Thursday, 28 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Mulk Ki Izzat Bahaal Karain

Mulk Ki Izzat Bahaal Karain

میرے تین جنون ہیں، سفر، کتابیں اور فلمیں۔ یہ تینوں میری خوراک ہیں، میں مہینے میں دو بار اسلام آباد سے نکلتا ہوں اور دو ماہ میں بیرون ملک کا ایک آدھ سفر کرتا ہوں، میں روز کتابیں بھی پڑھتا ہوں، تین چار کتابیں خریدتا ہوں، یہ کتابیں ہر وقت ساتھ رکھتا ہوں، جہاں وقت ملتا ہے پڑھنا شروع کر دیتا ہوں، ہفتے میں تین چار معیاری فلمیں بھی دیکھتا ہوں، ان میں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلمیں بھی شامل ہوتی ہیں اور دنیا کی مختلف زبانوں میں بننے والی اچھی فلمیں بھی۔

میں نے دنیا کے مختلف خطوں کے اتنے سفر کیے ہیں کہ میرے پاسپورٹ پر ویزے اور امیگریشن کی مہر کے لیے جگہ نہیں بچی۔ میں جب بھی امیگریشن کاؤنٹر پر پاسپورٹ رکھتا ہوں تو آفیسر کو مہر کے لیے جگہ تلاش کرنے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے مگر اس قدر سفر کے باوجود دنیا کے ہر ملک کی امیگریشن مجھے اور میرے پاسپورٹ کومشکوک نظروں سے دیکھتی ہے، یہ بار بار ویزے چیک کرتی ہے۔

مشین ریڈایبل پاسپورٹ کو سیکنر میں ڈالتی ہے، معلومات چیک کرتی ہے، میری تصویر کو میرے چہرے کے ساتھ میچ کرتی ہے، میری تمام انگلیوں کے پرنٹ لیتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کی تسلی نہیں ہوتی، یہ لوگ پڑتال کے بعد دس پندرہ سوال بھی کرتے ہیں، میں اب ان سوالوں، اس شک اور اس رویئے کا عادی ہو چکا ہوں، میں چپ چاپ سر جھکا کر قطار میں کھڑا ہو جاتا ہوں، امیگریشن آفیسر کے سامنے پیش ہوتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جو سلوک کرے، میں خون کے گھونٹ بھر کر اسے برداشت کر جاتا ہوں، کیوں؟

کیونکہ میں نے دل سے تسلیم کر لیا ہے، میں ایک مشکوک ملک کا مشکوک باشندہ ہوں، ایک ایسے مشکوک ملک کا باشندہ جسے اس کے اپنے ملک میں بھی شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے، جس میں یہ سانس لینے کے لیے بھی "لائم لائیٹ" میں رہنے پر مجبور ہے لہٰذا وہ شخص جو ملک میں انسانی سطح پر آنے کے لیے خاص یا وی آئی پی بننے پر مجبور ہو اسے ملک سے باہر اس سلوک پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے، ہیگ کے سفر کے دوران بھی یہی ہوا۔

اس سفر کی شروعات ہی " ابنارمل" تھیں، وزارت اطلاعات کا ایک افسر مجھے ویزے کے لیے ایمبیسی لے گیا، ایمبیسی کے گارڈز اور لوئر اسٹاف نے مہربانی کی، وہ ہم دونوں کو عمارت کے اندر لے گئے، وزارت اطلاعات کا آفیسر ویزہ قونصلر کے پاس پہنچا تو وہ ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گئی، وہ اتنی اونچی آواز میں چیخ رہی تھی کہ ہال میں موجود لوگوں کے ماتھے پر بھی پسینہ آ گیا، میں خفت محسوس کرنے لگا، غلطی ہمارے افسر کی تھی، یہ وقت لے کر ایمبیسی نہیں گیا تھا، ہمارے پاس وقت کم تھا چنانچہ وہ فارن آفس کا خط لے کر مجھے سیدھا ایمبیسی لے گیا، اسے سفارتخانے سے باقاعدہ وقت لینا چاہیے تھا لیکن یہ اتنی بڑی غلطی نہیں تھی کہ اس کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک ہوتا، مجھے شرم آئی، میں نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا، میں نے ویزہ قونصلر سے معذرت کی اور اس سے عرض کیا "میں اپنی درخواست واپس لیتا ہوں، میں کانفرنس میں نہیں جا رہا، آپ مہربانی کر کے ہمارے ڈاکومنٹس واپس کر دیں " وہ میری انٹری پر "کول ڈائون" ہوگئی۔

اس نے مجھ سے معذرت کی، مجھے بٹھایا لیکن ہمارے افسر کو فوراً ایمبیسی سے نکل جانے کا حکم دے دیا، میں ویزہ سیکشن میں بیٹھ گیا، میرے ساتھ یورپی باشندے بھی بیٹھے تھے اور پاکستانی بھی۔ میں سرجھکا کر ان کے درمیان بیٹھ گیا اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے لگا" ہم اگر کسی اور ملک کے باشندے ہوتے تو کیا پھر بھی ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوتا؟ کیا ہمارے معزز افسر کو اس طرح بے عزت کر کے ایمبیسی سے نکال دیا جاتا"۔

