خوابوں اور حقیقتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے اور عمران خان کو بہرحال خوابوں کی دنیا سے باہر آنا ہو گا، میں خوابوں اور حقیقتوں کی طرف آنے سے قبل ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں، عمران خان مستقبل کے روشن پاکستان کے لیے بہت ضروری ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن بدقسمتی سے ایکسپوز ہو گئی ہیں، یہ عوامی توقعات کے مطابق ڈیلیور نہیں کر سکیں۔
یہ دونوں پارٹیاں مستقبل میں مزید کمزور ہوں گی اور یہ اس وقت تک کمزور ہوتی رہیں گی جب تک یہ ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی کی طرح اپنی ازسر نو تعمیر نہیں کرتیں، یہ لوگ جب تک پارٹی کی نسوں میں نیا اور اہل خون نہیں لاتے، یہ لوگ جب تک اہلیت کو وفاداری کی جگہ نہیں دیتے اور پارٹیوں کی پالیسی میں یہ شفٹ اتنی جلدی نہیں آ سکے گی چنانچہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کے آج اور کل کے درمیان خوفناک ویکیوم موجود ہے، یہ ویکیوم عمران خان کو پُر کرنا چاہیے۔
عمران خان کو ویکیوم کیوں پُر کرنا چاہیے اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ، عمران خان لبرل مسلمان ہیں، یہ مذہبی شدت پسندی کے ہاتھوں مرتے ملک کو سہارا دے سکتے ہیں اور دو اگر عمران خان درمیان سے ہٹ گئے تو پاکستان کا یہ ویکیوم طالبان یا داعش پُر کرے گی اور وہ لوگ ملک کے لیے کتنے خوفناک ثابت ہوں گے آپ اس کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں لہٰذا عمران خان کا قائم رہنا اور آگے بڑھنا ملک کے لیے بہت ضروری ہے لیکن آگے بڑھنے سے قبل عمران خان کو خوابوں کی دھند سے نکل کر حقیقتوں کی روشنی میں آنا ہو گا، یہ جتنی جلد حقیقتوں کا ادراک کر لیں گے یہ ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا ورنہ دوسری صورت میں عمران خان اور ملک دونوں کا مستقبل اندھیروں کی نذر ہو جائے گا۔
ہم اب آگے بڑھنے سے قبل ماضی کے چند خوابوں اور ان سے جڑی چند حقیقتوں کا تجزیہ کرتے ہیں، مثلاً خواب یہ تھا عمران خان 14 اگست 2014ء کو لاہور سے نکلیں گے، لاہور کے دس لاکھ لوگ ان کے ہمراہ ہوں گے، یہ قافلہ مریدکے پہنچے گا اور حکومت ختم ہو جائے گی لیکن حقیقت مختلف تھی، حقیقت یہ تھی عمران خان کے ساتھ دس لاکھ لوگ نہیں نکلے، ایک لاکھ موٹر سائیکل بھی نظر نہیں آئے، خواب یہ تھا عمران خان اور علامہ طاہر القادری پارلیمنٹ ہاؤس، وزیراعظم ہاؤس اور پی ٹی وی پر یلغار کریں گے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف دو کور کمانڈرز کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس جائیں گے۔
وزیراعظم سے استعفیٰ لیں گے، عبوری حکومت بنائیں گے، نئے الیکشن ہوں گے، عمران خان وزیراعظم بنیں گے اور علامہ طاہر القادری کو صدر بنا دیا جائے گا لیکن حقیقت مختلف تھی، وزیراعظم ہاؤس، پارلیمنٹ ہاؤس اور پی ٹی وی پر یلغار ضرورہوئی، ایوان صدر اور پارلیمنٹ کے گیٹ بھی ٹوٹے، پی ٹی وی پر قبضہ بھی ہوا لیکن آرمی چیف نے وزیراعظم سے استعفیٰ لیا اور نہ ہی حکومت گئی، یہ درست ہے ملک میں اسٹیبلشمنٹ بہت مضبوط ہے لیکن اس بار سیاسی جماعتیں ڈٹ گئیں، یہ اختلافات کے باوجود پارلیمنٹ میں اکٹھی ہوئیں اور یوں دھرنا ناکام ہو گیا۔
خواب تھا علامہ طاہر القادری اور عمران خان حکومت جانے تک ریڈ زون میں قیام کریں گے لیکن علامہ طاہر القادری 21 اکتوبر 2014ء کو اسلام آباد سے رخصت ہو گئے اور عمران خان نے 17 دسمبر2014ء کو دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا، خواب تو یہ تھا عمران خان سول نافرمانی کا اعلان کریں گے اور ملک کے اٹھارہ کروڑ لوگ ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے، خواب تو یہ تھا عمران خان عوام کو پورا ملک بند کرنے کا حکم دیں گے اور خیبر سے لے کر کراچی تک پورا ملک جام ہو جائے گا، خواب تو یہ تھا عمران خان عوام سے اپیل کریں گے ہنڈی کے ذریعے رقم بھجوائیں اور باہر سے سرمایہ آنا بند ہو جائے گا۔
