Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Moscow Ya China

Moscow Ya China

قوموں کی تباہی کی دوسری بڑی وجہ کرپشن ہوتی ہے، کرپشن اور غربت دونوں جڑواں بہنیں ہیں، دنیا میں جہاں کرپشن ہو گی وہاں غربت بھی ہو گی اور جہاں غربت ہوگی وہاں کرپشن بھی ہو گی، آپ اگر کسی معاشرے کو امیر بنانا چاہتے ہیں تو آپ وہاں سے کرپشن ختم کر دیں، وہاں سے غربت ختم ہو جائے گی، آپ اگر اسی طرح کسی معاشرے کو غریب بنانا چاہتے ہیں تو آپ وہاں کرپشن کا کلچر پروان چڑھا دیں، دنیا کی امیر ترین سوسائٹی بھکاری بن جائے گی، آپ روس کی مثال لے لیجیے، سوویت یونین کے دور میں روس دنیا کا واحد ملک تھا جس میں سو فیصد تعلیم، سو فیصد روزگار، سو فیصد امن اور سو فیصد انصاف تھا، آپ کو پورے ملک میں کوئی بھکاری ملتا تھا اور نہ ہی عصمت فروش، آپ اس دور میں ایک روبل دیتے تھے اور آپ کو دو ڈالر ملتے تھے لیکن پھر وہاں کرپشن شروع ہو گئی، سوسائٹی کرپٹ ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ سوویت یونین کے تارپور ہل گئے اور اس کے بعد روس کی یہ حالت ہوگئی آپ ایک امریکی ڈالر دیتے تھے اور آپ کو اس کے بدلے میں پانچ ہزار روبل ملتے تھے۔

یورپ، امریکا، مشرق بعید، مشرق وسطیٰ اور بھارت کے قحبہ خانے روسی خواتین سے بھر گئے، آج بھی آپ کو یورپ کی ہر تیسری عصمت فروش عورت روسی ملے گی یا پھر اس کا تعلق سوویت یونین کے کسی سابق ملک سے ہو گا، بے روزگاری انتہا کو چھو رہی ہے، تعلیم کا یہ حال ہے روس نے جولائی 2013ء میں 700 اسکول بند کر دیے، جرائم کی حالت یہ ہے آج ریڈ مافیا دنیا کا سب سے بڑا مافیاہے، یہ سسلی اور کولمبیا کے مافیاز کو پیچھے چھوڑ چکا ہے، ریڈ مافیا نے ماسکو میں "ٹیلی فونک جسٹس سسٹم" متعارف کروا دیا ہے، آپ کسی بھی عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ کروانا چاہتے ہیں تو آپ ریڈ مافیا سے رابطہ کریں، یہ آپ سے رقم وصول کریں گے، آپ کے سامنے جج کو فون کریں گے، اسے ہدایت جاری کریں گے، اگر جج مان گیا تو درست ورنہ دوسری صورت میں آپ کے فیصلے سے قبل جج دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔

اس صورتحال کی وجہ سے روسی امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں، ماسکو اس وقت دنیا کے ارب پتیوں کی جنت کہلاتا ہے، دنیا کے 96 ارب پتی اس وقت روس یا ماسکو میں ہیں جب کہ دوسری طرف غریب اس قدر غریب ہو رہا ہے کہ اسکول اور کالج کی بچیاں دوران تعلیم عصمت فروش بن جاتی ہیں، دنیا کی ستر فیصد "پورنو گرافکس سائیٹس" روس سے اسٹارٹ ہوتی ہیں، آپ کو ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں سوویت یونین کے سابق فوجی پوری یونیفارم میں میڈلز کے ساتھ بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں، کرپشن کی حالت یہ ہے صدر پیوٹن سمیت نوے فیصد ارکان اسمبلی سیاست کے ساتھ ساتھ کاروبار کر رہے ہیں اور روس کے ہر چھوٹے بڑے ٹھیکے میں صدر پیوٹن یا اس کی فیملی کا حصہ ہوتا ہے۔

