Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Khawa Aap Raje He Kyon Na Hoon

Khawa Aap Raje He Kyon Na Hoon

کاش ہمارے راجہ پرویز اشرف یا ان کے بعد آنے والے ان جیسے راجے ایک بار، جی ہاں صرف ایک بار وینزویلا کے آنجہانی ہیوگو شاویز کی کہانی پڑھ لیں، کاش یہ وینزویلا کی گلیوں میں روتے، بال نوچتے، سر میں راکھ ڈالتے اور دھاڑیں مار مار کر ایک دوسرے سے کے گلے ملتے عوام کو دیکھ لیں، کاش یہ ایک بار اپنے مرحوم صدر کو اپنا والد قرار دیتے عوام کے تاثرات سن لیں تو شاید، شاید اور شاید ان کا ضمیر بھی انگڑائی لے لے، یہ بھی جمہوریت کے اصل مفہوم تک پہنچ جائیں، یہ بھی ہیوگو شاویز جیسے لیڈر بن جائیں۔

ہیوگو شاویز صدر آصف علی زرداری کی طرح جاگیر دار، سرمایہ دار اور صنعت کار کا بیٹا نہیں تھا، یہ میاں نواز شریف کی طرح انڈسٹریلسٹ کا بیٹا بھی نہیں تھا، یہ یوسف رضا گیلانی کی طرح کسی گدی نشین کی اولاد بھی نہیں تھا اور یہ کسی راجہ خاندان کا چشم وچراغ بھی نہیں تھا، یہ پرائمری اسکول کے معمولی ٹیچر کا بیٹا تھا، یہ چھ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا اور اس کی زندگی کا واحد مقصد بیس بال کا قومی کھلاڑی بننا تھا، یہ بیس بال کھیلتا تھا، یہ اچھا کھلاڑی بھی تھا لیکن اسے بتایا گیا وینزویلا تیسری دنیا کا تیسرے درجے کا ملک ہے اور ایسے ملکوں میں ترقی کے لیے سفارش ضروری ہوتی ہے اور خواہ یہ بیس بال ہی کیوں نہ ہو، وہ ہر قیمت پر بیس بال کا قومی کھلاڑی بننا چاہتا تھا مگر یہ اس کے اسکول ٹیچر والد کے بس کی بات نہیں تھی

ہیوگو شاویز قد کا ٹھ میں مضبوط تھا چنانچہ اس نے آرمی جوائن کر لی، آرمی میں جانے کی وجہ بھی بیس بال تھی، اس کا خیال تھا آرمی مضبوط ترین ادارہ ہے اور یہ اس ادارے میں رہ کر خود اپنی سفارش بن جائے گا، فوج میں اسے باغیوں کو کچلنے کے لیے بنائی جانے والی اسپیشل فورس میں شامل کر دیا گیا اور یہ دوسرے جوانوں کے ساتھ مل کر ملک بھر میں باغیوں کے خلاف آپریشن کرنے لگا، ان آپریشنز نے اس کی آنکھ کھول دی، اس نے دیکھا وینزویلا معاشرتی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہے، بالائی طبقہ اور زیریں طبقہ، بالائی طبقے کو امریکا کی حمایت حاصل ہے، یہ لوگ سیاسی جماعتوں، فوج، بیورو کریسی، جاگیرداروں اور صنعت کاروں پر مشتمل ہیں، وینز ویلا تیل کی دولت سے مالا مال ہے، یہ تیل پیدا کرنے والا دنیا کا 13 واں بڑا ملک ہے، بالائی طبقے کو آئل کمپنیوں کی آشیر باد حاصل ہے۔

آئل کمپنیاں حکمران طبقے سے مل کر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں جب کہ زیریں طبقہ بری طرح پس رہا ہے، یہ تعلیم، صحت، روز گار اور انصاف جیسی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہے، ہیوگو شاویز آپریشن کے لیے نکلتا تھا تو یہ عام لوگوں کی حالت دیکھ کر رونے لگتا تھا، وینز ویلا میں ستر اور اسی کی دہائی میں باغی سر اٹھا رہے تھے، یہ سرکاری عمارتوں اور سرکاری شخصیات کو نشانہ بناتے تھے۔

