کو ہر جگہ صرف عورتیں کام کرتی نظر آتی ہیں، مرد ڈھیلے اور سست ہیں، یہ شراب کے رسیا بھی ہیں، یہ فروٹ کی خوفناک شراب بنا تے ہیں، پیتے ہیں اور "ٹن" ہو جاتے ہیں، یہ شراب "چاچا" کہلاتی ہے۔

    عورتیں شراب نہیں پیتیں یا انتہائی کم پیتی ہیں لہٰذا یہ ایکٹو ہیں، یہ"فیملی پیپل" ہیں، خاندانی نظام قائم ہے، زمین بہت ہے، یہ لوگ شادی کے بعد اپنی زمین پر گھر بنا لیتے ہیں اور یوں والد ین کے قریب رہتے ہیں، حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دے رہی ہے، زمینیں سستی ہیں، لوگ آکر دھڑا دھڑ زمینیں خرید رہے ہیں، انڈسٹری بھی لگ رہی ہے، سیاحت بھی انڈسٹری بن رہی ہے، شام کے وقت ریستوران، گلیاں اور سڑکیں بھری ہوتی ہیں، معیشت مضبوط ہے، ایک ڈالر کے پونے دو لارے آتے ہیں، ہم ایک ڈالر کے بڑے سو روپے دیتے ہیں، امن و امان مثالی ہے، کوئی کسی کو تنگ نہیں کرتا، چوری چکاری نہ ہونے کے برابر ہے، لوگ بے خوف پھرتے ہیں۔

    جارجیا میں ماحولیاتی خوبصورتی بھی ہے اور جسمانی بھی۔ یہ جنت دیکھنے کے بعد میرے ذہن میں باربار خیال آیا ہمارے آباواجداد کو یہاں سے ہندوستان جانے کی کیا ضرورت تھی، شاید مصیبت یا برا وقت اسی کو کہتے ہیں، انسان جارجیا جیسی جنت چھوڑ کر ہندوستان کے دوزخ میں چلا جاتا ہے۔

    About Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry

    Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.