خان صاحب بجلی کے بل پھاڑیں گے اور عوام بجلی کے بل دینا بند کر دیں گے، خان صاحب عوام کو ٹیکس نہ دینے کا حکم دیں گے اور لوگ ٹیکس دینا بند کر دیں گے، یہ میڈیا کے بائیکاٹ کا اعلان کریں گے اور لوگ اخبار خریدنا اور ٹیلی ویژن چینلز دیکھنا بند کر دیں گے، یہ گو نواز گو اور گو زرداری گو کے نعرے لگائیں گے، اٹھارہ کروڑ لوگ ہم آواز ہو جائیں گے اور ملک کی ساری سیاسی قیادت کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے، یہ اعلان کریں گے ہم حکومت چلانا مشکل بنا دیں گے اور حکومت چلانا واقعی مشکل ہو جائے گا اور یہ پارلیمنٹ کو چور اور ڈاکوؤں کا ٹھکانہ کہیں گے۔
پارلیمنٹ کو جعلی قرار دیں گے اور عوام جعلی نمایندوں، چوروں اور ڈاکوؤں کو گھسیٹ کر باہر نکال دیں گے لیکن حقیقت خوابوں سے مختلف نکلی، ملک بند ہوا، عوام نے ہنڈی کا حکم مانا، قومی بینکوں سے سرمایہ نکالا، ٹیکس دینے سے انکار کیا، بجلی کے کنکشن کٹوائے، اخبارات اور چینلز کا بائیکاٹ کیا، لمبے عرصے کے لیے گو نواز گو اور گو زرداری گو کے نعرے لگائے، حکومت چلنی مشکل ہوئی اور نہ عوام نے جعلی نمایندوں کو گریبانوں سے پکڑ کر باہر گھسیٹا، یہ سارے خواب ٹوٹ گئے، خواب تھا ملک بدل جائے گا، ملک میں سونامی آ جائے لیکن حقیقت یہ ہے عمران خان اپنا ہر وہ فیصلہ، اپنا ہر وہ اعلان واپس لینے پر مجبور ہوئے جو انھوں نے کنٹینر، ریڈ زون اور پریس کانفرنس میں کیا تھا، آپ اعلانات کی فہرست نکال کر دیکھ لیجیے۔
آپ کو میری بات کا یقین آ جائے گا، کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا " میں نواز شریف کا استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں جاؤں گا" کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا " میں بجلی کا بل جمع نہیں کراؤں گا" کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا " میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا" کیا یہ اعلان نہیں ہوا " میں ملٹری آپریشن کی حمایت نہیں کروں گا" کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا " ہم نوے دنوں میں کرپشن ختم کریں گے اور بلدیاتی الیکشن کرائیں گے" اور کیا یہ اعلان نہیں ہوا تھا "نواز شریف کے استعفے تک مذاکرات نہیں کریں گے" لیکن ان اعلانات کا کیا نتیجہ نکلا؟ آپ کوئی ایک دعویٰ بتائیے جو پورا ہوا ہو، آپ کوئی ایک وعدہ بتائیے جومونڈے چڑھا ہو؟ حقیقت تو یہ ہے۔
آپ 17 دسمبرکو پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس اور 24 دسمبر کو اسلام آباد میں پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں اس میاں نواز شریف کے ساتھ بیٹھے جسے آپ صدی کا سب سے بڑا کرپٹ کہتے تھے اور آپ نے اس میاں نواز شریف کی تعریف کی جسے آپ چار ماہ برا بھلا کہتے رہے، حقیقت تو یہ ہے آپ نے اس پارلیمنٹ کی 21 ویں ترمیم کی بھرپور حمایت کی جسے آپ جعلی قرار دیتے تھے اور آپ نے اسی جعلی پارلیمنٹ کو 22 ویں ترمیم پاس کرنے کی ترغیب بھی دی جسے آپ اور آپ کے اتحادی گرا دینا چاہتے تھے، آگ لگا دینا چاہتے تھے، حقیقت تو یہ ہے آپ نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کر رکھا ہے لیکن آپ اسی قومی اسمبلی کے بالائی ایوان سینیٹ کا الیکشن لڑ رہے ہیں، آپ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں کو جعلی قرار دیتے ہیں لیکن آپ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے الیکشنوں میں اپنے امیدوار کھڑے کر رہے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے آپ اگر میاں نواز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف کی مخالفت سے نہ گھبراتے تو آپ 22 ویں ترمیم کے لیے اپنے ایم این ایز کو قومی اسمبلی میں بھجوا