میاں نواز شریف کانگریس کی مثال لیں، یہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی، اس نے ہندوستان سے انگریزوں کو بھی نکالا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ بھی بنائی لیکن پھر اس جماعت کو نہرو خاندان نگل گیا، جواہر لال نہرو نے اندرا گاندھی کو ملکہ عالیہ بنا دیا، اندرا گاندھی تخت دہلی اپنے بیٹوں کو منتقل کرنے کے خبط میں مبتلا ہوگئیں اوریوں یہ خود بھی ٹریجڈی کا شکار ہوگئیں اور ان کے دونوں بیٹے بھی اورملک بھی تباہ ہوگیا اور آج کانگریس کہاں ہے؟
اس کے مقابلے میں بی جے پی ایک شدت پسند جماعت تھی، اس نے کانگریس اور اقلیتوں کی نفرت سے جنم لیا لیکن اس میں کیوں کہ کوئی بادشاہ نہیں تھا لہٰذا تخت کا جھگڑا بھی نہیں تھا اور اس وجہ سے فریش ٹیلنٹ اور عام لوگ آتے جا رہے تھے، پارٹی اس قدر اوپن تھی کہ اس میں دفتر میں جھاڑو دینے والے نریندر مودی نے بھی پرفارم کیا تو وہ بھی دو بار بھارت کا وزیراعظم بن گیا اور یہ اب تیسری بار بھی بن رہا ہے۔
آپ میرٹ دیکھیں، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ اور پانچویں بڑی معاشی طاقت کے وزیراعظم نریندر مودی کے خاندان کا کوئی بھی فرد سیاست اور حکومت میں شامل نہیں، اس کے بھائی اس وقت بھی عام چھوٹے ملازم ہیں اور یہ اپنا نام اپنے بھائی سے منسوب نہیں کر سکتے، مودی نے اپنے 10سالہ دور حکومت میں ملک کو4112بلین ڈالر کی اکانومی بنا دیا، اس کے دور میں بھارت میں پانچ سو نئے بلینئرز پیدا ہوئے لیکن آج تک اس پر کرپشن اور اقرباء پروری کا کوئی الزام نہیں لگا، یہ 52برس سے سیاست میں ہے لیکن یہ آج بھی زمین جائیداد سے محروم سادہ زندگی گزار رہا ہے جب کہ کانگریس کی قیادت پارٹی کی تباہی کے باوجود ارب پتی ہے۔
ہم اگر کانگریس کے زوال اور بی جے پی کے عروج کی اسٹڈی کریں تو ہم تین نتائج تک پہنچیں گے، کانگریس کو کراؤن پرنس کی دوڑ کھا گئی، یہ ایلیٹ فیملیز، بزنس مینوں، سرمایہ کاروں اور الیکٹیبلز کی پارٹی تھی، اس میں نئے ٹیلنٹ اور عام لوگوں کی گنجائش نہیں تھی، پارٹی میں سیاسی خاندان پیدا ہو گئے تھے۔
ان لوگوں نے حلقے آپس میں بانٹ لیے تھے، دادا کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پوتا منتخب ہوتا تھا اور وہ اہل ہو یا نہ ہو اسے وزارت بھی مل جاتی تھی اور وہ اس وزارت سے کروڑوں کماتا تھا اورتین، پارٹی صرف حلقوں تک محدود تھی، یہ ووٹرز کو پاکٹس میں تقسیم کرکے آدھے تیرے اور آدھے میرے یا اوپر کی سیٹ میری اور نیچے کی تیری جیسے فارمولوں سے الیکشن لڑتی تھی جب کہ اس دوران ملک میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا انقلاب آ چکا تھا اور 62 فیصد ووٹ بینک نوجوانوں میں شفٹ ہو چکا تھا اور یہ نوجوان سیاسی خاندانوں سے نفرت میں پلے تھے۔
بی جے پی نے کھل کر سوشل میڈیا استعمال کیا، اس نے نوجوانوں کی نفرت کو ہوا بھی دی، اسے اگر ہندوازم اور مسلم دشمنی میں ووٹ نظر آیا تو اس نے ایک سیکنڈ نہیں سوچا، نریندر مودی نے اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لیے گجرات میں مسلمانوں کے سروں کے مینار تک بنا دیے اور "پاکستان کو نہیں چھوڑوں گا" کا نعرہ بھی لگا دیا، روایتی میڈیا (اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز) کانگریس کے کنٹرول میں تھا، بی جے پی نے سوشل میڈیا میں رسائی بڑھا کر روایتی میڈیا کا اثر توڑ دیا، اس نے اپنے اینکرز بھی ڈیولپ کر لیے اور روایتی سیاست سے نفرت کو بھی اپنی طاقت بنا لیا۔
