حضرت امام حسینؑ اتمام حجت فرماچکے تھے، وہ واپس اپنے خیمہ کی طرف مڑے لیکن مالک بن عروہ اپنا گھوڑا لے کر سامنے آگیا، لشکر امام کے گرد آگ جل رہی ہے، وہ گستاخ مسکرایا اور کہا" اے حسینؑ! تم نے دوزخ کی آگ یہیں لگا لی (نعوذ باللہ)، حضرت امام حسینؑ نے اس کا گستاخانہ جملہ سن کرفرمایا "اے دشمن خدا تو جھوٹا ہے" مسلم بن سجوعہ نے اس کے منہ پر تیر مارنا چاہا مگر سیدنا حضرت امام حسینؑ نے فرمایا "خبر دار! میری طرف سے کوئی جنگ کی ابتدا نہیں کرے گا" یہ فرما کر امام عالی مقام نے اپنا دست مبارک بارگاہ خدا وندی میں اٹھایا اور عرض کیا "یا اللہ! عذاب دوزخ سے قبل اس گستاخ کو دنیا کی آتش میں مبتلا کردے"۔
ابھی امام عالی مقام کے اٹھے ہاتھ نیچے نہیں آئے تھے کہ مالک بن عروہ کے گھوڑے کا پاؤں زمین کے ایک سوراخ میں پھنس گیا، وہ گھوڑے سے گرا، اس کا پاؤں رکاب میں الجھا، گھوڑا اسے لے کر بھاگ کھڑا ہوا اور اسے آگ کی خندق میں ڈال دیا۔ ایک اور گستاخ نے حضرت امام حسینؑ کے سامنے آ کر کہا "اے حسینؑ! دیکھ دریائے فرات کیسے موجیں مار رہا ہے، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں، تمہیں اس میں سے ایک قطرہ بھی نہیں ملے گا، تم پیاسے ہی مر جاؤ گے" (نعوذ باللہ)۔ امام عالی مقام نے پھر بارہ گاہ الٰہی میں عرض کیا "یا اللہ اس کو پیاسا مار دے"آپؑ کا یہ فرمانا تھا، اس گستاخ کا گھوڑا بھی بھاگ کھڑا ہوا، وہ شخص گھوڑے کو پکڑنے کے لیے دوڑا اور اچانک اس پر پیاس کی شدت غالب آ گئی اور العطش العطش پکارنے لگا، لوگ پانی اس کے منہ کو لگاتے تھے لیکن وہ پانی کا ایک قطرہ تک پی نہیں پاتا تھا حتیٰ کہ وہ اسی طرح پانی پانی پکارتا مر گیا"۔
ہم اگر اسلامی دنیا اورمسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ تلاش کریں تو ہم بے اختیار کہہ اٹھیں گے، کریکٹر، مسلمان 14 سو سال سے کریکٹر کی وجہ سے مار کھا رہے ہیں، ہماری صفوں میں ہر دور میں ابن زیاد اور شمر جیسے لوگ شامل ہو جاتے ہیں اور یہ شمر اپنے چند برسوں کے مفاد اور تھوڑے سے فائدے کے لیے حضرت امام حسینؑ جیسی شخصیات کو اپنے گھوڑوں کے سموں تلے روند دیتے ہیں، ہم لوگ اندر سے کیسے ہیں، آپ صرف کربلا کے سانحے کی تفصیلات پڑھ لیں، آپ مسلمانوں کے کریکٹر سے آگاہ ہو جائیں گے۔
کوفہ کے چند لوگ حضرت امام حسینؑ کے پاس آئے، آپؑ نے ان سے دریافت کیا" تمہاری پارٹی کے لوگوں کا کیا خیال ہے؟" مجمع بن عبداللہ العامری نے جواب دیا" سر برآوردہ قسم کے لوگ آپ کے خلاف جتھہ بنائے ہوئے ہیں، ان کو بڑی بڑی رشوتیں مل چکی ہیں، حکومت نے ان کی خواہشات پوری کر دی ہیں، وہ سب آپ کے خلاف برسر پیکار ہوں گے، رہے عوام تو ان کے دل آپ کی جانب مائل ہیں مگر ان کی تلواریں کل آپ کے خلاف اٹھیں گی"۔ عبید اللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کو بھیجا، حضرت امام حسینؑ نے فرمایا" عمر! میری تین باتوں میں سے کوئی ایک بات مان لو" وہ خاموش رہا، آپؑ نے فرمایا " مجھے واپس جانے دو، میں جیسے آیا ہوں ویسا ہی واپس چلا جاتا ہوں۔
