علامہ طاہر القادری صاحب میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں، آپ امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے عظیم خطیب ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لفظوں کو مقناطیسی قوت ودیعت کر رکھی ہے، آپ دلوں کو گرفت میں لے لیتے ہیں، میں زمانہ طالب علمی میں آپ کے سالانہ اجتماع میں جاتا تھا، میں ساری رات آپ کی تقریر سنتا تھا اور اکثر اوقات بارش یا سردی کی وجہ سے بیمار واپس لوٹتا تھا، میں نے آپ کی درجنوں کتابیں بھی پڑھیں اور مجھے آپ کے انٹرویوز کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی، میں تاریخ کے مطالعے اور آپ کے خطبات سن کر چند نتائج پر پہنچا ہوں اور میں یہ نتائج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، مجھے یقین ہے آپ مائنڈ نہیں کریں گے۔
علامہ صاحب! پاکستانی جنیاتی لحاظ سے جمہوری اور لبرل لوگ ہیں، پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جو جنگ کے بجائے ووٹ کے ذریعے بنے ہیں، امریکا ہو، کینیڈا ہو، لاطینی امریکا کے 21 ممالک ہوں، پورا یورپ ہو، افریقہ ہو، عرب ممالک ہوں، روسی ریاستیں ہوں، مشرق بعید کے ممالک ہوں یا پھر چین اور جاپان ہوں دنیا کے ہر خطے کے لوگوں کو آزادی کے لیے طویل جنگ لڑنا پڑی، وہاں فوجی لڑائی بھی ہوئی اور چھاپہ مار کارروائیاں بھی، ہزاروں لوگ مارے گئے اور لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے، آپ دنیا کے کسی ملک میں چلے جائیں، آپ کو وہاں آزادی کی جنگ میں شہید ہونے والے سپاہیوں کی یادگاریں ملیں گی لیکن آپ کو یہ یاد گار پاکستان میں نظر نہیں آئے گی، کیوں؟ کیونکہ ہم نے آزادی جنگ لڑ کر نہیں لی تھی، ووٹ کے ذریعے حاصل کی تھی۔
ہندوستان کے مسلمانوں نے آزادی کے لیے سو سال جمہوری جدوجہد کی یہاں تک کہ انگریزسرکارمسلمانوں کو الگ ملک دینے پر مجبور ہوگئی اور آپ یہ بات ذہن میں رکھیں، ہم مسلمان جنگجو قوم ہیں، ہم چودہ سو سال سے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے ہیں اور دنیا میں کوئی ایک ایسا اسلامی ملک نہیں جس نے پچاس سال امن میں گزارے ہوں لیکن ہم نے ملک ووٹ کے ذریعے بنایا، یہ حقیقت ثابت کرتی ہے ہم جنگجو ہیں لیکن ہم ملک کے فیصلے ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں، ووٹ ہمارے جینز میں شامل ہیں، دوسری حقیقت، ہم لوگ مذہبی ہیں، ہم میں سے ہر شخص اللہ اور رسولؐ پر جان دینا سعادت سمجھتا ہے، ہماری مسجدیں آباد رہتی ہیں، ہم رمضان کا اہتمام کرتے ہیں، ہمارے ملک میں لاکھوں چھوٹے بڑے مدرسے ہیں اور یہ تمام مدارس عوام کے چندے سے چل رہے ہیں، پاکستان دنیا میں چیریٹی کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے۔
پاکستان بننے کے بعد ملک میں مسجدوں کی تعداد میں ہزار گنا اضافہ ہوا، آج بھی ملک کی بڑی سے بڑی سیاسی جماعت سال میں اتنے لوگ جمع نہیں کر سکتی جتنے لوگ درمیانی سطح کی عام مذہبی جماعت ایک دن میں اکٹھے کر لیتی ہے لیکن جب ملک کی قیادت کی بات آتی ہے تولوگ ہمیشہ لبرل لیڈروں کو ووٹ دیتے ہیں، ملک بنانا ہو یا چلانا، عوام قائداعظم، خان لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور عبدالرب نشتر جیسے بے ریش اور لبرل لوگوں پر اعتماد کرتے ہیں، یہ حقیقت ہے ملک بنانے والوں نے کسی دارالعلوم سے تعلیم حاصل کی تھی اور نہ ہی چلانے والوں نے، آپ غلام محمد سے لے کر میاں نواز شریف تک پاکستان میں مینڈیٹ لینے والے کسی سیاستدان کا پروفائل دیکھ لیجیے، آپ کو ان میں کوئی شخص امام، مفتی یا علامہ نہیں ملے گا.