دوسرا اس نے شخصیت یا الیکٹیبلز کے بجائے ووٹ کو اثاثہ بنا لیا، بھارت میں لوگ آج ایم ایل اے کو ووٹ نہیں دیتے، یہ بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں چناں چہ پارٹی آج پی ٹی آئی کی طرح جس کو بھی اپنا امیدوار قرار دیتی ہے اسے ووٹ مل جاتا ہے، بی جے پی آج بھی عام آدمی کی پارٹی ہے، اس میں روزانہ نیا ٹیلنٹ اور نئے لوگ اس امید سے آ رہے ہیں اگر مودی وزیراعظم بن سکتا ہے تو کسی نہ کسی دن ہم بھی بن جائیں گے۔
سوال یہ ہے کیا پاکستان مسلم لیگ ن میں کوئی شخص یہ کلیم کر سکتا ہے؟ جی نہیں لہٰذا آج مسلم لیگ بھی اسی انجام کا شکار ہے جس کا شکار کانگریس ہوئی تھی، آج یہ پارٹی بھی کانگریس بن چکی ہے۔ ہم یہاں پر عام آدمی پارٹی کی مثال بھی دے سکتے ہیں، دہلی میں کانگریس کی وجہ سے حالات بہت خراب تھے۔
بجلی اور گیس کا میٹر بھی رشوت کے بغیر نہیں لگتا تھا، پنشن کی فائل بھی ایک میز سے دوسری تک پہنچانے کے لیے رقم لی جاتی تھی، ان حالات میں اروند کیجریوال سامنے آیا اور اس نے روایتی پارٹیوں کو زندہ گاڑھ دیا، یہ پارٹی 2013سے دہلی میں برسر اقتدار ہے اور اس نے تمام روایتی سیاسی خاندانوں کا صفایا کر دیا ہے۔
ہم اب عمران خان کی طرف آتے ہیں، عمران خان کی اٹھان جرمنی کے ہٹلر اور اٹلی کے میسولینی کی طرح تھی اور پی ٹی آئی پاکستان کی بی جے پی ہے، عمران خان نے اپنے آپ کو میسولینی اور ہٹلر کی طرح قوم کا مسیحا ثابت کردیا جس کے بعد جرمنی اور اٹلی کی طرح عوام اور سول اور ملٹری بیوروکریسی تقسیم ہوگئی اور آج لوگوں کے پاس صرف ایک آپشن بچا ہے، یہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں عمران خان کا ساتھ دینا ہوگا۔
کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کی مثال آپ کے سامنے ہے، ہم اگر ان کے بیان کو سچ مان لیں تو یہ پہلے دھاندلی کراتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا کے دباؤ میں آ کر اعتراف کر لیتے ہیں، آپ عدالتوں کی صورت حال بھی دیکھ لیں، الیکشن کے بعد عمران خان کے تمام مقدمے سست ہو چکے ہیں، جج محمد بشیر عدالت ہی نہیں گیا، ریاست کے مکمل پریشر کے باوجود پی ٹی آئی نے 95 سیٹیں بھی نکال لیں لہٰذا ہمیں ماننا ہوگا عمران خان ریاست کو تقسیم کرنے میں کام یاب ہو چکے ہیں۔
دوسرا ان کی پارٹی عام لوگوں کی پارٹی بن چکی ہے، بے شک2013اور 2018 میں اس پارٹی میں روایتی سیاست دان اور سیاسی خاندان تھے لیکن 2024میں یہ عنصر مکمل طور پر ختم ہوگیااور پارٹی نے ریاست کی مکمل مخالفت کے باوجود اپنا وجود منوا لیا اور یہ اب دیو کی طرح ملک کے درمیان کھڑی ہے، عمران خان نے یہ بھی ثابت کر دیا پی ٹی آئی کا ووٹ کسی امیدوار کا ووٹ نہیں، یہ صرف اور صرف عمران خان اور پارٹی کا ووٹ ہے اور پارٹی جس کو بھی کھڑا کرے گی اور وہ کسی بھی انتخابی نشان سے الیکشن لڑے گا وہ جیتے گا۔
عمران خان یہ ثابت کرنے میں بھی کام یاب ہوگیا میری پارٹی میں عام لوگوں کی گنجائش موجود ہے، آپ صنم جاوید ہوں، یاسمین راشد ہوں، عالیہ حمزہ ہوں، شاندانہ گل زار ہوں، زرتاج گل ہوں یا پھر علی امین گنڈا پور ہوں آپ میں اگر سیاسی ٹیلنٹ ہے تو پارٹی کے دروازے آپ کے لیے کھلے ہیں، اس شخص نے تمام روایتی سیاسی خاندان اور چہرے اڑا کر رکھ دیے ہیں لہٰذا ہمیں ماننا ہوگا وہ اسٹیٹس کو جسے ذوالفقار علی بھٹو نہیں توڑ سکے اسے عمران خان نے توڑ دیا، یہ اب ایک بڑی طاقت ہے اور اس کے سامنے اب کوئی نہیں ٹھہر سکے گا۔
