وہ بہت خوش تھے، ان کی آواز میں جوش تھا، وہ بار بار کہہ رہے تھے، اللہ کا بڑا کرم ہے، ہم بہت بڑی تباہی سے بچ گئے، میں ان کے جوش کے ساتھ جوش، خوشی کے ساتھ خوشی اور مبارک کے ساتھ مبارک ملا رہا تھا، میں انہیں شاباش بھی دے رہا تھا لیکن سچی بات ہے میں اندر ہی اندر اداس تھا۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور اسلام سلامتی اور امن کا مذہب ہے لیکن حکمران کلاس کے ایک نمائندے کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 10 محرم خون خرابے کے بغیر گزر جانے پر خوش ہونا افسوس کی بات تھی، وہ بار بار فرما رہے تھے، ملک کے پندرہ مقامات پر خوفناک حملوں کا اندیشہ تھا، اگر یہ دھماکے ہو جاتے تو ہزاروں لوگ شہید ہو جاتے، جس کے بعد ملک میں شیعہ سنی فسادات شروع ہو جاتے، ان کا کہنا تھا، عراق، لیبیا اور شام کے بعد پاکستان اسلام دشمن قوتوں کا ہدف ہے، یہ لوگ پاکستان میں بھی شام، لیبیا اور عراق جیسی صورتحال پیدا کر کے ہمارا ملک توڑنا چاہتے ہیں، یہ بلوچستان کو الگ کرنا چاہتے ہیں، کراچی اور حیدر آباد کو الگ ریاست بنانا چاہتے ہیں، گوادر کو مونٹی کارلو دیکھنا چاہتے ہیں۔
سرائیکی علاقوں کو پنجاب سے کاٹ کر آزاد ملک بنانا چاہتے ہیں اور خیبر پختونخواہ کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں لیکن مضبوط فوج اور ایٹم بم ان کے راستے کی دو بڑی رکاوٹیں ہیں، یہ لوگ ان دونوں کے خاتمے کےلئے خوفناک خانہ جنگی کے منتظر ہیں اور یہ خانہ جنگی محرم کے تعزئیے سے شروع ہو گی یا پھر ربیع الاول کے جلوس سے۔ ملک میں ان دونوں مہینوں میں کوئی خوفناک واقعہ پیش آئے گا اور اس کے بعد ملک توڑنے والی تمام قوتیں متحرک ہو جائیں گی چنانچہ ہم لوگ ربیع الاول اور محرم کے مہینوں میں بہت محتاط ہو جاتے ہیں، ہم ہائی الرٹ پر چلے جاتے ہیں، میں نے انہیں ایک اور پرامن محرم پر مبارک باد پیش کی اور اجازت لے کر واپس آگیا۔
میں واپس آگیا لیکن میرے اندر کا زخمی مسلمان وہیں رہ گیا، محرم اور ربیع الاول یہ دونوں مہینے ہمارے ایمان، ہماری عقیدت کے قبلے ہیں، ہمارے وہ رسول ربیع الاول میں تشریف لائے تھے جنہوں نے رحمت کے لفظ کو معانی دیئے تھے، جنہوں نے امن کو امن سکھایا تھا اور جنہوں نے یہ فرمایا تھا، آپ دوسروں کے جھوٹے خداؤں کو بھی جھوٹا نہ کہو کیونکہ وہ جواب میں آپ کے سچے خدا کو جھوٹا کہیں گے لیکن ہم مسلمانوں نے اسلامی ملکوں میں ربیع الاول کے مہینے کو اس قدر خوف کی علامت بنا دیا کہ پوری ریاست اس مہینے کو پرامن رکھنے میں جت جاتی ہے اور اگر اس مہینے میں مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچ جائیں تو سرکاری اہلکار ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
محرم ہماری عقیدت کا دوسرا قبلہ ہے، یہ مہینہ عربوں میں نبوت سے پہلے بھی محترم تھا، عرب اس مہینے میں خون نہیں بہاتے تھے، محرم شروع ہوتے ہی چالیس چالیس سال سے جاری جنگیں رک جاتی تھیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھی اپنی تلواریں دیواروں پر لٹکا دیتے تھے، یہ مہینہ دنیا بھر کے مظلوموں کو امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کی اس قربانی کی یاد بھی دلاتا ہے جس کے ذریعے آپؓ نے چودہ سو سال پہلے بنی نوع انسان کو یہ پیغام دیا تھا، آپ خواہ کمزور ہوں، غریب الوطن ہوں یا پھر مظلوم ہوں، آپ اپنا اور اپنے خاندان کا سر کٹوا لیں مگر ظالم کے سامنے نہ جھکیں لیکن اس مقدس مہینے میں بھی کلمہ گو، کلمہ گو سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