آپ اگر تھوڑا سا ماضی میں چلے جائیں تو آپ کو نائیجیریا کے جنرل سانی اباچہ، زائرے کے صدر موبوتو، انڈونیشیا کے صدر سوہارتو، فلپائن کے مارکوس اور ان کی کرپٹ بیگم املیڈا مارکوس اور بھارت کی مایاوتی، جے للیتا اور لالو پرشاد جیسے کرپشن کے "روشن" ستارے دکھائی دیں گے، جنرل سانی اباچہ کو ایک دور میں دنیا کے کرپٹ ترین سربراہ مملکت کااعزاز حاصل تھا، ان کی ذاتی دولت چھ ارب ڈالر سے زائد تھی، یہ پانچ سو جائیدادوں کے مالک تھے، یہ بچوں کی ویکسین تک سے 88 ملین ڈالرلیتے تھے، جنرل اباچہ نے ذاتی کمپنی بنائی، حکومت سے ویکسین کے لیے 111 ملین ڈالر وصول کیے، ذاتی کمپنی کے ذریعے 23 ملین ڈالر کی ویکسین فراہم کی اور 88 ملین ڈالر جیب میں ڈال لیے، یہ پوری پوری رات داشتائوں میں بھی گھرے رہتے تھے، زائرے کے صدر موبوتو کو "مین آف ٹین بلین ڈالر" کہا جاتا تھا، یہ زائرے سے گزرنے والی ہوائوں تک سے اپنا حصہ وصول کرتے تھے، فلپائن کے مارکوس اور ان کی بیگم املیڈا کرپشن کے شہنشاہ تھے۔

املیڈا مہنگے جوتے خریدنے کے خبط میں مبتلا تھی، احتساب کے دوران اس کے گھر سے چار ہزار جوتے برآمد ہوئے، یہ جوتے آج بھی عجائب گھر میں رکھے ہوئے ہیں، انڈونیشیا کے صدر سوہارتو کی کرپشن الف لیلوی داستان ہے، صدر سوہارتو کے تین بیٹے، تین بیٹیاں، دو پوتے اور ایک سوتیلا بھائی دس سال تک انڈونیشیا کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے، سوہارتو خاندان 1250 کمپنیوں میں حصے دار تھا اور اس کے اثاثے 25 ارب ڈالر کے برابر تھے، آپ حد ملاحظہ کریں انڈونیشیا کا آئل بزنس صدر سوہارتو کی داشتائوں نے آپس میں تقسیم کر رکھا تھا، بھارت کی مایا وتی، جے للیتا اور لالوپرشاد بھی کیا خوب لوگ ہیں، جے للیتا ایکٹریس تھی، چار مرتبہ تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ منتخب ہوئی، 1997ئمیں اس کے گھر پر چھاپا پڑا تو اس کے گھر سے 28 کلو جیولری، 91 قیمتی گھڑیاں، ساڑھے دس ہزار ساڑیاں اور ساڑھے سات سو جوتے برآمد ہوئے، مایا وتی دلت قوم کی غریب خاتون تھی۔

یہ بھی چار مرتبہ اتر پردیش کی وزیراعلیٰ بنی اور اس نے صرف پارٹی چندے کی مد میں اتنی رقم جمع کر لی کہ اس نے ساڑھے 26 کروڑ روپے ٹیکس ادا کیا، یہ ٹیکس بھارت کے امیر ترین بزنس مین مکیش امبانی کے ادا کردہ ٹیکس سے بھی زیادہ تھا، رہ گیا بہار کا لالو پرشاد تو اس کے بارے میں لطیفہ مشہور تھا، جاپانیوں نے لالوپرشاد سے کہا آپ بہار ہمارے حوالے کر دیں ہم اسے چھ ماہ میں جاپان بنا دیں گے، لالو پرشاد نے جواب میں کہا، آپ جاپان مجھے دے دیں میں اسے چھ ماہ میں بہار بنا دوں گا اور آپ اس کے بعد پاکستان کی مثال لیجیے، پاکستان اس وقت کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 34 ویں نمبر پر ہے، حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر روز 7 ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں، یہ دنیا کے ان چند ممالک میں شمار ہوتا ہے جس کے صدر، سابق وزیراعظم، کابینہ کے وزراء، وزراء اعلیٰ اور گورنرز تک پر کرپشن کے الزامات ہیں، صدر آصف علی زرداری کے خلاف سپریم کورٹ تک حکم جاری کر چکی ہے۔