میاں نواز شریف کو اب ان حالات کا جائزہ لینا ہوگا، ان کے پاس اب ایک ہی آپشن ہے، یہ خاندان سے باہر نکلیں اور اپنی جماعت کو باقاعدہ سیاسی جماعت بنائیں، یہ اگر عمران خان کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر انھیں عمران خان بننا ہوگا، یہ پارٹی کی فرنٹ رو ختم کر دیں، اسٹیج پر اکیلے بیٹھیں اور ان کے دائیں بائیں شریف فیملی کا کوئی فرد نظر نہیں آنا چاہیے۔
پارٹی کو نئے ٹیلنٹ اور عام آدمی کے لیے کھولیں، بلوچستان اور پنجاب میں کسی اہل شخص کو سی ایم بنائیں تاکہ سیاسی ورکرز کو یہ یقین آ سکے ہم بھی کسی نہ کسی دن وزیراعلیٰ اور وزیراعظم بن سکتے ہیں، پاکستان کا پہلا پولیٹیکل کالج بنائیں جس میں اپنے ورکرز کو سیاسی ٹریننگ دیں، سوشل میڈیا کالج بھی بنائیں جس میں ورکرز کو نئی ٹیکنالوجی سکھائی جائے، منشور کو ریسرچ پیپر میں تبدیل کریں۔
آپ نے اگر غربت ختم کرنی ہے تو آپ کے پاس اس کا باقاعدہ پلان ہونا چاہیے "ہم اقتدار میں آ کر غربت ختم کر دیں گے" جیسے نعروں سے غربت ختم ہو سکی اور نہ ہو سکے گی، یہ اپنے آپ کو کشمیری اور کلاس فیلوز کے ٹیگ سے بھی باہر نکالیں، بزرگ سیاست دانوں کے بجائے حلقوں کے اندر نئے اور متحرک لوگ لے کر آئیں، عمران خان نے 2024کے الیکشن میں ثابت کر دیا ہے اب الیکشن لڑنے کے لیے دس بیس کروڑ روپے نہیں چاہئیں، بیانیہ چاہیے، میاں صاحب دیکھ لیں ان کے امیدوار کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ہار گئے جب کہ عمران خان کے وہ امیدوار لوگ جن کی شکلوں اور انتخابی نشانوں سے بھی واقف نہیں تھے اور جن کے پاس الیکشن بوتھ کے لیے بھی لوگ نہیں تھے وہ جیت گئے چناں چہ میاں صاحب کو اب حلقوں میں تگڑے اور پیسے والے لوگ نہیں چاہئیں۔
انھیں بیانیہ چاہیے اور یہ کارکنوں اور ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہیں ہوگا لہٰذا آپ مہربانی فرما کر کارکردگی کو وفاداری سے تبدیل کر لیں، آپ کو اب اپنے اردگرد منڈلانے والے لوگ بھی نہیں چاہئیں، آپ کو فیلڈ ورکرز اور وزارتوں میں کام کرنے والے لوگ چاہئیں، آپ کے شیر اگر سارا دن آپ کے گھر اور دفتر میں بیٹھے رہیں گے یا آپ کے اردگرد پھرتے رہیں گے تو یہ کام کب کریں گے اور یہ اگر کام نہیں کریں گے تو پھر پارٹی اور ملک کیسے چلے گا؟ آپ مہربانی فرما کر آج سے 70 سال سے اوپر تمام لوگوں کی رٹائرمنٹ کا اعلان بھی کر دیں۔
یہ لوگ ملک اور پارٹی کے لیے بہت بڑی رکاوٹ ہیں، یہ ہٹیں گے تو پارٹی اور ملک چلے گا اور مہربانی فرما کر مخصوص سیٹوں اور سینیٹ میں صرف عام اور پڑھے لوگوں کو لے کر آئیں، آپ نے یہ دونوں فورمز بھی سیاسی خاندانوں اور اپنے دائیں بائیں پھرنے والے سفارشیوں کے لیے وقف کر رکھے ہیں۔
آپ کم از کم یہ فورمز ہی نئے اور اہل لوگوں کو دے دیں، اس سے بھی یہ ملک اور پارٹی چل پڑے گی لیکن اگر آپ نے یہ موقع بھی ضایع کر دیا تو پھر آپ یقین کریں عمران خان اگلے الیکشن میں شریف کا لفظ ڈکشنری سے بھی ختم کر دے گا، یہ الیکشن اور یہ حکومت آپ کے لیے آخری ثابت ہوگی۔