میں ایسے درجنوں لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنے بچوں کو مقدس اسلامی مہینوں میں یورپ اور امریکا شفٹ کر دیتے ہیں، میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو ہمیشہ مسجد کے ستون کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا کرتے ہیں تا کہ یہ لوگ حملے کی صورت میں ستون کی آڑ لے سکیں، لوگ اسلامی ملک میں مسجد اور امام بارگاہ کے قریب گھر نہیں بناتے، آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ امام بارگاہوں اور مساجد کے اردگرد ریسرچ کر کے دیکھ لیں، آپ کو وہاں کے پلاٹ بھی سستے ملیں گے اور کرائے بھی کم ہوں گے، ملک میں لوگ بڑی تیزی سے نام بھی بدل رہے ہیں، یہ ایسے نام رکھ رہے ہیں جن سے ان کے فرقے کی شناخت نہ ہو سکے۔
آپ ظلم کی انتہا ملاحظہ کیجئے، مسلمان کو آج یہودی، عیسائی اور ہندو سے اتنا خطرہ نہیں جتنا خطرہ اسے مسلمان سے ہے، آج شیعہ اور سنی مسلمان یورپ، امریکا اور مشرق بعید میں اسلامی دنیا کے مقابلے میں زیادہ سہولت، آرام اور بے خوفی سے عاشورہ اور حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت کا دن مناتے ہیں، آج یورپ میں بارہ ربیع الاول اور عاشورہ محفوظ اور اسلامی دنیا میں غیر محفوظ ہیں، عیسائی اور یہودی معاشروں میں شہر فوج کے حوالے ہوتے ہیں، ڈبل سواری پر پابندی لگتی ہے اور نہ ہی پولیس اور رینجرز کی چھٹیاں منسوخ ہوتی ہیں، ان معاشروں میں یہ مہینے آتے ہیں، مسلمان اپنی اپنی رسمیں ادا کرتے ہیں اور بات ختم جبکہ اسلامی ملکوں میں امن اور قربانی کے مقدس مہینے خوف بن کر طلوع ہوتے ہیں اور فکر کی طویل لکیریں چھوڑ کر رخصت ہوتے ہیں، کیوں؟ آپ نے کبھی سوچا؟
اس کی وجہ مسلمان ہیں، ہم جب نبی اکرم کے اسلام کو چھوڑ کر اپنے چھوٹے چھوٹے اسلام بنا لیں گے، ہم جب دوسرے بھائی کے کلمے کو غلط اور اپنے کلمے کو صحیح قرار دیں گے، ہم جب دوسروں کے ہیرو کو گالی دیں گے اور اپنے ہیرو کو دنیا کی تمام ہستیوں سے مقدم جانیں گے، ہم جب صحابہؓ کو آپس میں تقسیم کر لیں گے، ہم جب خدا اور اس کے رسول کے اجارہ دار بن جائیں گے، ہم جب دوسرے مسلمان کو مجبور کریں گے کہ تم خدا کو اس طرح خدا مانو جس طرح میں خدا مانتا ہوں، آپ رسول اللہ ﷺ پر اس طرح درود پڑھو جس طرح میں پڑھتا ہوں۔
میں کہتا ہوں اللہ کے رسول اس فانی دنیا سے پردہ فرما گئے ہیں، تم اس حقیقت کو کیوں نہیں مانتے یا میں کہتا ہوں رسول اللہ ﷺ آج بھی دنیا میں موجود ہیں اور تم انہیں اسی طرح موجود مانو جس طرح میں مان رہا ہوں، میں جس طرح نماز پڑھتا ہوں، میں جس طرح اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ اٹھاتا ہوں، میں جس زور کے ساتھ آمین کہتا ہوں، تم بھی اسی طرح کرو، اسی طرح کہو، میں پیٹ پر جہاں ہاتھ باندھتا ہوں، تم بھی وہاں ہاتھ باندھو، میں نماز کے دوران دونوں پاؤں کے درمیان جتنا فاصلہ رکھتا ہوں، تم بھی اتنا فاصلہ رکھو اور میں جتنی رکعتیں پڑھتا ہوں تم بھی اتنی ہی نماز پڑھو، میں جس وقت کو سحر کہتا ہوں، تمہاری سحر بھی اس وقت شروع اور اس وقت ختم ہونی چاہیے، میں جس وقت افطار کرتا ہوں تم بھی اس وقت افطار کرو اور میں جس صحابیؓ کو جس صحابیؓ پر فوقیت دیتا ہوں تم بھی اس صحابیؓ کو اتنا ہی محترم سمجھو اور میں جو جلوس نکالتا ہوں تم اس جلوس کو ایمان کا حصہ سمجھو اور میں جس جلوس کو کفر سمجھتا ہوں۔