میرے خیال میں اس افسر کا تعلق اگر امریکا، کینیڈا، برطانیہ یا سعودی عرب کے ساتھ ہوتا تو اس کے لیے خصوصی گیٹ بھی کھلوایا جاتا اور سفارتی عملہ آگے بڑھ کر اس کا استقبال بھی کرتا لیکن کیونکہ ہم غریب ملک ہیں اور رہی سہی کسر دہشت گردی کے ٹائیٹل نے پوری کر دی ہے چنانچہ ہمارے ساتھ ہماری ہی سرزمین پر یہ سلوک ہوتا ہے اور ہمارے پاس اسے برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا، کاش ہمیں بھی کوئی ایسا لیڈر مل جائے جو ہماری عزت بحال کر دے، جو ہمیں اس بے عزتی سے بچا لے۔

یہ سلوک صرف ایمبیسی تک محدود نہیں رہا، یہ یورپ پہنچ کربھی جاری رہا، امیگریشن اور خفیہ اداروں کے لوگ جہاز کے دروازے پر کھڑے تھے، یہ ایک ایک شخص کے کاغذات چیک کرتے تھے، پاسپورٹ اور بورڈنگ پاس کی پڑتال کرتے تھے اور یہ لوگ جس مسافر کو کلیئر کردیتے تھے تو وہ کتا بردار اہلکاروں کے ہتھے چڑھ جاتا تھا، کتا اس کے پورے جسم کو سونگھتا، اس کے بیگ پر زبان پھیرتا اورکتے کی منظوری کے بعد مسافر کو امیگریشن ہال میں جانے کی اجازت دی جاتی، میرے ساتھ سلمان غنی اور متین حیدر تھے، ہم اس عمل سے گزر کر امیگریشن کائونٹر پر پہنچے توہمیں روک لیا گیا، ہمارے پاسپورٹس کو بار بار دیکھا گیا، ویزوں کی پڑتال کی گئی، ہماری تصویروں کو ہماری شکلوں کے ساتھ ملا کر دیکھا گیا لیکن اس کے باوجودتسلی نہ ہوئی تو سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا گیا، ہم سے ہماری جیب میں موجود کرنسی تک کے بارے میں پوچھا گیا۔

سوالوں کے جواب کے بعد انٹری کی مہر تو لگا دی گئی لیکن آفیسر کے چہرے پر شک کی لکیریں آخر تک قائم رہیں، وہ ہمیں اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک ہم اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئے۔ یہ سیلف فنانس سفر تھا، سفر، قیام اور طعام کے تمام اخراجات ہمارے اداروں نے برداشت کیے، حکومت پاکستان کی ہم پر ایک پائی خرچ نہیں ہوئی، یہ بہت اچھی روایت ہے، یہ روایت مضبوط بھی ہونی چاہیے اور اس کا دائرہ بھی وسیع ہونا چاہیے، حکومت کو چاہیے یہ صرف اہم اور ضروری سرکاری افسروں کو بیرونی دوروں پر لے کر جائے، سرکاری اخراجات پر لائو لشکر کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، وزیراعظم بھی اس کانفرنس پر پندرہ نشستوں کا چھوٹا جہاز لے کر گئے تھے، ان کے عملے کے لوگ کمرشل فلائیٹس سے ہیگ پہنچے تھے، یہ چھوٹا جہاز بھی قانون بن جانا چاہیے، ہمارا ملک دو دو سو لوگوں کے بیرونی دوروں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا، یہ ظلم بھی ہے اور زیادتی بھی۔

میری دوروں کے حوالے سے چند گزارشات بھی ہیں لیکن میں ان پر جانے سے قبل ہیگ میں ہونے والے سلوک کی بات کروں گا، میڈیا ٹیم میں سات صحافی شامل تھے، ہم لوگ 23 مارچ کی صبح پیرس پہنچے، وہاں سے بائی روڈ ہیگ پہنچے، ہیگ آئے تو وہاں ہمارا کوئی والی وارث نہیں تھا، ہم تین دن سفیر محترم کی زیارت سے محروم رہے، ہم سفیر سے ملاقات کی حسرت لے کر واپس آ گئے، سفیر صاحب نے ہم سے ہاتھ تک ملانا مناسب نہ سمجھا، یہ صرف وزیر اعظم کے آگے پیچھے ٹہلتے رہے، ہمارا 24 مارچ کی دوپہر تک وزیراعظم سے رابطہ بھی نہ ہو سکا، وزیراعظم کے اسٹاف نے ہمارے اور وزیراعظم کے درمیان بے شمار فصیلیں کھڑی کر دیں، ہم آخر میں مجبور ہو کر خود ہی وزیراعظم کے ہوٹل پہنچ گئے، وزیراعظم لابی میں کھڑے تھے، ہم لوگ تکلف کی تمام دیواریں توڑتے ہوئے وزیراعظم تک پہنچ گئے۔