دیتے اور "اوئے نوازشریف" کے ساتھ مل کر 22 ویں ترمیم پاس کرا دیتے، حقیقت تو یہ ہے آپ نے سینیٹ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے یکم مارچ کو اسی آصف علی زرداری کو فون کیا جسے آپ ملک دشمن قرار دیتے تھے، حقیقت تو یہ ہے آپ نے سات لوگوں کو سینیٹ کے ٹکٹ دیے اور ان میں سے چار امیدوار انتہائی امیر اور با اثر ہیں، آپ کو پورے خیبر پختونخواہ میں کوئی ایسا امیدوار نہیں ملا جو پڑھا لکھا، ذہین اور ایماندار ہو مگر غریب ہو، آپ کو ذہانت، امانت اور تعلیم بھی ارب پتی لیاقت ترکئی، ارب پتی محسن عزیز اور بااثر چیف سیکریٹری کی بیگم میں نظر آئی۔
حقیقت تو یہ ہے آپ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی سیاسی بادشاہت کے خلاف ہیں لیکن آپ نے اپنی جماعت کے اندر خوفناک بادشاہت قائم کر رکھی ہے، آپ اختلاف رائے پر اپنے صدر جاوید ہاشمی تک کو فارغ کر دیتے ہیں، آپ پندرہ کروڑ روپے آفر کرنے والے کا نام تک نہیں بتاتے لیکن آزاد امیدوار کو سپورٹ کرنے والے جاوید نسیم کو پارٹی سے فارغ کر دیتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے آپ دوسری جماعتوں کے لوگوں کو درباری اور لوٹے قرار دیتے ہیں لیکن آپ آزاد کشمیر میں الیکشن لڑنے کے لیے بیرسٹر سلطان محمود جیسے ان لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کر لیتے ہیں جو چھ مرتبہ پارٹی تبدیل کر چکے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے آپ بہت جلد ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ملاقات کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ بھی کھانا کھائیں گے اور آپ بالآخر قومی اسمبلی میں بھی چلے جائیں گے کیونکہ قومی اسمبلی ہو، مولانا فضل الرحمٰن ہوں یا ایم کیو ایم ہو یہ بہرحال سیاسی حقیقتیں ہیں اور کوئی سیاسی جماعت زیادہ دیر تک ان سیاسی حقیقتوں سے دور نہیں رہ سکتی آپ کو بالآخر ان تین حقیقتوں کو بھی اسی طرح تسلیم کرنا پڑے گا جس طرح آپ 14 اگست سے یکم مارچ تک باقی حقیقتیں مانتے آ رہے ہیں اور آخری حقیقت!اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو ملک میں صاف اور شفاف الیکشن کا سسٹم بنانے کا موقع دیا تھا، یہ اگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ جاتے تو ملک میں الیکشن اصلاحات بھی ہو جاتیں، الیکشن کمیشن بھی آزاد ہو جاتا، نئی ووٹر لسٹیں بن جاتیں اور ملک میں بائیو میٹرک سسٹم بھی لگ جاتا لیکن خان صاحب نے یہ موقع بھی ضایع کر دیا چنانچہ مجھے خدشہ ہے ہمارے اگلے الیکشن بھی پچھلے الیکشنوں کی طرح کمزور، دھاندلی زدہ اور غلط ہوں گے۔
میں تسلیم کرتا ہوں عمران خان ملک کے لیے ضروری ہیں، یہ نہ رہے تو ملک داعش کے قبضے میں چلا جائے گا، میں یہ بھی مانتا ہوں عمران خان کے مطالبات درست ہیں، ہمارے ملکی نظام میں واقعی خرابیاں ہیں اور ہم اگر ملک چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ خرابیاں دور کرنا ہوں گی، میں یہ بھی مانتا ہوں حکومت میں ملکی مسائل سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں، حکومت آج بھی اہل لوگوں کی ٹیم بنانے کے بجائے وفاداروں کا لشکر جمع کر رہی ہے اور میں یہ بھی مانتا ہوں حکومت کو جوڈیشل کمیشن بنانا چاہیے۔
ہم جب تک ماضی کا گند صاف نہیں کریں گے، ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے لیکن مجھے اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کے طریقہ کار پر کل بھی اعتراض تھا، آج بھی اعتراض ہے اور اس دن تک اعتراض رہے گا جب تک یہ طریقہ کار نہیں بدلتے، یہ اپنی غلطیاں نہیں مانتے، یہ قومی اسمبلی میں نہیں آتے، یہ اصلاحات نہیں کرتے، خان صاحب کو ایوان میں آنا چاہیے اور ایوان کے اندر سے تبدیلی لانی چاہیے، عمران خان کو ماننا ہو گا یہ سڑکوں کے ذریعے ملک کو تباہ تو کر سکتے ہیں لیکن تبدیل نہیں کر سکتے۔