تم میرے ہوتے ہوئے وہ جلوس نہیں نکال سکتے اور تم اس رنگ کی پگڑی بھی باندھو گے جس رنگ کی میں باندھتا ہوں اور تم اس رنگ کا جبہ بھی پہنو گے جس رنگ کا میں پہنتا ہوں اور تم عید بھی اسی طرح مناؤ گے جس طرح میں مناتا ہوں اور تمہاری مسجد بھی ویسی ہونی چاہیے جیسی میری ہے اور تم نکاح بھی اسی طرح کرو گے جس طرح میں کرتا ہوں اور تم اپنے بچوں کو بھی اسی طرح بناؤ گے جس طرح میں بناتا ہوں، قوم جب اللہ اور رسول کے دین کو اس طرح چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دے گی، یہ (نعوذ باللہ) خدا بھی اپنی اپنی مرضی کے ڈھالنے کی کوشش کرے گی تو امت فسادات کا شکار نہیں ہوگی تو کیا ہوگا؟ یہ محرم اور ربیع الاول رائفلوں، توپوں اور میزائلوں کے سائے میں نہیں منائے گی تو کیسے منائے گی؟
مجھے اکثر اوقات اپنا معاشرہ "مشرک" دکھائی دیتا ہے، کیوں؟ کیونکہ ہم روزانہ کی بنیاد پر وہ فیصلے کرتے ہیں جس کا اختیار اللہ تعالیٰ نے صرف اور صرف اپنے ہاتھ میں رکھا ہے مثلاً ہم میں سے کون کتنا صاحب ایمان ہے، یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کرے گا، نبی اکرم کے دور میں بھی مدینہ کے منافقوں کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اور اللہ ہی کے حکم سے ان کی مسجد گرائی گئی تھی لیکن ہم جب چاہتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں منافق ڈکلیئر کر دیتے ہیں، اسے کافر قرار دے دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حساب کےلئے حشر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔
ہمیں قیامت کے دن اٹھایا جائے گا، ہمیں حشر کے میدان میں کھڑا کیا جائے گا، ہمارا نامہ اعمال کھولا جائے گا اور پھر جب زمین آگ کا گولہ بن چکی ہو گی اور روئے ارض پر زندگی کی کوئی علامت باقی نہیں ہوگی تو ہمارا رب اس وقت ہمارے ایمان کا فیصلہ کرے گا، وہ اس وقت یہ اعلان کرے گا، کون کتنا منافق تھا، ہمارا رب یہ سوچ کر ہمیں حشر تک مہلت دیتا ہے کہ شاید ہماری کوئی ایک نیکی ہزاروں لاکھوں سال بعد اتنی بڑی ہو جائے کہ وہ ہمارے کفر، ہماری منافقت، ہمارے ظلم، ہمارے گناہوں اور ہماری غلطیوں کو نگل جائے اور ہم اپنی اس چھوٹی سی نیکی کے بدلے جنت کے حق دار ہو جائیں لیکن ایک اللہ اور ایک رسول کو ماننے والے اسی اللہ اور اسی رسول کے نام پر جب چاہتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں کافر قرار دے دیتے ہیں، اسے منافق ڈکلیئر کر دیتے ہیں اور اسے بے ایمان کا خطاب دے دیتے ہیں۔
کیا یہ شرک نہیں، کیا یہ اللہ تعالیٰ کے اس اختیار کو اپنے ناپاک ہاتھوں میں لینے کی جسارت نہیں جسے ہمارا رب بھی حشر کے دن استعمال کرے گا، اگر یہ شرک ہے تو کیا پھر ایک دوسرے کو منافق، بے ایمان اور کافر قرار دینے والے لوگ مشرک نہیں ہیں اور اگر ہم ہیں تو کیا پھر اللہ تعالیٰ ہم پر ربیع الاول اور محرم کے مہینوں میں خوف نہیں اتارے گا؟ اور ہم پر اللہ تعالیٰ خوف بھی اتار رہا ہے اور اس خوف میں ہر سال اضافہ بھی کر رہا ہے اور ایک اور بات! جو قوم اور جو لوگ اکیسویں صدی میں بیٹھ کر چودہ سو سال پرانے وہ تنازعے حل کرنے کی کوشش کریں جنہیں اس دور کے اماموں نے بھی اللہ تعالیٰ پرچھوڑ دیا تھا تو اس قوم پر خوف نہیں اترے گا تو کیا اترے گا۔
دنیا اس دن ہمارے معاشروں کو اسلامی سمجھے گی جس دن شیعہ سعودی عرب میں بے خوف ہو کر عاشورہ منائیں گے اور سنی ایران میں حضرت عمرفاروقؓ کا یوم شہادت منائیں گے، اس سے پہلے ہم مسلمان ہیں اور نہ ہمارے معاشرے اسلامی۔