جب کہ شاویز کا اسکواڈ ان باغیوں کو کچلتا تھا، شاویز کو محسوس ہوا یہ باغی بے گناہ ہیں، غربت اور عدم مساوات کی وجہ سے ان کے پاس بغاوت کے سوا کوئی چارہ نہیں چنانچہ کیپٹن شاویز، میجر شاویز اور آخر میں کرنل شاویز کے اندر ایک باغی مچلنے لگا، یہ اس قدر خوفناک بغاوت تھی کہ یہ بیس بال تک بھول گیا، کرنل شاویز نے اپنے باغی جذبوں سے مجبور ہو کر 1992ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی، یہ کوشش ناکام ہو گئی، یہ گرفتار ہوا اور اسے جیل میں پھینک دیا گیا، اسے جیل میں اندازہ ہوا جمہوری ملکوں میں فوجی بغاوتوں کی گنجائش نہیں ہوتی، اگراس نے تبدیلی لانی ہے تو اسے ووٹ کا سہارا لینا ہو گا۔

وینزویلا میں اس وقت دو سیاسی جماعتیں تھیں، یہ میوزیکل چیئر کی طرح آپس میں کرسی بدلتی رہتی تھیں، شاویز نے جیل میں اپنی سیاسی جماعت بنائی، باہر آیا اور عوام میں کود گیا، وہ پانچ سال تک عوام میں اٹھتا، بیٹھتا، کھاتا اور سوتا رہا، اس نے ان پانچ برسوں میں عوام کو یقین دلا دیا " میں وہ شخص ہوں جو عوام کو کبھی دھوکا نہیں دوں گا" عوام غربت، سیاسی منافقت اور طبقاتی تقسیم سے تنگ تھے چنانچہ یہ شاویز کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور یوں یہ 1999ء میں وینزویلا کا صدر منتخب ہو گیا، شاویز نے صدر بنتے ہی اپنے وعدے نبھانا شروع کر دیے، اس نے تمام صنعتیں، پرائیویٹ کمپنیاں قومیا لیں۔

اس نے تیل کی ساری دولت عوامی فلاح پر لگا دی، ملک میں انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے اسکول بنوائے، عالی معیار کے اسپتالوں کے ذریعے عوام کو صحت کی مفت سہولت دی، ملک میں ایک لاکھ کو آپریٹو سوسائٹیاں بنوائیں، ان سوسائٹیوں نے روزگار کے ذرایع پیدا کیے اور عوام خوش حال ہوگئے، ہیوگو شاویز نے جس وقت اقتدار سنبھالا تھا تو اس وقت وینزویلا کی 55 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی، بے روزگاری کی شرح 20فیصد تھی لیکن 5مارچ 2013ء کو جب یہ فوت ہوا تو بے روزگاری صرف سات فیصد رہ گئی تھی اور خط غربت سے نیچے آبادی صرف 20فیصد۔ شاویز نے 2002ء میں ملک کی تمام آئل کمپنیاں قومیا لیں، اس نے نائن الیون کے بعد امریکا اور جارج بش کو شیطان، فاشسٹ اور درندہ کہنا شروع کر دیا، یہ اسرائیل کا بہت بڑا مخالف بھی بن گیا۔

اس نے عراق، ایران اور شمالی کوریا کی اس وقت حمایت کی جب یہ ملک خود اپنے حقوق کی بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے، شاویز نے سلامتی کونسل میں کھڑے ہو کر بش کو شیطان، بزدل، قاتل، نسل کش، نشے باز، جھوٹا، منافق، نفسیاتی مریض اور دنیا کا بدترین شخص کہا اور پوری دنیا میں مشہور ہو گیا، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے رد عمل میں اس کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کر دیے، وینزویلا کی فوج، سیاسی جماعتیں، صنعت کار، سرمایہ کار، آئل کمپنیاں اور بیورو کریسی بھی اس کے خلاف ہو گئی، امریکا نے ڈالروں کے دروازے کھول دیے جس کے بعد وینزویلا میں 11 اپریل 2002ء کو شاویز کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے، فسادات ہوئے اور فوج فسادات کی آڑ لے کر اقتدار پر قابض ہو گئی۔