اگر اس سے انکار کرتے ہو تو پھرمجھے یزید کے پاس لے چلو ہم دونوں اپنا فیصلہ خود کر لیں گے اور اگر یہ بھی پسند نہیں تو پھر مجھے ترکوں کی طرف جانے دو " عمر بن سعد نے یہ پیغام ابن زیاد تک پہنچادیا، عمر بن سعد کا خیال تھا، ہمیں حضرت امام حسینؑ کو یزید کے پاس بھیج دیناچاہیے مگر شمر ذی الجوشن نہیں مانا، اس کا کہنا تھا، حضرت امام حسینؑ کو آپ کا حکم ماننا چاہیے، یہ بات حضرت امام حسینؑ تک پہنچادی گئی، آپؑ نے فرمایا "میں یہ نہیں کروں گا" عمر بن سعد حضرت امام حسینؑ سے لڑنے کے لیے تیار نہیں تھا، ابن زیاد نے شمر ذی الجوشن کو بھیج دیا اور اسے حکم تھا" اگر عمرجنگ کے لیے تیار نہ ہوتواسے قتل کر دو اور اس کی جگہ لے لو، حضرت امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بھی بند کر دو"۔ امام عالی مقام اور ان کے ساتھی سب تلواریں حمائل کیے ہوئے تھے، حضرت امام حسینؑ نے اپنے ساتھیوں سے کہا پانی پی لو، اپنے گھوڑوں کو بھی پلاؤ اور دشمنوں کے گھوڑوں کو بھی پانی پینے دو۔
عمر بن سعد اور شمر ذی الجوشن نے حضرت امام حسینؑ اوران کے ساتھیوں کا نویں محرم کی شام گھیراؤ کر لیا، اس رات حضرت امام حسینؑ نے اپنے اہل خاندان کو وصیت کی، اپنے ساتھیوں کے سامنے تقریر کی اور ان کو اختیار دیا، آپ جانا چاہیں تو چلے جائیں، آپؑ نے فرمایا، میں دشمنوں کا تنہا ہدف ہوں لیکن ان کے بھائیوں، صاحبزادوں اور بھائیوں کے صاحبزادوں نے جواب دیا، آپؑ کے بعد ہماری زندگی بے کار ہے۔
اللہ ہم کووہ نہ دکھائے جسے ہم پسند نہیں کرتے، حضرت عقیلؓ کے صاحبزادوں نے کہا، ہماری جانیں، ہمارے مال اور ہمارے اہل و عیال سب آپؑ پر قربان ہوں، جو انجام آپؑ کا ہوگا وہ ہمارا ہو گا، آپؑ کے بعد ہمارے زندہ رہنے پر تف ہے۔ جمعہ کے دن صبح کی نماز حضرت امام حسینؑ نے ادا کی، (بعض روایات کے مطابق ہفتہ کا دن تھا)، آپ کے ساتھیوں میں بتیس سوار اور چالیس پیدل تھے، حضرت امام حسینؑ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے، آپؑ نے قرآن کریم اپنے سامنے رکھ لیا، آپؑ کے صاحبزادے علی بن حسین (حضرت زین العابدین) بیمار اور کمزور تھے۔
وہ بھی جنگ کے لیے تیار ہوئے لیکن آپؑ نے ان کو روک دیا، حضرت امام حسینؑ دشمن کے سامنے پہنچے توآپ انھیں یاد دلانے لگے، لوگو! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں، اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو، تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبیؐ کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہؓ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیارؓ میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ ﷺکا وہ قول یاد نہیں جو انھوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا، یہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے؟ حر بن یزیدکے دل پر اس تقریر کا اثر ہوا، وہ دشمن کی صفوں سے نکل کر آپؑ سے مل گئے۔