علامہ اقبال کو بھی ہم علامہ اقبال کہتے ہیں، علامہ صاحب پوری زندگی خود کو محمد اقبال اور ان کے ساتھی انھیں ڈاکٹر صاحب کہتے رہے، علامہ اقبال نے کسی کو اپنے نام کے ساتھ علامہ نہیں لکھنے دیا تھا، آپ قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم اور جواہر لال نہرو کی حلف برداری کی تقریبات کی البم دیکھ لیجیے، آپ کو جواہر لال نہرو کے ساتھ علماء کرام کی تصویریں ملیں گی قائد اعظم کے ساتھ نہیں، مولانا ابوالکلام آزاد نہرو کے ساتھ تھے، قائداعظم کے ساتھ نہیں تھے، قیام پاکستان سے قبل ہندوستان علماء کرام کا مدینہ دوم کہلاتا تھا، یہاں دنیا کے بڑے دارالعلوم اور علماء کرام تھے لیکن ملک بنانے کی سعادت ایک ایسے شخص اور ایسی ٹیم کو نصیب ہوئی جو مولانا تھا، مفتی تھا اور نہ ہی امیر شریعت تھا اور جس نے 50 سال سوٹ پہنا، ٹائی لگائی، بوٹ پہنے، ہیٹ رکھا اور کتے پالے۔ لوگ آج بھی علماء کرام کے کہنے پر جان لے اور دے سکتے ہیں لیکن لوگ کسی مذہبی سیاسی جماعت کو مینڈیٹ نہیں دیتے، لوگ آج بھی مذہبی جماعتوں پر تن، من اور دھن وار دیں گے لیکن یہ ووٹ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف ہی کو دیں گے۔
ملک میں تیس سال بعد کسی پارٹی نے جنم لیا، یہ پارٹی پاکستان تحریک انصاف ہے اور یہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ دونوں سے زیادہ لبرل ہے اور کیا یہ حقیقت نہیں، افغانستان پر امریکی حملے اور طالبان کے خوف کے باوجود ملک میں کوئی بڑی مذہبی سیاسی جماعت پیدا نہیں ہو سکی؟ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کی جڑیں بہت مضبوط ہیں، یہ جماعتیں قدیم بھی ہیں لیکن یہ بھی آج تک عمران خان جتنی مقبولیت حاصل نہیں کر سکیں، آپ نے مئی 1989ء میں پاکستان عوامی تحریک کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تھی، ملک میں آپ کے لاکھوں مریدین ہیں، آپ نے دو کامیاب لانگ مارچ اور دھرنے بھی دیے لیکن آپ کی سیاسی جماعت کامیاب ہوئی اور نہ ہی آپ کے لوگ پارلیمنٹ میں پہنچ سکے، کیوں؟ کیونکہ لوگ مذہبی جماعتوں کو سیاسی یونیفارم میں قبول نہیں کرتے۔
مولانا! پاکستانی آئین پرست لوگ ہیں، ہمارے ملک میں 68 برسوں میں چار مارشل لاء لگے لیکن کوئی آمر دس سال سے زیادہ اقتدار میں نہ رہ سکا، ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک عوام نے ملک کے تمام آمروں کو گھسیٹ کر ایوان اقتدار سے باہر نکالا، ملک کی 68 برسوں کی تاریخ میں کوئی جمہوری حکومت لانگ مارچ یا دھرنے کے ذریعے رخصت نہیں ہوئی، حکومتوں کو بھجوانے کے لیے ہر بار فوج کو ایکٹو ہونا پڑا، آج آپ اور عمران خان جیسے پاپولر لیڈر باہر نکلے ہیں تو عوام آپ کے انقلاب کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے، آپ 30 دن سے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بیٹھے ہیں لیکن ملک کے کسی حصے میں آپ کے حق میں جلوس نہیں نکلا، لوگ اگر آپ کے انقلاب کو پسند کرتے تو آج کروڑوں لوگ ملک کی سڑکوں پر ہوتے اور حکمرانوں کو بھاگنے کا راستہ نہ ملتا لیکن حقیقت تو یہ ہے آپ دونوں کنٹینر میں محصور ہیں جب کہ ظالم حکمران ملک بھر میں آزاد پھر رہے ہیں، کوئی انھیں روک نہیں رہا، یہ حقیقت کیا ثابت کرتی ہے؟ یہ ثابت کرتی ہے آپ کے چاہنے والے کتنے ہی کیوں نہ ہوں یہ آپ کے کسی غیر آئینی قدم کو سپورٹ نہیں کریں گے۔