دنیا میں کرپش صرف بالائی طبقے تک محدود نہیں رہتی، حکمران جب کرپٹ ہوتے ہیں تو اس کا جراثیمی اثر چند دنوں میں انتہائی نچلے طبقوں تک پہنچ جاتا ہے، آپ اگر ایوان اقتدار میں چور بٹھا دیں گے تو آپ عوام کو ڈاکو بننے سے نہیں روک سکیں گے، اگر صدر پیوٹن کرپشن کرے گا تو پھر ماسکو شہر میں ریڈ مافیا ضرور بنے گا اور یہ مافیا ججوں کو ٹیلی فون کر کے مرضی کے فیصلے بھی کروائے گا، آپ اگر معاشرے کو کرپشن کے گند سے نکالنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو مچھلی کا سر صاف کرنا ہوگا، معاشرہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا، ہم اس سلسلے میں چین کی مثال لے سکتے ہیں، آج سے 20 سال پہلے چین نے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا، چین نے موت کو کرپشن کی سزا بنا دیا اور اس کے بعد سیاسی نظام کو کرپشن سے پاک کرنا شروع کر دیا، چینی اس معاملے میں کس قدر سخت ہیں، آپ اس کا اندازہ چند مثالوں سے لگا لیجیے، وائس ایڈمرل وینگ شوئی صدر جیانگ زی من کے انتہائی قریبی دوست تھے۔

پولیس نے ان کے گھر ریڈ کیا اور ان کے فریج، واشنگ مشین اور مائیکرو ویو سے 20 ملین ڈالر برآمد کر لیے، صدر کو معلوم ہوا تو اس نے خود اپنے دوست کی موت کے پروانے پر دستخط کیے، چین نے کمیونسٹ پارٹی کے سات لاکھ ارکان کا احتساب کرایا، ڈیڑھ لاکھ لوگ کرپٹ پائے گئے، یہ سب لوگ سیاست سے فارغ کر دیے گئے، ان میں سے ایک لاکھ لوگوں کو سزا بھی ہوئی، بینک آف چائنہ کا صدر کرپشن میں ملوث پایا گیا، اسے گولی مار دی گئی، شنگھائی کے میئر اور ڈپٹی میئر نے رشوت لی، دونوں کو سزائے موت ہوئی اور بیجنگ کے وائس میئر پر الزام لگا اسے بھی گولی مار دی گئی، چین نے سیاستدانوں کے بعد ایک لاکھ 47 ہزار سرکاری اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کروائیں اور جو افسر کرپٹ ثابت ہوئے ان کو گولی مار دی گئی، چار ہزار کرپٹ سرکاری افسر چین سے فرار ہو گئے، چین اب ان کا پیچھا کر رہا ہے، احتساب کا یہ عمل تھا جس نے آج چین کو دنیا کی معاشی سپر پاور بنا دیا، آج اگر چین امریکا سے سے اپنا سرمایہ نکال لے تو امریکا پندرہ دن میں دیوالیہ ہو جائے گا۔

ہم نے بھی اندرونی اور بیرونی تنازعوں کے بعد معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کا فیصلہ کرنا ہے اور یہ کام ریاست کے سر یعنی حکمرانوں سے ہو گا، ہم اگر ایوان اقتدار، پارلیمنٹ ہائوس اور سیاسی جماعتوں کو کرپشن سے پاک نہیں کریں گے، وہاں سے اقرباء پروری اور خاندان غلاماں کی سوچ صاف نہیں کریں گے تو ملک ترقی نہیں کر سکے گا، ہمارے ملک میں کرپشن اس انتہا کو چھو رہی ہے جس میں مسجد کے لوٹوں اور خیراتی کولر کے گلاسوں تک کو زنجیر سے باندھنا پڑ رہا ہے چنانچہ اگر میاں نواز شریف صدر زرداری کے سوئس اکائونٹس سے رقم نہ نکلوا سکے یا یہ راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی سے کرپشن نہ اگلوا سکے اور یہ جمہوریت کے نام پر خاموش رہے تو پھر یہ اپنے خاندان، اپنے دوستوں اور اپنے پرانے ساتھیوں کا ہاتھ بھی نہیں روک سکیں گے اور اگر ایسا ہو گیا، اگر ہم کرپشن کو برداشت کر گئے تو پھر اس ملک کے ہر شہر میں ریڈ مافیاز بن جائیں گے اور ہر بڑے شخص کا صاحبزادہ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کی طرح اغواء کاروں کے نرغے میں ہو گا۔

ہم نے روس بننا ہے یا چین ہم نے آج کے دن یہ فیصلہ بھی کرنا ہے اور یہ فیصلہ بھی میاں نواز شریف کریں گے۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.