شمر آگے بڑھا اور حضرت امام حسینؑ کے رفقاء پر حملے شروع کر دیے، آپؑ کے ساتھی آپؑ کے سامنے جنگ کرتے رہے، آپؑ ان کے لیے دعا کرتے رہے، وہ تمام آپؑ کے سامنے شہید ہو گئے۔ آخر میں شمر نے آواز لگائی" اب حضرت حسینؑ کی باری ہے، انتظار کس چیز کا ہے؟" یہ آواز سن کر زرعہ بن شریک آپؑ کی طرف بڑھا اور آپ کے شانہ مبارک پر وار کیاپھر سنان بن انس نے تیر چلایا جس سے آپؑ گر گئے، شمر آپؑ کی طرف بڑھا اور پیچھے سے وار کر کے سر مبارک تن سے جدا کر دیا، حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے بعد ان کے جسم اطہر کو دیکھا گیا تو اس پر نیزوں کے33 نشان تھے جب کہ دوسری ضربوں کے اس وقت 34 آثار تھے، حضرت امام حسینؑ کے ساتھ 72 جاں نثار شہید ہوئے، حضرت امام حسینؑ جس روز شہید ہوئے وہ عاشورہ جمعہ کا دن تھا، محرم کا مہینہ اور سنہ 61ہجری تھا، آپ کی عمر مبارک اس وقت 56 سال، پانچ ماہ اور پانچ دن تھی۔
آپ ملاحظہ کیجیے ہم کریکٹر میں کس قدر کمزور ہیں، شمر کے لشکر نے حضرت امام حسینؑ کی شہادت کے بعد اہل بیت کے خیموں کو گھیرا اور اہل بیت کا مال و متاع لوٹنا شروع کر دیا، آٹھ دس سال کی ایک چھوٹی سی بچی کے ہاتھ میں سونے کے کنگن تھے، ایک ظالم نے بچی کا بازو پکڑا اور کنگن اتارنا شروع کر دیے، وہ کنگن اتارتا جاتا تھا اور ساتھ ساتھ روتا جاتا تھا، بچی نے روتے روتے اس سے پوچھا "چچا میں تو نواسہ رسول کے غم میں رو رہی ہوں، تم کیوں رو رہے ہو"اس بدبخت نے جواب دیا "میں جب آپ کے خیموں کو آگ سے جلتے دیکھتا ہوں۔
حضرت امام حسینؑ کا لاشہ دیکھتا ہوں، حضرت علیؓ شیر خدا کے خاندان کو کربلا کی ریت پر خون میں لت پت دیکھتا ہوں تو میری آنکھیں ابل آتی ہیں" بچی نے پوچھا " پھر چچا آپ میرے کنگن کیوں اتار رہے ہیں" بدبخت نے جواب دیا " میں یہ کنگن اس لیے اتار رہا ہوں کہ یہ اگر میں نہیں اتاروں گا تو یہ کوئی دوسرا اتار لے گا" آپ ہم مسلمانوں کا کریکٹر ملاحظہ کیجیے، واقعہ کربلا کے برسوں بعد کوفہ کے چند علماء کرام حضرت زین العابدین کے پاس آئے اور آپ سے پوچھا " حضرت یہ فرمائیے گا کیا ہم مسلمان مچھر مار سکتے ہیں" آپ نے اداس لہجے میں جوب دیا " آپ کیسے لوگ ہیں، آپ نے حضرت امام حسینؑ کو کربلا میں شہید کر دیا لیکن مچھر مارنے کے لیے فتویٰ تلاش کر رہے ہیں" ہم آج بھی ایسے ہی ہیں، ہم بڑے سے بڑا ظلم کرتے ہوئے، ایک سیکنڈ نہیں سوچتے، اس ملک میں دس برسوں میں پچاس ہزار بے گناہ لوگ مار دیے گئے۔
کسی نے کسی سے نہیں پوچھالیکن ہم آج بھی پولیو کی ویکسین کے لیے فتوے تلاش کر رہے ہیں، ہم ہر سال غم حسینؑ بھی مناتے ہیں اور مسلمان ہونے کے باجود کسی دوسرے مسلمان کو عزت سے زندگی بھی نہیں گزارنے دیتے، حضرت امام عالی مقام نے فرمایا تھا " میرے لیے موت کی آغوش کسی فاسق شخص کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے ہزار درجے بہتر ہے" لیکن ہم لوگ فاسقوں کے ساتھ بھی رہتے ہیں اور خود کو حضرت امام حسینؑ کا غلام بھی کہتے ہیں، ہم شمر جیسی ظالمانہ زندگی گزارتے ہیں لیکن عزت حضرت امام حسینؑ جیسی چاہتے ہیں، ہم کیسے لوگ ہیں؟ کیا ہم اس کریکٹر کے ساتھ دنیا اور آخرت میں اللہ کی مہربانی کے حق دار ہو سکتے ہیں۔