شاویز کی حکومت ختم ہو گئی، امریکا کی کوشش تھی یہ جلد سے جلد الیکشن کرا دے اور وینزویلا میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کر دے لیکن عوام کو صرف اور صرف شاویز چاہیے تھا چنانچہ عوام باہر نکلے، انھوں نے فوج، سیاسی جماعتوں اور سفارتی علاقے کا گھیرائو کیا اور صرف 47 گھنٹے بعد شاویز کو دوبارہ ایوان صدر میں بٹھا دیا، فوج واپس بیرکوں میں چلی گئی اور اس کے بعد شاویز نے واپس مڑ کر نہ دیکھا، عوام نے 7 اکتوبر 2012ء کو اسے چوتھی بار صدر منتخب کر لیا، اس کا اقتدار 14 ویں برس میں داخل ہوگیا اور یوں یہ دنیا بھر کی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باوجود طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے دنیا کے تین بڑے لیڈروں میں شامل ہو گیا۔

یہ عوامی آدمی تھا، یہ عوام میں عوام کی طرح رہتا تھا، یہ روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا تھا، نیند بھگانے کے لیے روزانہ تیس کپ کافی پیتا تھا، عوامی فلاح کے منصوبوں کی خود نگرانی کرتا تھا، کرپشن فری تھا، خود کسی پلاٹ پر قبضہ کیا اور نہ ہی اپنے کسی بھائی، بھتیجے، بھانجے اور داماد کو اجازت دی، اس نے بس ڈرائیور کو اپنا نائب بنایا اور اس کو باقاعدہ ٹریننگ دی، دنیا نے وینزویلا کی امداد بند کر دی، غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ لے کر واپس چلی گئیں اور یورپ نے اس کا حقہ پانی بند کر دیا مگر یہ اپنے ملکی وسائل سے لوگوں کی حالت بدلتا رہا یہاں تک کہ آج وینزویلا کے عام لوگ امریکی شہریوں سے اچھی زندگی گزار رہے ہیں، لوگ دل سے اس کا احترام کرتے ہیں۔

وینزویلا کا شاید ہی کوئی گھر ہو گا جس میں شاویز کی تصویر نہ ہو یا لوگ جس کے پائوں نہ چھونا چاہتے ہوں، آپ اس کی مقبولیت کا اندازہ دو باتوں سے لگالیجیے، یہ آخری الیکشن کے دوران بیمار ہوگیا، یہ کینسر کا مریض تھا، یہ الیکشن جیت گیا مگر بستر مرگ پر شفٹ ہوگیا، الیکشن جیتنے کے بعد وینزویلا کے ایک ٹیلی ویژن نے اس کی موت کی خبر چلا دی، لاکھوں لوگ فوراً سڑکوں پر نکلے اور انھوں نے اس چینل کا محاصرہ کرلیا اور چینل کے لیے جان بچانا مشکل ہو گئی۔

وینزویلا کے آئین کے مطابق صدر انتخاب کے بعد دس جنوری کو حلف اٹھاتا ہے، اگر صدر حلف نہ لے تو 30 دن کے اندر اگلے الیکشن ہوتے ہیں، شاویز بیمار تھا، یہ حلف نہ اٹھا سکا، یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو سپریم کورٹ نے عوامی دبائو میں آئین کی یہ دفعہ معطل کر دی اور حلف کی تقریب شاویز کے صحت مند ہونے تک ملتوی کر دی، شاویز 5 مارچ 2013ء کو انتقال کر گیا، اس کے انتقال نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا، لوگ ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگے۔

کاش یہ مناظر ہمارے حکمران، ہمارے راجے مہا راجے بھی دیکھ لیتے اور ان سے صرف اتنا سیکھ لیتے آپ اگر عوام کے سچے خادم ہیں تو پوری لوکل اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ مل کر بھی آپ کا بال بیکا نہیں کر سکتی اور اگر آپ نے عوام کو کچھ نہیں دیا تو آپ پانچ سال پورے کرنے کے باوجود اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے، آپ باقی زندگی کنٹینر میں گزاریں گے خواہ آپ زرداری ہوں، گیلانی ہوں یا راجے ہوں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.