آپ کو میاں نواز شریف کو ہٹانے، پارلیمنٹ کو توڑنے اور آئین کو معطل کرنے کے لیے بہرحال فوج کی مدد لینا پڑے گی، آپ صرف دھرنے سے آئین اور پارلیمنٹ کو شکست نہیں دے سکیں گے، تیسری بات، مولانا آپ ہمیشہ انقلاب فرانس اور انقلاب روس کی مثال دیتے ہیں، یہ دونوں واقعی عوامی انقلاب تھے لیکن آپ نے کبھی غور کیا یہ دونوں انقلاب صرف فرانس اور روس میں کیوں آئے، یہ جرمنی، اسپین، جاپان اور ہندوستان میں کیوں نہیں آئے؟ ہندوستان میں 1920ء میں کمیونزم کی تحریک شروع ہوئی تھی، یہ آج تک پورے ہندوستان کو متاثر نہیں کر سکی، کیوں؟ کیونکہ مولانا! فرانس 1789ء اور روس 1917ء میں زرعی ملک تھے، کسان غلہ اگاتا تھا، خود بھوکا رہ جاتا تھا اور اناج بادشاہ کے کارندے اٹھا لے جاتے تھے، یہ ظلم کسانوں سے برداشت نہ ہو سکا، وہ باہر نکل آئے اور انقلاب آ گیا، یہ انقلاب ہندوستان سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں میں اس لیے نہیں آیا کہ یہ ملک فرانس اور روس جتنے زرعی بھی نہیں تھے اور ان میں فرانس اور روس جتنی خوفناک بادشاہتیں بھی نہیں تھیں۔
دنیا اب زراعت سے آگے نکل چکی ہے، یہ صنعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سروسز کے دور میں داخل ہو چکی ہے چنانچہ دنیا میں اب فرانس اور روس جیسے انقلاب نہیں آتے، دنیا میں اب افغانستان، عراق، لیبیا، مصر اور تیونس جیسے "فارن فنڈڈ" انقلاب آتے ہیں اور ان انقلابوں کے بعد لوگ روٹی روٹی کو بھی ترس جاتے ہیں اور لوگوں کا فرقہ، لوگوں کی زبان اور لوگوں کی نسل ان کا ڈیتھ وارنٹ بھی بن جاتی ہے، آپ چیکو سلواکیہ سے لے کر عراق تک پچھلے تیس برسوں میں آنے والے " انقلاب" دیکھ لیجیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا ان انقلابوں کے بعد وہ ملک بچ گئے اور کیا ان کے عوام آج امن سے زندگی گزار رہے ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں! اور آخری بات مولانا ہم جو اسلامی ریاست تخلیق کرنا چاہتے ہیں، وہ اس وقت 58 اسلامی ممالک میں کسی جگہ موجود نہیں اور ہم مسلمان وہ ریاست 14 سو سال میں تخلیق نہیں کر سکے، ہم پھر یہ پاکستان میں کیسے تخلیق کریں گے؟
مولانا ہم سب اس ملک میں انقلاب لانا چاہتے ہیں، میں بھی آپ کی طرح انقلابی ہوں، میں بھی غریب کو امیر کے برابر دیکھنا چاہتا ہوں لیکن ہمیں اس کے لیے اسلام کی اصل اسپرٹ کی طرف جانا پڑے گا، اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے ریاست پہلے تخلیق کی اور دین بعد میں مکمل ہوا، آپ بھی اگر انقلاب لانا چاہتے ہیں تو آپ ملک کے کسی ایک شہر کو مدینہ بنا دیں، آپ طیب اردگان کی طرح ملک کا کوئی چھوٹا سا قصبہ منتخب کریں اور اس قصبے کو مدینہ یا قرطبہ بنا دیں، آپ وہاں انصاف قائم کر دیں، گورے اور کالے اور چوہدری اور کمی کو برابر کر دیں۔ شہر کے تمام لوگوں کو روزگار فراہم کر دیں، شہر سے چوری چکاری، زناکاری، فحاشی، لڑائی جھگڑا اور قتل و غارت گری ختم کر دیں، آپ کے شہر میں لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے جائیں اور عورتیں زیورات سے لد کر باہر نکلیں اور کوئی شخص ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے، آپ کا شہر صفائی ستھرائی میں بھی مثالی ہو، آپ کے شہر کے تمام بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں اور آپ کے شہر میں لوگوں کو صحت کی سہولت بھی برابر مل رہی ہو، آپ یقین کیجیے آپ کو ملک میں انقلاب کے لیے کوئی لانگ مارچ کرنا پڑے گا اور نہ ہی دھرنا دینا پڑے گا، لوگ چل کر آپ کے پاس آئیں گے اور اپنے شہروں کی چابیاں آپ کے قدموں میں رکھ دیں گے ورنہ دوسری صورت میں آپ اقتدار کے ایوانوں کے سامنے اوپن ائیر حمام تو قائم کر دیں گے مگر آپ اقتدار کے ایوانوں میں داخل نہیں ہو سکیں گے، آپ لوگوں کا مقدر نہیں بدل سکیں گے۔