سلمان غنی نے وزیراعظم سے اس رویئے کی شکایت کی تو مشیر خارجہ طارق فاطمی نے فرمایا " ہم نے آپ کے بارے میں پوچھا تھا لیکن پتہ چلا آپ لمبا ناشتہ کر رہے ہیں " ہم لوگ بیک زبان بولے "ہم لوگ صبح آٹھ بجے سے تیار بیٹھے ہیں " طارق فاطمی خاموش ہوگئے، ہمارا خیال تھا، یہ ملاقات ملاقاتوں کا دروازہ ثابت ہوگی اور ہم لوگ وزیراعظم اور حکومتی ٹیم سے اب ملتے رہیں گے مگر زبردستی کی اس ملاقات کے بعد وزیراعظم کو دوبارہ سات پردوں میں چھپا دیا گیا اور ہم ان سے دوبارہ ملاقات کا شرف حاصل نہ کر سکے، ہمیں پورے دورے کے دوران بریفنگ بھی نہیں دی گئی، ہم 53 ممالک میں سے واحد صحافی تھے جو کانفرنس میں شتر بے مہار کی طرح پھر رہے تھے، ہمارا کوئی گائیڈ، کوئی والی وارث نہیں تھا، اس "بے راہ روی" میں صرف طاہر خوشنود ہمارے ساتھ خوار ہو رہے تھے، یہ پیرس میں پاکستان کے پریس قونصلر ہیں، یہ ہماری مدد کے لیے پیرس سے ادھار پرلیے گئے تھے لیکن ہیگ کیونکہ ان کے لیے بھی اجنبی تھا چنانچہ یہ بے چارے زور لگاتے مگر ان کا زور بھی جلد ختم ہو جاتا تھا اور یوں ہم لوگ تین دن ہیگ میں رہنے کے باوجود اسی طرح خالی ہاتھ واپس آ گئے جس طرح سکندر دنیا سے خالی ہاتھ روانہ ہو گیا تھا۔

ہم اب گزارشات کی طرف آتے ہیں، ہماری حکومت کو چاہیے یہ بیرونی دنیا میں ہر قیمت پر پاکستانیوں کی عزت بحال کرے، پاکستان میں کام کرنے والے سفیروں کو بلایا جائے، ان سے پاکستانیوں کے ایشوز "ڈسکس" کیے جائیں اور ان کی سفارشات کی روشنی میں پاکستانی شہریوں کی عزت کی بحالی کا بورڈ تشکیل دیا جائے، ہم مشکوک لوگوں کو اپنے ائیرپورٹس پر ہی روک لیں، یہ جہازوں میں "بورڈ" ہی نہ ہو سکیں تا کہ پاکستان کی بیرون ملک بے عزتی کا سلسلہ بند ہو جائے، غیر ملکی سفیروں سے بھی درخواست کی جائے، یہ اپنی اپنی حکومتوں کو قائل کریں، یہ ائیر پورٹ پر ہمارے شہریوں کے ساتھ ترجیحی سلوک نہ کریں، یہ انھیں بھی دوسرے ممالک کے شہریوں جتنی تکریم اور عزت دیں، وزیراعظم اور صدر کے بیرونی دوروں کے دوران اسٹاف ان کی صحافیوں سے ملاقات کا شیڈول طے کرے، یہ شیڈول روانگی سے قبل میڈیا کو دے دیا جائے تا کہ کوئی ابہام نہ رہے، صدر یا وزیراعظم دورے کے دوران روزانہ آدھ گھنٹے کے لیے میڈیا سے ملاقات بھی کیا کریں تا کہ کوئی کنفیوژن نہ رہے اور کوئی غلط خبر ریلیز نہ ہو۔

وزیراعظم کے میڈیا چیف اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کو براہ راست پریس ریلیز بھجوانے کے بجائے یہ پریس ریلیز میڈیا ٹیم کو ای میل کریں تا کہ یہ اپنے پاس موجود معلومات اس پریس ریلیز میں شامل کر کے خبر پاکستان بھجوائیں، ہیگ سے میڈیا چیف اور میڈیا پرسنز الگ الگ خبریں بھجوا رہے تھے جس کی وجہ سے کنفیوژن پیدا ہو رہی تھی، ہم کچھ کہہ رہے تھے اور سرکاری پریس ریلیز میں کچھ لکھا تھا جس کی وجہ سے نیوزڈیسک پریشان ہو رہے تھے، آخری گزارش، صحافیوں کو دورے پر لے جانے سے قبل ان کو بریفنگ ضرور دی جانی چاہیے، انھیں وزیراعظم کی ملاقاتوں اور کانفرنس کے بارے میں معلومات بھی دی جانی چاہئیں تا کہ انھیں پورے بیک گرائونڈ کا علم ہو، ہمیں کیونکہ اس کانفرنس کے بارے میں کوئی بریفنگ نہیں دی گئی تھی چنانچہ ہم منہ اٹھا کر وہاں چلے گئے اور منہ اٹھا کر واپس آ گئے، ہمیں نہ اپنے لوگوں نے لفٹ دی اور نہ ہی پرائے لوگوں نے، ہم جیسے گئے تھے، ہم ویسے ہی واپس آ گئے اور یہ تھا ہیگ وزٹ!

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.